رعایا
کے حقوق از بنت محمد عدنان عطاری، جامعۃ
المدینہ دارالحبیبیہ دھوراجی کراچی

رعایا کے حقوق جاننے سے پہلے سب سے پہلے یہ جاننا
ضروری ہے کہ رعایا ہوتے کون لوگ ہیں رعایا کے معنی مُطیع، حاکم کے زیرِ فرمان رہنے
والے لوگ۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ
الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ
اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان
والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر
ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی
نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت سے معلوم ہواکہ
جہاں مسلمان پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے
وہیں اہلِ خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت
کرنابھی اس پر لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو
اسلامی احکامات کی تعلیم دے یا دلوائے یونہی اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے
محفوظ رہیں۔
پیاری اسلامی بہنو! اس میں ماتحت افراد کی تربیت کے متعلق فرمایا گیا اور
چونکہ رعایا حاکم کے ماتحت ہوتی ہے لہذا حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کے
لیے اسلامی تعلیمات کا انتظام کرے۔
رعایا کا پہلا حق: حاکم
کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کی حفاظت دین کے لیے انتظامات کرے انہیں درست
اسلامی مستند تعلیم دینے کے لیے سنی مدارس قائم کرے، انکی تعلیم دین کا اہتمام
کرنا۔
رعایا کا دوسرا حق: حاکم
کے لیے ضروری ہے کہ وہ رعایا پر شرعی قوانین کا نفاذ کرے کیونکہ اگر شرعی قوانین
کا نفاذ نہیں ہوگا تو رعایا کثیر گناہوں میں مبتلا ہو جائے گی۔
رعایا کا تیسرا حق: رعایا
کے درمیان عدل اور انصاف کا قیام کرے ایسا نہ ہو کہ امیروں کے ساتھ تو اچھا شروع
کیا جائے اور غریبوں کے ساتھ برا۔ بلکہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔
رعایا کا چوتھا حق: حاکم
شرعی سزاؤں کا نفاذ کرے اور مجرموں کی
سرکوبی کی کوشش کرے کیونکہ جہاں شرعی سزاؤں کا نفاذ نہیں ہوتا وہاں جرائم بے قابو
ہو جاتے ہیں۔
رعایا کا پانچواں حق: حاکم
رعایا کی مال، جان، عزت کی حفاظت اور امن و امان کے قیام کو یقینی بنائے اور اس کے
لیے اقدامات کرے۔
رعایا کا چھٹا حق: حاکم
رعایا کی حفاظت کے لیے اسلحہ اور فوج کا انتظام رکھے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا
تو خدانخواستہ اگر دشمنوں نے حملہ کر دیا تو رعایا کی جان کو خطرہ ہے اور
دارالاسلام کا دفاع کرے یہ رعایا کے ایمان کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے۔
رعایا کا ساتواں حق: حاکم
کفار محاربین اور سازشین کے خلاف قتال کرے۔
رعایا کا آٹھواں حق: حاکم
سرکاری خزانے کی حفاظت کرے اور اسلام کے
مالی نظام کا قیام عمل میں لائے۔ کیونکہ اگر وہ خزانے کی حفاظت نہیں کرے گا تو
ضرورت پڑنے پر دوسرے ممالک سے قرضہ لینا پڑے گا اور جب دوسرے ممالک سے قرضہ لیا
جاتا ہے تو مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے اور مہنگائی کی صورت میں چونکہ رعایا حرج میں
مبتلا ہوگی لہذا خزانے کی حفاظت کا یہ اقدام کرنا ضروری ہوگا۔
رعایا کا نواں حق: حاکم
کے لیے ضروری ہے کہ وہ قومی خزانے پر امانت دار ماہرین کا تقرر کرے کیونکہ اگر
امانت دار افراد نہیں رکھے گئے تو کرپشن کرنے والے سرکاری خزانے کو جو کہ رعایا کا
حق ہے اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کریں گے۔
رعایا کا دسواں حق: حاکم
کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی حالت سے براہ راست باخبر رہے کیونکہ اسکی ذمہ داری
بنتی ہے کہ وہ عوام کی ضروریات کو پورا کرے اور اس سے بروز قیامت اس متعلق سوال
بھی ہوگا۔
قارئین اس حوالے سے عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا خوف خدا پر مبنی قول ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں
کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے: اگر میری رعیت میں کتا بھی
بھوکا مرگیا تو کل بروز قیامت مجھ سے حساب لیا جائے گا۔
رعایا کا گیارھواں حق: حاکم
تنخواہوں کا منصفانہ نظام قائم کرے اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کرے کیونکہ اگر
بروقت تنخواہ داروں کو ان کا حق نہ دیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ وہ رزق حلال چھوڑ کر
چوری ڈکیتی والے کاموں میں پڑ جائے کیونکہ پیسہ بہت ضروری ہو گیا ہے مہنگائی کا
دور ہے اب اگر اس کو بروقت تنخواہ نہ دی جائے تو وہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے معاذ
اللہ حرام کی طرف بھی جا سکتا ہے۔
رعایا کے بہت سے حقوق ہیں لہذا بالخصوص حاکم کو
چاہیے کہ وہ رعایا کے حقوق کو ادا کرے اور بالعموم تمام افراد ہی کے لیے لازم ہے
کہ وہ اپنے اپنے اوپر لازم حقوق کی ادائیگی کریں یاد رکھیے حقوق العباد کا معاملہ نہایت
سخت ہے لہذا اس میں ہرگز سستی نہیں کرنی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کی لمحہ بھر
کی سستی قیامت کے دن جہنم میں جانے کا ذریعہ بن جائے۔

ملک کا
نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے
ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کرتا ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ وہ اپنی رعایا کے
درمیان درست فیصلہ کرے۔ اللہ جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے ذمے عوام کے
کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حکمران بروز قیامت بارگاہ الہی
میں رعایا کا جواب دہ ہوگا۔ حضرت کعب
الاحبار فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران برا
ہو تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں۔ (1)
اگر
حکمران رعایا کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے گا تو معاشرے میں امن و سلامتی پھیلے
گی۔ آئیے ہم رعایا کے پانچ حقوق پڑھتے ہیں:
رعایا کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنا: حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے
فرمایا: میں نے نبیِّ کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا
والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے حجاب کردے(اس
طرح کہ مظلوموں، حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دے) تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت
و محتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی
مقرر فرما دیا۔(2)
اجتماعی عدل کا نفاذ: حاکم
کا عدل و انصاف تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے اور اس معاملے میں احسان کے لیے
اہل یا نااہل کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکم کا عدل و انصاف ہر نیک و بد کو
حاصل ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر اچھے اور برے آدمی کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرے۔
تحفظ اور خیر خواہی: رعایا کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی
خبرگیری کرنا حاکم کے فرائض میں سے ہے۔ ایک روایت میں ہے: جو مسلمانوں کے امور پر
والی بنایا جائے پھر ان کے لیے کوشش نہ کرے اور ان سے خیر خواہی نہ کرے تو وہ ان
کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (3)
حاکم کو
چاہیے کہ وہ رعایا کی خبر گیری کرتا رہے جیسے حضرت عمر فاروق اعظم بھی رات کے وقت
لوگوں کے حالات کا جائزہ کرتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے، چنانچہ ایک مرتبہ امیرُ
المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور
ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے
حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا
تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی
کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب: دیا وہ اتنے عرصہ سے میری
خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے
کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی
اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔ (4)
رعایا پر ظلم نہ کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ
اللہ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو (وه) اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اس سے چمٹ
جاتا ہے۔ (5)
رعایا پر سختی اور تنگی نہ کرنا: ابو موسی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے بعض
کو اپنے کاموں کے لیے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور
آسانی کرو سختی نہ کرو۔ (6)
اللہ
پاک ہمارے حکمرانوں کو بھی عدل کرنے والا اور رعایا پر نرمی و آسانی کرنے والا
بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حوالہ جات:
1۔
اللہ والوں کی باتیں، 5/491
2۔
مراۃ المناجیح، 5/373
3۔
مسلم، ص78، حدیث: 366
4۔
اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117
5۔
مراۃ المناجیح، 5/382
6۔
مسلم، ص 739، حدیث: 4525

رعایا کے معنی: رعایا کا
معنی ہے حکمران یعنی حکومت کرنے والا۔
رعایا کے حقوق کے بارے میں مختصراً وضاحت: رعایا کے
حقوق سے مراد ہے کہ حکمر ان کے جو قوم پر حقوق ہیں جیسا کہ اللہ پاک نے اور بھی
بہت سی چیزوں کے حقوق مقرر کیے ہیں اسی طرح حکمران کے بھی قوم پر کچھ حقوق ہیں۔
جیسا کہ حکمران اپنی قوم کے ہر اس کام کو پورا کر ےجو ممکن ہو اور خلاف شرع نہ ہو۔ ان کی ہر طرح سے مدد کرے۔ ان سے
نرمی اور حسن سلوک سے پیش آئے۔ اور اس چیز کا تکبر اپنے دل میں نہ رکھے کہ میں
حکمران ہوں بلکہ خود کو بھی دوسروں جیسا ہی سمجھے اور دوسروں کو حقیر نہ جانے اور
عدل انصاف سے لوگوں میں فیصلے کرے اور ان کو کسی بھی قسم کی پریشانی نہ ہونے
دے۔حکمر ان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات سے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے۔ اس
بارے میں حدیث مبارکہ بھی ہے: بہترین انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کو نفع
پہنچائے۔
ہر انسان اپنے نفع کی فکر میں رہتا ہے۔ اپنا فائدہ
تلاش کرتا ہے اور اسی فکر میں زندگی گزار دیتا ہے۔ چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ
کمائے زیادہ سے زیادہ اپنی ذات کو آرام پہنچائے۔ صحیح معنوں میں انسان کہلانے کے
قابل وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے دوسروں کے کام آئے دوسروں کے دکھ درد میں
شریک ہواور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرے۔
حدیث مبارکہ: واثلہ ابن الاسقع نے دریافت کیا: اے
الله کےرسول ﷺ عصبیت کسے کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو ظلم کرنے میں اپنی
قوم کی مدد کرے۔ (ابو داود، 4/427، حدیث: 5119) اس حدیث میں حضور ﷺ نے عصبیت کی
تعریف بیان فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ عصبیت یا تعصب اپنی قوم خاندان یا وطن
سے محبت کرنے کا نام نہیں بلکہ اس بات کا نام ہے کہ تو ظلم میں اپنی قوم کی مدد
کرے۔ اور قوم کی محبت تجھے اس قدر اندھا کر دے کہ تو ظلم میں بھی اس کی مدد کرنا
جائز سمجھے۔ ویسے اپنی قوم سے محبت بری
بات نہیں بلکہ یہ تو فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ تعصب جسے برے مفہوم میں لیا جاتا
ہے وہ یہی ہے کہ اپنی قوم کا برا کام بھی اچھا معلوم ہو اور دوسروں کی اچھائیاں
بھی برائیاں نظر آنے لگے۔ ایسے تعصب سے اجتناب لازم ہے۔ اس کے مقابلے میں عدل و
انصاف کا دامن پکڑنا چاہیے۔ ظلم کی مخالفت کی جائے خواہ ظالم کوئی رشتہ دار ہو
دوست ہو ہم وطن ہو یا ہم مذہب ہو۔
حکمران کو چاہیے کہ وہ اپنی قوم کو دین کے حصہ کچھ
ضروری عقائد سکھائے اور خود بھی اس پر عمل پیرا رہے اور تقویٰ اور پرہیزگاری کو
اختیار کر ے اور اپنی قوم کو بھی اس کا حکم دے۔
اس بارے میں ایک ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ- (پ
26، الحجرات: 13) ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے
جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔
حضور پاک ﷺ نے تقویٰ کا اصل مقام دل کو قرار دیا ہے۔
جب انسان میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ اخلاص نیت کی صورت میں
نکلتا ہے۔
اصل بادشاہت تو اللہ کی ہی ہے مگر اللہ نے اپنی
مخلوق میں سے بھی کسی کسی کو حکمرانی عطا فرمائی اور ان پر کچھ حقوق بھی ہے اور ان
حقوق کو پورا کرنا ان پر لازم ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمر انی عطا فرمائی ہے ان
کو چاہیئے کہ شیطانی وسوسوں سے بچے اور تکبر کرنے اور اتر انے، غریبوں کا حق
کھانے، ان پر اپنے قانون لاگو کرنے سے پر ہیز کرے عاجزی کو اختیار کرے۔ سب سے بہتر
حکمرانی تو اللہ پاک کی ہے۔

ہر شخص نگہبان ہے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے
بارے میں پوچھا جائے گا جس کے ماتحت جتنے زیادہ ہوں گے وہ اتنا ہی جواب دہ ہوگا تو
جس خوش نصیب نے اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل انصاف شفقت و محبت خیر
خواہی امانت داری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہوگا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو
جائے گا اسے بروز قیامت عرشِ الہی کا سایہ نصیب ہوگا اور اس کا عدل و انصاف اس کے
لیے باعث نجات ہوگا۔
مسلمان حاکم کی اطاعت کا حکم:
اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں بالکل واضح اور صاف طور پر موجود ہے جس میں کسی
طرح کا کوئی شبہ نہیں ہے، فرمان الہی ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی
الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59)ترجمہ کنز الایمان:
اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت
والے ہیں۔
احادیثِ مبارکہ:
1- انصاف کرنا: حضرت
عبد اللہ بن عمر بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک انصاف
کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت اپنی
اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص 783، حدیث:
4721)
2- دھوکا نہ دینا: جب
اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا
کو دھوکہ دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کا
خیال نہ رکھیں تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔(بخاری، 4 /456، حدیث: 7150)
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جو مسلمانوں کے امور پر والی بنایا جائے پھر ان کے
لیے کوشش نہ کرے اور ان سے خیر خواہی نہ کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ
ہوگا۔ (مسلم، ص 78، حدیث: 366)
3- حاکموں کےلئے دعائے مصطفیٰﷺ: ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے اس گھر میں رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
اے اللہ! جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو
بھی اس مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان
سے نرمی پیش آئے تو تو بھی اس سےنرمی والا سلوک فرما۔ (مسلم، ص 784، حدیث: 4722)

ہر شخص نگہبان ہے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے
بارے میں پوچھا جائے گا جس کے ماتحت جتنے زیادہ ہوں گے وہ اتنا ہی زیادہ جوابدہ
ہوگا۔ پھر جس خوش نصیب نے اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف و شفقت
و محبت و خیر خواہی و امانتداری اور صبر و تحمل کا مظاہر کیا ہوگا وہ دنیا و آخرت
میں کامیاب ہو جائے گا اسے براز قیامت عرش
الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا اور اس کا عدل و انصاف اُس کیلئے باعث نجات ہوگا اس کے
برعکس جس حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ خیانت و ظلم و ستم و دھوکہ دہی اور حق تلفی
کا مظاہرہ کیا ہوگا۔ اُن کی حاجات ضروریات کی طرف توجہ نہ دی ہوگی تو وہ دنیا آخرت
میں نقصان اٹھائے گا، محشر کی گرمی میں اس کیلئے کوئی سایہ نہ ہوگا اور وہ رحمت
خداوندی سے محروم رہے گا۔ اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے ماتھوں کے حقوق کی
ادائیگی کی بھر پور کوشش کرے اور جتنا ہو سکے نرمی سے پیش آئے اور شفقت و محبت
بھرا انداز اپنائے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکے۔
رعایا کے معنی: رعایا کے معنی
مطیع و حاکم کے زیرِ فرمان لوگ، باجگزار، جمہور، عامتہ الناس، کرایہ دار، محکوم، زیر
حمایت کے ہیں۔ رعایا کے چندحقوق درج ذیل
ہیں۔
رعایا کے 5 حقوق:
1-رعایا پر سختی تنگی نہ کرنا۔ 2-رعایا کی ضرورت
حاجت کو پور کرنا۔ 3-رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا۔ 4-رعایا پر ظلم نہ کرنا۔ 5-رعایا کی خبر گیری کرنا۔
احادیثِ مبارکہ:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک انصاف کرنے
والے اللہ رب العزت کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت
اپنے اہل عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص
183، حدیث: 4721)
حضرت عائز بن عمرو ر ضی الله عنہ سے مروی ہے کہ وہ
عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لڑکے میں نے رسول
اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا بے شک برترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم
کریں پس تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے بچا۔ (مسلم، ص 786 ، حدیث: 4733)
تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور
تم ان سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام
وہ ہیں جن سے تم نفرت کرواور وہ تم سے نفرت کریں تم ان پر پھٹکار کرو وہ تم پر
لعنت کریں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا اس وقت ہم ان
سے تلوار کے ذریعے جنگ نہ کریں ؟ فرمایا ! نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم
کریں اور جب تم میں سے کوئی اپنے حاکم کو
کسی گناہ میں ملوث دیکھے تو اسے چاہیے کہ
اس گناہ کو برا جانے مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)
اسلام میں اچھے و عادل حاکم کا بہت مقام و مرتبہ سے
یہاں کے یہ بروز قیامت اللہ پاک کے سب سے نیک بندے ہوں گے نور کے منبروں پر ہوں
گے ان کے مقام و مرتبے کو بیان کرنے کے
ساتھ ساتھ ان پر لازم بہت سے فرائض و رعایا کے حقوق بھی دین اسلام میں بیان کیے
گئے ہیں یہ ان اوصاف سے تب ہی مستفید ہو سکیں گے جب کہ اپنے فرائض و رعایا کے حقوق
کو پورا کریں گےآئیے ان میں سے ایک فرض کا مطالعہ کرتے ہیں
1- خیر خواہی: حاکم کو چاہیے کہ رعایا کے ساتھ حسن
سلوک اور خیر خواہی و بھلائی والا معاملہ کریں جس طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ
یعنی حکمران خیر خواہی کے ساتھ ان کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ
پاسکے گا۔ (بخاری، 4 /456، حدیث: 7150)

آئیے سب سے پہلے حق کے متعلق تھوڑا سا جان لیتے ہیں
حق حقوق کی جمع ہے جس کے معنی ہیں فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔ حقوق دو طرح کے ہوتے
ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق العباد کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تمام کام جو
بندوں کو ایک دوسرے کے لیے کرنے ضروری ہیں۔ اسلام نے حقوق العباد پر بہت زور دیا
ہے چونکہ ان کا تعلق بندے سے ہے اسی لیے ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ نے یہی
ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے حقوق معاف نہ ہوں گے جبکہ اللہ
پاک چاہے تو اپنے حقوق اپنے بندوں پر معاف فرما دے گا حقوق العباد میں والدین
اولاد زوجین رشتہ دار اور رعایا وغیرہ کے حقوق شامل ہیں۔
رعایا کی تعریف: مطیع،
حاکم کے زیرِ فرمان رہنے والے لوگ، باجگذار، جمہور، عامۃ الناس کرایہ دار، محکوم،
زیرِ حمایت۔
کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں
سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی
تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بال اور ان کے درمیان درست فیصلہ
کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت ہشام رحمۃ الله علیہ بيان کرتے ہیں کہ حضرت كعب الاحبار
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور
حکمران برا ہو تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں لہذا حکمران کو رعایا سے اچھا سلوک کرنا
چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی
ہو۔اس عالم رنگ و بو میں انسان کی رہنمائی کےلئے اللہ پاک نے نبوت کا سلسلہ شروع
فرمایا اور ختم نبوت کے بعد اسلامی قانون کو جاری رکھتے ہوئے بندوں سے ایک دوسرے
پر ظلم و زیادتی سے نجات دلا کر جائز حقوق پہنچائے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر
باقی رکھنے کے لیے حاکم عطا کیا اس وجہ سے انسانوں میں سے جسے عہدہ و خلافت ملی
اسے عہدہ سنبھالنے کے بعد سارے معاملات میں عدل و انصاف سے فریضہ حکومت انجام دینے
کے سلسلہ میں تاکیدی حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى
اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا
بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ
سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۵۸) (پ 5، النساء: 58) ترجمہ کنز العرفان: بیشک
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم
لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت
فرماتا ہے، بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آدمی اپنے ماتحت کے ساتھ
انصاف سے کام لے چونکہ وہ اس کا ذمہ دار ہے۔ آئیے اب رعایا کے چند حقوق بھی جان لیتے ہیں:
لوگوں کی پردہ پوشی کرنا:
حاکم کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی غلطیوں کے بارے میں غیر ضروری تجسس کی کوشش نہ
کرے اور معمولی لغزشوں پر لوگوں کو تنگ نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو عفوو درگزر سے
کام لے اور لوگوں کے عیبوں کو بلا حاجت شرعی فاش نہ کرے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی عیب
پوشی فرمائے گا۔ (ابو داود، 4/357، حدیث: 4893)
احکام کے نفاذ میں سختی: حاکم
کو چاہیے کہ لوگوں کو مشتبہ کاموں میں پڑھنے اور معصیت کا ارتکاب کرنے میں دلیر نہ
ہونے دے اور مشکوک مقامات اور محافل میں شرکت سے اجتناب کرتے ہوئے اچھے کاموں کی
ترویج و اشاعت میں کردار ادا کرے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو
اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے
برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ
ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے
اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور
ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
غرباء کی ہم نشینی: حاکم
کو چاہیے کہ وہ صاحب دولت اور طاقتور لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول رکھنے کی بجائے
غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ وقت بسر کرے۔ اپنا زیادہ تر وقت فقراء اور اولیاء اللہ
کے پاس گزارے اور اپنے قلب کی اصلاح کے لیے خود کو صلحاء کے ذریعے جلاء بخشتا رہے۔
غریب پروری: رعایا کا حق
یہ بھی ہے کہ حاکم وقت فاقہ زدہ عوام کی حالت زار سے بے خبر نہ رہے اور پوری کوشش
کرے کہ کوئی شخص بھوک کا شکار نہ ہو، حاکم کو چاہیے کہ وہ بیوہ خواتین اور یتیم
بچوں کا خاص خیال رکھے اور اس بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور پیش ہونے
سے ڈرے۔
رعایا کی حفاظت: حکام
پر رعایا کی حفاظت اہم فریضہ ہے۔سرحد کی حفاظت کی خاطر پولیس محکمہ قائم کرے اور
ہمیشہ وہاں افواج کو تیار رکھا جائے،نیز یہ بھی حق ہے کہ بادشاہ دین اسلام کی
سرپرستی کرتے ہوئے اس کی حفاظت کرے اور اشاعت اسلام کے لیے علماء و فضلاء مقرر
کرکے شرک و بدعات کے راستوں کو مسدود کردے۔شریعت کے مطابق ان کی انفرادی اور
اجتماعی معاملات میں اللہ کے اموال کو ان کے صحیح مصارف میں خرچ کرے۔
رعایا کے لیے ادارے قائم کرنا: ملک
میں عام لوگوں کے لیے ادارے قائم کرنا حکمرانوں کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے
تاکہ رعایا سے جہالت و بے رحمی دور ہو جس طرح حضرت عمر بن عبد العزیز نے کثیر تعلیمی ادارے قائم کیے اور حضور علیہ
السلام نے اصحاب صفہ کے لیے صفہ کا مقام منتخب فرمایا۔
اگر ہم اپنے اوپر غور کریں تو تقریبا ہم میں سے ہر
ایک کسی نہ کسی طرح حاکم حکمران ہے کوئی آفیسر کوئی استاد، کوئی ناظم اورکوئی
والد، ہونے کی صورت میں حاکم ہے اگر معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں
تو اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک و پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں اور ان کے
تمام حقوق ادا کریں اور اسی طرح جو احادیث وغیرہ میں بیان ہوئے ان پر کار بند رہے۔

کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں
سے مل کر چلتا ہے حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے حاکم کو چاہیے
کہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے انصاف سے کام لے رعایا کے ساتھ حسن سلوک سے پیش
آئے ان کی ضروریات کو پورا کرے۔
احادیث کی روشنی میں رعایا کے حقوق:
1۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے
اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و
عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔ (مسلم، ص 783، حدیث:
4721ملتقطا)
2۔ بے شک بدترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پہ ظلم
کرے۔ (مسلم، ص 785، حدیث: 4733)
3۔ جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنانے
اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام
فرما دے گا۔ (مسلم، ص 78، حدیث: 366)
4۔ امیر المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے گھر میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ جو
میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت
میں مبتلا فرما اور جو کوئی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان سے نرمی
سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما۔ (مسلم، ص 784، حدیث: 4722)
5۔ سرکار علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے بہترین
حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو اور وہ تمہیں دعائیں دیں
اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جو تم سے نفرت کریں اور تم ان سے نفرت کرو تم ان پر
پھٹکار کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)
لہذا حاکم کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے عفودر گزر سے کام لے اور
لوگوں کے عیب کی پردہ پوشی کرے حاکم کو چاہیے کے وہ صاحب ثروت اور طاقتور لوگوں کے
ساتھ زیادہ میل جول رکھنے کی بجائے غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ اپنا زیادہ وقت
گزارے حاکم کو چاہیے کہ لوگوں کو مشتبہ کاموں میں پڑنے اور معصیت کا ارتکاب ہونے
میں دیر نہ ہونے دے اور مشکوک مقامات اور محافل میں شرکت سے اجتناب کرے۔

تمام طاقتوں کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے وہی پوری
کائنات کا خالق اور مالک ہے اسلام میں اقتدار اعلیٰ اللہ کی ذات کو حاصل ہے اسلامی
احکامات کے مطابق رعایت کا انتظام چلتا ہے۔ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی
ریاست کی بنیاد رکھی۔ توحید، مساوات،عدل وانصاف،اخلاق و تقویٰ اور حصول علم اسلامی
ریاست کے بنیادی اصول ہیں اسلامی ریاست میں مسلمان حاکم وقت اپنے اختیارات کو اللہ
کی امانت سمجھتے ہوئے استعمال کرتا ہے اور اس وقت دنیا میں بہت سی ریاستیں قائم
ہیں جن میں سے ایک ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ہے۔
عدل و انصاف کا قیام:معاشرے
میں عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری اسلامی ریاست پر عائد ہوتی ہے اسلامی ریاست
میں عدلیہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے اور وہ انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہوتی ہے بلکہ
انتظامیہ اور سربراہ مملکت بھی عدلیہ کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اسلامی ریاست میں
عدلیہ سربراہ مملکت کو عدالت میں طلب کر سکتی ہے اور اسکو سزا بھی دیں سکتی ہے۔
سہولیات کی فراہمی: بنیادی
مزورکوں کے علاؤہ کئی ایسی ضرورتیں بھی ہیں جو ایک معقول زندگی گزارنے کے لیے
ضروری ہیں۔مثلا تعلیم اور آمدورفت کی سہولیات وغیرہ۔ایک بہتر زندگی کے لیے تمام
سہولیات مہیا کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
مساوات کا قیام: اسلامی
ریاست میں،نسل،علاقہ، رنگ،جنس اور دیگر امتیازات کی کوئی گنجائش نہیں۔سب کو
معاشی،معاشرتی،مذہبی اور دیگر حقوق برابر حاصل ہوتے ہیں۔ ذات پات کی کوئی قید نہیں
ہوتی اور ظلم و زیادتی سے پاک معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اسلامی ریاست کے مطابق چلنا چاہیے۔

اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا
اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ
5، النساء: 59)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو
رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔
(1) بدترین ہے وہ حاکم جو لوگوں پر ظلم کرے، ان کی
ضروریات کی پر واہ نہ کرے۔
(2) انتہائی کمینہ اور ظالم ہے وہ شخص جو دوسروں کی
اشیاء کو چھیننے کی کوشش میں لگار ہے۔
(3) حسب منصب ہر سطح پر نیکی کی دعوت دینی چاہئے
تاکہ لوگوں میں دینی احکام پر عمل پیرا ہونے کاشعور بیدار ہو۔
(4) رعایا پر بے جا ٹیکس لگانا، بلاوجہ چیزوں کی
قیمت بڑھانا اور خواہ مخواہ سخت احکام لاگو کر کے عوام کو پریشان کرنا ظلم و جبر
کی علامت ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایاحضرت ابو مریم از دی رضی اللہ عنہ نے حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ میں نے رسول کریم رؤف رحیم ﷺ کو یہ فرماتے
ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کے کسی معاملہ کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی
حاجت وضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھرے تو بروز قیامت اللہ اس کی ضرورت و حاجت اور
محتاجی و فقر سے کچھ سروکار نہ ہو گا۔ (یہ فرمان عالی سن کر) حضرت امیر معاویہ رضی
اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجات کی خبر گیری کے لئے ایک شخص مقرر فرمادیا۔ (مراٰة
المناجیح، 5/373)
اس حدیث پاک میں ان حکمرانوں و عہدے داروں کے لئے
سخت وعید ہے جو اپنے عیش میں مگن ہوں اور رعایا کی حاجات و ضروریات کی پروانہ
کریں، لوگ فریاد کریں، مسائل کا حل چاہیں لیکن وہ ان کے اسکے جائز مقاصد پورے نہ
کریں تو بروز قیامت ایسے حکمرانوں کی پکڑ ہو گی، ان کی ضروریات و حاجات سے اللہ کو
کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس لئے جسے دنیا میں اللہ پاک نے کسی قوم کی کوئی ذمہ داری
دی اسے چاہیے کہ ہے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے لوگوں کی حاجات و ضروریات
کا خیال رکھے تا کہ بروز قیامت اللہ اس کی حاجات کو پورا فرمائے۔

معاشرے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں:ایک حکمران دوسرے
رعایا۔ان دونوں کے حقوق وفرائض کے تعین اور ادائیگی سے ہی معاشروں کا عروج وزوال
جڑا ہوتا ہے۔کوئی بھی معاشرہ یا ملک اسی صورت میں اجتماعی ترقی کر سکتا ہے کہ جب،
وہاں رعایا اور سلطنت کے مابین تقسیم شدہ حقوق و فرائض میں مساوات پائی جاتی ہو۔
(1) رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا:
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے
بعض کو اپنے کاموں کے لئے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو
اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو۔ (مسلم، ص739، حدیث: 4525)
(2) رعایا کی مدد کرنا: امیر
المؤمنین حضرت علی المرتضی ارشاد فرماتے ہیں کہ سر کار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ
ارشاد فرماتا ہے: میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر
ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا۔ (معجم صغیر، 1/31، حديث: 71)
( 3) چغلی پر عمل سے اجتناب: رعایا کا دوسرا حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں
کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی باتوں پر کان نہ دھرے خاص طور پر فاسق
اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا نتیجہ فتنہ فساد اور
افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ
فَتَبَیَّنُوْۤا (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ: اگر کوئی فاسق تمہارے
پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔
(4)رعایا کو دھوکا نہ دینا:
ایک روایت میں ہے: جو کوئی امیر مسلمانوں کی حکو مت کا والی بنے، ان کے ساتھ نہ
پوری کوشش کرے، نہ ان کی خیر خواہی کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
(مسلم، ص 78، حدیث: 366) اس حدیث میں ان حکمرانوں کے لئے سخت وعید آئی ہے جو اپنی
رعایا کی بہتری کے لئے پوری کوشش نہیں کرتے، نہ ان کی خیر خواہی کرتے ہیں بلکہ
انہیں دھوکا دیتے ہیں اور توبہ کئے بغیر اسی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں کہ ان
کے لئے جنت حرام ہے۔ کیونکہ اتنے بندوں کے حق وہ قیامت کے دن کہاں سے ادا کریں گے؟
اللہ تعالیٰ بھی اپنی طرف ہے بندوں کو راضی نہیں کرے گا کہ ان کے حقوق اپنے پاس سے
ادا کرے اور ان کو دھوکا دینے والے اور ظالم حکمرانوں کو جنت میں بھیج دے بلکہ
انہیں ضرور ہی ان حقوق کے بدلے جہنم میں پھینکے گا۔
(5) رعایا پر رحمت و شفقت: بادشاہ
عوام کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے۔اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت و شفقت کا
معاملہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص انسانوں پر رحم نہیں
کرتا ہے تو اللہ ایسے لوگوں پر رحم نہیں کرتا ہے۔ (بخاری، 4/531، حدیث: 7376)

ہمارا پیارا دین ہر قدم پر ہماری راہنمائی کرتا
ہےجس طرح شریعت مطہرہ نے ہمیں والدین، دوست احباب، رشتہ داروں سےحسن سلوک کرنے
اوران کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے بالکل ایسے ہی ایک حاکم کو پابند کیا ہے کہ
رعایا کے لئے اس کچھ حقوق و ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں اور جہاں پر رعایا کے زمے حاکم کے حقوق
ہوتے ہیں وہی حاکم پر بھی رعایا کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا حاکم پر
لازم ہوتا ہے۔ ہمارا دین اسلام بھی حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاو کرنے کی
حکم دیتاہے لہذا رعایا کے حقوق احادیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل ہیں:
1۔ رعایا پر شفقت رحمت کرنا: بادشاہ
عوام کی دیکھ بھال کے لیے مقررکیا گیا
ہوتا ہے اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت
و شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص انسانوں پر رحم
نہیں کرتا تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی رحم نہیں فرماتا۔ (بخاری، 4/531، حدیث: 7376)
2۔ رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا: حضرت
ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے کچھ کو اپنےکاموں کے لئے
بھیجتے تو فرمایا کرتے تھے کہ دو خوشخبریاں متنفرنہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی
نہ کرو۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 4525)
3۔ رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسولُ
اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اوراس کا وہ فیصلہ درست ہوتو
اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر وہ اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اور اس میں کوئی غلطی کر جائے تو بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔ (فیضان
فاروق اعظم، 2/337)
4۔ رعایا کی خبر گیری: ایک
مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر
سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر
میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر
دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی
کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا: وہ اتنے عرصہ سے میری
خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے
کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں تجھ پر روئے! کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی
اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔ (اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117)
5۔ رعایا کی مدد کرنا: امیر
المؤمنین حضرت علی المرتضی فرماتے ہیں کہ سر کار مکہ مکرمہ، سردار مدینہ منورہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے: میری
ناراضگی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا
کسی کو مددگار نہیں پاتا۔ (معجم صغیر، 1/31، حديث: 71)
کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام حکومت رعایا اور
حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دینِ اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بھال اور ان کے
درمیان دُرست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ
حضرت ہشام رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت كعبُ الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران بُرا ہوتو لوگ
بھی بگڑ جاتے ہیں۔ (اللہ والوں کی باتیں، 5/491) لہٰذا حکمران کو رعایا سے اچھا
سلوک کرنا چاہئے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی قائم ہو۔ شاعر مشرق فرماتے ہیں: حکمرانی کا اصل مقصد
عوام کی خدمت ہے۔

ہم پر شریعت نے مختلف احکام لاغو کیے ہیں جن کو ادا
کیے بغیر زندگی کےمعاملات صحیح طور پر نہیں چل سکتے۔ اور نہ ہی امن کاگہوارا قائم
ہو سکتا ہے اور جہاں پر رعایا کے زمے حاکم کے حقوق ہوتے ہیں وہی حاکم پر بھی رعایا
کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا حاکم پر لازم ہوتا ہے۔ ہمارا دین اسلام بھی
حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاو کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ لہذا رعایا کے حقوق
حدیث پاک کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے۔
1۔ رعایا کو دھوکہ نہ دینا: جو
کوئی امیرمسلمانوں کی حکومت کا والی بنے،نہ انکی خیر ہواہی کرے، انکے ساتھ نہ پوری
کوشش کرے،تو وہ انکے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ اس حدیث مبارک میں ان حکمرانوں کے لیے سخت وعید
آئی ہے جو اپنی رعایا کی بہتری کے لیے پوری کوشش نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں دھوکا دیتے
ہیں اور توبہ کیے بغیر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ انکے لیے جنت حرام ہے کیونکہ اتنے
بندوں کے حق وہ قیا مت کے دن کہاں سے ادا کرے گے؟
2۔ رعایا پر شفقت رحمت کرنا: بادشاہ
عوام کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ رسول ﷺ
نے فرمایا کہ جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی رحم نہیں
فرماتا۔ (بخاری، 4/531، حدیث: 7376)
3۔ رعایا پر ظلم نہ کرنا: رسول
ﷺ نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرےپھر جب وہ ظلم کرتا
ہے تواس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔ (مراۃ المناجیح،5/382)
4۔ رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسول
ﷺ نے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرےاور وہ فیصلہ درست ہو تو اس کے لیے
دو اجر ہیں اور اگر وہ اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرےاور اس میں غلطی کر جائے تو بھی اس
کے لیے ایک اجر ہے۔ (فیضان فاروق اعظم،2/337)
5۔ رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا: حضرت
ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لیے
بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفرنہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی
نہ کرو۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 4525)