ریسرچ رپورٹ از مولانا وسیم احمد مدنی توقیتی(نگران شعبہ فلکیات دعوت اسلامی) / 21نومبر2025ء

کعبہ معظمہ کا محل وقوع

کعبہ شریف سعودی عرب کے مشہور شہر ” مکۃ المکرمہ “کی مسجد الحرام شریف میں واقع ہے ۔ساری دنیا کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرمائیں ۔

اس کا عرضِ بلد شمالی 21درجہ 25دقیقہ 21ثانیہ اور طولِ بلد شرقی 39 درجہ 49 دقیقہ 34 ثانیہ اور سطح سمندر سے بلندی 950فٹ ہے۔ یہ بر اعظم ایشیا کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔

کعبہ معظمہ کیا دنیا کے وسط میں ہے؟

اس کی دو صورتیں ہیں:

1...جغرافیائی لحاظ سے:

دنیا کا وسط عرضی اعتبار سے خط استوا (Equator) جبکہ طولی اعتبار سے صفر درجہ طول (موجودہ دور میں) جو بحرِ اوقیانوس میں واقع ہے، اس لحاظ سے تو کعبہ معظمہ دنیا کے وسط میں نہیں۔

2...آبادی کےلحاظ سے:

دنیا کی آبادی جنوبی دنیا کے مقابلے میں شمالی دنیا میں زیادہ ہے۔اسی طرح غربی دنیا کے مقابلے میں شرقی دنیا میں زیادہ ہے لہذا دنیا کی آبادیوں کے اعتبار سے کعبہ معظمہ وسط دنیامیں واقع ہے۔

کعبہ معظمہ دنیا کی ناف ہے

یعنی جس طرح انسانی بدن میں ناف کی حیثیت ہے اسی طرح کعبہ معظمہ دنیاکی ناف ہے۔[1]

یاد رکھئے !ناف بدن کے عین وسط میں نہیں ہوتی ۔تحقیق کے مطابق عموماً سر سے ناف کی دوری 38 فیصد اور ناف سے پاؤں کی دوری 62 فیصد ہوتی ہے۔اگر دنیا کے عرض میں انسان کو اس طرح تصور کریں کہ اس کا سر قطب شمالی اور قدم قطب جنوبی پر ہو تو اس کی ناف کعبہ معظمہ پر ہوگی۔

کعبہ معظمہ کی اونچائی و چہار دیوارں کی لمبائی

کعبہ معظمہ کی اونچائی جدید تحقیق پر 49.21 فٹ، شرقی دیوار کی لمبائی 42.12 فٹ(جس میں باب کعبہ بھی ہے اور پاک و ہند کا رخ بھی اسی جانب ہے)، غربی دیوار(مستجار) کی لمبائی 39.73فٹ،شمالی دیوار(حطیم کعبہ و میزاب رحمت)کی لمبائی 36.75فٹ اور جنوبی دیوار(مستجاب)کی لمبائی 37.8فٹ ہے۔

کعبہ معظمہ کے چہار سمت کیا ہے؟

(1)...عین مشرق میں باب السلام(نزد صفا) (2)... تقریباً مغرب میں با ب عمرہ (3)...تقریبا شمال میں باب فتح (نزد مروہ) (4)...تقریباً جنوب میں باب عبد العزیز

کعبہ معظمہ کے چار کونوں کانام و رخ

(1)...رکن اسود :تقریباً مشرق میں جو کونا ہے(جہاں حجر اسود نصب ہے۔) (2)...رکن عراقی:تقریباً شمال میں جو کونا ہے۔(3)...رکن شامی :تقریباً مغرب میں جو کونا ہے(4)...رکن یمانی: تقریباً جنوب میں جو کونا ہے۔

کعبہ معظمہ سے کوہ ِصفا کا رخ

کعبہ شریف سے مقامِ صفا نقطۂ مشرق سے جنوب کی طرف صرف 29 درجہ ہے (جوکہ 45درجےسے کم ہے )لہذا یہ تقریباً مشرق کی طرف ہے۔

کعبہ معظمہ سے کوہ ِمروہ کا رخ

کعبہ شریف سے مروہ نقطۂ شمال سے تقریباً16درجہ مائل بہ مشرق ہے لہذا یہ تقریباً جانبِ شمال ہے۔

کوہِ صفا سے کوہِ مروہ کا رخ

صفا سے مروہ یہ جانبِ شمال بلکہ نقطۂ شمال سے بھی تقریباً 6درجہ مغرب کی طرف مائل ہے، لہذا صفا سے مروہ تقریباًجانب شمال ہے۔اسی طرح مروہ سے صفا نقطہ جنوب سے 6 درجہ مائل بہ مشرق ہے یعنی تقریباً جانب جنوب ہے۔



[1] تفسیر کبیر،البقرۃ،تحت الایہ:142، دار احیاء التراث العربی بیروت


شعبہ مدنی کورسز دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں مدنی مرکز  فیضانِ مدینہ انصاری چوک، ملتان میں 3 دن کا رہائشی معلم کورس ہوا جس میں ملتان ڈویژن نگران، سٹی و ڈسٹرکٹ نگران، تحصیل و ٹاؤن نگران اور شعبے کے دویژن و سٹی ذمہ داران شریک ہوئے۔

تفصیلات کے مطابق اس 3 دن کے رہائشی کورس میں شعبے کے مختلف سطح کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے حاضرین کی رہنمائی کی جن میں مولانا اعجاز عطاری مدنی، قاری محمد ندیم عطاری ، محمد عدنان عطاری اور محمد شہزاد عطاری شامل تھے۔

ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے مختلف موضوعات پر حاضرین کی تربیت کی جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

٭معلم کے اوصاف٭اندازِ تدریس٭12 دینی کاموں کو کیسے مضبوط کریں؟٭ایک معلم کو کیسا ہونا چاہیئے؟٭ڈیٹا انٹری ٭لیڈر شپ٭ اذکار و مسائلِ نماز ٹیسٹ کا انداز و تربیت ٭فیضانِ نماز کورس کا شیڈول٭پبلک ڈیلنگ٭ٹائم مینجمنٹ۔

اس کورس کے دوران مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی قاری محمد سلیم عطاری نے عاشقانِ رسول کو اندازِ گفتگو و تدریسی مہارتوں کو مزید بہتر بنانے ، اپنی اسکلز بڑھانے اور دیگر کورسز کرنے کی ترغیب دلائی۔ (رپورٹ: مولانا عاشق حسین عطاری مدنی شعبہ مدنی کورسز ملتان سٹی ذمہ دار ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دارالمدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکول سسٹم کے  ہیڈ آفس، کراچی میں اخلاقِ کریمہ کورس (سیشن 2) کا اہتمام کیا گیا جس میں مبلغِ دعوتِ اسلامی مولانا حاشر عطاری مدنی نے اصلاحی بیان کیا۔

بیان کے دوران مولانا حاشر عطاری مدنی نے دین سیکھنے / سکھانے کی اہمیت کو اجاگر کیااور شرکا کو تقویٰ اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے اس کے بے شمار فوائد بیان کئے۔

کورس میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے ”سچ بولنا“ اور ”اچھی بات کرنا“ جیسی اعلیٰ صفات پر خصوصی بیان کیا اور شرکا کو ان اخلاقِ حسنہ کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے کا ذہن دیا۔

آخر میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کو اپنا آئیڈیل بنانا انسان کے کردار اور زندگی میں بے حد مثبت تبدیلیاں لاتا ہے۔(رپورٹ: مولانا رضا عطاری مدنی، اردو کانٹینٹ رائیٹرمارکیٹنگ اینڈ کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ دارالمدینہ ،ہیڈ آفس کراچی ، ویب ڈسک رائٹر:غیاث الدین عطاری)


فیضان اسلامک سکول سسٹم، دعوتِ اسلامی میانوالی کیمپس کے تحت ادارے کی مسلسل بہتری کے حوالے سے Parent Management Meeting (پیرنٹ مینجمنٹ میٹنگ) اور Academic Inspection (تعلیمی معائنہ) کا انعقاد کیا۔

اس Inspection کے دوران ادارے کی ٹیم نے کلاس رومز کے ماحول، اسٹوڈنٹس کی نوٹ بکس، سبق کی منصوبہ بندی اور تربیہ کے ساتھ تعلیم کے مجموعی نفاذ کا جائزہ لیتے ہوئے دیگر امور پر مشاورت کی۔

بعدازاں اسٹوڈنٹس کے والدین کی ایک تفصیلی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں کیمپس انتظامیہ نے اسٹوڈنٹس کی تعلیمی کارکردگی پر گفتگو کرتے ہوئے آئندہ کے اہداف پر کلام کیا۔

اس موقع پر محمد زوہیب عطاری (Academic Head)، محمد عمیر عطاری (Subject Specialist) اور محمد دانش عطاری (Operational Head) موجود تھے۔ (رپورٹ:امیر حمزہ عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت راہِ خدا عزوجل میں سفر کرنے والے 12 ماہ قافلے کے عاشقانِ رسول نے 18 نومبر 2025ء کو فیصل آباد، پنجاب میں واقع دینی تعلیمی بورڈ کنزالمدارس کا وزٹ کیا۔

کنزالمدارس بورڈ کے ذمہ دار نے عاشقانِ رسول کو مختلف ڈیپارٹمنٹس کا تفصیل تعارف کروایا جن میں امتحانات، نصاب سازی، نتائج کی تیاری، آن لائن سسٹم، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ، ریکارڈ مینجمنٹ اور دیگر اہم چیزیں شامل تھیں۔

عاشقانِ رسول کو وزٹ کے دوران بتایا گیا کہ کس طرح کنزالمدارس بورڈ جدید تقاضوں کے ساتھ ساتھ روایتی دینی درس گاہی معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہے جبکہ اس وزٹ نے 12 ماہ قافلے کے عاشقانِ رسول کے علم و تجربے میں اضافہ بھی کیا اور انہیں ایک منظم دینی تعلیمی نظام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔(رپورٹ:ابراراحمد کیمرہ مین سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ کنزالمدارس بورڈ فیصل آباد، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


17 نومبر 2025ء کو خطیبِ اہلسنت و محققِ اہلسنت، قاطع رافضیت حضرت علامہ مولانا پیر سیّد  محمد مزمل عمر کاظمی شاہ صاحب کی اپنےرفقا کے ہمراہ فیصل آباد، پنجاب میں قائم کنزالمدارس بورڈ تشریف آوری ہوئی۔

معلومات کے مطابق شعبہ رابطہ بالعلماء کے ذمہ داران اور کنزالمدارس بورڈ کے صدر و رکنِ شوریٰ مولانا حاجی جنید عطاری مدنی سمیت بورڈ کے دیگر اراکین نے حضرت علامہ مولانا پیر سیّد محمد مزمل عمر کاظمی شاہ صاحب سے ملاقات کی اور چند اہم نکات پر تبادلۂ خیال کیا۔

بعدازاں معاون رکنِ شوریٰ نے حضرت علامہ مولانا پیر سیّد محمد مزمل عمر کاظمی شاہ صاحب کو کنزالمدارس بورڈ کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کا وزٹ کروایا او ر ڈاکومنٹری بھی دکھائی۔(رپورٹ:ابراراحمد کیمرہ مین سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ کنزالمدارس بورڈ فیصل آباد، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


علم کے بغیر نہ عبادت کی حقیقت سمجھ آتی ہے، نہ زندگی کا مقصد معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی انسانیت کا سلیقہ،  علم انسان کو عاجزی، اخلاق، برداشت اور عمل سکھاتا ہے۔ یہ غرور نہیں پیدا کرتا بلکہ اپنی حقیقت کا شعور دیتا ہے۔

عاشقان رسول کو علم دین سے فیض یاب کرنے اور ان کی اخلاقی و معاشرتی تربیت کرنے کے لئے15 نومبر 2025ء کی شب دعوت اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ہفتہ وار مدنی مذاکرے کا انعقادکیا گیا جس میں براہِ راست اور بذریعہ مدنی چینل عاشقانِ رسول کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

مدنی مذاکرے میں شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ حاضرین و ناظرین کی جانب سے ہونے والے مختلف سوالات کے جوابات ارشاد فرمائے۔

مدنی مذاکرے کے چند مدنی پھول

سوال: سوشل میڈیاپر ایک پوسٹ تھی کہ :’’ الفاظ‘‘ کیاکرسکتے ہیں ؟جواب آیا:مائل،قائل اور گھائل،آپ کیافرماتے ہیں ؟

جواب: لفظ بہت کچھ کر سکتے ہیں ،کسی کو دعائیں دوتو مائل ہو گا، بُرا بھلا بولا تو گھائل ہو گا اور کسی سوال و اعتراض کا جواب نرمی و حکمتِ عملی کے ساتھ دیا تو قائل ہو گا۔ کفر سے توبہ کرتے ہوئے کلمے کے الفاظ دل کی تصدیق کے ساتھ پڑھے تو مسلمان ہوا۔ 3 طلاق کے الفاظ کہے توطلاق واقع ہو جائے گی ،الفاظ کا بہت حساب کتاب ہے ۔میٹھا بولنے والے کا زہر بھی بِک جاتا ہے جبکہ کڑوا بولنے کا شہد بھی نہیں بِکتا۔ جس طرح پھل خریدتے ہوئے میٹھے پھل کا انتخاب کرتے ہیں ،اسی طرح بولتے ہوئے میٹھے بول کا انتخاب کرنا چاہئے ۔جس طرح چھوٹے سوراخ بند کمرے میں سورج نکلنے کا پتا دیتے ہیں، اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کا کردار نمایاں کر دیتی ہیں ۔بے شک الفاظ کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے بعض اوقات لہجے کا اثر بھی بہت ہوتا ہے ۔کہا جاتا ہے میٹھا بولو تاکہ واپس لینا پڑے تو کڑوا نہ لگے۔ قرآن پاک میں لوگوں سے اچھی باتیں کرنے کا حکم دیاگیا ہے ۔

سوال: مکتبہ المدینہ کی کتاب ’’ گفتگو کے آداب‘‘ کا گھر درس شروع کر دیا جائے تو آپ کیا فرماتے ہیں ؟

جواب: کتاب ’’گفتگو کے آداب ،فضول باتوں سے بچنے کی فضیلت‘‘ کا گھر درس شروع کر دیا جائے تو گھرکا ماحول اچھا ہو جائے گا، گھرا من کا گہوارہ بن جائے گا، جھگڑے دم توڑ جائیں گے مگر شیطان کرنے نہیں دے گا۔ آپ شیطان کا مقابلہ کرتے ہوئے لاحول شریف(لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ) پڑھتے ہوئے اس کا درس شروع کر دیں، اس کے مثبت(Positive) نتائج خود دیکھیں گے ۔ان شآء اللہ الکریم

سوال : سبق یاد کرنے کا کون سا وقت سب سے بہتر ہے ؟

جواب : رات کے ابتدائی حصے اور آخری حصے(وقتِ سحر) میں سبق یاد کرنا مفید ہے ۔یہ وقت نہایت بابرکت ہوتا ہے ۔بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ جو طالب علم مغرب اور عشا کے درمیان اور فجر کے وقت مطالعہ و تکرار میں محنت کرے پھر بھی عالم نہ بنے تو تعجب ہے۔ جو اِن اوقات میں محنت نہ کرے پھر بھی عالم بن جائے تو یہ بھی باعثِ حیرت ہے ۔یہی وہ وقت ہے جس میں دل سکون پاتا ہے، خیالات ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، ذہن علم کے نور کو قبول کرتا ہے ۔جو طالب علم ان اوقات کی قدر کرے وہ اپنے علم کی بنیاد مضبوط کرتا ہے ۔

سوال: حُبِّ جاہ کیا ہے اور اس سے کس طرح بچ سکتے ہیں ؟

جواب: حُب کا معنی محبت اور جاہ کا معنی عزت ،شہرت ،تعریف ہے یعنی لوگ میری عزت کریں ،لوگوں میں شہرت حاصل کروں، میری تعریف ہو، اسے حُبِّ جاہ کہتے ہیں، یہ خطرناک ہے۔ یہ دین میں تباہی مچانے والاکام ہے ،اس سے وہی بچے گا جسے اللہ پاک بچائے ۔ بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہوتی ہے مگر انہیں پتا ہی نہیں ہوتا۔

سوال: مدینہ شریف جاتے اورآتے ہوئے رونا کیساجبکہ پیارے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم سراپا رحمت ہیں ؟

جواب: یہ رونا گریۂ رحمت اور گریۂ محبت ہیں ۔محبت جب بہت بڑھ جائے تو عشق میں ڈھل جاتی ہے ،اس میں آنسو آتے ہیں ۔محبت جب بڑھتی ہے تو اس میں درد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دِین ایمان بہت کچھ وابستہ ہے ،انہی کی شفاعت قبول ہونی ہے ،ہم ان کی شفاعت ،اللہ پاک کے کرم و رحمت سے بخشے جائیں گے ،ان کی نگاہِ رحمت نہ ملی تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے ۔ان کے شہر اور دربار میں جائیں تو رونا نہ آئے تو اس بات پر روئیں کہ رونا کیوں نہیں آیا۔ یہ قلبی کیفیات ہیں جو آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہیں ۔اگر آنکھوں سے ظاہر نہ ہوں تو دل روتا ہے ،یہ رونا سعادت مندی ہے ۔

سوال: کسی کے دل میں خوشی داخل کرنا کیسا ہے ؟

جواب: میں عام طور پر کہتا ہوں کہ اگر کسی کو راحت نہیں پہنچا سکتے تو تکلیف بھی نہ دو۔ مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرنی چاہئے، حدیث پاک میں ہے کہ فرائض کے بعد افضل عمل کسی کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔ مسلمان کا دل خوش کرنا بلکہ جانور کے دل میں خوشی داخل کرنا بھی ثواب کا کام ہے مثلاً کبوتروں کو دانے ڈالیں گے تو وہ دعا دیں گے ،جانور دعائیں بھی دیتے ہیں اور بددعائیں بھی دیتے ہیں۔ مظلوم کافر اور مظلوم جانور کی بھی بددعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ظلم کسی پر بھی کرنے کی اجازت نہیں،یہ قیامت کا اندھیرا ہے ۔

سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” جنت کی بہاریں“ پڑھنے یا سُننے والوں کو امیر اہل سنت مولانا الیاس قادِری دامت برکاتہم العالیہ نے کیا دُعا دی ؟

جواب: یا اللہ پاک! جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ جنت کی بہاریں“ پڑھ یا سُن لے، اُس کو اپنی رحمت سے ماں باپ اور خاندان سمیت جنتُ الفردوس میں بے حساب داخلہ نصیب فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن پاک میں اللہ پاک نے بہت سے مقامات پر میزان کا ذکر کیا ہے اُن میں میزان عمل،  قیامت کے دن کا میزان ، یہ اللہ پاک کے عدل وانصاف کا مظہر ہو گا۔ہمیں دُنیا میں بھی اپنے فیصلوں میں عدل وانصاف کو نہیں چھوڑنا چاہیے، اسی میزان سے متعلق چند آیات ذیل میں ذکر کی گئی ہیں ، پڑھیئے:

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن: 7تا 8)

اللہ پاک نے کائنات کو توازن اور عدل کے اُصول پر قائم کیا ہے اسطرح انسانوں کو بھی حکم دیاکے وہ اپنے فیصلوں کو ناپنے میں عدل کا دامن نہ چھوڑیں ۔

آخرت میں اللہ پاک کا عدل کامل ہوگا ہر شخص کے اعمال انصاف سے تولے جائیں گے کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)

قیامت کے دن اعمال تولے جانے کا کے متعلق ذکر ہوا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:9)


    اسلام ایک مکمل اور کامل دین ہے ۔جو ہمیں زندگی کے ہر پہلو خواہ وہ دینی معاملات سے ہو یا اخروی حیات سے وابستہ ہو مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔شکم مادر سے لیکر لحد تک، لحد سے لیکر حشر تک تمام امور حالات واقعات سے ہمیں آگاہ کیا۔انہی امور میں سے ایک "میزان" بھی ہے ۔

میزان کا لغوی معنی: میزان کہتے ہیں ترازو،تولنے والا کانٹا اسکی جمع الموازین آتی ہے ۔

اصطلاحی معنی : میزان حق ہے ۔اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے ۔( بہار شریعت ،جلد اول ،حصہ اول،ص146، مطبوعہ المدینہ العلمیہ کراچی )

اب ہم قرآن مجید سے میزان کے متعلق ذکر کریں گے کیونکہ قرآن مجید میں ہر شے کا واضح بیان موجود ہے۔

(1) اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کہتے ہیں۔اور جس آلے کے ساتھ چیز کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں وزن سے میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا مراد ہے۔(تفسیر صراط الجنان،جلد 3، ص 269، مطبوع المدینہ العلمیہ کراچی)

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے میزان کا واضح ذکر فرمایا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ ہم روز محشر عدل انصاف کے ساتھ اعمال کا وزن کرے گے ۔یعنی اس دن کسی جان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا ۔ہر ایک کو اس کے لیے کی جزا ملے گی ۔جس نے دنیا میں رہتے ہوئے جو اعمال کیے ہو گے اس کی جزاء پائے گا ۔

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی وضاحت میں ایک حدیث مبارکہ نقل کی ہے : حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالی میری امت میں سے ایک شخص کو سب کے سامنے بلائے گا اور اس کےسامنے اس کے گناہوں کے 99 رجسٹر کھولے جائیں گے ہر ایک رجسٹر تا حد نظر پھیلا ہوا ہوگا ۔پھر اللہ اسے فرمایا گا کہ کیا تمہیں ان میں سے کسی گناہ کا انکار ہے؟کیا لکھنے والے محافظ فرشتوں نے تم پر کوئی ظلم تو نہیں کیا؟وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار نہیں اللہ تعالی اس سے فرمائے گا کیوں نہیں تمہاری ایک نیکی ہمارے ہاں محفوظ ہے اج تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا چنانچہ ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا جائے گا جس میں یہ لکھا ہوا ہوگا"اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا رسول الله" اللہ تبارک و تعالی فرمائے گا کہ اسے پیش کرو وہ شخص عرض کرے گا اے پروردگار ان رجسٹروں کے مقابلے میں اس معمولی سے پرچے کی کیا حیثیت ہے؟اللہ تعالی فرمائے گا تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔چنانچہ تمام رجسٹر ایک پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں ڈال دیا جائے گا تو رجسٹر والا پلڑا ہلکا ہوگا اور وہ پرچے والا باری اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے مقابلے میں کوئی چیز باری نہیں۔(تفسیر ابن کثیر،جلد،3 ص317،مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان:تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہنچے۔ (سورہ المؤمنون ،آیت نمبر 102)

اس آیت مبارکہ میں کامیاب ہونے والوں کے بارے میں فرمایا روز محشر جس کے اعمال نامے کا وزن بھاری ہوگا تحقیق وہی لوگ فلاح پاگئے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مطلوب کو پا لیا اور ناپسندیدہ چیز سے بچ گئے ۔ان کے برعکس جن لوگوں کی برائیاں ان کی نیکیوں سے بڑھ گئی تو یہی لوگ بے مراد ہلاک ہونے والے اور نقصان اٹھانے والے ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک حدیث میں آتا ہے :اللہ تعالی کا ایک فرشتہ ہے جو میزان پر مقرر ہوگا،ابن ادم کو لایا جائے گا اور اسے میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان کھڑا کر دیا جائے گا اگر اس کی نیکیوں والا پڑھ رہا بھاری ہوا تو فرشتہ اونچی آواز سے نجات دے گا جسے تمام مخلوق سنیں گی کہ فلاں شخص نے ایسی سعادت حاصل کر لی کہ اس کے بعد کبھی بھی بدبخت نہیں ہوگا اور اگر اس کی نیکیوں والا پڑھنا ہلکا ہوا تو فرشتہ اونچی آواز سے ندا دے گا جسے سب سنیں گے کہ فلاں شکاوت کا مستحق ہوا،اب اس کے بعد کبھی بھی وہ سعادت مند نہیں ہوگا ۔(تفسیر ابن کثیر ،جلد 3، ص،440، مطبوعہ ،ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

دنیا کے ترازو اور آخرت کے ترازو میں فرق ہے دنیا میں پکڑا اگر بھاری ہوتا ہے تو وہ نیچے ہوتا ہے اگر ہلکا ہو تو اوپر اٹھتا ہے لیکن روز محشر اس کے بر خلاف ہوگا ۔جو پلہ بھاری ہوگا وہ اوپر اٹھے گا اور جو ہلکا ہوگا وہ نیچے ۔

سیدی اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ شریف میں بیان فرمایا ہے کہ وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا اگر بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا اور بدی کا پلہ نیچے بیٹھے گا۔(فتاویٰ رضویہ ،جلد 29،ص 626 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور پاکستان)

اللہ رب العالمین سے دعا ہے ہمیں میزان عمل پر سرخرو فرمائے ۔


میزان حق ہے۔ اس پر لوگوں   کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے، نیکی کا پلّہ بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اوپر اُٹھے، دنیا کا سا معاملہ نہیں کہ جو بھاری ہوتا ہے نیچے کو جھکتا ہے۔

(1) میزان کسے کہتے ہیں : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8، 9)

تفسیر صراط الجنان: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔

(2)میزان سے مراد عدل ہے: وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸)

ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو

(الرحمٰن: 7تا 9)

(3)قیامت کا ترازو:وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

تفسیر صراط الجنان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے۔ ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔

(5) مومن کی نیکیاں اچھی صورت :فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں ۔ (القارعۃ: 6، 7)

تفسیر صراطِ الجنان:اعمال کا وزن کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئےجنت ہے۔ (جلد 10 صراطِ الجنان)

وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔

قیامت کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :

(1) پہلی صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔

(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔

(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)

آیت نمبر: (1)وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8، 9)

اس آیت میں قیامت کے دن میزان میں اعمال تولے جانے کا ذکر ہوا ۔

آیت نمبر : (2) وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔

آیت نمبر (3)وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو۔ (الرحمٰن: 7تا 9)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین


قرآنِ حکیم ایک کامل اور جامع کتابِ ہدایت ہے جو انسان کو ہر میدانِ زندگی میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ عدل، انصاف اور میزان  قرآن کا ایک اہم موضوع ہے۔ "میزان" صرف ترازو کا نام نہیں بلکہ ہر اس نظام یا معیار کا نام ہے جس کے ذریعے انصاف، توازن اور اعتدال قائم کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر "میزان" کا ذکر کیا ہے تاکہ انسان ہر عمل میں عدل و انصاف کو اختیار کرے۔ میزان کے متعلق چند قرآنی آیات اور ان کی وضاحت پڑھیئے:

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ترجمہ کنزالایمان: تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہونچے اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں ۔ (المؤمنون: 102، 103)

روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے میزان میں اعمال تولے جائیں گے، اور نجات ان لوگوں کو ملے گی جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا۔وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

وضاحت: آخرت میں اللہ تعالیٰ کا عدل کامل ہوگا۔ ہر شخص کے اعمال انصاف سے تولے جائیں گے اور کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔

قرآن کریم نے "میزان" کو عدل، توازن اور انصاف کی علامت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں بھی انسان ایک دوسرے کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں اور آخرت میں میزان کے ذریعے ان کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ ایک اسلامی معاشرہ میزان کے اصولوں پر قائم ہو تو وہاں ظلم، بدعنوانی اور ناانصافی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔