فخر ایوب (درجہ ثالثہ جامعہ ضیاء العلوم شمسیہ
رضویہ سلانوالی ضلع سرگودھا)
دنیا کا مطلب
ہے قریب کی چیز، دنیا کا متضاد آخرت ہے اور آخرت کا مطلب ہے بعد میں آنے والی چیز
، آخرت کا مقصد دنیاوی اعمال کی جزا اور سزا ہے دنیا کی زندگی عارضی ہے جبکہ
آخرت کی زندگی دائمی ہے لیکن دنیا کی حرص رکھنے والوں نے دنیا کی عارضی زندگی کو
دائمی سمجھ لیا ہے وہ آخرت کی ابدی زندگی کو بھول گئے ہیں عارضی چیز کے حصول کے لیے
دائمی چیز کے حصول کو ترک کر دینا کتنی بڑی نادانی ہے ۔
اللہ پاک نے
قراٰنِ مجید کی متعدد آیات میں دنیا کی حقیقت کو مثالوں سے واضح فرمایا ہے۔ 3 آیات
ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:
(1)
دنیا کی مثال سوکھی گھاس کی طرح ہے: ﴿ وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ
الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى
كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵)﴾ترجَمۂ کنزالایمان:اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا
تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں
اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ (پ15، الکہف: 45)
اس آیت میں
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فرما رہا ہے کہ
اے حبیب (علیہ السّلام ) لوگوں کے سامنے دنیا کی حقیقت کو بیان کر دیں اور اس کے
سمجھانے کے لیے اس مثال کو سہارا بنائیں کہ جس طرح سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا
ہو جاتا ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات
کی ہے اس پر مغرور اور شیدا ہونا عقلمند کا کام نہیں اور یہ سب فنا اور بقا اللہ
کی قدرت سے ہے۔ (دیکھیے: روح البیان، 5/249، 250، الکہف، تحت الآیۃ:45)
(2)دنیا
کی تر و تازگی کا ہلاک ہونے والے سبزے کی مثل ہونا: ﴿ اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ
وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ
غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ
یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَفِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ
اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ
الْغُرُوْرِ(۲۰)﴾
ترجَمۂ کنزالعرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اور زینت اور آپس میں
فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے۔(دنیا کی
زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا
اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے
ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ
کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان
ہے۔ (پ27، الحدید: 20)
اللہ پاک نے
دُنْیَوی زندگی کی ایک مثال ارشاد فرمائی کہ دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ بارش
جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگتا ہے ، پھر وہ سبزہ کسی زمینی یا آسمانی
آفت کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے تو تم اس کی سبزی(سبز رنگ) جاتے رہنے کے بعد اسے زرد
دیکھتے ہو ،پھر وہ پامال کیا ہوا بے کارہوجاتا ہے۔یہی حال دنیا کی اس زندگی کا ہے
جس پر دنیا کا طلبگار بہت خوش ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی امیدیں رکھتا ہے لیکن
وہ انتہائی جلد گزر جاتی ہے ۔ (صراط الجنان، 9/741)
(3)دنیا
کی زندگی امیدوں کے سبز باغ کی مثل: ﴿ اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا
كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا
یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا
وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ
اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ
بِالْاَمْسِؕكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴)﴾ترجَمۂ کنزالایمان: دنیا کی
زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب
زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی (زیادہ) ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین
نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس
میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی گویا
کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔(پ11،
یونس:24)
اس آیت میں
بہترین مثال دے کر دل میں یہ بات بٹھائی گئی کہ دنیاوی زندگی امیدوں کا سبز باغ ہے
اس میں عمر کھو کر جب آدمی اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کو مراد حاصل ہونے کا
اطمینان ہو اور وہ کامیابی کی نشے میں مست ہو جاتا ہے تو اچانک اس کو موت آ
پہنچتی ہے اور وہ تمام لذتوں اور نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
آخرت کو
فراموش کر کے دنیا کے دھوکے میں آنے والوں کے لیے شدید عذاب کی وعید سنائی گئی ہے
جبکہ دنیا کو فراموش کر کے آخرت کی فکر کرنے والوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی
بخشش کی خوشخبری دی گئی ہے۔
اللہ پاک ہمیں
دنیا سے بے رغبتی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن