قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں لوگوں کو سمجھانے اور غور و فکر کرنے کے لئے اللہ ربُّ العزت نے مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ ‏قراٰنی اسلوب میں ایک واضح اسلوب مثال دے کر سمجھانا ہے۔ جس سے ہر طبقہ کے لوگوں کو بات سمجھ آجاتی ہے۔ اللہ ربُّ ‏العزت نے قراٰنِ پاک میں توحید و کفر، حق و باطل، نورِ الٰہی، عظمتِ قراٰن، موحد و مشرک، گمراہی‏، حکمِ الٰہی کی نافرمانی کرنے ‏والوں، مخلص اور ریا کار کے عمل اور انفاق فی سبیل اللہ (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے)‏کی اہمیت و فضیلت کو مثالوں سے بیان کیا ہے اور ‏مثال کی اہمیت کے متعلق فرمایا ہے:﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ(۲۷)﴾ ترجَمۂ ‏کنزالایمان: اور بےشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی کہاوت بیان فرمائی کہ کسی طرح انہیں دھیان ہو۔(پ22، ‏الزمر: 27)‏

واضح ہوا کہ مثالوں کی حکمت کیا ہے اسی طرح راہِ خدا میں جو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال بھی بیان فرمائی کہ ان کو کیا فوائد و ‏ثمرات حاصل ہوں گے۔آئیے قراٰنِ مجید میں انفاق فی سبیل اللہ کی جو مثالیں بیان کی گئی ہیں ان کے متعلق ‏جانتے ہیں: ‏

(1)راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کی مثال اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں:﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ ‏اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَاللّٰهُ وَاسِعٌ ‏عَلِیْمٌ(۲۶۱)﴾ ترجَمۂ کنزالعرفان: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی طرح ہے جس نے سات ‏بالیاں اگائیں،ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا، علم والا ‏ہے۔(پ3، البقرۃ: 261)‏

اس آیت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ‏ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات ‏بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا ‏سات سو گنا زیادہ حاصل ‏کرتا ہے۔ ‏ اس آیت سے معلوم ہوا نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا ‏راہِ خدا میں خرچ کرنا ہی ‏ہے۔(دیکھئے:صراط الجنان،1/395)‏

(2)راہِ خدا میں مال خرچ کرنے والے کی مثال بلند خطۂ زمین کی طرح ہے:﴿وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ‏وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ‏بَصِیْرٌ(۲۶۵)﴾ترجَمۂ کنزالعرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ‏ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہواس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ ‏پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (پ3، البقرۃ:265)‏

‏ اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کے لئے ‏‏اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو ‏یا زیادہ، ایسے ‏ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔

ان دو مثالوں سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے ایسے ہی اللہ ربُّ العزت نے بے ‏شمار فضائل بیان کئے ہیں ‏کہ خرچ کرنے والا پسندیدہ ترین چیز خرچ کررہا ہے تو اس کو مزید اجر ملے گا، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ ‏

معلوم ہوا کہ نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا مال کو کم نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا ہے اس سے انسان کو وسعت، راحت،‏سکون، ‏اطمینان جیسی دولت ہی نہیں نصیب ہوتی بلکہ مال محفوظ ہو جاتا ہے، رب تعالیٰ اس کی سوچ سے ‏زیادہ اسے عطا فرماتا ہے۔ ‏معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ طبقہ جو زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور نیکی و دین کے کاموں میں خرچ کرتا ہے، ان کے ‏مال کو وسعت حاصل ہوتی ہے۔ ‏

اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ‏کنجوسی اور بخل سے کام لئے بغیر بڑھ چڑھ کر راہِ خدا میں خرچ کریں اور خرچ کرنے میں جو رکاوٹیں پیش ‏آئیں ان کا ‏تدارک کریں۔ قراٰن و حدیث میں جو فضائل بیان کئے گئے ہیں اُن کا مطالعہ کریں۔ مزید اسلاف کی ‏سیرت کو اپنے لئے ‏مشعلِ راہ جانتے ہوئے ان کی سیرت کا مطالعہ اور عمل کریں اِن شآءَ اللہ اس سے بھی خرچ ‏کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق ‏ملے گی۔ ‏

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنی عطا سے خوب خرچ کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی ‏اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم