حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، شہنشاہِ کونین ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام فاطمہ اور لقب زہرا اور بتول ہے، آپ اعلان نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔

آپ ﷺ کو اپنی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت تھی جس کا اظہار آپ ﷺ وقتا فوقتا فرماتے رہتے تھے، آپ رضی اللہ عنہا جب بھی اپنے والد محترم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہوجاتےتھے پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے،اسے بوسہ دیتے پھر انکو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں، نبی اکرم ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات فرماتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792) یعنی آپ ﷺ کے شوق و محبت کا تقاضا یہ ہوتا کہ جب کچھ د ن سفر کی وجہ سے دور رہتے تو انکی خواہش ہوتی سب سے پہلے اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جسم مبارک سے جنت کی خوشبو آتی تھی جسے آپ ﷺ سونگھا کرتے تھے۔ (مراۃ المناجیح، 8 /458)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: فاطمہ تمام اہل جنت یا مؤمنین کی عورتوں کی سردار ہیں مزید فرمایا: فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: تمہارے غضب سے غضبِ الہی ہوتا ہے اور تمہارے رضا سے رضائے الہی۔ (شان خاتون جنت، ص 23)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اکرم ﷺ نے اپنی شہزادی خاتون جنت کو بلا کر انکے کان میں کوئی بات فرمائی وہ بات سن کے خاتون جنت رونے لگیں،آقا ﷺ نے پھر سرگوشی کی تو خاتون جنت ہنسنے لگیں۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے خاتون جنت سے کہا آپ کے بابا جان نے آپ کے کان میں کیا فرمایا جو آپ روئیں اور دوبارہ سر گوشی میں کیا فرمایا جو آپ ہنسیں؟ خاتون جنت نے کہا: میرے بابا جان نے پہلی سرگوشی میں اپنی وفات ظاہری کی خبر دی تو رونے لگی اور دوسری بار سرگوشی میں یہ خبر دی کہ آپ کے اہل میں سے سب سے پہلے میں آپ سے ملوں گی، تو میں ہنسنے لگی۔ (شان خاتون جنت، ص 32)

یہ آپ رضی اللہ عنہا سے محبت کا خوبصورت انداز تھا کہ سب سے پہلے اپنی وفات ظاہری کی خبر اپنی شہزادی کو دی اور سب سے پہلے ملنے کی بھی۔

ایک بار زمانہ قحط میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بوٹی اور دو روٹیاں ایثار کرتے ہوئے اپنے والد محترم کی بار گاہ میں بھیج دی آپ ﷺ اس تحفہ کے ساتھ حضرت فاطمہ کے پاس آئے اور فرمایا: اے میری بیٹی ! ادھر آؤ حضرت فاطمہ نے جب اس برتن کو کھولا جس میں کھانا بھیجا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ وہ روٹیوں اور بوٹیوں سے بھرا ہوا تھا آپ رضی اللہ نے جان لیا کہ یہ کھانا اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: یہ سب تمہارے لیے کہاں سے آیا تو آپ نے عرض کیا وہ اللہ کے پاس سے ہے۔ بےشک اللہ جسے چاہے بےگنتی دے۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی حضرات حسن وحسین اور دوسرے اہل بیت کو جمع فرما کر سب کے ساتھ کھانا تناول فرمایا اور سب سیر ہوگئے پھر بھی کھانا اسی قدر باقی تھا۔ (شان خاتون جنت، ص 66)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تو اپنے والد کی بھوک کا احساس کرتے ہوئے ان کو کھانا بھیجا لیکن یہ آپ ﷺ کی محبت ہی تھی کہ وہ جنتی کھانے کے ساتھ واپس آئے اور اپنی لاڈلی بیٹی اور اہل بیت کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔

الغرض ہمارے پیارے آقا ﷺ کو اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ اور دیگر شہزادیوں سے بے پناہ محبت تھی آپ خاص طور پر انکی تعلیم وتربیت اور خوش رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے نہ صرف بچپن میں بلکہ جب شیزادیاں شادی شدہ ہو گئیں تب بھی ان سے محبت فرماتے اور انکی خبر گیری کرتے تھے۔

اللہ پاک ہمیں بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش آنے کی توفیق دے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ