اولاد کے 5 حقوق از بنت محمد نعیم احمد،فیضان عائشہ
صدیقہ مظفر پورہ سیالکوٹ
اولاد والدین کے لئے اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے
جس کا کوئی نعم البدل نہیں اور والدین پر لازم ہے کہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور
اپنی اولاد کے تمام حقوق کو ادا کریں ان کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھیں تاکہ
وہ اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن کر زندگی گزاریں۔ اولاد کے بہت سے حقوق ہیں حقوق
جن میں سے چند یہ بھی ہیں:
(1): والدین کو چاہیے کہ تمام اولاد کو برابری
حیثیت دیں۔
(2): اولاد کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کریں۔
(3): اولاد سے محبت و شفقت کریں۔
(4): اولاد کی تربیت کا بندوبست کریں۔
(5): اولاد کا حق ہے کہ والدین اسکے ساتھ نرم رویہ
اختیار کریں۔
(6): بچے کا اچھا نام رکھیں برا نام نہ رکھیں کہ برے
نام سے بڑا اثر پڑتا ہے۔
(7): والدین کو چاہیے کہ اولاد کو بزرگوں کا احترام
اور چھوٹوں کی عزت کرنی سکھائیں۔
(8): والدین کو چاہیے کہ اولاد کو دینی تعلیم دینے
کے لئے مدرسہ میں پڑھائیں۔
(9): والسین لو چاہیے کہ اولاد کو حلال کھانا
کھلائے اور انہیں بتائیں کہ حلال ہی کھانا چاہیے۔
(10): والدین بچی کو بچپن ہی سے پردہ کرنے کی تربیت
دیں تاکہ ان کو بڑی ہو کر پردہ کرنے میں آسانی ہو۔
(11): والدین اولاد کو دوسروں کی مدد کرنا سکھائیں۔
(12): والدین بچپن ہی سے بچوں کو جیب خرچ دینا شروع
نہ کردیں بلکہ خود ہی ان کو گھر میں کھانے پینے کی چیزیں لا کر دیا کریں۔
(13): والدین کو چاہیے کہ بچوں کو موبائل سے دور
رکھا کریں۔
(14): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں۔
(15): والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو دنیوی
تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی بھی سکھائیں۔
(16): جب اولاد بڑی ہوجائے تو والدین کو چاہیے کہ
کسی نیک خاندان میں انکی شادی کر دیں۔
(17): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو سب کے ساتھ
مل جل کر رہنے کی تربیت کریں۔
(18): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو اپنے کام
خود کرنے کی تربیت دیں۔
(19): والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو پتنگ اڑانے
سے منع کریں۔
(20): والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو بچپن ہی سے
نماز پڑھنا اور روزے رکھنا سکھائیں تاکہ ان کو بڑے ہونے تک بھی یہ عادت ان کی
موجود رہے۔
(21): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو اپنے دین کے
مطابق رہنا سکھائیں۔
(22): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو جھوٹ بولنے
سے منع کریں اور سچ بولنا سکھائیں۔
حقوق العباد میں سے ایک حق یہ ہے کہ اولاد کو اس کا
حق دیا جائے۔ جہاں ماں باپ کے بےشمار حقوق ہیں وہاں اولاد کے بھی بہت سارے حقوق
ہیں جن کا پورا کرنا والدین پر لازم ہے۔
حق زندگی: زمانہ جاہلیت
میں لوگ غیرت کے نام پر اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے۔اسلئے اولاد کا ایک حق
یہ بھی ہے کہ اسے زندگی بخشی جائے بلکہ اس کی اعلیٰ پرورش کی جائے نہ کہ اس کی
زندگی چھین لی جائے۔ آج کے دور میں بھی بہت سے لوگ اپنی اولاد قتل کر دیتے ہیں اور
اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔
پرورش:سب سے پہلے جو
ضروری حق ہے وہ اولاد کی پرورش ہے کہ جس ماحول میں اولاد پرورش پاتا ہے وہ اسی
ماحول سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں سنتوں بھرا دینی ماحول ہے تو آپ کی
اولاد بھی نیکوں کی صحبت میں اچھی پرورش پائی گی اور اگر دنیاوی محبت میں گرفتار
گناہوں بھرا ماحول ہو تو آپ کے اولاد بھی ویسے ہی بڑے ہوں گے۔ اکثر والدین لڑکیوں
کی نسبت لڑکوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کا کل سرمایہ ہوتے ہیں اور
لڑکوں کو لڑکیوں کی نسبت اچھی پرورش دی جاتی ہے اسے اچھی تعلیم دی جاتی ہے اور اس
کی ہر خواہش پوری کی جاتی ہے۔ جب لڑکیوں کو اچھی تعلیم دی جائے تو لوگوں کی باتوں
کی وجہ سے چھڑوا دیا جاتا ہے کہ ویسے بھی پڑھا کر کیا فائدہ پھر بھی اگلے گھر جاکر
گھر، بچوں کو ہی سنبھالے گی۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کو بھی ان کا حق دیا
جائے۔
تربیت:سب سے اہم
ترین فریضہ جو والدین پر ضروری ہے وہ ہے اولاد کی تربیت۔ کیونکہ آپ اپنی اولاد کی
تربیت جسطرح کریں گے آپ کی اولاد بھی ویسے ہی تربیت پائے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ
ہماری اولاد اچھی تربیت پائے تو سب سے پہلے والدین کو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی ہے
کیونکہ بچہ بڑوں سے دیکھ کر سیکھتا ہے۔ اگر آپ خود اپنے بڑوں اور چھوٹوں کا ادب
واحترام نہیں کریں گے تو آپ کا بچہ آپ سے سیکھ کر ایسا ہی کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کیلئے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر
ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
ایک اور روایت میں ہے: اولاد کیلئے باپ کا کوئی
عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)
اچھا نام رکھنا:بچوں کا یہ
بھی حق ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان کا اچھا نام رکھا جائے جس کا
معنیٰ بھی اچھا ہو۔ جیسے رسول اللہ ﷺ کے پیارے صحابہ و صحابیات کے نام۔
تعلیم: اولاد کا ایک
حق یہ بھی ہے کہ اسے ماحول کے مطابق تعلیم دی جائے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ
دینی تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ دنیاوی تعلیم دنیا میں ہی رہ جاتی ہے مگر دینی تعلیم
آخرت میں بھی کام آتی ہے۔ اسلئے اپنی اولادوں کو دین کے مطابق بھی تعلیم دیں۔
وراثت:جب بھی والدین
کو بہتر محسوس ہوتا ہے اپنی اولاد کو وراثت کا حصہ عطا کر دیں۔ حصہ عطا کرتے وقت
تمام اولاد کو برابر حصہ عطا کیا جائے خاص کر بیٹیوں کو۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ
بیٹیوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیتے اور خود کو گناہگار بنا دیتے ہیں۔
انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ
تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت
سب سے اہم فریضہ ہے۔اللہ رب العزت قیامت کےدن اولاد سے والدین کے متعلق سوال کرنے
سےپہلے والدین سے اولاد کے متعلق سوال کرے گا، کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر
حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین
کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا
بھی حکم دیا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے
ہیں۔ شیر خوارگی سے لڑکپن اور جوانی کےمراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار
ہوتی ہےاس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتاہے۔ اولادکے لیے پاک اور حلال
غذا کی فراہمی والدین کے ذمے ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ رزق حلال کمائیں۔ والدین
جھوٹ بولنے کےعادی ہیں تو بچہ بھی جھوٹ بولے گا۔ والدین کی خرابیاں نہ صرف ظاہری
طور پر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ باطنی طور پر یہ خرابیاں اس کے
اندر رچ بس جاتی ہیں۔ والدین کےجسم میں گردش کرنے والےخون میں اگر حرام، جھوٹ،
فریب، حسد، اور دوسری خرابیوں کے جراثیم موجود ہیں تویہ جراثیم بچے کوبھی وراثت
میں ملیں گے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح
طریقے سے ادا کرنا ہے اوران کو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ
اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ
احسان کیا جائے۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کے حقوق میں
کتاہیوں سے بچا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی
نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوشک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے
تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس
کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت، انہیں اچھا، ذمہ دار،
دوسروں کی خیر خواہی کرنے والا مثالی اور باکردار مسلمان بنانا والدین کی ذمہ داری
ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کے تربیت اولاد کے واقعہ کو بیان
کیا، ان کی نصیحتیں تربیت اولاد کیلئے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مختلف اندازسے حضورﷺ
نے احکامات صادر فرمائے، حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی
اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو
(نماز نہ پڑھنے پر) اسے مارو اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو۔ (ابو
داود، 1/208، حدیث: 494)
بچوں کے عزت و احترام کو برقرار رکھتے ہوئے ان کو آداب
سکھلانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب
سکھلاؤ۔ (ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671) بچوں کو نظم وضبط، اچھی عادات سکھانا اور
ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا والدین کا فرض ہے، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تم
میں سے کوئی شخص اپنے بچے کو ادب سکھاتاہے، یہ اس کیلئے اس کام سے بہترہے کہ وہ ہر
روز ایک صاع خیرات کرے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ہر بچہ
فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتاہے اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں۔ (بخاری،
3/298، حدیث: 4775) اس سے واضح ہوا کہ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے کھانے پینے، گفتگو
کرنے، والدین اوربڑوں کی عزت وتکریم کرنے، پاکیزگی اورصفائی کاخیال رکھنے جیسے آداب
سکھلانا والدین کی ذمہ داری ہے۔
انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ
تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت
سب سے اہم فریضہ ہے۔ اللہ رب العزت قیامت کے دن اولاد سے والدین کے متعلق سوال
کرنے سے پہلے والدین سے اولاد کے متعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے
اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے
ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ
احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
اولاد کے بہت سارے حقوق ہیں جن میں سے 5 مندرجہ ذیل
ہیں:
1۔ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول
الله! میں کس کے ساتھ بھلائی کروں؟ ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے ساتھ۔ اس نے عرض کی: میرے ماں باپ وفات پاچکے ہیں
ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ بھلائی کرو جیسے تم پر تمہارے والدین کا حق ہے
اسی طرح تم پر تمہاری اولاد کا بھی حق ہے۔ (الادب المفرد، ص 48، حدیث: 94)
2۔ بچے کا ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام
رکھا جائے اور اس سے تکلیف (یعنی بالوں) کو دور کیا جائے، جب وہ چھ سال کا ہو جائے
تو اسے ادب سکھائے اور جب 10 سال کا ہو جائے تو اس کا بستر الگ کر دیا جائے اور جب
13 سال کا ہو جائے تو اسے نماز نہ پڑھنے پر مارے اور جب 16 سال کا ہو جائے تو اس
کا باپ اس کی شادی کرادے پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر کے کہے میں نے تجھے ادب سکھایا
تعلیم دی اور تیرا نکاح کیا میں دنیامیں تیرے فتنے سے اور آخرت میں تیرے عذاب کی
اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن كبرى، 2/324،
حدیث: 3236)
3۔ باپ پر اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے
اچھی طرح ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)
4۔ ہر لڑکا یا لڑکی اپنے عقیقہ میں گروی ہے، ساتویں
دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے اور اس کاسر مونڈا جائے۔ (ابو داود، 3/141، حدیث: 2837)
5۔ اپنی اولاد کو عطا کرنے میں برابری رکھو۔ (بخاری،
2/171، حدیث: 4294)
انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ
تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت
سب سے اہم فریضہ ہے۔ اللہ رب العزت قیامت کےدن اولاد سےوالدین کے متعلق سوال کرنے
سےپہلے والدین سےاولاد کےمتعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر
حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین
کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا
بھی حکم دیا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے
ہیں۔ شیر خوارگی سے لڑکپن اور جوانی کےمراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار
ہوتی ہےاس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتاہے۔ اولادکے لیے پاک اور حلال
غذا کی فراہمی والدین کے ذمے ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ رزق حلال کمائیں۔ والدین
جھوٹ بولنے کےعادی ہیں تو بچہ بھی جھوٹ بولے گا۔ والدین کی خرابیاں نہ صرف ظاہری
طور پر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ باطنی طور پر یہ خرابیاں اس کے
اندر رچ بس جاتی ہیں۔ والدین کےجسم میں گردش کرنے والےخون میں اگر حرام، جھوٹ،
فریب، حسد، اور دوسری خرابیوں کے جراثیم موجود ہیں تویہ جراثیم بچے کوبھی وراثت
میں ملیں گے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح
طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ
اور خیانت ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ
الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ
اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28،
التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں
کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور
فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں
حکم دیا جاتا ہے۔
حضرت علی نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا: ان
(اپنی اولاد) کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ۔
1۔ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے
سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے۔ (ترمذی، 3/ 383، حدیث: 1959)یعنی اچھی تربیت کرنا
اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔
2۔ اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے
درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو۔ مطلب یہ ہے کہ ظاہری تقسیم کے
اعتبار سے سب بچوں میں برابری کرنی چاہیے،کیونکہ اگر برابری نہ ہو تو بچوں کی دل
شکنی ہوتی ہے۔ہاں! فطری طور پر کسی بچے سے دلی طور پر زیادہ محبت ہو تواس پر کوئی
پکڑ نہیں،بشرطیکہ ظاہری طور پر برابری رکھے۔ حدیث میں تین بارمکرر برابری کی
تاکیدکی ہے جو اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے
3۔ جب وہ (یعنی بچے) سات سال کے ہو جائیں تو انہیں
نماز کا حکم دو اور دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو، اور ان کے
بستروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494)
4۔ اپنے آپ کو، اپنی اولاد کو، اپنے خادموں کو اور
اپنے مال کو بد دعانہ دو (ایسا نہ ہو) کہ
وہ گھڑی دعا کی قبولیت کی ہو اور تمہاری دعا قبول ہو جا ئے۔ (ابو
داود، 2/126، حدیث: 1532)
5۔ اپنی اولا دکورشوت، سود، چوری اور ملاوٹ جیسا
حرام مال نہیں کھلانا چاہیے کیونکہ یہ ان کی بدبختی، سرکشی اور نافرمانی کا سبب
بنتا ہے۔
اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے، اور برابری
نہ کرنا ظلم شمار ہوگا۔اور اس کا خیال نہ رکھنا اولاد میں احساس کمتری اور باغیانہ
سوچ کو جنم دیتا ہے، جس کے بعد میں بہت بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ
تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین
انسان تمام مخلوق میں افضل اور زمین پر الله رب
العزت کا نائب ہے اس لئے اسے بہت سےفرائض سونپے گئے ہیں جن میں اولاد کی تربیت
کرنا ایک اہم فرض ہےکل قیامت کے دن والدین سے ان کی پرورش کے متعلق سوال ہوگا والدین
کی یہ ڈیوٹی الله کریم پاک کی طرف سے لگائی گئی ہے ماں پر لازم ہے کہ وہ بچپن سے
ہی اپنے بچے کی تربیت کرے کہ ماں بچے کی پہلی درسگاہ ہے اور والد کو چاہیے کہ وہ
اپنی اولاد کے لئے حلال رزق کمائے کھلائے تاکہ اولاد نیک ہو۔ قرآن مجید میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ
اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا
مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ
یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان:
اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی
اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی
نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں والدین کے ذمے اہم کام کی ایک
ذمہ داری اور اولاد کی بہترین تربیت کا حکم ارشاد کیا گیا ہے اس آیت مبارکہ کی
تفسیر میں حضرت علی فرماتے ہیں: اپنی اولاد کو تعلیم دو اور انہیں ادب کرنا سکھاؤ۔
اولاد کی تربیت کے حوالے سے آقا ﷺ کے فرامین سے
رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
1 ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ پر اولاد کا یہ
حق ہے کہ وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400،
حدیث: 8658)
2۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: کوئی باپ اپنی اولاد کو اس
سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھائے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)یعنی
اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لئے سب سے بہترین
عطیہ ہے۔
3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب وہ یعنی بچے سات سال
کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے
پر ان کو مارو اور ان کے بستروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دو۔(ابو داود، 1/208،
حدیث: 494)
4۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ساتویں دن بچے کا
عقیقہ کیا جائے۔ اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بال وغیرہ دور کئے جائیں اور جب چھ
سال کا ہو تو اسے ادب سکھایا جائے۔ جب وہ نو سال کا ہو تو اس کا بچھونا علیحدہ کر
دے جب تیرہ سال کا ہو جائے تو اسے نماز کے لئےتو اسے نماز کے لئے مارے اور جب وہ
سولہ سال کا ہو تو باپ اس کی شادی کردے۔پھر آقا ﷺ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا
ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ میں نے تجھے ادب سکھایا۔تعلیم دیااور تیری شادی کردی میں
دنیا کے فتنے اور آخرت کے عذاب سے تیرے لئے اللہ پاک کی پناہ چاہتا ہوں۔ (طبقات الشافیہ
الکبری للسبکی، 6/318)
5۔حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
سجدہ کی حالت میں آپ کی گردن پر سوار ہو گئے آپ نے سجدہ طویل کر دیا۔ صحابہ کرام
سمجھےکہ شاید کوئی بات ہو گئی ہو۔جب آپ نے نماز مکمل کر لی تو صحابہ کرام نے عرض
کی یارسول اللہ ﷺ آپ نے بہت طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ ہم سمجھے کو کوئی بات واقع
ہو گئی ہے آپ نے فرمایا: میرا بیٹا مجھ پر سوا ر ہو گیا تھا تو میں نے جلدی کرنا
مناسب نہ سمجھا تاکہ وہ اپنی خوشی (حاجت) پوری کرلے۔ (نسائی، ص 196، حدیث: 1138)
ان احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہواکہ اولاد کو سکھانا
اسے بولنے کا ادب و طریقہ بتانا ان کے اچھے نام رکھنا نماز کو اس کے وقت میں ادا
کرنا یہ سب سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے اللہ پاک والدین کو اولاد کے اولاد کو
والدین کے اور ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اولاد الله پاک کی ایک عظیم نعمت ہے جس کی اہمیت کا
اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس سے محروم ہیں اولاد جیسی خوبصورت نعمت کا تقاضہ
یہ ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بہت سے فرائض انجام
دینے کا حکم دیا ہے جن میں ایک فریضہ اولاد کی تربیت ہے جس کا طریقہ یہ ہے ان کی صحیح
اسلامی تربیت کی جائے اور شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ان کی پرورش کی
جائے اولاد کی پرورش اور دیکھ بھال ماں باپ کی قانونی زمہ داری ہے اولاد کے حقوق
احادیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
اولاد کے 5 حقوق
1رسول اکرم نور مجسم،شاہ بنی آدم ﷺ کا فرمان عظمت
نشان ہے: الله پاک اس باپ پر رحم فرمائے جو اپنی اولاد کی نیک کام میں مدد کرتا ہے۔
2 آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو عطا کرنے
میں برابری رکھو۔ (بخاری، 2/171، حدیث:
4294)
3 فرمان آخری نبی ﷺ: باپ پر اولاد کے حقوق میں سے
یہ بھی ہے کہ اس اچھی طرح ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400،
حدیث: 8658)
4میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ ﷺ کا فرمان
عالیشان ہے: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب دے، وہ اس کے لئے ایک صاع صدقہ کرنے سے
بہتر ہے۔(ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
5 سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا: باپ کے ذمے بھی اولاد
کے حقوق ہیں جس طرح اولاد کے ذمہ باپ کے حقوق ہیں۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا جس والدین کے اولاد
پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے بھی والدین پر حقوق ہیں اور جیسے الله تعالیٰ نے
ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ
احسان کرنے کا حکم بھی دیا اولاد کی اچھی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے اس
تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اس لئے سب سے پہلے اپنے اخلاق و
عادات درست کر کے ان کے لئے ایک نمونہ بنیں اس کے بعد ان کے عقائد و افکار اور
نظریات کو سنوارنے کے لیے بھر پور محبت کریں۔
جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اور ان کو پورا
کرنا اولاد پر فرض ہے اسی طرح کچھ حقوق والدین پر بھی اولاد کے ہیں جنکو پورا کرنا
والدین پر لازم ہے۔ ماں بچے کی پہلی درس گاہ ہے اس لیے ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچے
کی بچپن سے ہی اچھی تربیت کرے تا کہ بچہ جب بڑا ہو تو باادب بنے۔ والد کو چاہیے کہ
اپنے بچوں کو حلال رزق کما کر کھلائے تاکہ بچے نیک بنے کیو نکہ حرام مال سے والد
کی اپنی دنیا اور آخرت برباد ہو سکتی ہے۔
آئیے حدیث شریف کی روشنی میں اولاد کے کچھ حقوق ملاحظہ
فرمائیے۔
1۔ رسول ﷺ نے فرمایا: ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا
جائے، اس کا نام رکھا جائے، اور اس کے بال وغیرہ دور کئے جائیں اور جب چھ سال کا
ہوتو اسے ادب سکھایا جائے،جب وہ نو سال کا ہو تو اس کا بچھونا علیحدہ کر دے، جب
تیرہ سال کا ہو تو اسے نماز کے لئے مارے اور جب وہ سولہ سال کا ہو تو باپ اس کی
شادی کردے، پھر آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ میں نے تجھے
ادب سکھایا، تعلیم دی اور تیری شادی کر دی، میں دنیا کے فتنے اور آخرت کے عذاب سے
تیرے لئے اللہ پاک کی پناہ چاہتا ہوں۔ (طبقات الشافیہ الکبری للسبکی، 6/318)
2۔ رسول ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ کی حالت میں آپ کی گردن پر سوار ہوگئے آپ نے
سجدہ طویل کر دیا، لوگوں نے سمجھا شاید کوئی بات ہوگئی ہے، جب آپ نے نماز پوری کر
لی تو صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ نے بہت طویل سجدہ کیا، یہاں تک کہ ہم
سمجھے کوئی بات واقعی ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تو میں
نے جلدی کرنا مناسب نہ سمجھا تاکہ وہ اپنی خوشی (حاجت) پوری کر لے۔ (نسائی، ص 196،
حدیث: 1138)
اس حدیث مبارک میں کئی فوائد ہیں، ایک یہ کہ جب تک
آدمی سجدے میں رہتا ہے اسے اللہ پاک کا قرب حاصل رہتا ہے اس حدیث مبارک سے اولاد
سے نرمی اور بھلائی اور امت کی تعلیم، سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے
کہ اولاد کی خوشبو جنت کی خوشبو ہے۔ (معجم اوسط، 4/243، حدیث: 586)
3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید نے
کہا کہ مجھے میرے باپ نے حضرت احنف بن قیس کو بلانے کے لیے بھیجا، جب وہ آ گئے تو
میرے باپ نے کہا: اے ابو بحر!اولاد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: امیر المومنین!
یہ ہمارے دلوں کے پھل اور پشت کے ستون ہیں، ہم ان کے لیے نرم زمین اور سایہ دار
آسمان ہیں، ہم انہی کے سبب ہر بلند چیز تک پہنچتے ہیں، اگریہ کچھ مانگیں تو انہیں
دیجئے اگر یہ ناراض ہوں تو انہیں راضی کیجیے۔
ان پر اتنے ثقیل نہ ہوں کہ یہ آپ کی زندگی کو
ناپسند کرنے لگیں اور آپ کی موت کی آرزو آنے لگیں، آپ کے قرب کو برا سمجھنے لگیں،
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا:بخدا! اے احنف! جب تم آئے ہوتو میں
یزید پر غم و غصہ سے بھرا بیٹھا تھا چنانچہ جب احنف چلے گئے تو حضرت معاویہ رضی
اللہ عنہ یزید سے راضی ہو گئے اور یزید کو دوہزار درہم اور دوسو کپڑے بھیجے۔ یزید
نے ان میں سے ایک ہزار درہم اور ایک سو کپڑے حضرت احنف کے ہاں بھیج دے۔ (مکاشفۃ
القلوب، ص584)
4۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ پر اولاد کا یہ حق ہے
کہ وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث:
8658)
5۔ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن مبارک کے سامنے
اپنے کسی لڑکے کی شکایت کی،آپ نے فرمایا: کیا تم نے اس پر بدعا کی ہے؟اس نے
کہا:ہاں!آپ نے فرمایا:تو نے اسے برباد کر دیا ہے، اولاد کے ساتھ نیک سلوک اور نرمی
کرنی چاہیے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص582)
اولاد کوبدعا دینے سے بچنا چاہیے کیونکہ کوئی گھڑی
قبولیت کی ہو سکتی ہے اور وہ بدعا اولاد کے حق میں قبول ہو سکتی ہے۔
دین اسلام میں بچوں کی تربیت پر بہت زور دیا گیا
ہے۔ چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے بچوں کی صحیح تربیت اور نشونما کے
لیے اپنے اخلاق و عادات کو درست کر کے ان کے لیے ایک نمونہ بنے۔ پھر اس کے بعد ان
کے عقائد و افکار اور نظریات کو سنوارنے کے لیے بھرپور محنت کریں اور ان کی اخلاقی
اور معاشرتی حالت سدھارنے کے لیے ان کے قول و کردار پر بھرپور نظر رکھیں۔ تاکہ وہ
معاشرے کے باصالحیت اور صالح فرد بن سکیں کیونکہ اولاد کی تربیت صالح ہو تو ایک
نعمت ہے ورنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے۔ دین شریعت میں اولاد کی تربیت کے
لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی
طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں۔ اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ساتھ
نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم
دیا ہے۔ ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے
ادا کرنا ہے اور ان کو ازاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور
خیانت ہے کتاب و سنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان
کیا جائے، ان کی امانت کو ادا کیا جائے، ان کو ازاد چھوڑنے اور ان کے حقوق میں
کوتاہیوں سے بچا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی
نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی صحیح تربیت کی جائے
تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس
کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔
احادیث مبارکہ:
(1) حضرت جابر سمرہ دضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اسکے لیے ایک صاع
صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
(2) اولاد
کے لیے باپ کا کوئی عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)
(3) جس کی
پرورش میں دو لڑکیاں بلوغ تک رہیں تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ
بالکل پاس پاس ہوں گے یہ کہتے ہوئے حضور ﷺ نے اپنی انگلیاں ملاتے ہوئے کہا کہ اس
طرح۔ (مسلم، ص 1085، 6695)
(4) کیا میں تم کو یہ نہ بتا دوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟
اور وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب)
واپس لوٹ آئی تمہارے سوا اس کا کوئی کفیل نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/188، حدیث: 3667)
(5) جو شخص تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرے
پھر ان کو ادب سکھائے اور ان کے ساتھ مہربانی کرے یہاں تک کہ خدا ان کو مستغنی کر
دے (یعنی وہ بالغ ہو جائیں اور ان کا نکاح
ہو جائے) تو پرورش کرنے والے پر اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کر دے گا ایک شخص نے عرض
کی یا رسول اللہ ﷺ اور دو بیٹیوں اور دو بہنوں کی پرورش پر کیا ثواب ہے؟ حضور ﷺ فرماتے
ہیں دو کا ثواب بھی یہی ہے راوی کہتے ہیں اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے
میں دریافت کرتے تو ایک کی نسبت بھی حضور یہی فرماتے۔ (مشكوة المصابیح، 2/214،
حدیث: 4975)
(6) اپنی اولاد کو سات سال کا ہونے پر نماز کا حکم
دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں انہیں نماز نہ پرھنے پر مارو اور انکے بستر الگ
کر دو۔(ابو داود، 1/208، حدیث: 494)
اولاد کے5 حقوق از ہمشیرہ محمد آصف مغل،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ
تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت
سب سے اہم فریضہ ہے۔اللہ رب العزت قیامت کےدن اولاد سےوالدین کے متعلق سوال کرنے
سےپہلے والدین سےاولاد کےمتعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر
حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین
کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا
بھی حکم دیا ہے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح
طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ
اور خیانت ہے۔
اولاد کے حقوق میں سے کچھ حقوق درج ذیل ہیں:
جب بچہ پیدا ہو تو سب سے حق یہ ہے کہ اس کے کان میں
اذان دینا۔
عقیقہ کرنا بچے کے پیدا ہونے کے ساتویں دن یا اس کے
بعد جو جانور اس کے حوالے سے ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے
عقیقے کی تاکید فرمائی ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ ہر بچہ اپنے عقیقے کے ساتھ گروی
ہے، اس کی طرف سے سات دن ذبح کیا جائے اور بچے کا نام رکھا جائے۔ (ابو داود، 3/141،
حدیث: 2837)
اچھے نام کا انتخاب کرنا والدین کی اولین ذمہ داری
ہے کہ ان کا اچھا نام منتخب کریں اور رکھیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ باپ پر بچے کا یہ
بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسن ادب سے راستہ کرے۔(شعب الایمان، 6/400،
حدیث: 8658)
ختنہ کروانا، اسلامی تعلیم و تربیت کرنا، حضرت ایوب
رضی اللہ عنہ اپنے والد اور اپنے دادا کے
حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی
بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہو۔(ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)
اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرنا یعنی بیٹوں اور
بیٹیوں میں فرق نہ کیا جائے بلکہ بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح ہر چیز میں برابر حصہ
دیا جائے۔ ان کو روزگار کے لائق بنانا تاکہ بڑے ہونے پر وہ خود کما سکیں اور لوگوں
کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ سکیں۔ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا تاکہ انہیں صحیح
اور غلط کی پہچان ہو۔ بالغ ہونے پر مناسب جگہ شادی کرنا۔ ان کے لیے دعائے خیر کرنا۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ حضرت حسن و حسین رضی
اللہ عنہما کو گود میں لے کر دعاکرتے تھے
کہ اے اللہ! میں ان سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت کر۔
اولاد کے 5حقوق از ہمشیرہ حسنین عطاری فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جب قرابت اور رشتہ داری کے
حق کی تاکید ہے تو رشتہ داروں میں زیادہ خاص اور قریبی رشتہ ولادت کا ہے اس لیے اس
کے حقوق باقی اقارب سے کئی گنا زائد ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ
رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! میں کس کے ساتھ بھلائی کروں؟ ارشاد فرمایا: اپنے
والدین کے ساتھ، اس نے عرض کی میرے ماں باپ وفات پا چکے ہیں۔ارشاد فرمایا ! اپنی
اولاد کے ساتھ بھلائی کرو جیسے تم پر تمہارے والدین کا حق ہے اس طرح تم پر تمہاری
اولاد کا بھی حق ہے۔
اولاد کے متعدد حقوق ہیں مگر یہاں اولاد کے پانچ
حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ باپ پر اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اچھی
طرح ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)
2۔ والدین پر اولاد کا حق یہ بھی ہے کہ بچے کی
دیندار لوگوں میں شادی کرے کہ بچہ پر اپنے نانا ابو اور ماموں کی عادات و افعال کا
بھی اثر پڑتا ہے۔
3۔ جب تمیز آئے ادب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے،
اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعلیم، ماں باپ، استاد اور دختر
کو شوہر کی بھی اطاعت کے طرق و آداب(طور طریقے) بتائے۔
4۔ حضور اقدس ﷺ کی محبت و تعظیم اولاد کے دل میں
ڈالے کہ اصل ایمان و عین ایمان ہے۔
5۔ جب جوان ہو شادی کر دے، شادی میں وہی رعایت قوم
و دین و سیرت و صورت ملحوظ رکھے۔
یاد رہے کہ حقوق اللہ و حقوق العباد کا بجا لانا ہر
مسلمان پر لازم ہے حقوق اللہ میں کوتاہی تو رب تعالیٰ معاف فرما دے گا مگر حقوق
العباد میں کوتاہی بندے سے معاف کروانا لازم ہے ورنہ رب تعالیٰ بھی معاف نہیں
فرمائے گا اسی لیے حقوق العباد کو پورا کرنے کی سعی کرتے رہیں اور ان حقوق کی
زیادہ فکر کرنی چاہیے۔
اولاد کے 5 حقوق ازہمشیرہ محمد حسن یار ملک، فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
ہمارا اسلام کتنا پیارا ہے کہ ہر شخص کے حقوق کو
ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے والدین ہوں یا اولاد رشتہ دار ہوں یا پڑوسی سب کے حقوق
ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے ہر ایک کو اس کا حق دلاتا ہے حضور ﷺ کی ولادت سے پہلے
بیٹے بیٹیوں میں فرق کیا جاتا تھا بیٹے کو باعزت رکھا جاتا تھا جبکہ بیٹیوں کو
زندہ دفن کر دیا جاتا تھا لیکن جب حضور ﷺ نے بیٹےاور بیٹی میں فرق ختم کیا تو بیٹی
کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جانے لگا اسی طرح نہ صرف بیٹے کے حق فراہم کیے
بلکہ بیٹی کو بھی اس کے حقوق دیئے تو اس طرح اولاد کے حقوق کو پیش نظر رکھا گیا۔ دین
اسلام نے اولاد کے بہت سے حقوق بیان کیے جن میں سے چند تحریر کرنے کی کوشش کرتی
ہوں۔
1۔بیٹا اور بیٹی عام طور پر مسلمان ہونے پھر خاص
پڑوسی ہونے پھر قریبی رشتہ داروں نے اور پھر بالخصوص اسی کے کنبہ میں ہونے کی وجہ
سے باپ کی سب سے زیادہ خصوصی توجہ کے حقدار ہیں۔
2۔جب بیٹے یا بیٹی کی پیدائش ہو تو سب سے پہلے ان
کے کان میں اذان دی جائے تاکہ شیطان کے شر سے محفوظ رہیں۔
3۔اپنے بچے کا نام رکھیں یہاں تک کہ کچے بچے کا بھی
نام رکھا جائے اگر کچے بچے کا نام نہ رکھا تو وہ اللہ کے یہاں شاکی ہوگی۔اپنے بچوں
کے اچھے نام رکھیں حضور ﷺ نے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا اور برے نام رکھنے سے منع
فرمایا ہے۔
4۔بیٹا یا بیٹی ہو دونوں کے ساتھ برابر سلوک کریں
کھانے میں پہنانے میں تعلیم میں یہاں تک کہ پیار کرنے میں بھی برابر کا سلوک کریں
بہتر یہ ہے کہ بیٹی کو چیز دینے میں پہل کریں کیونکہ بیٹیوں کے دل چھوٹے ہوتے ہیں۔