آئیے سب سے پہلے حق کے متعلق تھوڑا سا جان لیتے ہیں
حق حقوق کی جمع ہے جس کے معنی ہیں فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔ حقوق دو طرح کے ہوتے
ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق العباد کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تمام کام جو
بندوں کو ایک دوسرے کے لیے کرنے ضروری ہیں۔ اسلام نے حقوق العباد پر بہت زور دیا
ہے چونکہ ان کا تعلق بندے سے ہے اسی لیے ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ نے یہی
ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے حقوق معاف نہ ہوں گے جبکہ اللہ
پاک چاہے تو اپنے حقوق اپنے بندوں پر معاف فرما دے گا حقوق العباد میں والدین
اولاد زوجین رشتہ دار اور رعایا وغیرہ کے حقوق شامل ہیں۔
رعایا کی تعریف: مطیع،
حاکم کے زیرِ فرمان رہنے والے لوگ، باجگذار، جمہور، عامۃ الناس کرایہ دار، محکوم،
زیرِ حمایت۔
کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں
سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی
تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بال اور ان کے درمیان درست فیصلہ
کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت ہشام رحمۃ الله علیہ بيان کرتے ہیں کہ حضرت كعب الاحبار
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور
حکمران برا ہو تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں لہذا حکمران کو رعایا سے اچھا سلوک کرنا
چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی
ہو۔اس عالم رنگ و بو میں انسان کی رہنمائی کےلئے اللہ پاک نے نبوت کا سلسلہ شروع
فرمایا اور ختم نبوت کے بعد اسلامی قانون کو جاری رکھتے ہوئے بندوں سے ایک دوسرے
پر ظلم و زیادتی سے نجات دلا کر جائز حقوق پہنچائے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر
باقی رکھنے کے لیے حاکم عطا کیا اس وجہ سے انسانوں میں سے جسے عہدہ و خلافت ملی
اسے عہدہ سنبھالنے کے بعد سارے معاملات میں عدل و انصاف سے فریضہ حکومت انجام دینے
کے سلسلہ میں تاکیدی حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى
اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا
بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ
سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۵۸) (پ 5، النساء: 58) ترجمہ کنز العرفان: بیشک
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم
لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت
فرماتا ہے، بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آدمی اپنے ماتحت کے ساتھ
انصاف سے کام لے چونکہ وہ اس کا ذمہ دار ہے۔ آئیے اب رعایا کے چند حقوق بھی جان لیتے ہیں:
لوگوں کی پردہ پوشی کرنا:
حاکم کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی غلطیوں کے بارے میں غیر ضروری تجسس کی کوشش نہ
کرے اور معمولی لغزشوں پر لوگوں کو تنگ نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو عفوو درگزر سے
کام لے اور لوگوں کے عیبوں کو بلا حاجت شرعی فاش نہ کرے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی عیب
پوشی فرمائے گا۔ (ابو داود، 4/357، حدیث: 4893)
احکام کے نفاذ میں سختی: حاکم
کو چاہیے کہ لوگوں کو مشتبہ کاموں میں پڑھنے اور معصیت کا ارتکاب کرنے میں دلیر نہ
ہونے دے اور مشکوک مقامات اور محافل میں شرکت سے اجتناب کرتے ہوئے اچھے کاموں کی
ترویج و اشاعت میں کردار ادا کرے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو
اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے
برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ
ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے
اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور
ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
غرباء کی ہم نشینی: حاکم
کو چاہیے کہ وہ صاحب دولت اور طاقتور لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول رکھنے کی بجائے
غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ وقت بسر کرے۔ اپنا زیادہ تر وقت فقراء اور اولیاء اللہ
کے پاس گزارے اور اپنے قلب کی اصلاح کے لیے خود کو صلحاء کے ذریعے جلاء بخشتا رہے۔
غریب پروری: رعایا کا حق
یہ بھی ہے کہ حاکم وقت فاقہ زدہ عوام کی حالت زار سے بے خبر نہ رہے اور پوری کوشش
کرے کہ کوئی شخص بھوک کا شکار نہ ہو، حاکم کو چاہیے کہ وہ بیوہ خواتین اور یتیم
بچوں کا خاص خیال رکھے اور اس بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور پیش ہونے
سے ڈرے۔
رعایا کی حفاظت: حکام
پر رعایا کی حفاظت اہم فریضہ ہے۔سرحد کی حفاظت کی خاطر پولیس محکمہ قائم کرے اور
ہمیشہ وہاں افواج کو تیار رکھا جائے،نیز یہ بھی حق ہے کہ بادشاہ دین اسلام کی
سرپرستی کرتے ہوئے اس کی حفاظت کرے اور اشاعت اسلام کے لیے علماء و فضلاء مقرر
کرکے شرک و بدعات کے راستوں کو مسدود کردے۔شریعت کے مطابق ان کی انفرادی اور
اجتماعی معاملات میں اللہ کے اموال کو ان کے صحیح مصارف میں خرچ کرے۔
رعایا کے لیے ادارے قائم کرنا: ملک
میں عام لوگوں کے لیے ادارے قائم کرنا حکمرانوں کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے
تاکہ رعایا سے جہالت و بے رحمی دور ہو جس طرح حضرت عمر بن عبد العزیز نے کثیر تعلیمی ادارے قائم کیے اور حضور علیہ
السلام نے اصحاب صفہ کے لیے صفہ کا مقام منتخب فرمایا۔
اگر ہم اپنے اوپر غور کریں تو تقریبا ہم میں سے ہر
ایک کسی نہ کسی طرح حاکم حکمران ہے کوئی آفیسر کوئی استاد، کوئی ناظم اورکوئی
والد، ہونے کی صورت میں حاکم ہے اگر معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں
تو اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک و پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں اور ان کے
تمام حقوق ادا کریں اور اسی طرح جو احادیث وغیرہ میں بیان ہوئے ان پر کار بند رہے۔