جو مال حرام ذریعے سے حاصل کیا جائے وہ حرام ہے۔ (حديقۃ النديۃ، 5/16) ارشادِ خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اس آیت میں باطل (یعنی ناحق) طریقے سے مراد (ہر) وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ بندہ حرام ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہو گی اور اگر صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہو گا اور اگر اُس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لئے جہنم میں جانے کا سامان ہے، بے شک اللہ پاک بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے بُرائی کو مٹادیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/505، حدیث: 3744)

حرام مال کی چند مثالیں: غصب، چوری، ڈاکہ، رشوت اور جوئے کے ذریعے حاصل کیا ہو ا مال، سود، بھتہ خوری اورپر چیاں بھیج کر ہراساں (خوفزدہ) کر کے وصول کیا ہو ا مال، ناچ گانا، زنا اور شراب کی کمائی داڑھی مونڈنا وغیرہ حرام کاموں کی اُجرت وغیرہ یہ تمام مالِ حرام ہیں۔

حرام کمائی میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: ایک سبب علم دین کی کمی ہے کہ خرید و فروخت کے شرعی احکام نہ جاننے کے سبب ایک تعداد ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی حرام کمائی میں جا پڑتی ہے، مال و دولت کی حرص، دنیا کی محبت، راتوں رات امیر بننے کی خواہش، مفت خوری کی عادت اور کام کاج سے دور بھاگنا، بری صحبت وغیرہ بھی ایسے اسباب ہیں جن سے بندہ حرام کمائی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

حرام کمائی سے بچنے کے لئے: علم دین حاصل کیجئے، بالخصوص خرید و فروخت اور کسبِ معاش کے متعلق ضروری احکام و مسائل سیکھ لیجئے۔ موت اور قبر و آخرت کو کثرت کے ساتھ یاد کیجئے، ان شاء اللہ الکریم! دل سے مال اور دُنیا کی محبت نکلے گی اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے گا۔ جہنم کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے اور اپنے نازک بدن پر غور کیجئے کہ اگر کسبِ حرام کے سبب ان میں سے کوئی عذاب ہم پر مسلط کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ کسبِ حلال کے فضائل اور حرام مال کے نقصانات کو پیش نظر رکھئے۔ توکل اختیار کیجئے نیز یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ کسی کی قسمت میں جتنا رزق ملنا لکھا ہو وہ اسے مل کر رہتا ہے اور نہ کبھی کسی کو مقدر سے کم ملتا ہے نہ زیادہ، لہذا عقل مند وہی ہے جو اپنے حصے کا رزق حلال طریقے سے حاصل کرے۔ نیک پرہیز گار عاشقان رسول کی صحبت اختیار کیجئے اور برے لوگوں سے ہمیشہ دور رہیے۔


اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا اس کے ساتھ ہی انسان کو زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بھی سکھایا ہے۔زندگی گزارنے کے طریقے سکھانے کے ساتھ ساتھ ہی انسان کو کئی کاموں سے منع بھی فرمایا ہے۔ انہیں میں سے ایک کام حرام کمانا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر حرام کمانے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔

تفسیر: اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: 29، 1 / 370)  اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

حرام کمانا اور کھانا اللہ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث: 3672)

2۔ اللہ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/ 8، حدیث: 9257)

3۔ اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو! مستجابُ الدعوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم اوسط، 5/ 34، حدیث: 6495)

4۔ سرکارِ دوعالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے،اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، ص506، حدیث:1015)


رزق حلال اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہے جبکہ حرام کمانا اور کھانا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا اور خود پر قبولیت کے دروازے بند کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر اس شے کو حرام قرار دیا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دے ہے اس لیے حرام سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور رزق حلال ہی کمانے اور کھانے کا حکم دیا ہے ویسے بھی حلال کا طلب کرنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے ہمارے سب سے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: پاک کمائی والے کے لیے جنت ہے۔ (معجم کبیر، 5/72، حدیث: 4616)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) (پ 2، البقرۃ: 168) ترجمہ کنز الایمان: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ شیطان کے راستوں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ سب سے زیادہ پاکیزہ کھانا وہ ہے جو اپنی کمائی سے کھاؤ۔ (ترمذی، 3/76، حدیث:1363)

2۔ حلال روزی کے بارے میں ارشاد فرمایا: کچھ گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ نہ نماز ہو نہ روزے نہ حج نہ عمرہ۔ ان کا کفارہ وہ پریشانیاں ہوتی ہیں جو آدمی کو تلاش معاش حلال میں پہنچتی ہیں۔ (ترمذی، 1/42، حدیث:102)

3۔ رزقِ حرام کے متعلق ارشاد فرمایا: جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے، اگر اس کو صدقہ کرے تو وہ مقبول نہیں خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹاتا ہے خبیث (ناپاک)کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث:3672)

4۔ جس نے عیب والی چیز بیع کی(بیچی) اور اس (عیب) کو ظاہر نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ، 3/9، حدیث:2247)

لقمہ حرام کی نحوست: مکاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین وآسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)

لقمہ حرام کا وبال: لقمہ حرام بے برکتی کا سبب ہے، لقمہ حرام کھانے والے کا دل سیاہ ہو جاتا ہے، لقمہ حرام سے برے اخلاق کی طرف دل مائل ہوتا ہے لقمہ حرام سے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اس کی نماز قبول نہیں فرماتا جس کے پیٹ میں حرام لقمہ ہو۔ (احیاء العلوم، 2/115)

ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بیشک انسان ایک ایسا لقمہ کھاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل بگڑ جاتا ہے جیسے کھال بگڑ جاتی ہے پھر اپنی حالت پر کبھی نہیں آتا۔ (احیاء العلوم، 2/116)

حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص حرام کھاتا ہے وہ چاہے یا نہ چاہے اور اسے علم ہو یا نہ ہو اس کے اعضاء گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب حلال کھانا کھاتا ہے تو اس کے اعضاء فرمابردار ہو جاتے ہیں اور اسے اعمال خیر کی توفیق دی جاتی ہے۔

اللہ اللہ رزق حرام کا کتنا وبال ہے! جبکہ اس کے برعکس رزق حلال اللہ کی خوشنودی اور برکت کا باعث ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ رزق کے لیے ایسے ذرائع اختیار کریں جن میں شریعت کی پابندی نہ ہو اور ایک مسلمان کی شان بھی یہی ہے کہ وہ حلال رزق کماتا ہے اور حرام سے بچتا ہے کیونکہ اس کا مقصد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہوتا ہے حرام ذریعے سے کمایا گیا مال اگر زیادہ ہو بھی جائے لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی اور انسان اپنی زندگی کو خود ہی جہنم بنا لیتا ہے!

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حلال کمانے اور حلال کھانے کی توفیق عطا فرما ہمارے رزق حلال میں برکت عطا فرما حرام کمانے اور کھانے سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو بچا اپنی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرنا نصیب فرما اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما لے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


دین اسلام نے زندگی ہر کے میدان میں حلال و حرام کے فرق کو قران و سنت سے واضح کر کے اسکے فائدے اور نقصان کو بیان فرما دیا ہے اب بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں نقصانات کے باعث اس کو حرام فرمایا ہے جن میں سے ایک حرام کمانا اور حرام کھانا بھی ہے دین اسلام میں اس کی بہت مذمت بیان ہوئی ہے حرام کمانے سے مراد رشوت خیانت، چوری ڈکیتی،سود،شراب بنانا،بیچنا،بے حیائی کرنے والے کا کاروبار، جھوٹ فریب، دھوکے وغیرہ کے ذریعے سے مال حاصل کرنا ہے۔

جب یہ تو کل کر لیا جائے کہ رزق کا ذمہ اللہ پر ہے اور رسک دینا اسی کا کام ہے مگر حلال ذریعے تلاش کرنا ہمارا کام ہے تو اس سے بندہ حرام کمانے سے بچ سکتا ہے۔ مگر افسوس آج کل ہماری اکثر آبادی جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، وہ حرام کمانے میں ملوث ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ لا علمی اور جہالت ہے روز بروز ابھرتی ہوئی مہنگائی کی وجہ لوگوں کا رحجان حرام ذریعے سے روزے کمانے کی طرف ہو گیا ہے۔اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ حرام کمانے اور کھانے پر کس قدر مذمت ہے تو یقیناً اس طرف رحجان کم ہوگا ائیے حدیث مبارکہ سے اس کی مذمت ملاحظہ کرتے ہیں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ اللہ نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(کنز العمال، 2/ 8، حدیث: 9257)

2۔ سرکار دوعالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار الودہ ہے اور اپنے ہاتھ کو اسمان کی طرف اٹھا کر یا رب یا رب! پکار رہا ہے، حالانکہ اس کا کھانا، حرام پینا حرام، لباس حرام، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔(مسلم، ص506، حدیث:1015)

3۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کوئی پروا نہیں کرے گا جو اس نے حاصل کیا ہے وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

مکاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے اور اگر اس حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔ (مکا شفۃ القلوب، ص10)

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کمانے اور کھانے کے ہر ذریعے سے محفوظ رکھے۔ آمین


باطل طریقے سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود خوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم جھوٹی وکالت اور خیانت کے ذریعے مال حاصل کرنا یوں ہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا یہ سب مال شریعت میں حرام ہیں۔ الله پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔

احادیث مبارکہ:

1۔ الله تعالیٰ نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی جو حرام سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/8، حدیث: 9257)

2۔ رشوت لینے والے اور دینے والے پر اللہ اور اس کے رسول نے لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداود، 3/420 حدیث: 3580)

3۔ تجارت میں جھوٹ بولنے والے اور عیب چھپانے والے کے کاروبار سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔ (بخاری، 2/14، حدیث: 2082)

اس کے علاوہ بھی بہت سے احادیث میں حرام مال کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے حرام کھانا الله پاک جو ناپسند ہے اور ایسا انسان جنت سے محروم جبکہ دوزخ کا حقدار ہوگا۔

مکاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)

اللہ پاک ہمیں حرام سے بچائے اور حلال کمانے اور کھانے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین


باطل اور ناجائز طریقے سے دوسروں کا مال کھانا حرام ہے اس میں حرام کی ہر صورت داخل ہو گی چاہے وہ چوری کے ذریعے ہو یا لوٹ مار کے ذریعے جوئے کے ذریعے سے ہو یا سود کہ نہ صرف حرام کھانے بلکہ حرام کمانے کی بھی بہت زیادہ وعید آئی ہے یہ سب کام ممنوع، حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔

احادیثِ مبارکہ میں حرام بھی حرام کمانے اور کھانے کی مذمت بیان فرمائی گئی ہے، ان میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ حرام مال کھانے سے جنت سے محرومی اور جہنم مقدر ہو گی۔ چنانچہ فرمانِ آخری نبی ﷺ ہے: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی اور ایسا حرام گوشت دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/131، حدیث: 2772 )

2۔ دعا و عبادات کی قبولیت سے محروم ہوگا، فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ص393، حدیث:2346) ایک جگہ فرمایا: حرام کھانے والے کی عبادت و نماز قبول نہیں ہوتی۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 6/452)

3۔ مزدور کی مزدوری مارنے والے کے مقابلے میں قیامت کے دن نبی کریم ﷺ اس مزدور کی حمایت میں ظالم کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ (بخاری، 2/52، حدیث:2227)

4۔ جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے الله پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث: 3672)

ناحق مال کھانے اور تھانے کچہری میں لوگوں کو گھسیٹ کر مال بنانے والوں کو قرآن مجید میں یوں منع فرمایا گیا: وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸) (پ2، البقرہ:188) ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس انکا مقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر جان بوجھ کر کھا لو۔

مالِ یتیم ہڑپ کرنے والوں کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا گیا: اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ4، النساء:10) ترجمہ: بے شک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔

الله کریم ہمیں حرام مال سے بچنے اور حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے ہمارا سینہ پیارے آقا ﷺ کی محبت میں میٹھا میٹھا مدینہ بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


قرآن کریم ہمیں بہت سے کاموں سے بچنے کا حکم فرماتا ہے۔ جن میں سے حرام مال کمانا اور کھانا بھی ہیں۔مالِ حرام میں کوئی پیسہ اپنے کھانے پینے، پہننے یا کسی اور کام میں لگانا حرام ہے۔ اور نہ ہی حرام کمایا ہوا مال کسی مسجد یا مدرسہ میں لگا سکتے ہیں۔کیونکہ وہ غصب،چوری،ڈاکہ،رشوت اور جوئے جیسے حرام کام کے زریعے سے کمایا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النساء آیت نمبر29میں رب کریم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اب حرام مال کی مذمت کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو شخص حرام کی کمائی کھاتا ہے۔ وہ ایسے بیمار کی طرح ہے جس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ حرام کا مال بروزِ قیامت اُس کے خلاف گواہی دے گا۔ (بخاری، 2/266، حدیث: 2842)

2۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ اُس نے جو حاصل کیا وہ حلال سے ہے یا حرام سے۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

3۔ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ص393، حدیث:2346)

4۔ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا ہو آگ اُس کے بہت قریب ہوگی۔ (شعب الایمان، 5/56، حدیث: 5759)

5۔ جس نے حرام کا مال جمع کیا (کمایا) پھر اسے صدقہ کر دیا تو اُس کو صدقہ کا کوئی اَجَر نہیں ملے گا بلکہ اُس پر اِس (حرام مال کمانے) کا وبال ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، 5/151، حدیث: 3356)

لہذا معلوم ہوا کہ حرام مال سے کئے جانے والے نیک کام بھی قَبول نہیں کئے جاتے۔کیونکہ الله پاک ہے اور پاک مال ہی کو قبول فرماتا ہے۔ حرام مال کمانے، کھانے والوں کو چاہیے کہ آخرت کو یاد کرتے ہوئے اِن بُرے اَعمال سے دور رہیں، کیونکہ زیادہ عقلمند وہی ہے جو اپنے حصے کا رزق، حلال طریقے سے حاصل کرے۔

الله پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو حلال مال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام مال جیسی نحوست سے بچائے۔ اَللّٰهُمَّ اكْفِنِىْ بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَاَغْنِنِىْ بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ آمین 


ہماری شریعت مطہرہ نے زندگی گزارنے کے لیےحلال ذریعے سے کمانے کادرس دیا ہے جبکہ اس کے برعکس صورت کی مذمت فرمائی ہے افسوس کہ ایک تعداد حرام کمانے کھانے کے فعل میں مبتلا نظر آتی ہے ان میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو علم دین سے دوری کے باعث احساس تک بھی نہیں ہوتا کہ یہ حرام ہے۔ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: 29، 1 /370)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

1۔ دوزخ کا زیادہ مستحق؟: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو اور ایسا حرام گوشت دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔ (ترمذی، 2/118، حدیث: 614)

2۔ الله پاک کی لعنت کا مستحق: ارشاد فرمایا: رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔ ‏(ابو داود، 3/420،حدیث:3580)

3۔ قبولیتِ دعا سے محرومی: فرمایا: حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ص393، حدیث:2346)

4۔ صدقہ قبول نہیں: فرمایا: حرام مال کا کوئی صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مسلم،ص115، حدیث: 224)

5۔ اونٹ کی طرح ہونٹ: ارشاد فرمایا: میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کامال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، 2/ 467، حدیث: 725)

اے عاشقان رسول! اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ہمیشہ ڈرتے رہیے اور جن امور سے منع کیا گیا ان سے اجتناب اور جن کا حکم ہے ان کی بجاآوری کیجیئے حرام مال کھانے والوں پر اللہ پاک جنت حرام فرمادیتا ہے چنانچہ آقا ﷺ نےارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/ 8، حدیث: 9257)

الله پاک ہم سب کا کھانا پینا اوڑھنا سب حلال رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


جہاں کسب حلال کے بے شمار فضائل ہیں وہاں رزق حرام کمانے اور کھانے پر بہت ہی سخت وعیدیں بھی ہیں۔ بد قسمتی سے آج کل کسبِ حلال نایاب ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی بلا ضرورت جھوٹ بول کر بلکہ معاذ اللہ جھوٹی قسمیں تک کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں۔ مال کا عیب اور نقص اگر ہے تو اسے بھی ظاہر نہیں کرتے۔ رشوت، سود،دھوکہ بازی،جس بھی گناہ کا سہارا لینا پڑ جائے ضرور لیتے ہیں اور کماتے ہیں۔ ذرا غور تو کریں! آپ اتنا ہی کھاتے ہیں جتنی آپ کے پیٹ میں گنجائش ہوتی ہے، اسی قدر پہنتے ہیں جس قدر آپ کی جسامت ہے۔باقی آپ کی کمائی آپ کے اہل و عیال کھاتے ہیں اور و بال آپ پر آئے گا۔ لہذا برائے مدینہ! اپنے جسم ناتواں پر رحم کیجیے۔ خدارا!اسے جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیے۔ جس نے پیدا کیا ہے وہی رزق عطا کرنے والا ہے اور جو کچھ مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گا۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کس طرح حاصل کرتے ہیں۔ حرام کھانے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی، آج کل ہر کوئی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، میری پر یشانیاں دور نہیں ہوتیں، نہ جا نے کونسی خطا ہو گئی ہے جس کی مجھے سزا مل رہی ہے، یاد رکھیں، شیطان کایہ بھی کامیاب ترین وار ہے کہ انسان گناہ کرتا ہے پھر بھی اس کے ذہن میں بٹھا دیا ہے کہ تیری تو کوئی خطا ہی نہیں۔ حا لانکہ اس کا مال حرام کا، نماز کی توفیق نہیں، جھوٹ کی ہر وقت عادت، بد گمانی، وغیرہ۔ مومن کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ مال حلال ہی استعمال کرے اور مال حرام سے بچتا رہے۔ چنانچہ خدا وند قدوس نے قرآن مجید میں فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲) (پ2،البقرۃ: 172) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔ اب مال حرام کی مذمت احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے وہ حرام ہے یا حلال۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

2۔ بندہ جو حرام مال کمائے گا اگر اس کو صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہو گا اور اگر خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہو گی۔ اور اگر اس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ بنے گا۔ (شرح السنۃ للبغوی، 4/206، حدیث: 2023)

3۔ وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہو گا جو حرام غذا سے بنا ہوگا اور ہر وہ گوشت جو حرام غذا سے بنا ہو جہنم اس کا زیادہ حق دار ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/131، حدیث: 2772 )

4۔ تم لوگ سودا بیچنے میں بکثرت قسم کھانے سے بچتے رہو، کیونکہ قسم کھانے سے سودا تو بک جاتا ہے لیکن اس کی برکت برباد ہو جاتی ہے۔ (مسلم، ص 868، حدیث: 1607)

5۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: جو کسی کپڑے کو دس درہم میں خریدے اور اس میں ایک درہم بھی حرام کا ہو تو جب تک وہ کپڑا اس آدمی کے بدن پر رہے گا اللہ پاک اسکی کسی نماز کو قبول نہیں فرمائے گا یہ کہہ کر حضرت ابن عمر نے اپنی دونوں انگلیوں کو دونوں کانوں میں ڈال کر یہ فر مایا کہ اگر میں نے اس حدیث کو حضور ﷺ سے نہ سنا ہو تو میرے یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

لقمہ حرام کی نحوست: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں(یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں )موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)

حرام ذریعوں سے کمائے ہوئے مالوں کو کھانا، پینا،پہننا یا کسی اور کام میں استعمال کرنا حرام وگناہ ہے اوراس کی سزا دنیا میں مال کی قلت و ذلت اور بے برکتی ہے اور آ خرت میں اس کی سزا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو حلال رزق کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔


مو جودہ دور میں حرام ذریعے سے مال حاصل کرنا بہت عام ہو چکا ہے جبکہ حرام ذریعے سے مال حاصل کرنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جس کا لینا حرام ہے اس کا دینا بھی حرام ہے قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ الله پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر ہو یا چھین کر، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جس نے حرام مال کمایا اور صدقہ کر دیا تو قبول نہ ہو گا اور اگر اسے اپنے پیچھے چھوڑ گیا تو دوزخ کا سامان ہوگا۔ (کتاب الضعفاء للعقیلی، 2/599، رقم:751)

2۔️ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا تو آگ اس کے بہت قریب ہوگی۔ (شعب الایمان، 5/56، حدیث: 5759)

3۔️ جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو،اس کا لباس حرام ہو،اس کی غذا حرام ہو تو ا س کی دعا کہاں قبول ہو گی۔ (مسلم، ص506، حدیث:1015)

4۔️ جس شخص نے دس درہم میں کپڑا خریدا اس کی قیمت میں ایک درہم حرام مال کا ہو تو جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پر ہو گا الله اس کی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

5۔️ بیت المقدس پر الله کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات ندا دیتا ہے کہ جس نے حرام کھایا اس کے نہ نفل قبول ہیں نہ فرض۔ (الکبائر للذھبی، ص 137)

یاد رکھیے! رزقِ حرام کمانا اسلام میں سخت ناجائز اور اس سے حاصل ہونے والی ہر چیز منحوس ہے تمام مسلمانوں پر حق ہے کہ وہ اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کریں۔ جس طرح حرام سے بچنا ضروری ہے اسی طرح شک و شبہ کی کمائی اور مشکوک مال سے بھی بچنا ضروری ہے چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اس حلال اور حرام میں بعض شبہ والی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے آیا وہ حلال ہیں یا حرام۔ لہٰذا جو شک و شبہ والی چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین کو بچا لیا جو ان شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا تو اس کی مثال اس چرواہے جیسی جو شاہی چراگاہ کے پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔قریب ہے کوئی جانور اس میں گھس جائے، خبردار! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہے جس میں دوسروں کے جانوروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے سن لو! الله کی چراگاہیں اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔

الله سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کردہ چیزوں سے بچا کر حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


باطل طریقے سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی وکالت، خیانت اور غضب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنے مال کو باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نا فرمانی میں خرچ کرنابھی اسی میں داخل ہے۔ رشوت کا لین دین کرنا ،ملاوٹ والا مال فروخت کرنا،قرض دبا لینا ،ڈاکہ زنی اور ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی سب حرام میں شامل ہے۔ حرام کمانا اور کھانا اللہ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیثِ مبارکہ میں بھی اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔

1۔ حدیث مبارکہ میں ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا،ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث:3672)

2۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ایک شخص جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار آلود ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یا رب پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام ،لباس حرام اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، ص 506، حدیث: 1015)

3۔ سرورِ کائنات ﷺ نے حرام مال کے متعلق فرمایا: اللہ پاک نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/8، حدیث: 9257)

4۔ تاجدارِ رسالت ﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو، اس زات پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/34، حدیث: 6495)

حلال کی کمائی انسان کھاتا ہے جبکہ حرام کمائی انسان کو کھا جاتی ہے، لقمہ حلال کی بہت برکت ہے حلال کھانے والے نفس کی شر انگیزی میں کمی آتی ہے اور دل میں روشنی پیدا ہوتی ہے دل نرم رہتا ہے اور غیرت والے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے اس کے برعکس اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جس کے پیٹ میں لقمۂ حرام ہو حرام کھانے کی وجہ سے اس کا دل بگڑ جاتا ہے جیسے کھال بگڑ جاتی ہے اور پھر اپنی حالت پر کبھی نہیں آتا، قرآن پاک میں ایمان والوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ منافقوں کی طرح تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے جو ایسا کرے گا کہ دنیا میں مشغول ہو کر دین کو فراموش کر دے گا، مال کی محبت میں اپنے حال کی پرواہ نہ کرے گا، اور اولاد کی خوشی کے لئے آخرت سے غافل رہے گا تو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں کیونکہ انہوں نے فانی دنیا کے پیچھے آخرت کے گھر کی باقی رہنے والی نعمتوں کی پروا نہ کی۔ جو شخص حرام کھاتا ہے وہ چاہے یا نہ چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو اس کے اعضاء گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب حلال کھاتا ہے تو اس کے اعضاء فرمانبردار ہو جاتے ہیں اور اسے اعمالِ خیر کی توفیق دی جاتی ہے۔

مذکورہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ حلال کھانے سے نیکی کی توفیق ملتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور انسان جنت کا مستحق ہو جاتا ہے جبکہ حرام کھانے سے نیکی کی توفیق سلب ہو جاتی ہے، نیک اعمال قبول نہیں ہوتے اور دوزخ مقدر بن جاتی ہے اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں نصیحت کے مدنی پھول اور غوروفکر کرنے والوں کے لئے واضح حدایت موجود ہے اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور احادیثِ مبارکہ سے نصیحت حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین


اکثر افراد کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں ا س بات کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے مال کہاں کمایا ہے کن ذرائع سے حاصل کیا ہے بلکہ ان کی اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ کسی سے نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کیاجائے چاہے وہ مال چوری کا ہو یا رشوت کا ہو یا کسی کا حق مار کر حاصل کیا گیا ہو یا سود سے حاصل ہو یا یتیم کا مال ہو یا زکوۃ کی رقم ہویا جھوٹ فریب اور دھوکے سے حاصل کیا گیا ہو وغیرہ۔ قرآن کریم کی سورۃ النساء آیت نمبر 29 میں رب کریم فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔حلال کمانے اور حلال کھانے میں مسلمان کے لئے دنیا اور آخرت کی نجات ہے جبکہ حرام کا لقمہ دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ حرام روزی کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ پڑھئے اور عبرت حاصل کیجئے:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔️ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یارب! یا رب! کہتا ہے (یعنی دُعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیونکر مقبول ہو! (یعنی اگر قبول دعا کی خواہش ہو تو کسب حلال اختیار کرو)۔ (مسلم، ص 506، حدیث: 1015)

2۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو! مستجابُ الدعوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط، 5 / 34، حدیث: 6495)

3۔ جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا لیکن اس میں ایک درہم حرام کا تھا، تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا، اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

لقمۂ حرام کی نحوست: مكاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی توداخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب،ص 10)

یہاں حرام خوری سے متعلق چند سزاؤں کا تذکرہ ہوا ورنہ اس سے متعلق بے شمار سزائیں ہیں، اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے، اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حلال کمائی کی ترغیب دی اور حرام کمائی سے منع کیا لہذا حلال طریقے سے ہی روزی کمائی جائے۔ سلف صالحین حرام کمائی بلکہ مشتبہ امور سے بھی بچتے تھے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے مگر آج کا زمانہ نبی ﷺ کے فرمان کا مصداق ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے جب لوگ حلال و حرام کی پرواہ نہیں کریں گے۔(بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

اللہ کریم ہم سب کو حلال کمانے اور حرام سے کامل طور پر بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین