جس طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کا نائب اور مخلوقات میں افضل ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی طرح اس کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریاں بھی باقی مخلوقات سے جدا گانہ ہیں ۔ ان ذمہ داریوں میں سے اولاد کی تربیت اور حقوق بھی ہیں، جس کا ادا کرنا انسان پر فرض ہے۔  جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

(1)بعد از پیدائش حقوق :بچے کی پیدائش کے بعد جو حقوق اسلام کی طرف سے ملتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

حق زندگی: قبل از اسلام لوگ اپنی اولاد کو معاشی تنگی اور مذہبی عقیدگی کی بنا پر معبودوں کیلئے قربان کیا کرتے تھے۔ قرآن و سنت نے اولاد کو حق زندگی عطا کرتے ہوئے قتل کو قانونی جرم قرار دیا۔ خواہ محرکات معاشی ہوں یا مذہبی ۔ معاشی تنگدستی کی بنا پر اولاد کے قتل کو روکتے ہوئے قرآن کریم ان الفاظ میں حکم دیتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دیں گے بے شک انکا قتل بڑی خطا ہے ۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 31)

(2)حق رضاعت: بچہ اپنی ابتدائی زندگی میں جس خوراک کا محتاج ہوتا ہے اس کا انتظام اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ کی صورت میں کیا۔ قرآن مجید میں ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس اس کے لیے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہے اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور کسی جان پر بوجھ نہ رکھاجائے گا مگر اس کے مقدور بھر ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچہ سے اور نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے ، یا ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی اولاد کو اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی واجب ہے پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کو دودھ پلواؤ تو بھی تم پر مُضائقہ نہیں جب کہ جو دینا ٹھہرا تھا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کردو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر: 233)

(3)حق مساوات: بچوں کے بنیادی حقوق میں سے اولاد کے مابین مساوات اور عدل قائم کرنا بھی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انہیں لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے، پھر عرض کیا :میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے۔ حضور علیہ السّلام نے فرمایا : کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی دیا ہے ؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : تو پھر اس سے واپس لے لو۔ (صحیح بخاری : صفحہ نمبر 2446)

(4)تربیت: بچوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق مختلف انداز سے حضور نے احکامات صادر فرمائے۔ حضرت عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے، اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اسے مارو، اور دس سال کی عمر میں انہیں الگ الگ سلایا کرو“ (ابو داؤد: صفحہ نمبر 495)

(5)حق نکاح: والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اولاد کے بہتر نکاح کیلئے مناسب اقدام کریں۔ 

اسلام ایک دینِ کامل اور مکمل طور پر فطرت کے مطابق ہے اور اسی طرح اسلامی تعلیمات انسان کی زندگی کے تمام شعبوں کو گھیرے ہوئے  ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی تکریم کا درس دیا ہے تو اسی طرح اولاد کے حقوق کا بھی ، قرآن کریم میں کئی جگہ حکم دیا ہے اللہ پاک سورۃُ التحریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والواپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

ذیل میں اولاد کے پانچ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔

(1) نیک بیوی کا انتخاب: ویسے تو انسان کی مکمل زندگی قرآن و سنّت کے مطابق ہونی چاہیے مگر کچھ امور ایسے ہیں جن کا اولاد کے وجود میں آنے سے پہلے لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے،اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مرد نیک بیوی تلاش کرے۔ کیونکہ ماں کی اچھی یا بری عادات کل اولاد میں بھی منتقل ہوں گی ۔(تربیتِ اولاد، ص30)

اللّہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "بے شک دنیا استعمال کی چیز ہے ، نیک اور صالحہ عورت دنیا کے مال اور متاع سے افضل و بہترین ہے"۔ (ابن ماجہ،412/2،حدیث1855)

(2) اچھے نام کا انتخاب : والدین کو چاہیے کہ اپنے بچّے کا اچھا نام رکھیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اپنے اچھے نام رکھا کرو۔" ( ابو داود،374/4،حدیث 4948)

اِس فرمان سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو اپنے بچے کا نام کسی فلمی اداکار یا (معاذاللہ عزَّ وجل) کفار کے نام پر رکھ دیتے ہیں ،اس سے بد ترین ذلت کیا ہوگی کہ مسلمان کی اولاد کو کل میدانِ حشر میں کفار کے ناموں سے پکارا جائے۔ (تربیتِ اولاد، ص66تا67)

(3) اولاد کو علمِ دین سیکھائیے: تفسیرِ صراط الجنان میں ہے کہ عالِم بیٹا اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے۔ ہر مسلمان کو نصیحت ہے کہ اپنی اولاد کو دین کا علم سیکھائے۔افسوس فی زمانہ مسلمان دین کا علم حاصل کی ہوئی اولاد جیسی عظیم نعمت کی قدر و اہمیت کی طرف توجہ نہیں دیتےبلکہ دن رات دنیوی علوم وفنون میں اُس کی ترقی کے لیے کوششیں کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسے دلوائی گئی دینی تعلیم کا حال یہ ہوتا ہے کہ اُسے اُن عقائد کا علم نہیں ہوتا جن پر مسلمان کے دین و ایمان اور اُخروی نجات کا دارو مدار ہے مسلمان کی اولاد ہونے کے باوجود اُسے قرآن مجید تک صحیح پڑھنا نہیں آتا،فرض عبادات سے متعلق باتیں نہیں جانتا،نماز روزے اور حج زکوٰۃ کی ادائیگی ٹھیک طرح نہیں کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ صرف دنیوی علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے اکثر دینِ اسلام سے بیزار نظر آتے ہیں ۔ (صراط الجنان،243/5)

(4) اپنی اولاد کو رزق حلال کھلائیے : تکمیلِ ضروریات (اپنی ضرورتیں پوری کرنے) کے لیے ہر گز ہر گز حرام کمائی کے جال میں نہ پھنسیں یہ آپ کے لیے اور آپ کے گھر والوں کے لیے بہت بڑے خسارے کا باعث ہے۔ جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ گوشت ہر گز جنت میں داخل نہ ہو گا جو حرام میں پلا بڑھا ہو۔ (سننِ دارمی،409/2حدیث2776)

(5) اولاد کی جلدی شادی کر دیجئے: بیٹوں کے جوان ہونے پر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اُن کی نیک، صالحہ عورت سے جلدی شادی کر دیں۔بلا وجہ تاخیر نہ کی جائے (تربیتِ اولاد/178) جیسا کہ ہمارے پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس کے ہاں لڑکے کی ولادت ہو اسے چاہیے کہ اُس کا اچھا نام رکھے اور آداب سکھائے ، جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے ، اگر بالغ ہونے کے بعد نکاح نہ کیا اور لڑکا مبتلائے گناہ ہوا تو اس کا گناہ والد کے سر ہوگا "(شعب الایمان،401/6،حدیث8666)


اسلام ایک آفاقی دین ہے جس کے دامن میں زندگی کے ہر حوالے سے مکمل باضابطہ رہنمائی موجود ہے ۔جب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اس نے باپ پر بیٹے کے حوالے سے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کو بھی بیان کیا تاکہ ان حقوق پر عمل پیرا ہو کر   وہ کامیاب باپ بننے کے ساتھ ساتھ اخروی سعادتوں سے بھی بہرہ ور ہو سکے ۔ ذیل میں کچھ اولاد کے کچھ حقوق بیان کئے جارہے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

(1) اچھے نام رکھنا: بچے کی پیدائش کے بعد اس کا پہلا حق یہ ہے کہ اسکا اچھا نام رکھا جائے۔ اچھے نام رکھنا بچے کی شخصیت پر بھی اثر انداز ہو گا اور اچھا نام اس کیلئے باعثِ سکون بھی ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے ۔ چنانچہ نام اچھے رکھا کرو (سننِ ابی داؤد ،کتاب الادب،حدیث:4948)

(2) زندگی کی حفاظت: اولاد کا والدین پر بنیادی حق یہ بھی ہے کہ انکی زندگی کی حفاظت کریں، زمانہ جاہلیت کی طرح ان کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کریں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَقْتُلُـوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا(31) ترجمہ کنزالایمان:اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دیں گے بیشک ان کا قتل بڑی خطا ہے۔(بنی اسرائیل: 31)

(3) اچھے آداب سکھانا: والد پر بچے کا بنیادی حق یہ ہے کہ اسے اچھے آداب سکھائے ۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اپنی اولاد کا اکرام کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ ۔ (ابن ماجہ، 179/4،حدیث:3671)

(4) مساوات کا حق: اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر معاملے میں مساوات کا پہلو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔اگر ایک کو کپڑے خرید کر دیئے تو دوسرے کو بھی خرید کر دیں ، اگر ایک کو کوئی چیز تحفہ دی تو دوسرے کو بھی دیں نیز ہر معاملے میں مساوات کا پہلو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔ اس حوالے سے اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:اپنی اولاد کو برابر دو ، اگر میں کسی کو فضیلت دیتا تو لڑکیوں کو دیتا۔ (المعجم الکبیر ،ج280/11، حدیث:11997)

(5) شادی میں جلدی کرنا: جب اولاد بالغ ہو جائے تو والدین پر لازم ہے کہ ان کی شادی کروانے میں جلدی کریں ۔ اگر معاذاللہ وہ گناہوں میں پڑ گئے تو اس کا گناہ انکو بھی برابر ملے گا۔ چنانچہ سید المرسلین ،خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کسی کے ہاں بیٹا ہو ، وہ اسکا اچھا نام رکھے ، اچھی پرورش کرے اور جب وہ (بچہ/ بچی) بالغ ہو تو نکاح کردے اگر اس (والد) نے ایسا (نکاح) نہ کیا اور اس (بچے/ بچی) نے گناہ کردیا تو یہ گناہ اس کے والد کے سر پر ہوگا ۔ (مشکوٰۃ شریف، کتاب النکاح، جلد 939/2، حدیث 3138 مطبوعہ بیروت )

اللہ کریم ہمیں اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدنا خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اسلام ایک ایسا دین ہے  جس میں انسان کی پیدائش ‏سے پہلے سے لے کر مرنے کے بعد تک کے احوال سے مطلع کیا گیا ‏،

اللہ تعالیٰ نے قرآن اور صاحب قرآن کے ذریعے سے انسان کو دین ودنیا کے ہر کام کو کرنےکا احسن طریقہ ‏کار بتایا ‏ اسی نظام دنیا کو بہترین بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سب افراد کے لیے ایک دوسرے پر کچھ حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ جیسے شاگرد پر استاذ کے حقوق قائم فرمائے اسی طرح استاذ پر شاگرد کے حقوق مقرر کئے ، اسی طرح والدین پر اولاد کے کچھ حقوق بھی لازم فرمائے ہیں، اولاد کے چند حقوق پیدائش سے پہلے اور چند حقوق پیدائش کے بعد ادا کرنے کا حکم فرمایا گیا ان میں سے چند حقوق ملاحظہ کیجئے:

نیک عورت کا ‏انتخاب: ‏ سب سے پہلا حق اولاد کا یہ ہے کہ ان کے لیے اچھی ماں تلاش کی جائے کیونکہ ماں کی اچھی یا بری عادات کل ‏اولاد میں بھی منتقل ہوں گی بہت ساری احادیث مبارکہ میں مرد کو نیک،صالحہ اور اچھی عادات کی حامل پاک ‏دامن بیوی کا انتخاب کرنے کی تاکید کی گئی ہے چنا نچہ

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن ‏العیوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے چار چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ‏ہے(1)اس کا مال (2)حسب نسب (3)حسن و جمال(4)دین ، تمہارا ہاتھ خاک آلود ہو تم دین دار عورت کے حصول کے لیے کوشش کرو۔ ‏(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الاكفاء فی الدین ، حدیث: ٥٠٩،ج٣، ص٤٣٩)‏

کان میں اذان ‏: بچہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے کہ اس طرح ابتدا ہی سے بچے کے کان ‏میں اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پہنچ جائے ‏۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما کی ولادت پر ان کے کان ‏میں خود اذان دی جیسا کہ حضرت سیدنا رافعی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ تعالی ‏عنھاکے ہاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کان ‏میں نماز والی اذان دیتے دیکھا ‏۔ ‏(جامع ترمذی ،کتاب الاضاحی، باب الاذان فی اذن المولود ،الحدیث:١٥١٩، ج٣،ص١٧٣)‏

نام رکھنا ‏: ساتویں دن بچے کا نام رکھا جائے والدین کو چاہیے کہ بچے کا اچھا نام رکھیں کہ یہ ان کی طرف سے اپنے بچے کے ‏لیے سب سے پہلا اور بنیادی تحفہ ہے جسے وہ عمر بھر اپنے سینے سے لگا کر رکھتا ہے، یہاں تک کہ جب میدان حشر ‏بپا ہوگا تو وہ اسی نام سے مالک کائنات عزوجل کے حضور بلایا جائے گا جیسا کہ حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی ‏عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں ‏سے پکارے جاؤ گے لہذا اچھے نام رکھا کرو ‏۔ ‏(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی تغییر الاسماء،الحدیث: ٤٩٤٨، ج٤، ص٣٨٤)‏

اللہ پاک ہم سب کو اور ہماری اولادوں کو اپنا مطیع فرمانبردار بنائے۔ امین 


اولاد اللہ پاک کی وہ عظیم نعمت ہے جن کی خاطر والدین سخت گرمی و سردی کو دامن گیر لائے بغیر محنت مزدوری کرتے ہیں یہی اولاد ‏اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی امیدوں کا محور ہوتی ہے اس کی اگر صحیح معنوں میں تربیت اور ان کے حقوق ادا کئے جائیں تو یہ دنیا ‏میں اپنے والدین کیلئے راحتِ جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔ بچپن میں ان کے دل کا سرور، جوانی میں آنکھوں کا نور ‏ہوگی۔ اگر ان کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہوگی تو یہ سہارے کی بجائے وبال ہی بنے گی۔ آئیے! تربیتِ اولاد کے حوالے سے کچھ ‏حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ ادائیگیِ حقوق کی وجہ سے اولاد دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہو سکے۔

‏(1)سب سے پہلا حق‏: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ اولاد کا سب سے پہلا حق جو اس کی ‏پیدائش سے بھی پہلے ہے کہ آدمی کسی رذیل کم قوم (نیچ ذات) عورت سے نکاح نہ کرے کہ بُری نسل ضرور رنگ لاتی ہے۔(اولاد کے ‏حقوق، ص15)‏

‏(‏2)تمام بچوں سے مساوی سلوک: امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس بات میں کوئی بُرائی نہیں کہ اولاد میں سے ‏کسی کو فضیلتِ دین کی وجہ سے ترجیح دی جائے ہاں اگر دونوں برابر ہوں تو ان میں سے کسی کو ترجیح دینا مکروہ ہے۔(الخانیہ،2/290)‏

‏(‏3)نیک کاموں میں مدد: والدین کو چاہئے کہ ہمیشہ اپنی اولاد کو نیک کاموں کی ترغیب دے اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر ان ‏کی مدد کریں جس طرح رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پاک اس باپ پر رحم فرمائے جو اپنی اولاد کی نیک کام پر مدد کرتا ‏ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 6/101، حدیث:1)‏

‏(‏4)ادب سکھانا‏: حدیثِ مبارکہ میں ہے: باپ پر اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے اچھی طرح ادب ‏سکھائے۔

‏(دیکھئے:شعب الايمان،6/400، حديث: 8658)‏

‏(‏5)ساتویں دن سے لے کر 16سال کی عمر تک مختلف حقوق: بچے کا ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا حلق ‏کیا جائے (یعنی سر کے بال اتارے جائیں)۔(دیکھئے: مصنف ابن ابی شیبہ، 5/532، حدیث:1، 2) سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دے۔(دیکھئے: اولاد ‏کے حقوق، ص21) 10سال کی عمر میں بستر الگ کر دے، اسی عمر میں مار کر نماز پڑھائے، جوان ہو جائے تو شادی کر دے، شادی میں ‏قوم، دین، سیرت و صورت ملحوظ رکھے۔(دیکھئے: اولاد کے حقوق،ص26)‏

پیارے اسلامی بھائیو! یہ اولاد ایک گرین شاخ کی طرح ہے جس کی سمت آدمی اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتا ہے لیکن کچھ ‏عرصہ بعد یہ ایک بانس کی صورت اختیار کر جائے گی جس کو سیدھا کرنے کی کوشش سے یہ ٹوٹ جائے گا اس کے علاوہ اگر ہم اپنی ‏اولاد کی اچھی تربیت کریں گے اور انہیں نماز روزہ اور اس کے علاوہ دیگر احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کا پابند بنائیں گے تو یہ اولاد دنیا ‏میں بھی ہمارے لئے راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی اور ہمارے مرنے کے بعد بھی ہمارے لئے ایصالِ ثواب اور دُعائے خیر ‏کرکے آخرت میں بھی بخشش کا سامان ہو گی۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ والدین کو اولاد کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم‏