انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ
تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت
سب سے اہم فریضہ ہے۔اللہ رب العزت قیامت کےدن اولاد سے والدین کے متعلق سوال کرنے
سےپہلے والدین سے اولاد کے متعلق سوال کرے گا، کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر
حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین
کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا
بھی حکم دیا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے
ہیں۔ شیر خوارگی سے لڑکپن اور جوانی کےمراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار
ہوتی ہےاس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتاہے۔ اولادکے لیے پاک اور حلال
غذا کی فراہمی والدین کے ذمے ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ رزق حلال کمائیں۔ والدین
جھوٹ بولنے کےعادی ہیں تو بچہ بھی جھوٹ بولے گا۔ والدین کی خرابیاں نہ صرف ظاہری
طور پر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ باطنی طور پر یہ خرابیاں اس کے
اندر رچ بس جاتی ہیں۔ والدین کےجسم میں گردش کرنے والےخون میں اگر حرام، جھوٹ،
فریب، حسد، اور دوسری خرابیوں کے جراثیم موجود ہیں تویہ جراثیم بچے کوبھی وراثت
میں ملیں گے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح
طریقے سے ادا کرنا ہے اوران کو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ
اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ
احسان کیا جائے۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کے حقوق میں
کتاہیوں سے بچا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی
نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوشک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے
تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس
کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت، انہیں اچھا، ذمہ دار،
دوسروں کی خیر خواہی کرنے والا مثالی اور باکردار مسلمان بنانا والدین کی ذمہ داری
ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کے تربیت اولاد کے واقعہ کو بیان
کیا، ان کی نصیحتیں تربیت اولاد کیلئے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مختلف اندازسے حضورﷺ
نے احکامات صادر فرمائے، حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی
اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو
(نماز نہ پڑھنے پر) اسے مارو اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو۔ (ابو
داود، 1/208، حدیث: 494)
بچوں کے عزت و احترام کو برقرار رکھتے ہوئے ان کو آداب
سکھلانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب
سکھلاؤ۔ (ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671) بچوں کو نظم وضبط، اچھی عادات سکھانا اور
ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا والدین کا فرض ہے، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تم
میں سے کوئی شخص اپنے بچے کو ادب سکھاتاہے، یہ اس کیلئے اس کام سے بہترہے کہ وہ ہر
روز ایک صاع خیرات کرے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ہر بچہ
فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتاہے اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں۔ (بخاری،
3/298، حدیث: 4775) اس سے واضح ہوا کہ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے کھانے پینے، گفتگو
کرنے، والدین اوربڑوں کی عزت وتکریم کرنے، پاکیزگی اورصفائی کاخیال رکھنے جیسے آداب
سکھلانا والدین کی ذمہ داری ہے۔