محمد فیضان علی عطاری ( درجہ
خامسہ ماڈل جامعۃ المدینہ نيو سول لائن فیصل آباد ، پاکستان)

پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنے بندوں کو مال عطا کرتا ہے ، کسی کو کم
اور کسی کو زیادہ ، پھر انھیں مال خرچ کرنے کا حکم دیتاہے ، انفاق فی سبیل اللہ کی
ترغیب دلاتا ہے اور بخل اور کنجوسی سے منع کرتاہے۔آئیے چند ایک قرآنی مثالیں انفاق
فی سبیل اللہ سے متعلق ملاحظہ کرتے ہیں۔
(1)
الله کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال : مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ
حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ
حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ
کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس
سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)
تفسیر
: راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی
فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں
ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا
ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے
، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے اخلاص کے اعتبار
سے سات سو گنا زیادہ ثواب
عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں
اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے۔( تفسیرصراط
الجنان ،پارہ : 3 ، سورۃ البقرة ، آیت نمبر : 261 )
(2)
اپنے صدقے برباد نہ کرو
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ
مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ
الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ
فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ
لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶۴)
ترجمہ
کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ
کر دو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اللہ
اور قیامت پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر
مٹی ہے تواس پر زوردار بارش پڑی جس نے اسے صاف پتھر کر چھوڑا، ایسے لوگ اپنے کمائے
ہوئے اعمال سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
تفسیر:
ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان
والو! جس پرخرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب
برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کیلئے اور اپنی واہ واہ
کروانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہوجاتا ہے اسی طرح فقیر پر
احسان جتلانے والے اور اسے تکلیف دینے والے کا ثواب بھی ضائع ہوجاتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے ایک چکنا پتھر ہو
جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو، اگراس پر زوردار بارش ہوجائے تو پتھر بالکل صاف ہوجاتا ہے
اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے
والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روزِ قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیونکہ
وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے یا یوں کہہ لیں کہ منافق کا دل گویا پتھر کی چٹان
ہے، اس کی عبادات خصوصاً صدقات اور ریا کی خیراتیں گویا وہ گردو غبار ہیں جو چٹان
پر پڑ گئیں ، جن میں بیج کی کاشت نہیں ہو سکتی، رب تعالیٰ کا ان سب کو رد فرما دینا
گویا وہ پانی ہے جو سب مٹی بہا کر لے گیا اور پتھر کو ویسا ہی کر گیا۔ اس سے معلوم
ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کردینا چاہیے
کہ کسی کو خبر نہ ہو۔لہٰذا اگر کسی سفید پوش یا معزز آدمی یا عالم یا شیخ کو کچھ
دیا جائے تو چھپا کر دینا چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو علم دین سکھایا
ہوتو اس کی جزا کی بھی بندے سے امید نہ رکھے اور نہ اسے طعنے دے کیونکہ یہ بھی علمی
صدقہ ہے ۔ (تفسیرصراط الجنان ،پارہ : 3 , سورۃ البقرة، آیت نمبر:264)
(3)
جو لوگ الله کی رضا کے لیے مال خرچ کرتے ہیں : وَ مَثَلُ
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ
تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ
فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ
اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے
مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے
ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو
وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے
اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)
تفسیر
: اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان
کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے
اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حال میں
خوب پھلتا ہے خواہ بارش
کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو
بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے۔( تفسیرصراط
الجنان ،پارہ : 3 , سورۃ البقرة، آیت نمبر : 265)
الله کی راہ میں
خرچ کرنے کے فضائل پر مشتمل ایک حدیث مبارکہ پیش کرتا ہوں تاکہ خوش دلی سے صدقہ دینے
کی مزید ترغیب ملے اور صدقہ دینے میں آسانی ہو۔
(1)حضرت رافع
بن خدیج رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: صدقہ برائی کے ستر دروازوں کو بند کردیتاہے۔( مجمع الزوائد، کتاب
الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، 3 / 283، الحدیث: 4604)

انفاق فی سبیل
اللہ کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس میں زکوٰۃ صدقہ خیرات وغیرہ سب شامل
ہیں قرآن وسنت میں انفاق کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے انفاق کرنے والوں کو
اجر عظیم کی بشارت دی ہے ۔ انفاق ایک بہت بڑا عمل ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت میں
کامیابی حاصل کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے انفاق کرنے والوں کی مثالیں قرآن مجید میں
بیان فرمائی ہیں آئیے پڑھئے:
مثال
نمبر 1: راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت :مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ
حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ
حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ
کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس
سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)
تفسیر:
راہِ خدا میں
خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے
کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی
میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ
حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے
اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں
بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے
اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے چنانچہ کئی جگہ پر اس سے بھی زیادہ نیکیوں کی
بشارت ہے جیسے پیدل حج کرنے پر بعض روایتوں کی رو سے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں
ملتی ہیں۔(مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما،
طاوس عن ابن عباس، ۱۱ / ۵۲، الحدیث: ۴۷۴۵)
مثال
نمبر 2: اس باغ کی طرح ہے جو ہرحال میں پھلتاہے: وَ مَثَلُ
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ
تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ
بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ
یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے
اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے
جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر
زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا
ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)
تفسیر:
اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان
کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے
اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حا ل میں
خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ
اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی
ہے نہ کہ فقط مال کی مقدار ،جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا’’
اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمارے دلوں اور
تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم
المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))

قرآن کریم میں
سمجھانے کے مختلف اسلوب بیان کیے گئے ہیں تاکہ ہر ایک کو آسانی سے سمجھ آ جائے اور
وہ کامیابی کی راہ کی جانب بڑھ سکے ۔ انہی بے شمار طریقوں میں سے ایک طریقہ کار بات کو مثالوں کے
ساتھ سمجھانے کا ہے ۔ قرآن مجید میں بارہا مختلف قسم کی مثالیں بیان کی گئ ہیں
تاکہ لوگوں کو آسانی ہو وہ ان مثالوں سے اپنے قلوب کو وسعت والا بنائیں اور فوائد حاصل کریں۔ دیگر مثالوں میں سے کچھ مثالیں
راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کی بھی بیان کی گئی ہے آئیے قرآن کریم میں انفاق فی سبیل
اللہ کی جو مثالیں بیان کی گئی ہیں ان کے متعلق جانتے ہیں :
(1) اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنا اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں،چنانچہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے :
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ
سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ
لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں
خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے
لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)
راہِ خدا میں
خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے
کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی
میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ
حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے
اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں
بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں۔
(2) اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنا اونچے باغ کی طرح ، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد
فرماتا ہے:
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ
ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ
جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ
اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے
اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے
جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر
زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا
ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)
اس آیت میں
ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو
استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین
کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن
کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ
کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں بھی اللہ تعالی کی راہ میں مال خرچ کرنا چاہیے، اللہ تعالی قرآن کریم
میں ارشاد فرماتا ہے: اس کا مفہوم یہ ہے کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے، اس کا
مطلب یہ ہے کہ کون ہے جو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرے ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ
کی راہ میں خرچ کریں اس سے بےشمار
فوائد حاصل ہوں گے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
احمدحسن صدیق (درجہ سابعہ جامعۃُ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

راہ ِ خدا میں
اِخلاص کے ساتھ خرچ کرنا بہت محبوب عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِسے خدا کو قرض دینے
سے تعبیر فرمایا جیساکہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: مَنْ
ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ
كَرِیْمٌۚترجمۂ کنزالایمان: کون ہے جو اللہ کو
قرض دے اچھا قرض تو وہ اس کے لیے دونے کرے اور اس کو عزت کا ثواب ہے۔(الحدید: 11)
یہ
اللہ تعالیٰ کا کمال درجے کا لطف و کرم ہے، کیونکہ مخلوق کی جان و مال سب کا خالق
و مالک خدا ہے اور بندہ اُس کی عطا سے صرف مجازی مالک ہے، مگر اس کے باوجود فرمایا کہ صدقہ دینے والا،گویا خدا
کو قرض دینے والا ہے۔یعنی جیسے قرض دینے والے کو اطمینان ہوتا ہے کہ اُسے اُس کا
مال واپس مل جائے گا ایسا ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے والا مطمئن رہے کہ اسے خرچ
کرنے کا بدلہ یقینا ًملے گا اوروہ بھی معمولی نہیں، بلکہ کئی گنا بڑھا کر، جو سات
سو گنا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے لاکھوں گنا زائد بھی، راہ خدا میں خرچ کرنے کے اور
بھی بہت سے فوائد و فضائل ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالی نے قرآن پاک میں امثلہ کے
ذریعے بیان فرمایا ہے، ان میں چند یہ ہیں:
(1)
دانہ کی مثال: مَثَلُ
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ
اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ
اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ
عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو
اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر
بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت
والا علم والا ہے ۔ (البقرۃ:261)
وضاحت:اس آیت میں خرچ کرنے کا مُطْلَقاً فرمایا گیا
ہے خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل، نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا شامل ہے خواہ
وہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی غریب کو دوائی وغیرہ
لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کسی طالب علم کو کتاب خرید کر دینا ہو یا کوئی شِفا
خانہ بنانا یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے فُقراء و مساکین کو تیجے، چالیسویں
وغیرہ پر کھلادیا جائے۔ (تفسیر صراط الجنان)
(2)
باغ کی مثال: وَ
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ
تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ
فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ
فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵)ترجمۂ کنزالایمان: اور ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی رضا
چاہنے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے دل جمانے کو اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ (ریتلی زمین)پر
ہو اس پر زور کا پانی پڑا تو دونے میوے لایا پھر اگر زور کا مینہ اُسے نہ پہنچے تو
اوس کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (البقرۃ: 265)
وضاحت :اس آیت
میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں
کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین
کا باغ ہر حال میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا
صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے (تفسیر صراط الجنان)
(3)
ہوا کی مثال: مَثَلُ
مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْهَا
صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُؕ-وَ مَا ظَلَمَهُمُ
اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۱۷) ترجمۂ کنزالایمان: کہاوت اُس کی جو اس
دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا(سخت ٹھنڈک) ہو وہ ایک
ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی بُرا کرتے تھے تو اُسے بالکل مارگئی اور اللہ
نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جان پرظلم کرتے ہیں۔ (اٰل عمرٰن: 117)

قراٰنِ مجید
فرقانِ حمید میں لوگوں کو سمجھانے اور غور و فکر کرنے کے لئے اللہ ربُّ العزت نے
مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ قراٰنی اسلوب میں ایک واضح اسلوب مثال دے کر سمجھانا
ہے۔ جس سے ہر طبقہ کے لوگوں کو بات سمجھ آجاتی ہے۔ اللہ ربُّ العزت نے قراٰنِ
پاک میں توحید و کفر، حق و باطل، نورِ الٰہی، عظمتِ قراٰن، موحد و مشرک، گمراہی،
حکمِ الٰہی کی نافرمانی کرنے والوں، مخلص اور ریا کار کے عمل اور انفاق فی سبیل
اللہ (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے)کی اہمیت و فضیلت کو مثالوں سے بیان کیا ہے اور
مثال کی اہمیت کے متعلق فرمایا ہے:﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ
هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ(۲۷)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور بےشک ہم نے لوگوں کے
لیے اس قرآن میں ہر قسم کی کہاوت بیان فرمائی کہ کسی طرح انہیں دھیان ہو۔(پ22،
الزمر: 27)
واضح ہوا کہ
مثالوں کی حکمت کیا ہے اسی طرح راہِ خدا میں جو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال بھی بیان
فرمائی کہ ان کو کیا فوائد و ثمرات حاصل ہوں گے۔آئیے قراٰنِ مجید میں انفاق فی سبیل
اللہ کی جو مثالیں بیان کی گئی ہیں ان کے متعلق جانتے ہیں:
(1)راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کی
مثال اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں:﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ
فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَاللّٰهُ
وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)﴾ ترجَمۂ
کنزالعرفان: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی
طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں،ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللہ اس سے بھی زیادہ
بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔(پ3، البقرۃ: 261)
اس آیت میں
راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے
کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر
بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو
گنا زیادہ حاصل کرتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا
راہِ خدا میں خرچ کرنا ہی ہے۔(دیکھئے:صراط الجنان،1/395)
(2)راہِ خدا میں مال خرچ کرنے والے کی
مثال بلند خطۂ زمین کی طرح ہے:﴿وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ
كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ
لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵)﴾ترجَمۂ کنزالعرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی
خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی
مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہواس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ
دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ
تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (پ3، البقرۃ:265)
اس آیت میں
ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو
استقامت دینے کے لئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین
کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص
مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔
ان دو مثالوں
سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے ایسے ہی اللہ ربُّ العزت نے بے
شمار فضائل بیان کئے ہیں کہ خرچ کرنے والا پسندیدہ ترین چیز خرچ کررہا ہے تو اس
کو مزید اجر ملے گا، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
معلوم ہوا کہ
نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا مال کو کم نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا ہے اس سے انسان کو
وسعت، راحت،سکون، اطمینان جیسی دولت ہی نہیں نصیب ہوتی بلکہ مال محفوظ ہو جاتا
ہے، رب تعالیٰ اس کی سوچ سے زیادہ اسے عطا فرماتا ہے۔ معاشرے میں نظر دوڑائی
جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ طبقہ جو زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور نیکی و دین کے کاموں میں
خرچ کرتا ہے، ان کے مال کو وسعت حاصل ہوتی ہے۔
اس لئے ہمیں
بھی چاہئے کہ کنجوسی اور بخل سے کام لئے بغیر بڑھ چڑھ کر راہِ خدا میں خرچ کریں
اور خرچ کرنے میں جو رکاوٹیں پیش آئیں ان کا تدارک کریں۔ قراٰن و حدیث میں جو
فضائل بیان کئے گئے ہیں اُن کا مطالعہ کریں۔ مزید اسلاف کی سیرت کو اپنے لئے
مشعلِ راہ جانتے ہوئے ان کی سیرت کا مطالعہ اور عمل کریں اِن شآءَ اللہ اس سے بھی
خرچ کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق ملے گی۔
دعا ہے کہ
اللہ پاک ہمیں اپنی عطا سے خوب خرچ کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم