اللہ کریم لاریب کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجمۂ کنز الایمان: بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔

ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہم نے آپ کو اپنی امت کے اَعمال اور اَحوال کا مشاہدہ فرمانے والا بنا کر بھیجا تاکہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں ، نافرمانوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کربھیجا ہے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۱۴۶)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی قول و فعل کے اعتبار سے ہر طرح تربیت فرمائی اور ایسی طرح نیک اعمال کرنے والوں کو بشارت دیتے ہوئے تربیت فرمائی

(1) کوئی کام سپرد کرتے وقت بشارت کا حکم دینا : عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي بَعْضِ أَمْرِهِ قَالَ بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا ترجمہ: حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے کسی کو کسی کام کے لئے بھیجتے تو آپ ﷺ فرماتے کہ لوگوں کو بشارت سناؤ اور متنفر نہ کرو اور لوگوں سے آسانی والا معاملہ کرو اور تنگی والا معاملہ نہ کرو۔ (صحیح مسلم ، جہاد کا بیان، باب: آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں صفحہ:141 ، جلد: 5 ، حدیث نمبر : 1732 ، طبع ترکیہ )

(2) اندھیرے میں مسجد میں آنے پر بشارت: عَنْ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏مَرْفُوعٌ هُوَ صَحِيحٌ مُسْنَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَوْقُوفٌ إِلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُسْنَدْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ترجمہ: بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور (بھرپور اجالے) کی بشارت دے دو ۔ (جامع ترمذی، کتاب: نماز کا بیان، باب: عشاء اور فجر کی نماز با جماعت پڑھنے کی فضلیت، صفحہ:276، جلد:1 ، حدیث نمبر: 221، طبع الرسالہ )

(3) اچھے طریقے سے عبادت پر بشارت دینا: عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - ا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أُنَاسٌ مِنْ أَہْلِ الْبَدْوِ فَقَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ قَدِمَ عَلَیْنَا أُنَاسٌ مِنْ قَرَابَاتِنَا فَزَعَمُوا أَنَّہُ لاَ یَنْفَعُ عَمَلٌ دُونَ الْہِجْرَۃِ وَالْجِہَادِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ- (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَأَحْسِنُوا عِبَادَۃَ اللَّہِ وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ ۔ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دیہات میں سے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے پاس ہمارے کچھ قریبی لوگ آئے اور انھوں نے آ کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہجرت اور جہاد کے بغیر کوئی عمل فائدہ مند نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاں کہیں بھی رہو، تم اللہ کی عبادت اچھے طریقے سے کرو اور اس پر جنت کی بشارت بھی حاصل کرلو۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب: سیر کا بیان، باب: مشرکین کی بستی میں اس آدمی کو ٹھہرنے کی اجازت جس پر فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو، صفحہ :29، جلد:9، حدیث نمبر:17775، طبع العلمیہ )

(4) اللہ کی رحمت کے بارے میں بشارت دینا: عن عائشة أَنَّهَا کَانَتْ تَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا فَإِنَّهُ لَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ أَحَدًا عَمَلُهُ قَالُوا وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَی اللَّهِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ ترجمہ:

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سیدھی راہ پر گامزن رہو اور میانہ روی اختیار کرو اور خوشخبری دو کیونکہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہ کرائیں گے، صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا اور مجھے بھی نہیں سوائے اس کے کہ اللہ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے گا اور جان لو اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ کم ہو (صحيح مسلم، کتاب: منافقین کی صفات اور ان کے احکام کا بیان، باب: کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں، صفحہ:141، جلد:8، حدیث نمبر: 2818، طبع ترکیہ )

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا فرمائے اور ان کی تربیت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔


اللہ ربُّ العزت نے اپنے حبیبِ مکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دوجہاں کا مالک و مختار بنایا۔ اور نبیِّ کریم علیہ السّلام نے اپنے اس ‏اختیار کو اپنی آل و اصحاب اور امتیوں پر شفقت کرتے ہوئے استعمال فرمایا چنانچہ ہمیں کتبِ احادیث میں متعدد مقامات پر ‏‏”اَبشِر/اَبشِرُوا“ وغیرہ جیسے الفاظ نظر آتے ہیں جن کے ذریعے حضور علیہ السّلام نے اپنے امتیوں کو خوشخبریاں سنائی ہیں، ‏چنانچہ ذیل میں ایسی ہی چند احادیث نقل کی گئی ہیں آپ بھی پڑھئے:‏

‏(1)جنت میں داخلہ اللہ پاک کا فضل ہے : نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَاَبْشِرُوا فَاِنَّهُ لا يُدْخِلُ اَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ یعنی سیدھے راستے پر چلو، ‏قربِ الٰہی حاصل کرو اور خوشخبری لو کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے عمل کے سبب جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(بخاری، 4/238، ‏حدیث: 6467)‏

‏(2)دو نوروں کی بشارت‏: حضرت سیدنا جبرائیل علیہ السّلام سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آسمان کے ایک ‏‏خاص دروازے سے ایک خاص فرشتہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اَبْشِرْ بِنُورَيْنِ اُوتِيتَهُمَا ‏لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا اِلَّا اُعْطِيتَهُ یعنی یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ ‏وسلَّم! آپ کو دو نوروں کی خوشخبری ہو، آپ سے پہلے کسی نبی علیہ السّلام کو یہ دو ‏نور عطا نہیں کئے گئے، ان میں سے ایک نور سورۂ ‏فاتحہ ہے اور دوسرا سورۂ بقرہ کی آخری آیات ہیں، جو شخص ‏ان (سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات) کی تلاوت کرے، اسے ‏ہر ہر حرف پر خصوصی ثواب عطا کیا جائے گا۔(مسلم، ص314، حدیث: 806) ‏

‏(3)فقرا، مالداروں سے بہتر ہیں: اللہ پاک کے آخری نبی رسولِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اصحابِ صفہ کے پاس تشریف لائے (ان میں سے ایک جماعت فقرا ‏مہاجرین میں سے تھی) اور فرمایا: اَبْشِرُوا يَا مَعْشَرَ صَعَالِيكِ الْمُهَاجِرِينَ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ ‏اَغْنِيَاءِ النَّاسِ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَذَاكَ خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ یعنی اے فقرا مہاجرین کی جماعت! تمہیں قیامت کے دن کے مکمل نور کی ‏خوشخبری ہوکہ تم جنت میں مالداروں سے آدھا دن ‏پہلے جاؤ گےاور یہ آدھا دن پانچ سو سال کی مدت ہے۔(ابو داؤد،3/452، ‏حدیث: 3666)‏

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ رب ذوالجلال ہمیں بھی ان بشارتوں کا مستحق بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم