حضرت ابن عمر سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر چڑھے پھر بلند آواز سے ندا کی فرمایا اے ان لوگوں کے ٹولو جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو اور ان کے دل تک ایمان نہ پہنچا مسلمانوں کو نہ تو ایذا دو نہ انہیں عار دلاؤ نہ ان کے خفیہ عیوب ڈھونڈھو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب کی تلاش کرے گا تو اللہ اس کے عیب ظاہر کردے گا اگرچہ اس کے گھر میں ہوں اور اسے رسوا کردے گا اگرچہ وہ اپنی منزل میں کرے۔(ترمذی)

شرح حدیث : یہاں منافق سے مراد منافق اعتقادی ہے ممکن ہے کہ منافق عملی یا دونوں مراد ہوں۔مرقات نے فرمایا کہ اس میں یہاں فاسق بھی داخل ہے کیونکہ آگے جس عمل کا ذکر ہے وہ فساق ہی کرتے تھے۔ جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہو وہ کام کرنا حتی کہ راستہ میں کانٹا، پتھر ڈال دینا کہ مسلمانوں کو لگے ان سے سخت کلامی کرنا، مسلمانوں کے وہ گناہ بیان کرنا جن سے وہ توبہ کر چکے ہوں بلکہ ان کی توبہ کا قرآن کریم میں اعلان ہو چکا ہے، مسلمانوں کے خفیہ عیوب کی تلاش میں رہنا بلکہ ان بے عیب صحابہ کرام کو عیب لگانا جن کی بے عیبی پر قرآن مجید گواہ ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کو ستانا منافقوں کا کام ہے ۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے نماز ظہر یا عصر پڑھی اور وہ دونوں تھے روزہ دار پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پوری فرمائی تو فرمایا کہ اپنے وضو اپنی نمازیں لوٹاؤ اور اپنے روزوں میں گزر جاؤ (پورے کر لو)اور دوسرے دن ان کی قضا کرو وہ بولے یا رسولَ اللہ کیوں فرمایا: تم نے فلاں کی غیبت کی۔

شرح حدیث : قرآن کریم نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے "اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا"۔اور ظاہر ہے گوشت کھانے خون پینے سے روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے نمازبھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ گناہ نیکیوں کا کمال دور کر دیتے ہیں جیسے نیکیاں اصل گناہوں کا زوال کر دیتی ہیں، نیز غیبت کی وجہ سے غیبت کرنے والے کی نیکیاں مغتاب کو دے دی جاتی ہیں اس کا روزہ نماز مغتاب کو دے دیا گیا یہ بغیر روزہ نماز رہ گیا لہذا اسے دوبار ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔