انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ پاک کا نائب ہے اس لئے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں دین و شریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں جس طرح والدین کے ساتھ نیکی کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح اولاد کے ساتھ حسن سلوک کا حکم قرآن  و سنت میں دیا گیا ہے۔یہاں ہم اولاد کے 05 حقوق کو بیان کرنے کی سعی کریں گے۔

1۔والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا اچھا نام رکھے۔ برا نام نہ رکھے کہ بد فال ہے (برا شگون ہے) عبداللہ، عبدالرحمان، احمد وغیرہ یا عبادت و حمد کے نام یا انبیاء و اولیاء یا اپنے بزرگوں میں جو نیک گزرے ہوں ان کے نام پر نام رکھے کہ مؤجب برکت ہے خصوصاً نام پاک محمدکہ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔

نام محمد کی برکتیں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک کی برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اسکا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے سرکار ﷺ نے فرمایا: جس دستر خوان پر کوئی احمد یا محمد نام کا ہوتو اس جگہ پر ہر روز دو بار برکت نازل کی جائےگی۔ (مسند الفردوس، 2/323، حدیث: 6526)

2۔جب چند بچے ہوں تو جو چیز دے سب کو برابر و یکساں دے ایک کو دوسرے پر بے فضیلت ترجیح نہ دے۔ فتاوی قاضی میں ہے: حضرت اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی فضل وشرف کی وجہ سے ہو لیکن اگر سب برابر ہوں تو پھر ترجیح دینا مکروہ ہے۔ (الخانیہ، 2/ 290)

فتاوی عالمگیری میں ہے : اگر بیٹا حصول علم میں مشغول ہو نہ کہ دنیوی کمائی میں تو ایسے بیٹے کو دوسری اولاد پر ترجیح دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (فتاوی ہندیہ، 4/ 391)

3۔والدین کو چاہیے کہ اولاد کو قرآن مجید پڑھائےاور دینی تعلیم سکھائے خصوصاً فرائض کا علم جن کا ہر مسلمان پر سیکھنا فرض ہے سکھایا جائےاگر باپ بچوں کو دینی تعلیم سکھائے گا تو دونوں کی دنیا و آخرت کا بھلا ہوگا۔ اسلام کی روشن تعلیمات سے منور اولاد دنیا کے ساتھ ساتھ مرنے کے بعد بھی کام آتی ہے چنانچہ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جب آدمی انتقال کرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر تین عمل جاری رہتے ہیں: صدقہ جاریۃ اور جس علم سے نفع حاصل کیا جاتا ہو اور نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرے۔ (مسلم، ص 684، حدیث: 4223)

4۔والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے لیے دعا کرے۔ کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے خصوصاً باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دعا کرے باپ کی دعا قبول ہوتی ہے چنانچہ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے:تین قسم کی دعائیں مقبول ہیں: 1مظلوم کی دعا۔ 2 مسافر کی دعا۔ 3 باپ کی بیٹے کے لیے دعا۔ (ابن ماجہ، 4/281، حدیث: 3862)

5۔اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی شادی اچھی جگہ پر کی جائے۔ کیونکہ اولاد کے لیے مناسب رشتے کا انتخاب بھی بہت اہم معاملہ ہے۔ اکثر لوگ رشتے کا انتخاب کرنے میں امیر گھرانے،اعلی دنیاوی تعلیم اور جدت پسندی وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں نیز بعض لوگ اپنے بچوں کی صرف اپنے ہی خاندان میں شادی کرنے پر بضد ہوتے ہیں اگرچہ لڑکا لڑکی رضا مند نہ ہوں باپ کو چاہیے کہ اس معاملے میں اولاد کی رائےبھی ضرور معلوم کرے اور نیک اور نماز روزے کے پابند گھرانے کوترجیح دے۔

ماہنامہ فیضان مدینہ کے معزز قارئین! ہمارے پیارے مذہب اسلام کے احکامات کی بنیاد 2 چیزوں پر ہے: 1۔حقوق اللہ 2۔ حقوق العباد۔ اسلام نے معاشرے میں رہنے والے تمام لوگ اور رشتے دار والدین اولاد بہن بھائی نوکر سیٹھ دکان دار خریدار مسلم غیر مسلم سب کے حقوق و فرائض کا التزام فرمایا تاکہ اسلام کے روشن اصولوں میں ایک پُر بہار معاشرے کا قیام عمل میں آسکے جہاں ہر ایک کے حقوق محفوظ ہوں۔

انہی میں ایک مقدس اور اہم رشتہ والدین اور اولاد کا ہے اسلام نے ان کے متعلق بھی مفصل اور اہم احکامات عطا فرمائے۔اوران کے حقوق و فرائض کی حفاظت فرما کر مسلمانوں پر احسان عظیم کیا۔ معزز قارئین والدین وہ ہستی ہیں کہ جن کی فرمانبرداری کو اللہ پاک نے اولاد پر لازم قرار دیا اور ان کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ کیا۔لیکن وہیں والدین کو بھی اولاد کے متعلق احکامات کا پابند کیا تاکہ کسی بھی فریق کی حق تلفی نہ ہو معاشرے کے فطری تقاضے پورے ہوتے رہیں اور معاشرے میں اعتدال قائل رہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: باپ کے ذمہ بھی اولاد کے حقوق ہیں، جس طرح اولاد کے ذمہ باپ کے حقوق ہیں۔

اولاد کے چند حقوق ہیں جن پر عمل کر کے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل ہوگی اور گھر امن و سکون کا گہوارہ بنے گا ان شاء اللہ اولاد کے حقوق یہ ہیں:

1۔تحفظ جان 2۔ کان میں اذان پکارنا 3۔ تحسنیک 4۔ عقیقہ 5۔ نومولود کا سر منڈوانا 6۔لڑکے کا ختنہ کروانا 7۔ حق رضاعت 8۔ اولاد کے درمیان عدل 9۔ رزق حلال سے پرورش 10۔ اچھی تعلیم و تربیت 11۔ نکاح اور شادی کی ذمہ داری۔ (2)

ہم ان میں سے پانچ حقوق کو مختصرا بیان کریں گے:

1۔ تحفظ جان: قرآن پاک میں ارشاد ہے: قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِؕ-قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ۠(۱۴۰) (پ 8، الانعام: 140) ترجمہ کنزالایمان) (واقعی ایسے لوگ برباد ہو گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علم کے بیوقوفی سے قتل کردیا اور ان چیزوں کو جو اللہ نے ان کو روزی کے طور پر بخشی تھیں اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے حرام کر ڈالا بےشک وہ گمراہ ہو گئے اور ہدایت یافتہ نہ ہو گے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے یہ آیت زمانۂ جاہلیت کے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی لڑکیوں کو نہایت سنگ دلی سے زندہ درگور کر دیا کرتے تھے اور جاہلیت کے بعض لوگ لڑکوں کو بھی قتل کرتے تھے اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ کتّوں کی پرورش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے تو اللہ پاک نے آسمانی احکامات کے ذریعے ان کی حفاظت کا انتظام فرمایا اور فرمادیا کہ زندگی دینا اور لینا رب کا کام ہے والدین کو یہ حق بالکل حاصل نہیں۔اسلام سے پہلے اولاد کو قتل کرنے کی مختلف صورتیں تھیں اسلام نے تمام صورتوں کو حرام قرار دیا اور اولاد کی جان کو تحفظ بخشا۔ لہٰذا والدین کا سب سے اہم اور اول فریضہ اپنی اولاد کی زندگی کا تحفظ کرنا ہے۔

2۔ کان میں اذان پکارنا: جب بچہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے۔ حدیث مبارکہ ہے: جس شخص کہ ہاں بچہ پیدا ہو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو بچہ ام الصبیان سے محفوظ رہے گا۔ (3) اذان و اقامت کہنے کا طریقہ بہتر یہ ہے کہ دہنے کان میں چار مرتبہ اذان اور بائیں کان میں تین مرتبہ اقامت کہی جائے (اگر ایک مرتبہ اذان و اقامت کہہ دی تب بھی کوئی حرج نہیں)۔ (4)

3۔ رزق حلال سے پرورش: والدین کے فرائض میں سے یہ بھی ہے کہ اولاد کی رزق حلال سے پرورش کریں ایام حمل اور رضاعت میں بھی بچے کی نشوونما حلال مال سے ہونی چاہیے۔ بچوں کی پرورش حلال مال سے کریں تاکہ بچہ بڑے ہو کر حلال حرام میں تمیز کے قابل ہو سکے۔ یاد رکھیں حرام میں خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جنت میں وہ گوشت داخل نہ ہوگا جو حرام سے پلا ہو ہر وہ گوشت جو حرام مال سے پلا ہو آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔ (5)

حلال اور حرام کے متعلق شروع سے ہی بچوں کی تربیت کریں اور ان کو حرام کے قریب بھی نہ بھٹکنے دیں۔

حدیث مبارکہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ چھوٹے سے بچے تھے تو انہوں نے صدقہ کی کھجور منہ میں ڈال لی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے منہ میں انگلی ڈال کر نکال دی یہ فرماتے ہوئے کہ صدقہ آل محمد ﷺ پر حرام ہے۔ (6)

4۔ اچھی تعلیم و تربیت: والدین کا ایک اہم فریضہ اپنے بچوں کو علم و تہذیب کی دولت سے مالا مال کرنا ہے کہ علم ایک ایسی خوبی ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائض کیا گیا۔

حدیث مبارکہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: باپ کا کوئی عطیہ بیٹے کیلیے اس سے بڑھ کر نہیں کہ وہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے۔ (7)

ایک اور مقام پہ ارشاد فرمایا اپنی اولاد کا اکرام کرو اور (اچھی تربیت کے ذریعے) ان کو حسن ادب سے آراستہ کرو۔ (8) یاد رہے اچھی تعلیم و تربیت کی اصل بنیاد دینی علم ہے کیونکہ دینی علم انسان کی ظاہری زندگی سنوارنے کے علاوہ آخرت کی زندگی کو بھی کامیاب کرتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے ہر مسلمان مرد و عورت پر علم سیکھنا فرض ہے (9) علم سے بقدر ضرورت شرعی مسائل بھی مراد ہیں لہذا ہر مسلمان پر اس کی حالت کے مطابق احکام شریعت سیکھنا فرض عین ہے۔ (10)

لہذا والدین کا فرض ہے کہ وہ خود بھی زیور علم سے آراستہ ہوں اور اپنی اولاد کو بھی اس سے مالامال کریں۔

5۔ اولاد کے درمیان عدل آج کل معاشرے میں اولاد کے درمیان کسی ایک بچے یا بچی سے ترجیحی سلوک دیکھا جاتا ہے آئیے سنتے ہیں اس کے متعلق اسلام کے کیا احکامات ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اولاد کے درمیان عدل و مساوات کو پسند فرمایا اور عدم مساوات کی حوصلہ شکنی فرمائی۔ چنانچہ ایک صحابی نے اپنے لڑکوں میں سے کسی کو ایک غلام ہبہ(تحفہ) کیا اور چاہا کہ نبی کریم ﷺ کی گواہی ہو حضور کریم ﷺ نے فرمایا کہ تونے اپنے ہر لڑکے کو ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟ عرض کیا نہیں ! تو ارشاد فرمایا کہ میں ایسے ظالمانہ عطیے پر گواہ نہ بنوں گا۔ (11)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عطیہ میں اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو، جس طرح تم خود یہ چاہتے ہو کہ وہ سب تمھارے ساتھ احسان و مہربانی میں عدل کریں۔ (13)

اللہ پاک توفیق عطا کرے۔ آمین

معزز قارئین! اولاد ہمارا آنے والا مستقبل ہے اس پر جتنی محنت کی جائے کم ہے ہم نے اولاد کے متعلق چند حقوق سیکھنے کی سعادت حاصل کی۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس پر عمل کرنے والا بنائے اور اسلام کی روشنی میں اولاد کی بہترین تربیت کی توفیق دے۔ آمین

معاون کتب:

بہار شریعت(دعوت اسلامی)

انوار الحدیث(المدینہ العلمیہ)

والدین اور اولاد کے حقوق

عقیقے کے بارے میں سوال جواب (امیر اہلسنت)

تفسیر صراط الجنان مفتی قاسم عطاری

حوالہ جات:

2۔ والدین اور اولاد کے حقوق، ص 144

3۔ مسند ابی یعلیٰ، 6/32، حدیث: 6747

4۔ بہار شریعت، 3 /355

5۔والدین اور اولاد کے حقوق، ص 192، 193

6۔والدین اور اولاد کے حقوق، ص 193

7۔ ترمذی، 3/383، حدیث: 1959

8۔ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671

9۔مشکوۃ المصابیح

10۔ والدین اور اولاد کے حقوق، ص 201

11۔والدین اور اولاد کے حقوق، ص 189

12۔بہار شریعت

13۔بہار شریعت

اولاد انسان کے لیے ایک آزمائش اور ایک نعمت ہے۔ اولاد انسان کے لیے بیج کی طرح ہے۔ وہ اسے پالتا ہے پروان چڑھاتا ہے۔ اسے ایک بڑا کامیاب انسان بنا دیتا ہے۔ اور اسے کامیاب بناتا بناتا خود بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور پھر اس پیڑ کی چھاؤں میں سکون حاصل کرتا ہے۔ والدین کی خدمت کرنا ہر اولاد پر فرض ہے۔ جس طرح والدین کا اولاد پر حق ہے اسی طرح اولاد کا بھی والدین پر حق ہے۔

ان میں سے چند بنیادی حقوق درج زیل ہیں:

1 تربیت: اولاد کی بہترین تربیت کرنا والدین کے اہم فرائض میں سے ہے۔ اگر درخت کی صحیح سے دیکھ بھال کی جائے تو وہ اچھا پھل دے گا اور خراب دیکھ بھال سے خراب پھل۔ اسی طرح بچے بھی درخت کی طرح ہوتے ہیں بہترین دیکھ بھال سے ایک نیک اور صالح اولاد پروان چڑھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوش نصیب ہے وہ شحص جس نے اپنے بچوں کو نماز کی عادت ڈالی۔

اچھی عادتیں ہی اچھی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ اور اولاد کی چال ڈھال سے ہی والدین کی پہچان ہوتی ہے۔

2 تعلیم: ہمارے ہاں ایک بات بہت عام ہے کہ لڑکیوں نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔ حالانکہ لڑکیوں نے ہی نسل پروان چڑھانی ہوتی ہے۔ اور آنے والی نسل کو معاشرے کا بہترین فرد بنانا ہوتا ہےلڑکا لڑکی کی تعلیم میں فرق کیا جاتا ہے۔ اسلام میں تو لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم میں کوئی فرق نہیں۔ بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہاں پر نہ تو عمر کی قید ہے اور نہ ہی جنس کی لہذا اپنی اولاد کو چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ضرور تعلیم دیں۔ تاکہ وہ معاشرے کا ایک کامیاب فرد بنیں۔

3 تحفیظ: تحفیظ دل میں ہمیشہ کے لیے ایک حزانہ ہے۔ قرآن کو یاد کرنا ایک روحانی سکون اور ثواب کا ذریعہ ہے۔ لہذا اپنی اولاد کو قرآن یاد کروائیں۔ عربی دنیا کی آسان زبان ہے۔ قرآن کو ہر چھوٹا سا چھوٹا بچا آسانی سا حفظ کر سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قرآن کو دلوں میں محفوظ رکھو کہ وہ تمہارے لیے بہت قیمتی ہے۔

4 بچوں کی حفاظت: بچوں کی حفاظت کرنا بھی والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ بچوں کی صرف جسمانی حفاظت ہی نہیں بلکہ ان کے احساسات کی حفاظت کرنا بھی والدین کا فرض ہے۔ ہم بچوں کو physically تندروست تو بنا لیتے ہیں لیکن ان کے ذہنی سکون کا خیال نہیں رکھتے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو بڑوں کا احترام نہ کریں اور چھوٹو پر رحم نہ کریں۔

5 نفقہ: اولاد کی تمام تر جائز ضروریات کا خیال رکھنا والدین کا فرض ہے اور روزی کے ڈر سے اولاد کو نہیں مارنا چاہیے کیونکہ ہر مخلوق کو رزق دینے والی ذات الله ہی ہے۔


اولاد کے حقوق قرآن  وحدیث میں بہت بیان ہوئے۔بزرگان دین نے بھی اس موضوع پر اپنی تحاریر و تصانیف سے رہنمائی فرمائی۔ قرآن پاک میں اولاد کے حقوق بیان فرمائے گئے۔ اس سلسلے میں سورۃ لقمان میں باقاعدہ ان آیات کا نزول ہے جن میں اولاد کی بہترین تربیت کا ذکر فرمایا گیا۔ جبکہ یہاں اولاد کے چند حقوق بیان کئے جائیں گے۔

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں واضح فرمایا گیا کہ اپنے ساتھ ساتھ گھر والوں کی اصلاح کی بھی کوشش لازم ہے۔ میرے شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے اسی لئے عظیم مقصد عطا فرمایاکہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔

(2)حدیث مبارکہ میں ہے۔اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ:(1)اپنے نبی ﷺ کی محبت(2)اہل بیت کی محبت(3)تلاوت قرآن۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311)

(3) بچے کا اچھا نام رکھنا۔ اس کا اچھا نام رکھا جائے۔یہاں تک کہ کچے بچے کا بھی۔مطلب جو کم دنوں کا گر جائے۔ اور برا نام نہ رکھا جائے کہ بدفالی ہے۔بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام وبزرگان دین کے متبرک ناموں پہ نام رکھے جائیں۔ (اولاد کے حقوق، ص 17)

(4)ان کی دین کے مطابق تربیت کی جائے۔ جب دس برس کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر مار کر پڑھائی جائے۔جب جوان ہو جائےتواچھا رشتہ ملتے ہی نکاح کر دینا چاہیے۔ (اولاد کے حقوق، ص 26)

(5)حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سب سے مقدم یہ ہے کہ بچوں کو قرآن مجید پڑھائیں اور دین کی ضروری باتیں سکھائیں۔ (بہار شریعت،2/ 256، حصہ: 8)

ان تمام باتوں اور احکامات کو سامنے رکھ کر اگر والدین اپنی اولاد کی تربیت کریں تو ہمارے معاشرے میں دین اسلام کا بول بالا ہو جائے اور ہر گھر سے نکلنے والا بیٹا باحیا اور نکلنے والی بیٹی باحیا و باپردہ ہو گی۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

اللہ پاک ہمیں اور تمام والدین کو اپنی اولاد کی تربیت عین شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اولاد اللہ پاک کی عطا کی ہوئی ایک نعمت ہے اولاد ماں باپ کیلئے صدقہ جاریہ بھی ہوتی ہے اور یہی اولاد ماں باپ کے لیے عذاب کا سبب بھی بن جاتی ہے اولاد اچھی ہو تو ماں باپ ہمیشہ سکھی ہوتے ہیں جبکہ یہی اولاد برائیوں میں بری صحبت میں چاہڑے تو بد نامی و ذلت کا سبب بنتی ہے اللہ پاک نے ہر شخص کے حقوق بیان فرمائے ہیں ماں باپ کے حقوق پڑوسیوں کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق وغیرہ ہوتے ہیں اسطرح اولاد کے حقوق بھی بیان ہوئے ہیں کے ماں باپ اپنی اولاد کو کس طرح نیک بنا سکتے ہیں ان کے کیا حقوق ہیں اسکے پیش نظر اولاد کے حقوق بیان کئے جاتے ہیں۔

1۔ جب اولاد کی پیدائش ہو تو اس کی خوشی کریں چاہیے بیٹا ہو یا بیٹی۔

2۔ اس کو دینی تعلیم سکھائیں اور ان میں سب سے پہلا قرآن مجید کی تلاوت ہے۔نبی کر یم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ اپنے نبی کی محبت اہل بیت کی محبت قرآن کریم کی تعلیم۔

3۔ اولاد کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اسکا اچھا نام رکھیں کہ یہ ماں باپ کی طرف سے اولاد کا پہلا تحفہ ہوتا ہے۔

4۔ بیٹیوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کے ان کی اچھی تربیت کرے اور جب شادی کی عمر کو پہنچ جائے توان کا نکاح کر وادیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے 3 بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں ادب سکھایا، انکی شادی کی اور اچھا سلوک کیا تو اسکے لیے جنت ہے۔

5۔ اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کریں، والدین اولاد کو یہ ظاہر نہ کریں کہ ہم اپنے فلاں بیٹے یا بیٹی سے زیادہ محبت کرتے ہیں ورنہ احساس کمتری کا شکار ہوں گے اور یہ انکے لیے باعث ہلاکت ہوگا۔


جیسا کہ اللہ پاک قرآن  پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۸۳) (پ 1، البقرۃ: 83) ترجمہ: اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کراور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ و (اچھا سلوک کرو) اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو (لیکن) پھر تم میں سے چند آدمیوں کے علاوہ سب پھر گئے اور تم (ویسے ہی اللہ کے احکام سے) منہ موڑنے والے ہو۔

اس آیت میں والدین اور دیگر لوگوں کے حقوق بیان کرنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے بلکہ احادیث میں یہاں تک کہ حقوق اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کی مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: ہم میں مفلص وہ ہے جس کے پاس درہم اور ساز و سامان نہ ہو آپ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز روزہ اور زکوۃ وغیرہ اعمال لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو کسی پر تہمت لگائی تھی کسی کا مال کھایا تھا کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک کو ایک کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں اس کے پاس سے ختم ہو گئی تو اس کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم، ص 139حدیث:2581)

بچوں کی تعلیم و تربیت والدین پر یہ حق ہے کہ بچوں کی اچھی طرح تربیت کرے ان کو شریعت کا پابند بنائیں انہیں دینی ماحول میں رکھے گھر کے ماحول کا اور والدین کی تربیت کا بڑا اثر ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔ (بخاری، 3/298، حدیث: 4775)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو مسلمان ہوتا ہے بعد میں جس طرح کی اس کے والدین جس طرح کی تربیت کریں اس طرح کا بن جاتا ہے اسی لیے والدین کو چاہیے کہ خود بھی شریعت کے پابند رہے اور اولاد کی تربیت بھی اچھی کرے کیونکہ اخلاقی اور شرعی طور پر بھی والدین کا فرض ہے اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خود بھی اچھے اعمال کر کے اور برے اعمال سے بچ کر جہنم سے بچ جاؤ اور اپنے اہل و عیال کی اچھی تربیت کر کے ان کو بھی جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کرنی چاہیے۔

والدین بچوں کو عقیدہ توحید کی تعلیم دیں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں ایک دن نبی پاک ﷺ کے پیچھے (سوار) تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لڑکے! اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا اللہ کا دھیان رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب سوال کرے تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے سوال کرے اور جب مدد مانگے تو اللہ پاک سے مدد مانگے اور جان لے کہ اگر امت اس بات پر جمع ہو جائیں کہ تجھے فائدہ پہنچائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ پاک نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ جمع ہو جائیں کہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے۔ قلم خشک ہو گئے اور صحیفے لپیٹ دیئے گئے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کو عقیدۂ توحید کی تعلیم دیں تاکہ اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف اور اس کی عبادت میں لگی رہیں۔

بچوں سے پیار و محبت کریں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: ایک بدوی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: کیا تم بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ ہم ان کو بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل میں شفقت اور رحمت نکال لی ہے تو اس کا میں مالک نہیں ہوں۔ (بخاری، 4/100، حدیث: 5998)

یعلی عامری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حسن اور حسین نبی کریم ﷺ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ساتھ لگایا اور فرمایا اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔

معلوم ہوا کہ بچوں سے پیار و محبت کرنا ان کو بوسہ دینا سنت ہے اور جو بچوں سے پیار کرتا ہے اللہ اس پر رحم کرتا ہے رسول اللہ ﷺ بچوں سے بڑا پیار کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاس کو اٹھا کر فرض نماز پڑھتے تھے۔ جب رکوع اور سجدہ کرتے تو اس کو نیچے رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اس کو اٹھا لیتے۔ (بخاری، 4/100، حدیث: 5996)

اولاد کے اخراجات باپ کے ذمے ہیں، اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔

جب اولاد کو دودھ پلانے کی وجہ سے مطلقہ عورت کا خرچ اولاد کے باپ کے ذمے ہیں تو اولاد کے اخراجات کا باپ یا ولی ذمہ دار ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ !میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے اپنے آپ پر خرچ کر۔ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اب تو زیادہ جانتا ہے (کہ کہاں ضرورت ہے)۔ (ابو داود، 2/184، حدیث: 1691)

اس سے معلوم ہوا کہ باپ پر اولاد کی اخراجات ضروری ہے جیسا کہ اوپر آیات اور حدیث سے معلوم ہوا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جو غنا کے بعد اور خرچ کرنے میں اہل و عیال سے آغاز کر۔ (بخاری، 1/481، حدیث: 1426)

اہل و عیال کے حقوق پورا کرنے کے بعد جو مال صدقہ کیا جائے وہ بہترین صدقہ ہے۔

جب بچیاں بالغ ہو جائیں تو والدین پردے کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹) (پ 22، الاحزاب: 59) ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں سے اور صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر لٹکایا کریں اس سے جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ کریم نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے وقت اپنے گھروں سے نکلے تو اپنے چہرے ڈھانپ لیں اپنے سروں کے اوپر کی جانب سے اور ایک آنکھ ظاہر کرے راستہ دیکھنے کے لیے۔

بہرحال نبی کریم ﷺ نے بیویوں بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا ہے جس سے واضح رہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے۔ جیسا کہ آج کل باور کرواتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہوا ہے۔ اس اعراض انکار اور بے پردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنی اولاد کو پردے کی تعلیم دینی چاہیے۔

یقینا والدین کے حقوق نہایت اعظم و اہم ہیں کہ اگر والدین کے حقوق کی ادائیگی میں انسان تمام زندگی مصروف عمل رہے تب بھی ان کے حقوق کی ادائیگی سے کما حقہ سبکدوش نہیں ہوسکتا کیونکہ والدین کے حقوق ایسے نہیں کہ چند بار یا کئی بار ادا کردینے سے انسان بڑی الذمہ ہوجائے لیکن جہاں شریعت مطہرہ نے والدین کی عزت و عظمت اور مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے انکے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا وہیں والدین پر بھی اولاد کے کچھ حقوق گنوائے ہیں۔اگرچہ ان حقوق میں سے اکثر کی ادائیگی والدین پر واجب نہیں لیکن اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا، انہیں سچا مسلمان بنانا، دنیا و آخرت میں انہیں کامیاب و کامران دیکھنا اور خود بھی سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو پھر ان حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد تسہیل و تخریج بنام اولاد کے حقوق سے اولاد کے چند حقوق ذکر کیے جاتے ہیں:

پہلا حق: جماع کی ابتدا بسم اللہ شریف سے کرے ورنہ بچہ میں شیطان شریک ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے قربت کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے: بسم اللہ اللّٰہمّ جنبنا الشّیطان وجنب الشّیطان ما رزقتنا یعنی اللہ کے نام سے، اے اللہ ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور جو اولاد تو ہمیں دے اسکو بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔ تو اگر اس صحبت میں انکے نصیب میں بچہ ہوا تو اسے شیطان کبھی نقصان نہ دے سکے گا۔ (بخاری، 4/214، حدیث: 6388) اس حدیث مبارکہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: یہ دعا ستر کھولنے سے پہلے پڑھے۔ پھر فرماتے ہیں: اس صحبت میں نہ شیطان شریک ہو اور نہ بچے کو شیطان کبھی بہکائے۔جیسے شیطان کھانے پینے میں ہمارے ساتھ شریک ہو جاتا ہے ایسے ہی صحبت میں بھی اور جیسے کھانے پینے کی برکت شیطان کی شرکت سے جاتی رہتی ہے ایسے ہی صحبت میں شیطان کی شرکت سے اولاد نالائق اور جناتی بیماریوں میں گرفتار رہتی ہے اور جیسے بسم اللہ پڑھ لینے سے شیطان کھانے پینے میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا ایسے ہی بسم اللہ کی برکت سے صحبت میں شیطان کی شرکت نہیں ہوتی جس سے بچہ نیک ہوتا ہے اور آسیب وغیرہ سے بھی بفضلہ محفوظ رہتا ہے۔

دوسرا حق: کان میں اذان دینا جب بچہ پیدا ہو فورا سیدھے کان میں اذان بائیں میں تکبیر کہے کہ خلل شیطان و ام الصبیان سے بچے۔ بہتر یہ ہے کہ سیدھے کان میں چار مرتبہ اذان اور بائیں کان میں تین مرتبہ اقامت کہی جائے۔ (بہار شریعت، 3/153، حصہ: 15)

ام الصبیان ایک قسم کی مرگی ہے جو اکثر بچوں کو بلغم کی زیادتی اور معدے کی خرابی سے لاحق ہوتی ہے جس سے بچوں کے ہاتھ پاوں ٹیڑھے ہوجاتے اور منہ سے جھاگ نکلنے لگ جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ، 1/221)

تیسرا حق: عقیقہ کرنا ساتویں اور نہ ہوسکے تو چودھویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے،بیٹی کے لئیے ایک، بیٹے کے لئیے دو کہ اس میں بچے کا گویا رہن(گروی) سے چھڑانا ہے۔

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: گروی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس بچے سے پورا نفع حاصل نہ ہوگا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اور بعض نے کہا: بچے کی سلامتی اور نشوونما اور اس میں اچھے اوصاف ہونا عقیقے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مزید فرماتے ہیں: لڑکے کے عقیقے میں دو بکرے اور لڑکی میں ایک بکری ذبح کی جائے یعنی لڑکے میں نر جانور اور لڑکی میں مادہ مناسب ہے اور لڑکے کے عقیقے میں بکریاں اور لڑکی میں بکرا کیا جب بھی حرج نہیں۔نیز اسی میں ہے: لڑکے کے عقیقے میں دو بکریوں کی جگہ ایک ہی بکری کسی نے ذبح کی تو یہ بھی جائز ہے۔

چوتھا حق: اچھا نام رکھنا انبیاء، اولیاء یا اپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں انکے نام پر نام رکھے کہ موجب برکت (باعث برکت) ہے خصوصا نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک نام کی بےپایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لئیے اسکا نام محمد رکھے، تو وہ اور اسکا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس دستر خوان پر کوئی احمد یار محمد نام کا ہو، تو اس جگہ پر ہر روز دو بار برکت نازل کی جائے گی۔

پانچواں حق: یکساں حقوق اپنے چند بچے ہوں تو جو چیز دے سب کو یکساں و برابر دے، ایک کو دوسرے پر بےفضیلت دینی(دینی فضیلت کے بغیر)ترجیح نہ دے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے میں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی فضل و شرف کی وجہ سے ہو، لیکن اگر سب برابر ہوں تو پھر ترجیح دینا مکروہ ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: اگر بیٹا حصول علم میں مشغول ہو نہ کہ دنیوی کمائی میں تو ایسے بیٹے کو دوسری اولاد پر ترجیح دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اللہ پاک نے جس طرح کئی قسم کے احکام بیان فرمائے ہیں اسی طرح ہر ایک کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں جیسے اولاد پر والدین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق اسی طرح والدین پر اولاد کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں۔

اولاد کے حقوق قرآن و حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتے ہیں قرآن پاک میں رب پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-(پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔اس آیت سے اولاد کی اہمیت و حق بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں غربت کی وجہ سے بھی قتل نہ کیا جائے۔

اولاد کے 5 حقوق:

1) اولاد کے اچھے نام رکھے جائیں برے نام نہ رکھے جائیں کہ یہ بدفال ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسکے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کیلیے اسکا نام محمد رکھے تو وہ اور اسکا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

2) چند بچے ہو تو جو چیز دے سب کو یکساں دے ایک کو دوسرے پر بےفضیلت دینی ترجیح نہ دے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے: اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینےمیں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی فضل و شرف کی وجہ سے ہو لیکن اگر سب برابر ہو تو پھر ترجیح دینا مکروہ ہے۔ (الخانیۃ، 2/290)

3) جب تمیز آئے ادب سکھائے کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، چلنے، حیا، ماں باپ استاد پیرو مرشد کی اطاعت و آداب کے طور طریقے بتائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اولاد کا والد پر یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)ارشاد فرمایا: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطیہ نہیں دیا، جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

4) حضور ﷺ اور انکے آل و اصحاب و اولیاء و علماء کی محبت و تعظیم اولاد کے دل میں ڈالے کہ اصل سنت و زیور ایمان بلکہ باعث بقائے ایمان ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اسکی اولاد اسکے والدین اور تمام لوگو سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، 1/17، حدیث: 14)

5)اولاد کو فرض نماز کے ساتھ ساتھ دیگر فرائض و عبادت کی بھی تعلیم دیتا رہے اور قرآن پاک کی محبت و تعلیم بھی سکھائے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: (1)اپنے نبی ﷺ کی محبت (2) اہل بیت کی محبت اور(3)قرآن پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)

میری آنے والی نسلیں تیرے عشق ہی میں مچلیں انہیں نیک تو بنانا مدنی مدینے والے

یہ چند حقوق بیان ہوئے اسکے علاوہ بھی اولاد کے والدین پر کئی حقوق ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہےکہ وہ ہمیں اولاد کی اچھی تربیت کرنے ان کے حقوق کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

اولاد اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے جس طرح اولاد کے ذمے ماں باپ کے حقوق ہیں اس طرح ماں باپ کے ذمے بھی اولاد کے حقوق ہیں بعض اولاد ماں باپ کے لیے نعمت اور بعض اولاد زحمت بن جاتی ہے اچھی تربیت سے بچہ معاشرے میں ایک اچھا فرد بن کر ابھرتا ہے اسی طرح اسلامی تربیت نہ کرنے سے بدترین فرد بن جاتا ہے۔ ماں باپ پر اولاد کے بہت سے حقوق ہیں ان میں سے پانچ ذکر کیے جاتے ہیں:

1ماں باپ پر اولاد کا ایک حق یہ ہے بچے کا نام اچھا نام رکھے جیسے عبد اللہ عبد الرحمن وغیرہ یا انبیاء علیہم السلام اولیاء اللہ اپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے نام پر نام رکھے یہ باعث برکت ہے خصوصاً نام پاک محمد ﷺ پر رکھے حدیث شریف میں ہے: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

2 حق یہ ہے بچے کا عقیقہ کرے حدیث پاک میں ہے کہ بچا اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور نہ ہو تو چودہویں دن ورنہ اکیسویں دن کرے بیٹی کیلئے ایک اور بیٹے کے لیے دو ایک ران دائی کو دے کہ بچہ کی طرف سے شکرانہ ہے۔ (اولاد کے حقوق، ص 16)

3۔ جب بچہ سات برس کا ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دے پیار سے سمجھائے جب دس برس کا ہو جائے تو مار کر پڑھائے اور اس عمر میں اپنے ساتھ اور کسی کے ساتھ نہ سلائے جدا بچھونے جدا پلنگ پر اپنے پاس رکھے مناسب موقع پر سمجھائے اور نصیحت کرے مگر بدعا نہ کرے کہ یہ ان کے لیے سببِ اصلاح نہیں بلکہ زیادہ فساد کا اندیشہ ہے۔

4بیٹیوں سے زیادہ دلجوئی رکھے کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے اور ان کو سورۂ نور کی تعلیم دے عشق مجازی پر مشتمل کتابیں اور فسق و فجور بھرپور غزلوں کو نہ پڑھنے دے کہ نرم لکڑی جدھر جھکائے جھک جاتی ہے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عورتوں کو سورۂ یوسف کی تفسیر ترجمہ نہ پڑھایا جائے اس میں عورتوں کی خفیہ چالوں کا ذکر ہے پھر بچوں کو خرافات شاعرانہ میں ڈالنا کب بجا ہو سکتا ہے۔ (اولاد کے حقوق، ص 26)

5 علم دین خصوصاً وضو غسل نماز روزہ کے مسائل توکل قناعت زہد اخلاص تواضع امانت صدق عدل حیا سلامت صدر ولسان ، (دل و زبان اور دیگر اعضاء کی سلامتی) خوبیوں کے فضائل پڑھائے حرص و طمع حب دنیا حب جاہ ریا عجب تکبر خیانت کذب ظلم فحش غیبت حسد کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل پڑھائے۔ (اولاد کے حقوق، ص 21)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اولاد کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


الله پاک نے اگرچہ والدین کا حق اولاد پر نہایت عظیم رکھا ہے یہاں تک کہ اپنے حق کے برابر اس کا ذکر فرمایا کہ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-21،لقمٰن 14) ترجمہ: کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ مگر اولاد کا حق بھی والدین پر عظیم رکھا ہے،کہ اولاد مسلمان ہونے،سب سے قریبی پڑوسی ہونے،قریبی رشتہ دار ہونے،اور بالخصوص ایک ہی کنبے کے ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ حسن سلوک کے حقدار ہیں۔اولاد اگر نیک ہو تو جہاں دنیا میں راحت و سکون کا ذریعہ ہوتی ہے وہیں آخرت میں بھی بخشش کا سامان ہے۔ویسے تو اولاد کے حقوق ایک طویل موضوع ہے لیکن یہاں 5 مقدّم حقوق کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ چنانچہ

اچھی قوم میں نکاح کرے بیوی کے انتخاب کے سلسلے میں مرد کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے کہ عورت کی اچھی یا بری صفات کل اولاد میں منتقل ہوں گی،نکاح کے سلسلے میں عورت کے اہل خانہ کے طرز زندگی کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور پر نور،خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے نطفہ کےلیے اچھی جگہ تلاش کرو کہ عورتیں اپنے ہی بہن بھائیوں کے مشابہ بچے پیدا کرتی ہیں۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال، 6/423)

نیز نکاح کے وقت ناجائز و حرام رسومات و اعمال کے ارتکاب سے اجتناب کرے۔

پیدائش کے بعد کے حقوق کان میں اذان دینا،کسی نیک شخص سے گھٹی دلوانا،اچھا اور خوش معنی نام رکھنا،بال مونڈوانا،عقیقہ کرنا وغیرہ۔

کسی کامل پیر سے بیعت صوفیاء فرماتےہیں کہ ایک دن کے بچے کو بھی بے پیرا نہیں چھوڑنا چاہیئے لہذا بچے کا اہم ترین حق یہ بھی ہے کہ اسے کسی پیر کامل سے بیعت کروایا جائے۔ فی زمانہ جامع شرائط پیر کا ملنا کم یاب ہے لہذا جو کسی سےبھی بیعت نہیں ہے اسے چاہیئے کہ اپنے ایمان کی فکر کرے اور فوراً سلسلہ عالیہ قادریہ کے عظیم بزرگ شیخ طریقت، امیر اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے ذریعے سلسلہ قادریہ میں داخل ہو جائے اور سلسلہ قادریہ کی عظمتوں کے تو کیا کہنے! کہ اس کےعظیم پیشوا حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ قیامت تک کے لیے اپنے مریدوں کے توبہ پر مرنے کے ضامن ہیں۔

دینی تعلیم سکھائے۔ اپنی اولاد کو کامل مسلمان بنانے کے لیے زیور تعلیم سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے والدین کوچاہیئے کہ اپنی اولادکو ضروری دینی تعلیم جیسےعقائد،عشق رسول ﷺ،محبت صحابہ و اہل بیت،نماز و روزے کے مسائل، دیگر واجبات و فرائض،حلال و حرام،خرید و فروخت،اور حقوق العباد وغیرہ کے احکامات ضرور سکھائیں،انہیں باقاعدہ تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا سکھائیں،اس کےبعد چاہیں تو دنیاوی تعلیم جس میں شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو دلوائیں لیکن فی زمانہ بہتری اسی میں ہے کہ درس نظامی کروائیں تاکہ وہ عالم بننے کے بعد معاشرے میں لائق تقلید کردار کا مالک بنےاور دوسروں کو بھی علم دین سکھائے۔

بچوں کو ان امور سے بچائیں بچوں کی اچھی تربیت بھی ان کا ایک اہم ترین حق اور والدین کا اہم ترین فریضہ ہے لہذا اچھی تربیت کے لیے بچوں کو بد مذہبوں کی صحبت، سوال کرنے(مانگنے)،دوسرے بچوں کا الٹا نام لینے،تمسخر، کسی کے عیب معلوم ہونے پر اسےبلا مصلحت شرعی لوگوں پر ظاہر کرنے،تکبر،جھوٹ، غیبت،لعنت کرنے،چوری،حسد، بغض وکینہ،گالی دینے،وعدہ خلافی وغیرہ جیسی بری صفات سے بچانے کی حتی المقدور کوشش کرے۔

اللہ پاک ہر اولاد کو والدین کے لیے انکی حیات میں مسرّت و شادمانی، بعد وفات صدقۂ جاریہ اور آخرت میں بخشش کا سامان بنائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

میری آنے والی نسلیں، تیرے عشق ہی میں مچلیں انہیں نیک تم بنانا مدنی مدینے والے


 اولاد اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے جو کہ وہ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔ جس طرح اولاد پر والدین کے بہت سے حقوق ہیں اسی طرح بحیثیت والدین ان پر بھی اولاد کے کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے اور ان حقوق سے آگاہی بھی حاصل کرنی ضروری ہے، یہاں اولاد کے پانچ حقوق بیان کیے جاتے ہیں:

اولاد کا پہلا حق جب بچہ پیدا ہو تو فورا ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں تاکہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ رہے اور اسے یہ معلوم ہو کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے اور کسی عالم دین یا پرہیزگار انسان سے کوئی میٹھی چیز چبوا کر بچے کے منہ میں ڈال دیں تاکہ بچہ شیریں زبان اور با اخلاق ہو۔ اور ان کی پیدائش کے ساتویں دن ماں باپ ان کے سر منڈا کر بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کریں۔ اور بچے کا کوئی اچھا سا نام رکھیں ہرگز ہرگز بچوں کے برے نام نہ رکھے جائیں بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن اور اولیائے کرام کے ناموں پر ان کے نام رکھے جائیں۔

خصوصا اگر لڑکا ہو تو اس کا نام محمد رکھیں اس کی بڑی برکات ہیں۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (1)

اولاد کا دوسرا حق بچوں سے پیار اور محبت سے پیش آیا جائے اور ہر معاملے میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی کرے ان کی تربیت اور پرورش میں پوری پوری کوشش کرے۔ بچوں کی جائز ضروریات کو پورا کرے اور بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور تکلیفوں سے بچائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ سب سے زیادہ بچوں پر مہربان تھے۔ (2) اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ بچوں کے ساتھ شفقت بھرا رویہ اختیار کریں اور اگر کبھی ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو سب کے سامنے انہیں مارنے اور ڈانٹنے کے بجائے انہیں علیحدہ سے سمجھایا جائے اور ان کی اصلاح کی جائے کیونکہ ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار سے بچہ باغی ہو جاتا ہے اور ماں باپ کا فرمانبردار نہیں رہتا۔

اولاد کا تیسرا حق بچوں کو ان کی ضرورت کی چیزیں لے کر دی جائیں یعنی ان کے رہنے کے لیے گھر کا مناسب انتظام کریں اور پہننے کے لیے مناسب کپڑے دیں اور اچھی تعلیم دلوائیں اور بچے کو پاک کمائی سے پاک روزی دے کہ ناپاک مال ناپاک ہی عادتیں ڈالتا ہے۔ اگر بچے بیمار پر جائیں تو ان کا علاج کروائے۔ چند بچے یا بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں یعنی برابر دیں ہرگز کمی بیشی نہ کریں ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔

فتاوی قاضی خان میں ہے: امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: اولاد میں سے کسی کو زیادہ دینے میں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی شرف و فضل کی وجہ سے ہو لیکن اگر سب برابر ہوں تو ترجیح دینا مکروہ ہے۔ (3)

بچیوں اور بچوں کو برابر کی چیزیں دیں اور انصاف کریں اور بچیوں کا خاص طور پر خیال کریں کہ ان کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔

اولاد کا چوتھا حق انہیں دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا جائے بچوں کو سب سے پہلے مدرسۃ المدینہ سے درست تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی دینی تربیت بھی کرے اور ان کو بری صحبت سے بچائے۔ ان کو طہارت، پاکی، نماز، وضو، اور غسل کا درست طریقہ بتائے۔

سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دیا جائے اور 10 سال سے نماز مار کر پڑھائے (لیکن منہ اور سر پر نہ مارے) اپنی اولاد کو نیک بنائیں کیونکہ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان تربیت نشان ہے: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی ﷺ کی محبت، اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن پاک کیونکہ قرآن پاک پڑھنے والے لوگ انبیاء و اصفیاء کے ساتھ اللہ پاک کے سایہ رحمت میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا بچوں گا۔ (4)

اولاد کا پانچواں حق ان کی مناسب تعلیم دلوانے کے بعد ان کی اچھی جگہ شادی کروا دیں اور ان کی رضامندی سے شادی کروائی جائے یعنی نکاح کرتے وقت ان کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھا جائے اور شادی کرواتے وقت دین کو فوقیت دی جائے کہ اگر بیٹی ہے تو اس کے لیے نیک لڑکا پسند کیا جائے اور کفو میں اس کی شادی کروائی جائے اور اگر بیٹا ہے تو اس کے لیے نیک عورت کا انتخاب کیا جائے نہ کہ حسن و جمال اور حسب و نسب کو فوقیت دی جائے اپنی اولاد کو ہنر بھی سکھائے جائیں جیسے لڑکیوں کو سلائی کڑھائی اور کھانا پکانا وغیرہ اور لڑکوں کو بزنس کے طریقے، حلال روزی کمانے کے طریقے وغیرہ سکھائے جائیں تاکہ وہ حلال روزی کما کر کھا سکیں۔

اپنی اولاد کو وراثت سے محروم نہ کیا جائے انہیں شریعت کے مطابق وراثت سے بھی حصہ ملنا چاہیےخاص طور پر بیٹی کو بھی وراثت سے محروم نہ کیا جائے۔

اللہ پاک ہمیں اپنی اولاد کی نیک تربیت کرنے اور انہیں اچھے آداب سکھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات:

1۔ کنز العمال، جز: 16، 8/175، حدیث: 45215

2۔ مسلم، ص 974، حدیث:6026

3۔ اولاد کے حقوق، ص 20۔ الخانیۃ، 2/290

4۔جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)


یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جہاں عزیز و اقارب کے حقوق کی تاکید کی گئی ہے وہاں ذوی الارحام کو خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے اور جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے بھی والدین پر کچھ حقوق مقرر کیے گئے ہیں جن کو ادا کرنا والدین کے لیے ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے والدین پر اولاد کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔زبان کھلتے ہی اللہ اللہ پھر پورا کلمہ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ سکھائے۔

2۔کھانے،پینے،ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے کے آداب سیکھائے، بزرگوں کی تعظیم ماں باپ اور اساتذہ کی اطاعت کے طریقے و ادب بتائے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: باپ پر اولاد کا حق ہے کہ وہ انہیں بہترین ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔(شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

3۔حضور اقدس ﷺ کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ یہ اصل ایمان ہے۔

4۔حضور پرنور ﷺ کے آل و اصحاب و اولیاء و علماء کی محبت و عظمت کی تعلیم دے کہ یہ باعث بقائے ایمان ہے اور قرآن سکھائے۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس کی ترغیب موجود ہے، چنانچہ فرمان آخری نبی ﷺ ہے: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ اپنے نبی کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرأت قرآن۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)

5۔ بیٹی کے حقوق میں سے ہے کہ اس کے پیدا ہونے پر نا خوشی نا کرے بلکہ نعمت الہٰیہ جانے، اسے سینا پرونا کاتنا، کھانا پکانا سکھائے اور سورۂ نور کی تعلیم دے۔ جیسا کہ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: عورتوں کو چرخہ کاتنا سکھاؤ اور انہیں سورۂ نور کی تعلیم دو۔ (شعب الایمان، 2/447، حدیث: 2453)

اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی کامل ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین