قرآن مجید میں "میزان" کا ذکر مختلف معانی اور سیاق
و سباق میں آیا ہے، جو اس کی ہمہ گیریت اور اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ یہ محض کسی
ترازو یا وزن کرنے کے آلے تک محدود نہیں بلکہ اس میں عدل، توازن اور حق و باطل کو
پرکھنے کا ایک وسیع مفہوم پنہاں ہے۔ قرآن مجید میں "میزان" ایک جامع اصطلاح ہے جو
کائنات میں ربانی نظام اور دینِ الٰہی کے حق و باطل کو پرکھنے کے معیار کو بھی شامل ہے اور خاص طور پر
روزِ قیامت اعمال کے وزن کے لیے قائم ہونے والے ترازو کو بھی بیان کرتی ہے۔
(1) دنیاوی
توازن اور عدل : قرآن مجید میں میزان کا ایک مفہوم دنیا میں قائم قدرتی
توازن اور شرعی عدل و انصاف ہے۔ سورۃ
الرحمن میں اللہ تعالیٰ نے "میزان" کا ذکر فرمایا ہے: وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا
تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔
(الرحمٰن: 7، 8)
یہاں میزان سے مراد وہ کامل توازن ہے جو اللہ
تعالیٰ نے کائنات کے تمام اجرام فلکی اور نظام میں قائم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی
انسانوں کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معاملات میں اس توازن کو بگاڑیں نہیں۔
(2) قیامت
کے دن میزان عمل: قرآن مجید میں میزان کا ایک اہم مفہوم وہ ترازو ہے جو روزِ
قیامت اعمال کے وزن کے لیے قائم کیا جائے گا، متعدد آیات میں قیامت کے دن اعمال کے وزن اور
ان کے نتائج کا ذکر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ
ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
مزید آیت نمبر
9 میں ارشاد فرمایا: وَ مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا
بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان
زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے۔ (پ8، الاعراف:9)
اسی طرح کی آیات سورۃ المؤمنون، سورۃ
القارعہ، اور سورۃ الکہف میں بھی موجود ہیں: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ
عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ
هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری
ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ
گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
انصاف کا ترازو: قرآن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ قیامت کے دن کسی
پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا اور میزانِ عدل قائم کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ
اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا
حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں
گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے
برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
محمد
مبشر عبدالرزاق عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
قرآن پاک اللہ پاک کا عظیم اور بے مثال کلام ہے جو تمام
انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے اور ہر چیز کا واضح اور روشن بیان ہے قرآن پاک میں جس طرح حلال و حرام کے احکام، انبیاء کرام
علیہم السلام کے اوصاف، گزشتہ امتوں کے واقعات کا بیان ہے اسی طرح قرآن پاک نے آخرت کی مناظر اور ہولناکیوں کو بھی بیان
فرمایا ان میں سے ایک کٹھن اور مشکل ترین مرحلہ'' میزان '' بھی ہے میزان سے مراد
وہ ترازو ہے جس پر بروز قیامت انسانوں کے نامہ اعمال کا وزن کیا جائے گا ، حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں
وزن کیا جائے گا اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں مومن کا عمل حسین صورت میں
آئے گا اس کو میزان کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے
پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا ۔ (شعب الایمان ، الثامن من شعب الایمان ، ۔۔ الخط 1 /260 حدیث 281 )
آئیے ہم بھی میزان
کے متعلق قرآن پاک کی چند آیات پڑھتے ہیں اور اپنے اعمال و افعال کی
اصلاح کرتے ہیں :
(1) میزان برحق ہے: میزان پر انسانوں کے اقوال و افعال کا وزن ہونا برحق اور
اسلام کے عقائد میں سے ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے جیسے کہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے ۔ (پ8 الاعراف 8)
(2) عدل و
انصاف کا ترازو: اللہ پاک بروز قیامت میزان پر لوگوں کے اعمال کا
وزن فرمائے گا تو کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے یا نیکیوں میں کمی کر کے ظلم نہ
کرے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ فرمائے گا اگر کسی نے ذرہ برابر
بھی عمل کیا ہوگا تو اس کا بدلہ دیا جائے گا جیسے کہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرما تا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو
رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
(3) اعمال کی مقبولیت کا معیار: اعمال کی مقبولیت اور اجر و ثواب کا معیار ایمان
اور اخلاص پر ہے تو جو اعمال اخلاص اور ایمان سے خالی ہوں گے بروز قیامت میزان پر
ان کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی جیسے کہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ
الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ کنز
العرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ ( الکہف: 105)
(4) کامیابی
کا معیار: قیامت کے دن میزان پر جس کے نیک اعمال اور حسنات
کا وزن زیادہ ہوگا تو وہ حقیقی کامیابی (اللہ کی رضا اور جنت) پائے گا جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) ترجمہ کنزالعرفان: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
کامیاب ہونے والے ہوں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)
(5) رسوائی کا سبب: بروز قیامت جس کی نیکیوں کے پلڑے ہلکے پڑیں گے تو وہ ہمیشہ کی ذلت و رسوائی اٹھائے گا اور اس
کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا جو کہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی
ہے چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ
هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے
پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے
مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ:8تا 11)
پیارے اسلامی
بھائیو! میزان انتہائی خطرناک اور نازک مرحلہ ہے اس دن ہر ایک
نفسی نفسی کے عالم میں مبتلا ہوگا کافروں
کے ظاہری نیک اعمال قیامت کے دن بے وزن
ہوں گے،میزان کی سختیوں اور ہولناکیوں سے نجات اپنا محاسبہ کرنے اور اعمال و افعال
کی اصلاح کرنے میں ہے ،امام محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میزان کے خطرے
سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے
ساتھ اپنے اعمال، اقوال اور خطر ات و خیالات کو تولا ہو ۔ (احیاء علوم الدین ،
کتاب ذکر الموت وبعدہ ج 5، ص 281 مطبوعہ بیروت
العلمیہ)
اللہ پاک ہمیں
آخرت کی تیاری کرنے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی انفرادی اور
اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متوازن، عادلانہ اور منصفانہ اصولوں کے تحت
استوار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔انہی اصولوں میں سے ایک نہایت بنیادی اور مرکزی اصول
"میزان" کا ہے، جو قرآن میں بار بار بیان ہوا ہے اور جس پر کائنات کی
ساخت اور جزا اور سزا کا نظام قائم ہے۔
میزان
کا لغوی مفہوم: میزان عربی زبان کا
لفظ ہے جس کے معنی ہیں: "ترازو" یا "ناپ تول کا پیمانہ" ۔ اس
کا تعلق نہ صرف مادی اشیاء کے تولنے سے ہے بلکہ وسیع معنوں میں یہ عدل، حق، انصاف
، اور تناسب کے ہر پہلو کو شامل کرتا ہے ۔
میزان
کا قرآنی استعمال: قرآن کریم میں میزان کا تصور مختلف سیاق و سباق میں
استعمال ہوا ہے ، جس میں سے چند آیات درج
ذیل ہیں :
عدل کا ترازو:وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
بے
اعتدالی نہ کرو: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو۔( الرحمن، آیت: 7تا 8)
عیش
اور خسارے میں : فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان:
توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو
پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ
ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
الله عزوجل ہمیں
قرآن کے مفاہیم کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی الله علیہ وآلہ وسلم
میزان لغت میں
ترازو کو کہا جاتا ہے آسان الفاظ میں یوں کہیں کہ جس چیز کےذریعے کسی شے کی مقدار
معلوم کی جائے اسے میزان کہتےہیں بروز قیامت اللہ پاک میزان قائم فرمائے گا جس میں
بندوں کے اعمال تولے جائیں گے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعمال تو نظرنہیں آتے
تو ان کاوزن کیونکر ہوسکتا ہے ؟؟
اس بارے میں
مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے
اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا
جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور
برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری
صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا
وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً) سورۃ الاعراف پارہ نمبر 8 میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ
کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
میزان احادیث
متواترہ سے ثابت ہے اور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے البتہ اس کی کیفیت ہماری عقلوں
سے بالا تر ہے محض اللہ ورسول عزوجل وصلی
اللہ علیہ وسلم ہی اسے بہتر جانتے ہیں ۔ وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں
کا پلہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اُٹھے گا اور بدی کاپلہ نیچے بیٹھے گا۔ ( فتاوی
رضویہ ج29 ص 626 )
سورۃ الانبیاء
میں ارشاد ہوتا ہے :وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ
الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ
مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں
گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
حضرت مفتی
احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس طرح جسمانیات میں پانی مٹی وغیرہ اشیاء کے
وزن کو بڑھادیتی ہیں اسی طرح روحانیات میں اخلاص خشوع اور عشق رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اعمال کے وزن کوبڑھا دیتے ہیں ۔ ( تفسیر نعیمی ج 8 تحت الآیۃ بتغیر یسیر )
یہی وجہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے سوا سیر صدقے کو عام امتی کے احد پہاڑ
جتنا مال صدقہ کرنے سے افضل قرار دیا (مشکاۃ ، باب الفضائل حدیث 6007 )
ثابت ہوا کہ جملہ
فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی
اس تاجور کی ہے
بلا
حساب وکتاب جنت میں داخل ہونے والے : سورہ زمر میں ارشاد ہوتا ہے: قُلْ یٰعِبَادِ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْؕ-لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ
الدُّنْیَا حَسَنَةٌؕ-وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌؕ-اِنَّمَا یُوَفَّى
الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۱۰) ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ اے میرے بندو جو ایمان
لائے اپنے رب سے ڈرو جنہوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے اور
اللہ کی زمین وسیع ہے صابروں ہی کو ان کا
ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی ۔ (الزمر: 10)
قرآن مجید میں درج ذیل مقامات میں میزان کا ذکر ہے :
(
1)سورۃ الاعراف آیت نمبر 8
(2)سورۃ الکہف آیت نمبر 105
(3) سورۃ
الانبیاء آیت 47 (4)سورۃ
الشوری آیت 17
(5)سورۃ رحمن
آیت 7اور 8 (6)
سورۃ القارعہ آیت 6 تا 11
اللہ پاک ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور
مرنے سے پہلے قبر وحشر کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عطاء المصطفیٰ عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور
،پاکستان)
قرآن پاک اللہ پاک کی عظیم وہ لاریب کتاب ہے جس میں ہر چیز
کا بیان ہے ، قرآن مجید میں جس طرح عبادات کے احکام اور پچھلی قوموں کے
واقعات مذکور ہیں اسی طرح اللہ پاک نے بروز قیامت میزان پر انسان کے نامہ اعمال کے
بارے میں بھی بیان فرمایا ہے۔
وزن کا معنی
ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے
تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
میزان کہتے ہیں ۔
قیامت کے دن
اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی
ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں
ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا
وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں
گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری
صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا
وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً)
پانچ
قرآنی آیات اور ان کی وضاحت:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹)
اللہ تعالیٰ
نے کائنات کو توازن اور عدل کے اصول پر قائم کیا ہے۔ اسی طرح انسانوں کو بھی حکم دیا
کہ وہ تولنے، ناپنے اور فیصلوں میں انصاف کا دامن نہ چھوڑیں۔
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:
اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے
والے ہوں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں
کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:8،
9)
روزِ قیامت میزان میں
اعمال تولے جائیں گے اور نجات ان لوگوں کو ملے گی جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری
ہوگا۔
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
اللہ
تعالیٰ آخرت میں عدل کرے گا اور ہر شخص کے اعمال انصاف سے تولے جائیں گے اور کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
قرآن کریم نے "میزان" کو عدل، توازن اور انصاف کی
علامت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں بھی انسان ایک
دوسرے کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں ۔
محمد ابدال عطاری (درجہ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے انسانوں اور جنوں کو پیدا کیا، ان کی
ہدایت کیلئے انبیاء کرام علیھم السّلام کو مبعوث فرمایا تاکہ انبیاء کرام علیھم
السّلام لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں ان میں سے آخری نبی محمد عربی ﷺ جو پوری کائنات کے لیے سراپا ہدایت کا سر چشمہ بن کر تشریف لائے اور پیغام
الہی لوگوں تک پہنچایا، تو کچھ لوگوں نے ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے حق کا راستہ اختیار
کیا اور کچھ لوگوں نے اس سے منہ پھیر لیا پھر حق کا راستہ اختیار کرنے والوں کو
جزا دینے اور منہ پھیرنے والوں کو سزا دینے کیلئے اللہ عزوجل قیامت قائم کرے گا جس
میں اللہ عزوجل تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دے
گا اور ان لوگوں کے اعمال کے حساب کیلئے اللہ عزوجل میزان قائم کرے گا۔
میزان کا معنی اور مفہوم: میزان
"وزن" سے بنا ہے وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت معلوم کرنا
اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو "وزن کرنا" کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب ، کتاب الواو ، ص 868) جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
"میزان" کہتے ہیں. (تاج العروس ، باب النون ، فصل الواو ، ج 9، ص 361)
میزان کیا ہے؟ قیامت کے دن انسانوں کے اچھے اور برے اعمال کو ایک
ترازو میں تولا جائے گا تاکہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دی جائے اس ترازو
کو "میزان" کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ
خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا
كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی
ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے
تھے ۔ (الاعراف:8، 9)
میزان کے بارے میں عقیدۂ اہلسنت : میزان
حق ہے قیامت کے دن اس میں تمام انسانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا یہ قرآن و سنت
سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ (المعتمد علی المعتقد ،ص 333) اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن ۔ (الانبیاء: 47)
قیامت کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان
فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان کی
کیفیت: آخرت کا میزان(ترازو) دنیا کے
ترازو کی طرح نہیں ہوگا کہ جس طرح دنیا میں ترازو کا جو پلّہ بھاری ہو وہ نیچے جھک
جاتا ہے اور جو ہلکا ہو وہ اوپر اٹھ جاتا ہے بلکہ آخرت کا ترازو اس کے برعکس ہوگا اگر
نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا تو وہ اوپر اٹھ جائے گا اور گناہوں کا نیچے جھک جائے گا۔
اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ
الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ
ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ
کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ 22،فاطر:10)
میزان کے منکر کا حکم: میزان
کا انکار کرنے والا گمراہ و بدعتی ہے(فتاویٰ رضویہ ،ج 28 ،ص 667)
مذکورہ باتوں
سے پتہ چلا کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کے اچھے اور برے اعمال کا وزن کیا جائے گا
اور ان کے اعمال کے مطابق انہیں جزا دی جائے گی لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ عزوجل
کی اطاعت و فرمانبرداری کے کام کریں اور اللہ عزوجل کی نافرمانیوں سے بچیں تاکہ
آخرت میں ہماری نیکیوں کا پلّہ بھاری ہو اور ہم آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔
اللہ عزوجل ہمیں
عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم
النبیین الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلّم
حنین رضا ( دورہ حدیث
جامعۃ المدینہ فیضانِ بغداد کورنگی کراچی ،پاکستان)
بے شک اللہ
تعالیٰ نے ہمیں ایک نہایت ہی مہذب انداز میں اس دنیا میں رہنا سیکھایا اور اسکے
کچھ قوانین بھی بنائیں ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا ضروری ہوتا ہے اگر ہم ان معاملات میں
عمل پیرا ہوتے ہیں تو اللہ پاک نے ہم سے وعدہ لیا ہے کہ وہ ہمیں اس کی جزا دار بقا میں عطا فرمائے گا اور اگر ہم ان قوانین
کے مطابق اپنی زندگی نہیں گزارتے ہیں تو اللہ پاک نے ہمیں اس بات کا بھی پابند کیا
ہے کہ وہ ہمیں یوم الوعید میں اس کی سزا دے گا اور یہ سارا کچھ بروز قیامت میں بذریعۂ
میزان کے ہوگا ۔ اللہ پاک اس خاص دن ایک ایسا
میزان قائم کرے گا کہ جس کا ذکر قرآن کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ
بآسانی مل جاتا ہے بلا شبہ یہ وہ دن ہے کہ جس میں وعدوں کی تکمیل ہونی ہے اسی ضمن
میں اللہ پاک قرآن پاک کی سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں ارشاد
فرماتا ہے ملاحظہ فرمائیں
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى
اللّٰهِۗ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا
یُظْلَمُوْنَ۠(۲۸۱) ترجمۂ کنز
العرفان:اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس
کی کمائی بھرپور دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: 281)
اس آیت کی تفسیر
کے تحت شیخ الحدیث و التفسير ابو صالح مفتی محمد قاسم صاحب اپنی مایہ ناز تصنیف ''
تفسیر صراط الجنان'' میں فرماتے ہیں :
اس آیت میں قیامت
کے دن سے ڈرایا جارہا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا
جائے گا اور اس دن لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، نہ بلاوجہ
ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں گی اور نہ بدیاں بڑھائی جائیں گی۔ (پارہ نمبر :3 سورۃ
البقرۃ،آیت 281)
اور یہ سارا
معاملہ اللہ پاک یوم الفصل میں بذریعۂ میزان کے فرمائے گا چنانچہ اسی ضمن میں حدیث
مبارکہ پیش خدمت ہے: حضرت ابو درداء
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے
اخلاق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز بھاری نہیں ہے“۔ (ابو داؤد ،کتاب الادب، الحدیث 4799)
ہمیں اس حدیث
پاک سے یہ ترغیب دلائی جارہی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اچھے اعمال کو بجا لاکر اپنے
لئے جنت میں جانے کے اسباب بآسانی بنا سکتے ہیں وہ اچھے اعمال جس کی ترغیب ہمیں
ہمارے نبی کریم ﷺ نے دی ہے لہٰذا ماحول جیسا بھی ہو ہمیں نیک اعمال کا مظاہرہ کرتے
رہنا چاہیے۔
لہٰذا میزان کی حقانیت پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی
ایک اور آیت ناطق ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف: 8)
اس آیت کے تحت شیخ الحدیث و التفسير ابو صالح
مفتی محمد قاسم صاحب مد ظلہ العالیہ اپنی مایہ ناز تصنیف تفسیر صراط الجنان میں
فرماتے ہیں : اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال
کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار
کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے
ہیں۔ اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا
جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘
سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں :
یہاں میزان کے بارے میں 2 اہم باتیں
ذہن نشین رکھیں :
(1)صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان کو
اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
اللہ کریم ہمیں
دنیا میں رہ کر ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ جس کی وجہ سے آخرت میں ہمیں
کامیابی اور میزان بھاری ہو۔ آمین ثم آمین
حافظ عباد علی (درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان ابوعطار کراچی ،پاکستان)
میزان اس چیز
کو کہتے ہیں جس سے اعمال کی مقداریں جانچی جاتی ہیں، حالانکہ عقل اس کی نوعیت کو
سمجھنے میں قاصر ہے۔ (شرح عقائد النسفیہ ص: 368)
میزان وہ عمل
ہے جو قیامت کے دن ہوگا، جب ہر ایک شخص اپنی فکر میں مبتلا ہوگا، خوف و ہراس کی حالت میں لوگ اپنے پسینوں میں
بہہ رہے ہوں گے، اور ”نفسی نفسی “ کی آوازیں
بلند ہوں گی۔ اس دن اللہ تعالیٰ نیک
اور بد کے درمیان فیصلے کے لیے میزان کو استعمال
فرمائے گا اور نیکوں کو ان کی جزا دے گا
جبکہ بروں کو ان کی سزا ملے گی۔ قرآن پاک میں ہے:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور
انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)
یہ
آیت ایک اہم سبق دیتی ہے کہ اللہ نے وزن کا پیمانہ مقرر کیا ہے، اس کا استعمال انصاف
کے طریقے سے کرو، کسی قسم کی کمی و زیادتی نہ کرو اور لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہ
کرو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ
خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا
كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری
ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ
ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا
کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:8، 9)
اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے دن وزن
ہونا حق ہے اور اس میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہے: ایک وہ جو دنیا میں نیک اعمال
کرتے تھے، اللہ اور بندوں کے حقوق کی پاسداری کرتے تھے، اور تمام برے اعمال سے
بچنے کی کوشش کرتے تھے، تو ان کے پلڑے بھاری ہوں گے اور وہ کامیاب، یعنی جنت میں
داخل ہوں گے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا میں برے کاموں میں لگے رہے، ہر ایک کے
ساتھ برا سلوک کرتے رہے، تو ان کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور یہی نقصان اٹھانے والے، یعنی
عذاب دوزخ پانے والے ہیں۔
انسان کا دنیا
میں قیام عارضی اور فانی ہے کیونکہ دنیا دارالعمل ہے دنیا میں جو بھی کام کیے بروز
محشر ان کا وزن اور حساب ہوگا اور اسی اعتبار سے سزا و جزا کا معاملہ ہوگا
اور ذرہ برابر بھی کوئی نیکی یا بدی کی
ہوگی بروز محشر سامنے آئے گی جیسا کہ قرآن
مجید میں رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ
خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸)
ترجمہ کنز
العرفان: توجو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے
وہ اسے دیکھے گا۔اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔ ( الزلزال : 7 تا 8)
انسان کی نیکیوں
اور بدیوں کا بروز محشر وزن ہو گا اور اس کے لیے ترازو قائم کیا جائے گا ۔
میزان
کا مفہوم: میزان سے مراد وہ ہے جس
سے کسی چیز کا وزن کیا جائے اور اس کی مقدار کی معرفت حاصل کی جائے۔(تفسیر مدارک
سورہ انبیاء آیت نمبر 47 تحت آلایۃ )
عرف عام میں
ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ وزن کیا جائے
اسے میزان کہتے ہیں ۔
میزان
حق ہے: قرآن مجید میں بھی اس کا تذکرہ کئی مقامات پر بیان کیا گیا
ہے ، اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں وزن سے میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا مراد ہے۔ (خازن،
الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)
اعمال
کے وزن کی صورتیں:
1۔ وہ صحیفے
جن میں اعمال تحریر ہوں گے وہ میزان میں رکھے جائیں گے ان کا وزن ہو گا
2۔اعمال ناموں
کے لیے ایک صورت پیدا کر دی جائے گی اور اس کو میزان میں رکھا جائے گا ۔
3۔ بعض علما
فرماتے ہیں اللہ پاک نے اعمال کے وزن کا ذکر فرمایا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور
اس کی کیفیت و صورت کو نہیں جانتے۔( تفسیر سمرقندی ج 1 ص 571 اعراف آیت 8 مکتبہ حقانیہ ملتان)
ظلم
نہ کیا جائے گا: اور حساب و کتاب
اور وزن کا معاملہ قیامت کے دن کے ہوشربا مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ
ہو گا ، نیکیوں اور برائیوں کے معاملے میں
ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ قرآن مجید نے اس کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء،
آیت: 47)
اس آیت کریمہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت
کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے
اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے
معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال
میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی
ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز
کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں۔
حضرت داؤد علیہ
السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی کہ وہ
انہیں میزان (قیامت کے دن نیکیوں اور بدیوں کو تولنے والا ترازو) دکھائے۔ تو اللہ
تعالیٰ نے انہیں دکھایا اور اس کی ہر پلڑا (کِفَّہ) مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا، یہ منظر دیکھ کر حضرت داؤد علیہ السلام پر غشی
(بیہوشی) طاری ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو عرض کیا:اے میرے پروردگار! کون ہے جو اس
ترازو کی ایک پلڑے کو نیکیوں سے بھر سکے؟
اللہ تعالیٰ
نے فرمایا:اے داؤد! جب میں اپنے بندے سے راضی ہو جاتا ہوں تو ایک کھجور (جیسی
معمولی نیکی) سے بھی وہ پلڑی بھر دیتا ہوں۔"(تفسیر روح البیان ج 5 ص 580 تحت
آلایۃ)
لوگوں
کے حالات: میزان عمل پر لوگوں کے
حالات مختلف ہوں گے، کچھ لوگ ایسے ہوں گے
کہ جن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا اور ان کو جنت میں جانے کی خوشخبری سنائی جائے
گی اور کچھ افراد ایسے ہوں گے جن کی نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور ان کو ھاویۃ یعنی
اگ میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ قرآن مجید
فرقان حمید میں بھی اس کا تذکرہ ہے
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)
ترجمہ کنز
العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو
اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ
ہے۔ (پ30، القارعہ: 6تا 11)
اس آیت کریمہ
کی تفسیر میں مفتی اہلسنت مفتی قاسم عطاری مدنی دام ظلہ العالی رقمطراز ہیں :ان آیات
کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو
بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ
ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا
اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے
پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا
معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔(تفسیر صراط الجنان
ج 10 ص 805)
لہذا معلوم
ہوا کہ ہمیں ایسے اعمال بجا لانے ہیں جو میزان میں نیکیوں کے پلڑے کو وزنی کردیں
اور یوں رحمت خداوندی سے جنت کا داخلہ نصیب ہو جائے ۔
میزان
عمل کو بھرنے والے اعمال: اب کچھ ایسے اعمال ذکر کیے جاتے ہیں جو میزان
عمل کو بھر دیں گے اور بندے کی نجات اُخروی کا ذریعہ بن جائیں گے :
(1) بخاری
شریف میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: دو کلمے زبان پر ہلکے ہیں
ترازو میں بھاری رحمن کو پیارے ہیں ، سبحان
اﷲ و بحمدہ سبحان الله العظیم۔(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبیح ص 1230 حدیث 6405)
(3) ترمذی شریف میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تسبیح میزان کا نصف ہے اور الحمد للہ اس کو بھر
دیتا ہے۔ (جامع الترمذی کتاب الدعوات حدیث 3518 ص 554 )
اللہ پاک ہم
سب پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل جنت میں داخلہ نصیب فرمائے اور خوب نیک
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
محمد زوہیب اشرف (درجہ
سادسہ جامعۃ المدینہ اپر مال روڈ لاہور ،پاکستان)
اللہ تبارک و
تعالی نے ہر انسان کو اچھے،برے اعمال کرنے کا اختیار دیا ہے۔اور قیامت کے دن اللہ
تبارک و تعالی انسانوں سے ان کے اچھے اور برے اعمال کا حساب لے
گا۔اور اعمال کا حساب قیامت کے دن وزن کے ذریعے ہوگا۔اسی کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور
برحق ہے ۔(پ8،الاعراف:9)
آئیے ! اب وزن اور میزان کا معنی پڑھتے ہیں: کسی
چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا۔اور عرف میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن
کہتے ہیں۔جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے ا سے میزان کہتے ہیں۔ (تفسیر صراط
الجنان ج 3 ص 270)
میزان
کا شرعی معنی پڑھتے ہیں: میزان ایک
ترازو ہوگا جس کے دو پلے ہوں گے اس پر لوگوں کے اچھے برے اعمال تولے جائیں گے۔ (قانون شریعت، ص 42 مکتبہ اسلامی کتب خانہ)
قرآن پاک اس میزان عمل کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟ پڑھیئے
(1) پسندیدہ
زندگی اور شعلہ مارتی آگ: اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال
جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ
کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
ان تمام آیتوں
کا خلاصہ یہ ہے : جسکے وزن دار عمل یعنی نیکیاں زیادہ ہوئیں وہ جنت میں ہوگا۔مومن
کی نیکیاں اچھی صورت میں لاکر میزان میں رکھی جائیں گی تو اگر وہ غالب ہوئیں تو اس
کے لئے جنت ہے۔ اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی
اور وزن ہلکا بڑھے گا کیوں کہ کفار کے اعمال باطل ہیں،ان کا کچھ وزن نہیں،تو انہیں
جہنم میں داخل کیا جائے گا۔اس وجہ سے کہ وہ باطل کی پیروی کرتا تھا۔اور اس کا
ٹھکانہ دوزخ کی آگ ہوگا جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو
جہنم کی آگ سے بچائے۔ آمین (ملخصا تفسیر
خزائن العرفان ص 1117)
(2)
جنتی گھر والوں کی طرف خوشی خوشی جانا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ
بِیَمِیْنِهٖۙ(۷) فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًاۙ(۸) وَّ یَنْقَلِبُ
اِلٰۤى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاؕ(۹) ترجمۂ
کنز العرفان: تو بہر حال جسے اس کا نامہ
ٔاعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا
جائے گا۔اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف خوشی
خوشی پلٹے گا۔ ( الانشقاق: 7 تا 9)
ان آیتوں کا
خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جسے اس کا نامۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا اور وہ حساب کے بعد
اپنے جنتی گھر والوں کی طرف اپنی اس کامیابی
پرخوشی خوشی پلٹے گا۔ (تفسیر صراط الجنان ج 10 ص 587)
(3) موت مانگنا اور بھڑکتی آگ میں داخل ہونا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَآءَ
ظَهْرِهٖۙ(۱۰) فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًاۙ(۱۱) وَّ یَصْلٰى سَعِیْرًاؕ(۱۲) ترجمۂ
کنز العرفان: اور رہا وہ جسے اس کا نامہ
ٔاعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔تووہ عنقریب موت مانگے گا۔ اور وہ بھڑکتی ا ٓگ میں داخل ہو گا۔ ( الانشقاق: 10 تا 12)
ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ہاتھ بندھے
ہوں گے اور پیچھے سے ان کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیے جائیں گے کیونکہ کفار کے
اعمال نامے دائیں ہاتھ سے پکڑنے کے لائق نہیں۔اور اچھے کام دائیں ہاتھ سے کئے جاتے
ہیں اور کفار کا کوئی بھی عمل اچھا نہیں ہے۔اور کافروں نے دنیا میں اوندھے(الٹے) کام
کئے لہذا انہیں اعمال نامے بھی اوندھی طرف یعنی پیٹھ کے پیچھے سے دیے گئے۔اور کافر
قیامت کے دن موت کی دعا کرے گا۔ یا موت کو پکارے گا۔ یا موت کی تمنا اور آرزو کرے
گا۔تاکہ وہ موت کے ذریعے چھٹکارا حاصل کرے۔حالانکہ کافر دنیا میں موت سے بچتا ہے
اور وہاں قیامت والے دن موت کی آرزو اور تمنا کرے گا۔اور کافر قیامت کے دن دوزخ میں
جائے گا۔(ملخصا تفسیر نور العرفان ص 939 تا 940 مکتبہ پیر بھائی کمپنی)
(4) کافروں کے لئے وزن قائم نہ کرنے کا مطلب : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَا نُقِیْمُ
لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ کنز العرفان:پس ہم ان کے لیے
قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ ( الکہف: 105)
وزن قائم نہ
کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان (کافروں)کے ظاہری نیک اعمال کی کوئی قدر وقیمت
ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا
اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک
اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت
ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت
اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور
اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ (تفسیر صراط الجنان ج 6 ص 45)
البتہ اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں کو اللہ تعالیٰ جلد دوزخ میں ڈالنا چاہے گاانہیں اعمال
کے وزن کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا اور بقیہ
کافروں کے اعمال کا وزن کیاجائے گا اسی
طرح بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں داخل کر دے گا۔(تفسیر صراط الجنان ج 10 ص 805)
ان آیات کریمہ
سے ثابت ہوا کہ قیامت کے دن میزان قائم ہوگا اور اعمال کا وزن ہوگا۔تو ہمیں بھی
اللہ تبارک و تعالی سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمارا خاتمہ ایمان
پر فرمائے۔اور ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری اور اچھے اعمال کرنے کی توفیق اور جذبہ عطا فرمائے۔ آمین
اعلی حضرت
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں اور انہی کے الفاظ میں ہم بھی عرض کرتے ہیں:
ہم
ہیں ان کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس
سے بڑھ کر تیری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان
کی امت میں بنایا انہیں رحمت بھیجا
یوں
نہ فرما کہ ترا رحم میں دعوی کیا ہے
صدقہ
پیارے کی حیا کا نہ لے مجھ سے حساب
بخش
دے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے۔
(حدائق بخشش ص 171 مکتبۃ المدینہ)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری بخشش فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
محمد ثقلین بابر (رسجہ سابعہ جامعۃالمدینہ فیضان عثمان غنی کراچی ،پاکستان)
دنیا میں
انسان کو اللہ تعالی نے خیر و شر کا راستہ بتانے کے بعد اس کی محدود زندگی میں اختیار
دیا ہے کہ وہ اعمال کرے، اب ان اعمال کے مطابق اس انسان کو مقام ملے گا۔
میزان کیا ہے؟ : "میزان" کا لغوی مطلب وزن کرنے کا آلہ (Tool) ہے
جبکہ اصطلاح شریعت میں قیامت کے دن انسانوں کے اعمال تولنے کیلئے قائم کئے جانے
والے ترازو کو "میزان" کہا جاتا ہے۔
میزان کا ذکر قرآن میں : قیامت کے دن میزان قائم کئے جانے، اعمال کے تولے جانے
اور نامہ اعمال ملنے تک کے تمام معاملات کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے :چنانچہ
ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے : اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ
الْمِیْزَانَؕ- وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ(۱۷) ترجمہ کنزالایمان:اللہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب
اتاری اور انصاف کی ترازو (پ25، الشوری :17)
مزید فرمایا: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے
والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
دوسری آیت کریمہ
میں شاندار انداز میں اس بات کا رد کیا گیا ہے کہ کہیں کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ جس
طرح دنیا کے ترازو میں ناپ تول میں بے اعتدالی ہوتی ہے کیا وہاں بھی ہوسکتی ہے
چنانچہ فرمایا : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء،
آیت: 47)
مزید فرمایا :فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز
العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو
اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ
ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
میزان کی کیفیت :قیامت کے دن رکھے جانے والے میزان کی کیفیت اور حساب کے
بارے میں مختلف اقوال ہیں ، امام غزالی
اور امام قرطبی رحمھما اللہ نے ارشاد فرمایا : اعمال کا تولا جانا ہر ایک کے کیلئے
نہیں ہوگا بلکہ ستر ہزار وہ خوش نصیب لوگ ہونگے جو بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے
نا ہی ان کیلئے میزان ہوگا نا نامہ اعمال کا ملنا۔ (الفقہ الاکبر ،ص 171 مکتبہ
المدینہ)
جبکہ میزان کی
کیفیت کو جاننے کا ہمیں مکلف نہیں کیا گیا
لہذا ہمارا اس کے وجود اور اس کے حق ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے، میزان کے عمل کے بعد انسانوں کو نامہ اعمال دیے
جائیں گے کامیاب ہونے والوں کو سیدھے ہاتھ میں جبکہ ناکام ہونے والے ابدی بدبخت کو
الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا۔
اس دل دہلانے
والے وقت میں عافیت اور شفاعت کو طلب کرتے ہوئے اعلی حضرت امام اہل سنت اللہ پاک
کے بارگاہ میں مناجات کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں :
یا الہی نامہ اعمال جب کھلنے لگیں
عیبِ پوش خَلق ستّارِ خطا کا ساتھ ہو
اللہ پاک نے
انسانوں کو دنیا میں اپنی عبادت کے لیے
بھیجا اور اس فانی دنیا کے اختتام پر اس سے حساب لیا جائے گا اور اس کے لیے ایک دن
مقرر ہے جس کو یوم الآخرۃ یا قیامت کادن
کہا جاتا ہے کہ جس میں انسانوں کے اعمال کاحساب لیا جائے گا اور اعمال کو تولنے کے لیے ایک آلہ مقرر ہے جس کو میزان کہا جاتا ہے اور اس میزان کا ثبوت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے ملتا ہے اس کے متعلق اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ میزان
حق ہے اور اس کی ایک چھڑی اور دو پلڑے ہیں اور ان کی شکل و صورت کے متعلق اللہ پاک
ہی جانتا ہے اس کے متعلق مزید وضاحت قرآنی
آیات سے سمجھتے ہیں :
میزان
کی حقانیت: اللہ پاک میزان کے حق
ہونے اور اس کے ذریعے اعمال کے وزن کیے جانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنز العرفان : اور اس دن وزن کرنا ضرور
برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:8)
ترازو
کے ذریعے عدل کرنے کا تذکرہ: اللہ پاک ترازو کے رکھنے اور عدل و انصاف کے
ساتھ فیصلے کرنے کے متعلق بیان کرتے ہوئے
فرماتا ہے : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء،
آیت: 47)
رسول
علیہ السلام کی تشریف آوری کے وقت حساب کا آغاز: اللہ پاک بیان فرماتا ہے کہ جب کسی امت کا رسول
آئے گا تو اس امت کے متعلق فیصلہ کر دیا
جائے گا: وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ
رَّسُوْلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا
یُظْلَمُوْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان
: اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوا ہے توجب ان کا رسول ان کے پاس تشریف لاتا تو ان
کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتاہے۔ (یونس: 47)
میزان
کے پلڑوں کے بھاری یا ہلکا ہونے کی وضاحت:
اللہ پاک میزان کے بھاری ہونے پر
جنت کی خوشخبری اور ان کے ہلکے ہونے پر
دوزخ کی وعید سناتے ہوئے فرماتا ہے : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۳) ترجمہ کنزالعرفان: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
کامیاب ہونے والے ہوں گے۔اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی ہوں گے جنہوں نے
اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا، (وہ) ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)
کفر
کرنے والوں کے لیے وزن کے نا ہونے کا بیان: اللہ پاک نے کفار کو تنبیہ
کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دن کفار کے لیے اعمال کا کوئی وزن نہیں ہو گا: اُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ
فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالعرفان : یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی
آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا تو ان کے سب اعمال برباد ہوگئے پس ہم ان کے لیے
قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)
اس کے علاوہ
بھی کئی ایک آیات وکثیر احادیث کریمہ میزان کی حقانیت اور اس کے لیے تیاری کا درس دیتی ہیں اور قیامت کی ہولناکیوں سے ہمیں ڈراتی ہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس
دن کے لیے اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت میں بے حساب
داخلہ عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم
النبیین ﷺ
Dawateislami