اسلامی تعلیمات میں آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ دنیا سُدھارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کے روشن اُصول بھی موجود ہیں۔ انہیں میں سے ایک واضح اُصول تکریمِ مسلم یعنی مسلمان کی عزت کرنا ہے جس کے لئے بطورِ خاص گالی گلوچ ، بہتان تراشی ، غیبت اور عیب جُوئی وغیرہ سے ممانعت اسلامی شریعت کی ہدایات میں شامل ہیں۔ عیب جُوئی کا مرض ایک وائرس کی طرح معاشرے میں پھیلتا چلا جارہا ہے ، خود کو بُھول کر دوسروں کے عیبوں کی تلاش طبیعت میں شامل ہوتی جارہی ہے جبکہ اللہ پاک  نےدوسروں کی برائیاں تلاش کرنےسے منع فرمایا ہے : وَ لَا تَجَسَّسُوْا  تَرجَمۂ کنزالایمان : اور عیب نہ ڈھونڈو۔(پ26 ،الحجرات: 12)  صدرُ الْافاضِل سیِّد مفتی محمد نعیمُ الدّین مُراد آبادی   رحمۃ اللہ علیہ   اِس آیت کے تحت لکھتے ہیں : یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور اُن کے چُھپے حال کی تلاش میں نہ رہو ، جسے  اللہ نے اپنی سَتّاری سے چُھپایا۔(خزائن العرفان ، ص 950 ملخصاً)

اللہ پاک نے دوسروں کے عیبوں کو تلاش کر نے سے واضح طور پر منع کیا اور آقا علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلام نے بھی کسی کے عیبوں کو اُچھالنے اور لوگوں میں عام کرنے کی مذمّت فرمائی ہے۔روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کہ اپنے کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے اور نہ تو عیب جوئی کرو نہ کسی کی باتیں خفیہ سنو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض کرو نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ اور ایک روایت میں ہے اور نہ نفسانیت کرو ۔ (مسلم، بخاری)

کسی میں برے کام کی تلاش کرنا اور اس میں کوئی برائی ملے تو میں اسے بدنام کرنا دونوں حرام ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ مبارک ہو کہ جسے اپنے عیبوں کی تلاش دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھے۔ (مرقات) یعنی وہ اپنے عیب ڈھونڈنے میں ان سے توبہ کرنے میں ایسا مشغول ہو کہ اسے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے کا وقت ہی نہ ملے۔ ایک اور حدیث پاک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ سب نے عرض کیا اللہ رسول ہی خوب جانیں ،فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا ناپسندیدہ ذکر کرنا، عرض کیا گیا فرمایئے تو اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جو میں کہتا ہوں فرمایا اگر اس میں وہ ہو جو کہتا ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ نہ ہو جو تو کہتا ہے تو تونے اسے بہتان لگایا۔ (مسلم)

اور ایک روایت میں ہے کہ جب تو اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر تو وہ کہے جو اس نے نہ کیا ہو تو تو نے اسے بہتان لگایا۔ اس کی شرح میں ہے : کسی کے خفیہ عیب اس کے پس پشت بیان کرنا عیب خواہ جسمانی ہوں یا نفسانی دنیاوی یا دینی یا اس کی اولاد کے یا بیوی کے یا گھر کے خواہ زبان سے بیان کرو یا قلم سے یا اشارے سے،غرض کسی طرح سے لوگوں کو سمجھادو حتی کہ کسی لنگڑے یا ہکلے کی پس پشت نقل کرنا،لنگڑاکر چلنا یا ہکلاکر بولنا سب کچھ غیبت ہے یہ فرمان بہت وسیع ہے۔(مرقات)

اللہ پاک ہمیں عیب جوئی سے محفوظ فرمائے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی توفیق سعید عطا فرمائے۔ اللہ پاکہمیں سچا پکا عاشق رسول بنائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر عمل کرنے والا بنائے۔ امین


عیب جوئی یہ ایک بری خصلت ہے جو بہت سے لوگوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے۔ دوسروں کے اندر عیب تلاش کرنا یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ عیب جوئی سے مراد کسی کے اندر خامیاں تلاش کرنا ہے چاہے وہ جسمانی ہو یا نفسانی، دینی ہو یا دنیاوی اسے زبان سے بیان کرو یا اشارے سے عیب جوئی ہی کہلاتی ہے۔ قراٰنِ مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1)

حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ پاک اس کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے۔ (رواہ ابن ماجہ)

اس لیے ہمیں اپنی زبانوں کو کسی کے عیبوں کو بیان کر کے آلودہ نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ہر انسان میں عیب ہوتا ہے حتی کہ اس میں آپ بھی شامل ہیں۔ کسی انسان میں اگر کوئی خوبی دیکھو تو اسے بیان کرو، لیکن اگر کسی شخص میں تمھیں خامی مل جائے تو وہاں تمھاری خوبی کا امتحان ہے۔

قراٰنِ مجید میں ایک اور جگہ بھی آیا ہے کہ : ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) یعنی کسی کے عیب تلاش نہ کرو، اس کی ٹوہ میں نہ رہو اور کسی کی جاسوسی نہ کرو۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو دیکھ لے اور پھر اس کی پردہ پوشی کرے تو اس کو اللہ پاک اتنا بڑا ثواب عطا فرمائے گا جیسے کہ زندہ درگور کی ہوئی بچی کو کوئی قبر سے نکال کر اس کی پرورش اور اس کی زندگی کا سامان کردے۔

آج کل ہمارے معاشرے میں لوگ عیب جوئی جیسی گناہ کو گنا ہ ہی نہیں سمجھتے۔ اس لیے ہم کسی کے بھی سامنے اس کی برائی بیان کر دیتے ہیں اور اگر کسی شخص کو دوسروں میں عیب نظر نہیں آتا تو وہ خود سے کوئی عیب بنا کر لوگوں کے درمیان بیان کر رہے ہوتے ہیں ۔اس لیے ہمیں اپنے اندر سے اس خصلت کو ختم کرنے کے لیے دوسروں کے اندر عیبوں کو تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر موجود بری خصلتوں کو ختم کر کے ایک اچھا مؤمن بن سکتے ہیں۔


عیب جوئی سے مراد اپنے مسلمان بھائی کے عیوب کی ٹوہ میں رہنا اور پھر اس کے عیوب کو لوگوں میں پھیلانا عیب جوئی کہلاتا ہے۔

ہم ایک انسانی معاشرے میں رہتے ہیں ۔ اور ہر انسان خطا کا پتلا ہے۔ صرف انبیا گناہوں سے پاک ہیں اس کے علاوہ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے عیوب پر نظر ڈالنے کی بجائے ان کی خوبیوں کی طرف دیکھیں۔ اگر آپ صرف لوگوں میں عیب ہی تلاش کریں گے تو آپ لوگوں میں کبھی بھی عزت نہیں پاسکتے ۔

عام طور پر ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی طرح کے وہ لوگ جو صرف لوگوں کی اچھائیوں کی طرف دیکھتے ہیں اور بڑائیوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں۔ در اصل یہ لوگ لوگوں کی خامیوں کو اچھالتے نہیں بلکہ ان سے اپنی اصلاح کرتے ہیں اور اپنی دنیا اور آخرت سنوارتے ہیں، یہ لوگ اس وجہ سے بہت سی بیماروں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر غیبت ، عیب جوئی، الزام تراشی، بہتان تراشی و غیرہ جیسی مذموم برائیوں سے محفوظ رہ جاتے ہیں۔

جبکہ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو صرف اور صرف لوگوں کی خامیوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں یہ کسی کی غلطی پر مطلع ہوں تو اسے لوگوں میں پھیلائیں۔ اور اگر انہیں کوئی غلطی نہ بھی ملے تو اپنی طرف سے کسی پربہتان لگا کر اسے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ بہت سے برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر غیبت، چغلی، بہتان تراشی، الزام تراشی وغیرہ۔ یہ لوگ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ اور لوگوں کی عزت پر حملہ کرتے ہیں۔ ان دونوں طرح کے لوگوں کی مثال شہد کی مکھی اور عام مکھی کی طرح ہے۔

پہلی قسم کے لوگ جو لوگوں کی اچھائیوں کو دیکھتے ہیں یہ شہد کی مکھی کی طرح ہوتے ہیں۔ جس طرح شہد کی مکھی پھولوں کی خوشبو سونگھتی ہے اور ان کا رس چوستی ہے پھر اس سے شہد تیار کرتی ہے جس میں بہت سی بیماریوں کے لیے شفا ہوتی ہے اسی طرح یہ لوگ بھی اچھائیوں کی طرف دیکھ کر لوگوں میں نفرتیں نہیں پھیلاتے بلکہ محبتوں کو اجاگر کرتے ہیں، دوسرے قسم کے لوگ جو صرف برائیوں کی طرف دیکھتے ہیں ان کی مثال عام مکھی کی طرح جو سارا پاک وصاف بدن چھوڑ کر زخم پریا نجاست پر بیٹھتی ہے جس کا کھانا ناپاک ، پینا نا پاک ۔ بالکل اسی طرح یہ لوگ بھی لوگوں کی اچھائیوں کو چھوڑ کر صرف ان کی برائیوں کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر لوگوں کو بد نام کرنے کے لیے اسے معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں۔ اصل میں ان لوگوں کو چاہیے کہ اگر عیب تلاش کرنے ہی ہیں تو پھر اپنے عیب تلاش کریں۔ اپنے اندر جھانکیں، اپنے اندر ہی اتنے عیوب ملیں گے کہ لوگوں کی طرف دیکھنے کا وقت بھی نہیں ملے گا۔

قراٰن و حدیث میں عیب جوئی کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1) یہ آیت ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جو صحابۂ کرام پر اعتراضات کیا کرتے تھے۔ (صراط الجنان )

احادیثِ مبارکہ میں عیب جوئی کی مذمت :نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ پاک ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا۔ (ترمذی، 3/ 446 ،حدیث: 2039 )

پردہ پوشی کے فضائل : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو کسی کا پوشیدہ عیب دیکھے، پھر اسے چھپالے، تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا کہ جس نے زندہ دفنائی گئی بچی کو قبر سے نکال کر اس کی جان بچالی۔(مسند احمد، 6 /126،حدیث1733)

ایک مقام پر ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ پاک دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔ (مسلم )


حضرت ابن عمر سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر چڑھے پھر بلند آواز سے ندا کی فرمایا اے ان لوگوں کے ٹولو جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو اور ان کے دل تک ایمان نہ پہنچا مسلمانوں کو نہ تو ایذا دو نہ انہیں عار دلاؤ نہ ان کے خفیہ عیوب ڈھونڈھو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب کی تلاش کرے گا تو اللہ اس کے عیب ظاہر کردے گا اگرچہ اس کے گھر میں ہوں اور اسے رسوا کردے گا اگرچہ وہ اپنی منزل میں کرے۔(ترمذی)

شرح حدیث : یہاں منافق سے مراد منافق اعتقادی ہے ممکن ہے کہ منافق عملی یا دونوں مراد ہوں۔مرقات نے فرمایا کہ اس میں یہاں فاسق بھی داخل ہے کیونکہ آگے جس عمل کا ذکر ہے وہ فساق ہی کرتے تھے۔ جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہو وہ کام کرنا حتی کہ راستہ میں کانٹا، پتھر ڈال دینا کہ مسلمانوں کو لگے ان سے سخت کلامی کرنا، مسلمانوں کے وہ گناہ بیان کرنا جن سے وہ توبہ کر چکے ہوں بلکہ ان کی توبہ کا قرآن کریم میں اعلان ہو چکا ہے، مسلمانوں کے خفیہ عیوب کی تلاش میں رہنا بلکہ ان بے عیب صحابہ کرام کو عیب لگانا جن کی بے عیبی پر قرآن مجید گواہ ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کو ستانا منافقوں کا کام ہے ۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے نماز ظہر یا عصر پڑھی اور وہ دونوں تھے روزہ دار پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پوری فرمائی تو فرمایا کہ اپنے وضو اپنی نمازیں لوٹاؤ اور اپنے روزوں میں گزر جاؤ (پورے کر لو)اور دوسرے دن ان کی قضا کرو وہ بولے یا رسولَ اللہ کیوں فرمایا: تم نے فلاں کی غیبت کی۔

شرح حدیث : قرآن کریم نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے "اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا"۔اور ظاہر ہے گوشت کھانے خون پینے سے روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے نمازبھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ گناہ نیکیوں کا کمال دور کر دیتے ہیں جیسے نیکیاں اصل گناہوں کا زوال کر دیتی ہیں، نیز غیبت کی وجہ سے غیبت کرنے والے کی نیکیاں مغتاب کو دے دی جاتی ہیں اس کا روزہ نماز مغتاب کو دے دیا گیا یہ بغیر روزہ نماز رہ گیا لہذا اسے دوبار ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔


عیب جوئی کی تعریف: لوگوں کی خفیہ (چھپی ہوئی) باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا عیب جوئی کہلاتا ہے ۔ (ظاہری گنا ہوں کی معلومات ،ص73)

عیب جوئی کا دنیوی و اخروی انجام: یہ بڑی ہی چھچھوری حرکت اور خراب عادت ہے۔ دنیا میں اس کا انجام بدنامی اور ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں اس کی سزا جہنم کا عذاب ہے ایسا کرنے والوں کے کانوں اور آنکھوں میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ (جنتی زیور ،ص123)

عیب جوئی کی چند مثالیں : کسی سے یہ پوچھنا رات دیر تک جاگتے رہتے ہو فجر بھی پڑھتے ہویا نہیں، آپ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں ؟ نیز آپ کے والد صاحب نمازی ہیں یا نہیں؟ ، تم پوری زکوٰۃ نکالتے ہو یا نہیں ؟ رمضان کے مہینے میں کسی سے پو چھینا : واہ بھئی! آج بڑے فریش یعنی تازہ دم لگ رہے ہو روزہ بھی رکھا ہے یا نہیں؟

عیب جوئی کے متعلق احکام : مسلمان کی عیب جوئی (یعنی اس کے عیب تلاش کرنا) حرام ہے۔ (ظاہری) گناہوں کی معلومات ص: 72) (2) بے دین، مفسدین (فساد کرنے والوں) کے حالات چھپ کر دیکھنا سننا تا کہ ان کے فساد کی روک تھام ہو سکے ، جائز ہے۔ (3) نوکر رکھنے ، شراکت داری (یعنی پارٹنر شپ کرنے ) یا کہیں شادی کا ارادہ ہے تو حسبِ ضرورت معلومات کرنا گناہ نہیں۔ (4) بلا مصلحت شرعی کسی مسلمان کا عیب معلوم کرنا گناہ و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔( نیکی کی دعوت ،ص397) (5) مسلمان کو چاہیے اول تو لوگوں کے عیوب جاننے سے بچے اگر کوئی بتانے لگے تب بھی سننے سے خود کو بچائے ۔ بالفرض کسی طرح کا عیب نظر آ گیا یا معلوم ہو گیا ہو تو اس کو دبا دیجئے۔ بلا مصلحت شرعی ہر گز کسی پر ظاہر نہ کرے۔ (نیکی کی دعوت، ص: 398)

عیب جوئی کے متعلق فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : اے لوگوں کے وہ گروہ !جو اپنی زبان سے ایمان لائے اور دل سے ایمان نہ لائے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور نہ ان کے عیوب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیوب تلاش کرتا ہے اللہ پاک اس کے عیوب ظاہر کرتا ہے اور جس کے عیوب اللہ پاک ظاہر فرماتا ہے ، اسے رُسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔ (ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی الغییبہ، 4/354حدیث:4880)

عیب جوئی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: بغض و کینہ ،حسد،چغل خوری کی عادت ( ایسا شخص ایک دوسرے تک باتیں پہنچانے کیلئے لوگوں کے عیب تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے ) ۔


اسلام کی دی گئی تعلیمات میں آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ دنیا سدھارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کے روشن اصول بھی موجود ہیں۔ انہیں میں سے ایک اصول مسلمان کی عزت کرنا ہے جس کے لئے بطورِ خاص گالی گلوچ ، بہتان تراشی، غیبت اور عیب جوئی وغیرہ سے ممانعت اسلامی شریعت کی ہدایت میں شامل ہیں۔ عیب جوئی کا مرض معاشرے میں وائرس کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ پاک نے عیب جوئی سے متعلق قراٰنِ پاک میں فرمایا : ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) اللہ پاک نے دوسرے کے عیبوں کو تلاش کرنے سے واضح طور پر منع فرمایا ہے: صدر و الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔(خزائن العرفان میں 863)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ کریم ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا۔ ( مرآۃ المناجيح ، مسلم، مسند احمد )مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ الله علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : یہ قانونِ قدرت ہے کسی کو جو بلا وجہ بدنام کرے قدرت اسے بدنام کر دے گی۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غیبت کرنے والوں ، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو الله پاک قیامت کے دن کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔

عیب جوئی کے نقصانات اور بچنے کے طریقے : عیب جوئی اللہ اور اس کے محبوب کو سخت ناپسند ہے عیب جوئی بد اخلاقی کو جنم دیتی ہے اور اس کا علم سلب کر لیا جاتا ہے اور جہالت غالب آجاتی ہے۔ عیب جوئی کے دنیوی اور اخروی نقصان پر غور کیجئے، نیک اور خوفِ خدا رکھنے والے لوگوں کی محبت میں وقت گزاریے۔

اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیبوں کو چھپانے کی توفیق عطا فرمائے اللہ پاک ہمیں عیب جوئی جیسی قبیح عادات سے محفوظ رکھتے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1) ایک اور مقام میں اللہ پاک نے فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ26،الحجرات:12)

حدیثِ پاک حضرت راشد بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میں ایسی عورتوں اور مَردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے، تو میں نے پوچھا: اے جبرئیل! علیہ السّلام ،یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: یہ منہ پر عیب لگانے والے اور پیٹھ پیچھے برائی کر نے والے ہیں اور ان کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1)

آیت مبارکہ ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے۔ ایک عبرت ناک حدیث پاک : حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو ! جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لئے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کے عیب ظاہر فرمادے گا اور جس کے اللہ پاک عیب ظاہر کرے گا۔ اس کو رُسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔(ابو داؤد، 4/354، حدیث:4880)

اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان کی غیبت اور عیب تلاش کرنا منافق کا شعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت اور رسوائی ہیں کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہیں ، یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل اور خوار ہو جائے۔ لہذا ! عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر نہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرمادے جس سے وہ ذلت اور رسوائی سے دوچار ہو جائیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کو بھول جاتا ہے۔ (شعب ایمان) اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے، اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو اپنے مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرے اللہ پاک قِیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب ظاہِر کرے اللہ پاک اُس کا عیب ظاہِر فرمائے گا یہاں تک کہ اُسے اُس کے گھر میں رُسوا کر دے گا۔(ابن ماجہ، 3/219،حدیث:2546 )

عیب ڈھونڈنے کی مثالیں ملاحظہ ہو: (1)آپ کی بیوی شریف تو ہے نا ؟(2) لڑتی تو نہیں (یہی سوالات عورتوں میں شوہر کے بارے میں عیوب کی ٹٹول والے ہیں) (3) لڑاکی تو نہیں ؟ (4) روٹی دیتی ہیں یا نہیں (5) اپنے بیٹے کے کان تو نہیں بھرتی ؟ (6) اُس دن فُلاں کے گھر سے تیز گفتگوکی آواز آ رہی تھی کو ن کون لڑ رہے تھے (7) فُلاں کو تنظیمی ذِمے داری سے ہٹادیا، کیا اس کا کردار کمزور تھا؟ (8) فلاں ڈاکٹر نے صحیح طرح چیک بھی کیا یا مفت میں فیس وصول کرلی؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تجسس نہ کرو اور خبریں معلوم نہ کرو، اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو اور سب اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔ (بخاری شریف)


جنت میں داخل ہونے کا سبب : حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے سرکارِ دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے بھائی کا عیب دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کردے تو وہ جنَّت میں داخِل کردیا جائے گا۔(مسند عبد بن حمید، ص 279 ،حدیث: 1985)

اَوروں کےعیب چھوڑ نظر خوبیوں پہ رکھ

عیبوں کی اپنے بھائی مگر خوب رکھ پرکھ

چھپی ہوئی باتوں کو مت نکالو : فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمانوں چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4/354، حدیث:4880)

اے عاشقان رسول ! کسی مسلمانوں کے عیبوں کی ٹٹول نہیں کرنی چاہیے ۔الله پاک پارہ 26 سورۃُ الحجرات آیت نمبر 12 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔(خزائن العرفان میں 863)

جہنم کے طبقات میں چیخوں کی آواز: جو چیز آخرت کیلئے جس قدر اہم ہوگی شیطان اس قدر اس کے پیچھے لگے گا۔ لہذا مسلمان کو مسلمان کی عیب پوشی سے روکنے کیلئے پورا زور لگا دیتا ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت مسلمانوں کے عیب تلاش اور غیبتوں میں مشغول ہے۔ حضرت عیسٰی روح الله علیہ السّلام فرماتے ہیں: کتنے ہی صحت مند بدن ، خوبصورت چہرے اور میٹھا بولنے والی زبانیں کل جہنم کے طبقات میں چیخ رہے ہوں گے۔ (مکاشفۃ القلوب ،ص152)

عیب تلاش کرنے کا انجام : مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل و خوار ہو جائے ۔ لہذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرمادے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دو چار ہو جائیں۔ (تفسیر صراط الجنان، سورۃُ الحجرات، آیت 12)

کسی کی خامیاں دیکھیں میری آنکھیں

سنیں نہ کان بھی عیبوں کا تذکر یا رب

اپنے عیبوں کو جاننا : حضرت بی بی رابعہ عدویہ رحمتہ اللہ علیہا فرماتی تھیں: بندہ جب اللہ پاک کی محبت کا مزہ چکھ لیتا ہے اللہ پاک اسے خود اس کے اپنے عیبوں پر مطلع فرما دیتا ہے پس اس وجہ سے وہ دوسروں کے عیبوں میں مشغول نہیں ہوتا بلکہ اپنے عیبوں کی اصلاح کی طرف متوجہ رہتا ہے۔(تنبیہ المغترین، ص 197)

الله پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے ، اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

عیب میرے نہ کھول محشر میں

نام ستار ہے تِرا یا رب!


اسلامی تعلیمات میں آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ دنیا سُدھارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کے روشن اُصول بھی موجود ہیں۔ انہیں میں سے ایک واضح اُصول تکریمِ مسلم یعنی مسلمان کی عزت کرنا ہے جس کے لئے بطورِ خاص گالی گلوچ ، بہتان تراشی ، غیبت اور عیب جُوئی وغیرہ سے ممانعت اسلامی شریعت کی ہدایات میں شامل ہیں۔ عیب جُوئی کا مرض ایک وائرس کی طرح معاشرے میں پھیلتا چلا جا رہا ہے ، خود کو بُھول کر دوسروں کے عیبوں کی تلاش طبیعت میں شامل ہوتی جا رہی ہے جبکہ اللہ پاک نے دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے سے منع فرمایا ہے:﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب "تفسیر صراط الجنان "میں آیت کے تحت ہے کہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے ،یہاں اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیث ِپاک ملاحظہ ہو،

چنانچہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4/354، حدیث:4880)

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شِعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے، یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہو گا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل و خوار ہو جائے لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہو جائیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: غیبت کرنے والوں ، چغل خور وں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت کے دن )کتّوں کی شکل میں اٹھائے گا۔( التّوبیخ والتّنبیہ لابی الشیخ الاصبھانی، ص97 ، حدیث:220، الترغیب والترھیب، 3/325 ، حدیث: 10)

مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ (یعنی بگڑ جائیں گی مَثَلاً مختلف جانوروں جیسی ہوجائیں گی۔) (مراٰۃ المناجیح، 6/660)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو تجسس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تجسس کے بارے میں مزید معلومات کیلئے اور درج بالا اسباب کے علاج کے لیے مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ کتاب "باطنی بیمایوں کی معلومات" کا مطالعہ کیجئے ۔ علم دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔


انسان کی کئی صفات قراٰن و حدیث کے اعتبار سے مذموم(ناپسندیدہ)ہوا کرتی ہیں اور کسی مسلمان کی عیب جوئی یعنی مسلمان کا عیب تلاش کرنا بھی ایک مذموم صفت ہے جس کے بارے میں قراٰن و حدیث میں اس کی مذمت وارد ہوئی نیز عیب جوئی کی عادت انسان کو بدگمانی اور غیبت و نفرت جیسے گندے گناہوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ قراٰنِ مجید میں فرمایا گیا: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)

اسی طرح کئی احادیث میں کسی مسلمان کی عیب جوئی پر وعید ارشاد فرمائی گئیں ہیں جیسا کہ کنز العمال کی روایت ہے کہ چھ چیزیں اعمال برباد کر دیتی ہیں مخلوق کی عیب جوئی، سنگدلی، دنیا کی محبت، حیا کی کمی، لمبی امیدیں اور ناختم ہونے والا ظلم ۔ (کنزالعمال، 44023)

مشکوٰۃ شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے خفیہ عیوب نہ ڈھونڈو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب تلاش کرے گا تو اللہ اس کے عیب ظاہر کردے گا اگرچہ اس کے گھر میں ہوں اور اسے رسوا کردے گا اگرچہ وہ اپنی منزل میں کرے ۔(مشکوٰۃ باب ماینھی عنہ، حدیث : 4817)

حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک علیہ السّلام فرماتے ہیں: بدترین سود مسلمان کی آبرو میں ناحق دست درازی کرنا ہے ۔(ایضاً حدیث : 4818)

حضرت جبریل علیہ السّلام نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر ہماری زمین پر عبادت ہوتی تو ہم تین خصلتوں کو اپناتے، مسلمانوں کو پانی پلانا، صاحب اولاد کی مدد کرنا اور مسلمانوں پر گناہوں کو چھپانا ۔

اسی طرح ہمارے بزرگوں کا طریقہ بھی دیکھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات میں گشت فرما رہے تھے کہ آپ کی نظر دروازے کے درمیان سے ایک چراغ پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ چھپ کر شراب پی رہے ہیں تو آپ نے کچھ نہ کیا اور مسجد میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انکو اس دروازے کے پاس بلا کر لائے اور انکو بھی دکھایا اور پوچھا کہ آپکی کیا رائے ہے ہمیں کیا کرنا چاہیے تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے عرض کی: اللہ کی قسم ہم اللہ پاک کی منع کردہ جگہ پر آئے ہیں کہ ہم ان لوگوں کی اس بات پر مطلع ہوئے جس سے وہ ہمیں چھپا رہے تھے اور اللہ کے چھپائے ہوئے کو ظاہر کرنا ہمارے لئے درست نہیں تو حضرت عمر فاروق اعظم نے فرمایا کہ تحقیق آپ نے سچ فرمایا اور یہ دونوں صحابہ واپس لوٹ آئے ۔

اس حدیث پاک ے بعد علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک بندے کی جس بات کو اللہ پاک نے چھپایا ہے تو بندے پر بھی لازم ہے کہ اس کی اس بات کو چھپائے رکھے۔ (تفسیر روح البیان، 9/ 104 تحت الآیۃ 12 سورہ حجرات)

اور نبی پاک علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرے اللہ پاک قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب ظاہر کرے اللہ پاک اس کا عیب ظاہر فرمائے گا یہاں تک کہ اسے اس کے گھر میں رسوا کردے گا ۔(ابن ماجہ،جلد 3، حدیث: 2546)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو مسلمان کی تکلیف دور کرے گا اللہ پاک قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی تکلیف دور فرمائے گا اور جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے تو خدائے ستار قیامت کی دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا۔(مسلم، حدیث: 6580)

اور نبی آخر الزماں کا فرمان خوشبودار ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کا عیب دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کردے تو وہ جنَّت میں داخِل کردیا جائے گا۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عیب جوئی کرنا بہت قبیح صفت ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے اور اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔


پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے ایک مسلمان کو کلمہ کی توفیق دے کر اس کے سر پر اسلام کا تاج سجایا اور اسے بڑی عزتوں سے نوازا ہے لیکن ہم اس سے بےخبر ہوکر ہر وقت مسلمانوں کی عزت کو پامال کرنے میں کوشاں ہیں مسلمانوں کو تکلیف دینے کا ایک بڑا سبب عیب جوئی یعنی ان کے عیب دیکھ کر لوگوں کے سامنے ذکر کرنا ہے ہمیں رب کریم نے اس گندے فعل کو بجا لانے سے منع فرمایا ہے ہمیں چاہیے اس سے گریز کریں۔ اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں ارشاد فرمایا : ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کی پوشیدہ حال کی جستجو نہ میں رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستّاری سے چھپایا ہوا ہے ۔ ( تفسیر صراط الجنان )

پیارے محترم اسلامی بھائیو! عیب جوئی کی مذمّت پر کئی احادیث مبارکہ ہیں ان میں سے 5 احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں اور عبرت حاصل کیجیے :

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا اللہ پاک اس کے عیب ظاہر فرمادے گا اور جس کے اللہ پاک عیب ظاہر کرے گا اس کو رسوا کر دیگا اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو ۔( ابوداؤد، 4/ 354،حدیث:4880 )

عیب جوئی کرنے والا جہنم میں ذلیل ہوگا : حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے بارے میں کوئی بات پھیلائے تاکہ اس کے سبب اسے ناحق عیب لگائے تو قیامت کے دن اللہ پاک اسے نار (جہنم) میں عیب دار کر دیگا ۔( موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا کتاب الصمت، 7/129،حدیث:258)

لوگوں پے عیب لگانے والا کتے کی شکل میں: آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غیبت کرنے والوں ، چغل خور وں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت کے دن )کتّوں کی شکل میں اٹھائے گا ۔ ( الترغیب والترھیب، 3/325 ، حدیث:10 )

لوگوں کو ایذا نہ دو: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں کو ایذا نہ دو اور ان کے وہ عیوب بیان نہ کرو جن سے وہ شرمندہ ہوں لوگوں کے عیب نہ ڈھونڈو کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کا عیب ظاہر کرکے اس کو اس کے گھر میں رسوا کردیگا ۔( مسند امام احمد، 5/275 )

ان احادیث سے پتا چلا کہ جو دوسروں کے عیب تلاش کرتا ہے اس کے اندر بھی ضرور عیب پایا جاتا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنے عیبوں پے توجہ دیں ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان کے اپنے جسم پر سانپ بچھو مختلف زہریلے جانور بیٹھیں ہیں اور دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر ہے یعنی اپنے بڑے بڑے عیبوں کو چھوڑ کر دوسروں کے چھوٹے چھوٹے عیبوں کی فکر میں لگا پڑا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنے عیبوں کو ملاحظہ فرما کر اس کی اصلاح کریں کیوں کہ جو دوسروں کے عیب تلاش کرنے لگ جاتا ہے وہ اپنی اصلاح نہیں کر پاتا اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! انسان کی ذات اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہے اس کی بعض برائیاں و خامیاں دوسروں کو معلوم ہوتی ہیں اور کچھ چھپی رہتی ہیں ، مگر چند لوگوں کی طبیعت مکھی کی طرح ہوتی ہے جو سارا جسم چھوڑ کر زخم پر بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ چنانچہ یہ لوگ دوسروں کی چھپی ہوئی برائیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ دنیا سدھارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کے روشن اصول بھی ہیں ، انہیں میں سے ایک واضح اصول مسلمان کی عزّت کرنا ہے جس کے لئے بطورِ خاص چغلی ، بہتان تراشی ، غیبت ، عیب جوئی وغیرہ سے ممانعت اسلامی شریعت کی ہدایات میں شامل ہیں ، خود کو بھول کر دوسروں کے عیبوں کی تلاش طبیعت میں شامل ہوتی چلی جا رہی ہے ۔

عیب جوئی کی تعریف: لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا عیب جوئی کہلاتا ہے۔( باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص 318)

عیب جوئی کا حکم: مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے۔

چنانچہ اللہ پاک نے دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے سے منع فرمایا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) اس آیتِ مبارکہ کے تحت صدر الافاضل مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ: مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور اُن کے چُھپے حال کی تلاش میں نہ رہو ، جسے اللہ پاک نے اپنی ستّاری سے چُھپایا۔(تفسیر خزائن العرفان، پارہ 26 ، الحجرات: 12) اللہ پاک نے واضح طور پر منع فرما دیا ہے۔ اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اللہ پاک کے آخری نبی محمّد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عیب جوئی کی مذمّت فرمائی ہے ۔عیب جوئی کی مذمّت پر چند احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں:

(1) اللہ پاک کے آخری نبی محمّد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ پاک ظاہر کر دے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا۔ (ترمذی ، 3/ 416، حدیث : 2039) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں کہ: یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو کسی کو بِلا وجہ بدنام کرے گا قدرت اسے بدنام کر دے گی۔ (مرآة المناجیح ، 6/ 618)

(2) اللہ پاک کے آخری نبی محمّد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لئے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔( سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4 / 354، حدیث: 4880)

(3) حضرتِ براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے یہ قول مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا یہاں تک کہ آپ نے پردے دار کنواری عورتوں کو بھی سنایا ، آپ اپنی بلند آواز کے ساتھ فرمانے لگے: اے گروہ جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو ،اور ایمان کو اپنے دل میں راسخ نہیں کیا ، تم مسلمانوں کی غیبت نہ کرو ، اور نہ تم ان کی شرم والی چیزوں کا پیچھا کرو ، کیونکہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کے خفیہ امور کی جستجو کرے گا اللہ پاک اس کے خفیہ امور کی جستجو کرے گا اور جس کے خفیہ امور کی جستجو اللہ پاک کرے گا وہ اسے اپنے گھر میں ہی ذلیل و رسوا کرے گا۔ ( شعب الایمان، باب فی الستر علی اصحاب القرون، 7/ 108، حدیث: 9660، دار الکتب العلمیہ بیروت)

(4) اللہ پاک کے آخری نبی محمّد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کو اس کی خفیہ شے کے بارے میں برائی سے مشہور کر دیا کہ وہ بغیر حق کے اس کے عیب بیان کرنے لگے تو اللہ پاک قیامت کے دن مخلوق میں اس کے عیب بیان کر دے گا۔( شعب الایمان ، باب فی الستر علی اصحاب القرون ، 7/ 107 ، حدیث: 9658 )

(5) اللہ پاک کے آخری نبی محمّد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: منہ پر برا بھلا کہنے والوں ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک کتّوں کی شکل میں جمع فرمائے گا۔ ( الجامع لابن وہب ، باب العزلہ، ص 534، حدیث: 428)

اللہ پاک ہمیں عیب جوئی اور اس جیسی دیگر قبیح برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم