شعبہ مدنی کورسز دعوت اسلامی کے زیر اہتمام مدنی مرکز فیضان مدینہ حافظ آباد میں  07دن پر مشتمل رہائشی 12 دینی کام کورس کا آغاز 5نومبر2024 کو ہوا جس کا اختتام 17نومبر2024کو ہوا۔ اختتامی نشست کے موقع پر ڈسٹرکٹ نگران محمد وسیم عطاری کی آمد ہوئی ۔

ا ختتامی نشست کے موقع پر ڈسٹرکٹ نگران محمد وسیم عطاری نے حاضرین کے درمیان فکر آخرت، صحابہ کرام کا علم دین حاصل کرنے کی طلب اور دنیا کی مذمت موضوع پر بیان کیا ۔

بعد بیان ڈسٹرکٹ نگران محمد وسیم عطاری نے 12 دینی کاموں کے فضائل ، 12 دینی کاموں کے اہداف اور 12 دینی کاموں کی شرعی تنظیمی احتیاطیں کیا ہیں؟ کے متعلق گفتگو کی۔ اس موقع پر شعبہ مدرستہ المدینہ بالغان کے معلمین اور ذمہ داران سمیت دیگر عاشقان رسول موجود تھے ۔(رپورٹ:محمد رضوان عطاری ڈویژن ذمہ دار شعبہ مدنی کورسز ،کانٹینٹ:محمد شعیب احمد عطاری)


پچھلے دنوں فیصل آباد ڈویژن کی تحصیل تاندلیانوالہ کے ذمہ داران اور شعبہ جات کا مدنی مشورہ ہوا جس میں نگران فیصل آباد ڈویژن مشاورت حاجی محمد سلیم عطاری نے ماہ مدنی قافلہ کے حوالے سے ذمہ داران کو مدنی قافلوں میں سفر کرنے کا ذہن دیا  جس پر ہاتھوں ہاتھ کم و بیش 21 شرکاء 12ماہ کے لیے اور 13شرکاء 1 ماہ کے لیے تیار ہوئے۔

نگران ڈویژن مشاورت نے ذمہ داران کو قافلے کس طرح تیار کرتے ہیں اس موضوع کے متعلق حاضرین کی تربیت کرتے ہوئے 12 دینی کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ہفتہ وار اجتماع کی تعداد کو بڑھانے، ہفتہ وار اجتماع میں آنے والے شرکاء کو مدنی قافلوں کی دعوت دینے اور مدنی مذاکرہ میں شرکت کرنے کا ذہن دیا۔ (رپورٹ:عبدالرزاق عطاری شعبہ ہفتہ وار اجتماع و مدنی مذاکرہ فیصل آباد ڈویژن،کانٹینٹ: شعیب احمد عطاری)


پچھلے دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون کے مدنی  مرکز فیضانِ مدینہ میں واقع دارالمدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایک ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا گیاجس میں یونیورسٹی کی فیکلٹی مختلف ڈیپارٹمنٹس (ایجوکیشن ، بینکنگ اینڈ فنانس ، انگلش اورعربک) کے اسٹوڈنٹس ،ماڈل جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ اسلام آباد کے اساتذہ و طلبۂ کرام نے شرکت کی ۔

ٹریننگ سیشن میں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے نگران مولانا حاجی محمد عمران عطاری نے اسٹوڈنٹس کو دارالمدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کی افادیت سے آگاہی فراہم کرتے ہوئے دین اسلام کی ترقی و اشاعت میں تعلیم یافتہ (ایجوکیٹڈ) علماء کرام کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اس موضوع کے متعلق کلام کیا جبکہ سوال و جواب کا بھی سلسلہ ہوا۔

اس موقع پر نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری اور رکن شوریٰ حاجی وقار المدینہ عطاری بھی موجود تھے ۔(کانٹینٹ:محمد شعیب احمد)


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے ہر موڑ پہ ہماری رہنمائی کی ہے، عبادات سے لیکر معاملات تک ایسا کوئی گوشہ نہیں جس پر اسلام نے روشنی نہ ڈالی ہو،عبادات میں نماز ، روزہ ،زکوٰۃ ،حج وغیرہ شامل ہیں جبکہ معاملات میں حقوق العباد شامل ہیں انہی حقوق میں والدین کے حقوق بھی شامل ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ پاک اور اس کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد خونی اور نسبی رشتوں میں حقوق الوالدین سب سے مقدم ہیں پھر دیگر ہیں جیسا کہ اللہ پاک قرآن پاک کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 83 میں ارشاد فرماتا ہے : وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ترجمہ کنزالعرفان: اور یاد کروجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔

آئیے اللہ پاک اور اسکے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا حاصل کرنے اور علم دین حاصل کرنے کی نیت سے والدین کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں:

اپنے مال کو والدین پر خرچ کرنا: حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کیا تھا کہ کیا خرچ کریں اور کس پر خرچ کریں ؟تو جواب میں اللہ پاک کا فرمان نازل ہوا یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ ترجمہ کنزالعرفان: آپ سے سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں ؟تم فرماؤ: جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو و ہ ماں باپ ۔

والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے (ہر) انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی(پارہ :21،سورہ لقمٰن:15)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ والدین اگر کافر بھی ہوں اور ان کے پاس اپنا ذریعہ رزق نہ ہو تو مسلمان اولاد پر لازم ہے کہ وہ انہیں خرچہ دیں ،ان کی خدمت کریں،ان کی زیارت کیا کریں۔(تفسیر روح البیان،ج:
6،ص:450)

والدین خلاف شرع کوئی کام کہیں تو ان کا کہنا نہ مانا جائے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہوَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور (اے بندے!) اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ توکسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو تُو ان کی بات نہ مان۔ (پارہ :21،سورہ لقمٰن:15)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اطاعت ِوالدین جائزباتوں میں فرض ہے اگرچہ وہ خود مُرتکِبِ کبیرہ ہوں ، ان کے کبیرہ کاوبال ان پر ہے مگراس کے سبب یہ اُمورِ جائزہ میں ان کی اطاعت سے باہرنہیں ہوسکتا، ہاں اگروہ کسی ناجائز بات کاحکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائزنہیں ، لَاطَاعَۃَ لِاَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِاللّٰہ تَعَالٰی ( الله تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بھی شخص کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔(تفسیر صراط الجنان،ج:7،ص349:)

والدین کے مزید حقوق:

تفسیر صراط الجنان میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 83 کے تحت مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتھم العالیہ والدین کے حقوق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو اُن کیلئے باعث ِ تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کیلئے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے، اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کیلئے ایصالِ ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے

اللہ پاک ہمیں جو سیکھا اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین 

اللہ تعالی نے انسان پر بے شمار احسانات کیے ہیں۔ جن کی وجہ سے وہ اپنی زندگی آسانی سے گزارتا ہے. گویا کہ کوئی بھی شخص اللہ تعالٰی کی نعمتوں سے مستغنی و بے پروا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان والدین بھی ہیں انھیں کی بدولت انسان اس دنیا میں آتا ہے اور ضعف سے قوت کی طرف بڑھتا ہے. اولاد کے سب سے بڑے محسن بھی ان کے والدین ہوتے ہیں . اپنی جوانی، خوشی، قوت سب اولاد پر فدا کر دیتے ہیں. الغرض اولاد اپنے والدین کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی ۔

ہمارے پیارے دین اسلام میں بھی والدین کو بہت بلند مقام اور درجہ حاصل ہے. اللہ تعالٰی نے جو حقوق بندوں پر لازم کیے ہیں ان میں والدین کے حقوق کو سب سے زیادہ فوقیت دی ہے۔اولاد پر جو والدین کے حقوق ہیں ان میں سے چند حقوق بمع قرآنی آیات اور احادیث طیبہ مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)صلہ رحمی : قرآن پاک میں اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ احسان، صلہ رحمی، حسن گفتار کے بارے میں فرمایا :- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا ترجمۂ کنز الایمان:- اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر : 23)

ملاحظہ کیجیئے کتنا شاندار اور احساس کرنے والا دین ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احساس کرنے کا حکم تو دیتا ہی ہے ، بلکہ ان کے سامنے اف تک کہنے کی بھی اجازت نہیں، کہ کہیں ان کو برا محسوس نہ ہو اور ایذا نہ پہنچے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تاکید کے ساتھ قرآن پاک میں آیا ہے۔

(2)مال خرچ کرنا : اولاد پر والدین کا حق یہ ہے کہ اپنا مال والدین پر خرچ کرے اور کسی طور پر دریغ نہ کرے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے :یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ ترجمۂ کنز الایمان: تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ، تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کروتو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لئے ہے (سورۃ البقرہ آیت نمبر 215)

معلوم ہوا جو مال کسی نیک کام کے لیے خرچ کیا جائے والدین پر سب سے پہلے خرچ کرے ، بعد میں دیگر مصارف پر خرچ کرے البتہ والدین کو زکوۃ اور صدقات واجبہ نہیں دے سکتے ۔

(3)والدین کی اطاعت و فرماں برداری : والدین کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین کے حکم کی اطاعت کرے اور انہیں ایذا نہ دے کیوں کہ والدین اپنی اولاد کی اصلاح کے لیے ہمیشہ سوچتے رہتے ہیں۔ قرآن پاک میں والدین کی اطاعت کے بارے میں آیا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ ترجمہ کنزالایمان:-اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی۔ ( سورة لقمٰن آیت نمبر 14)

(4)دعائے رحمت و مغفرت : والدین کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اولاد ان کے حق میں دعائے مغفرت و رحمت کرتی رہے۔ کیوں کہ وہ خود تو اپنے ماں باپ کے احسانات نہیں چکا سکتے۔ لہذا خداوند باری تعالٰی کی بارگاه میں والدین کے لیے رحمت ، مغفرت، احسان کا سوال کرتے رہیں۔ فرمان مصطفی ہے: (اسْتِغْفَارُ الْوَلَدِ لا بِيْهِ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ مِنَ الْبِرِّ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے بعد ان کے لئے دعاء مغفرت کرے۔ ( کنز العمال جزء : 16 ، صفحہ : 192 حدیث 45441)

صاحب عقل و ذی فہم کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جب قرآن پاک میں اور احادیث طیبہ میں تکرار کے ساتھ والدین کے حقوق کا ذکر آیا ہے تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے حقوق بجا لائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے. کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ وما توفیقی الا بالله


والدین اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک ہیں ۔ بالیقیں ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ والدین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اولاد کی خواہشات پوری کی جائیں ۔ بلکہ بسا اوقات اپنی ضروریات کو اولاد کی خواہشات پر قربان کر دیتے ہیں ۔ چونکہ والدین کا رشتہ پیار و محبت ،شفقت و نرمی اور احساس کے حوالے سے سب سے بڑھ کر ہوتا ہے اس لیے حقوق العباد میں سب سے زیادہ اہمیت ، اولیت اور فوقیت والدین کے حقوق کو حاصل ہے۔ اسلام نے والدین کے کئی حقوق بیان کیے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

حسن سلوک : والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اولاد کی ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ(سورہ بنی اسرائیل آیت۔ 23)ترجمہ کنزالایمان:اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔

خدمت کرنا۔ والدین کی خدمت کرنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے۔ حتی کہ اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا چنانچہ : ایک شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر جہاد کی اجازت طلب فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں ؟ عرض کی: جی ہاں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو تم ان کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔ (ریاض الصالحین مترجم جلد اول حدیث ۔ 323۔ مطبوعہ شبیر برادرز)

اطاعت و فرمانبرداری۔ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور ان کے ہر اس حکم کو جو شریعت کے مخالف نہ ہو بجا لانا لازم ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جو اللہ کے لیے اپنے ماں باپ کے بارے میں مطیع ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں۔اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ اور جو اپنے والدین کے متعلق اللہ کا نافرمان ہو اس کے لیے آگ کے دو دروازے کھل جاتے ہیں۔ اگر ایک ہو تو ایک دروازہ ایک شخص نے عرض کیا اگرچہ وہ ظلم کریں فرمایا اگرچہ اس پر ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں۔ ( مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 ، حدیث نمبر:4723 )

شکر ادا کرنا۔ بلاشبہ انسان پر والدین کے بے شمار احسانات ہوتے ہیں اس لیے وقتا فوقتاً ان کا شکر ادا کرتے رہنا بھی اولاد کے لیے ضروری ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کے ساتھ ہی والدین کا شکر ادا کرنے کا حکم بھی دیا ۔ چنانچہ فرمایا ۔اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(سورہ لقمٰن آیت 14) ترجمہ کنزالایمان: کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔

نرمی سے پیش آنا۔ والدین سے اچھی گفتگو کرنا اور شفقت و نرمی سے پیش آنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔ وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(سورہ بنی اسرائیل آیت 23) ترجمہ کنزالایمان: اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ (سورہ بنی اسرائیل آیت ۔24) ترجمہ کنزالایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے ۔

ان کے لیے دعا کرنا۔ والدین کی لیے دعا کرنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا . وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(سورہ بنی اسرائیل آیت 24)ترجمہ کنزالایمان: اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن میں پالا۔

اس کے علاوہ بھی والدین کے کئی حقوق ہیں ۔ جیسے ان کو ایذا رسانی سے بچانا، دل و جان سے ان کی عزت کرنا ، حتی کہ ان کے عزیزوں کو عزیز رکھنا اور ان کے دنیا سے چل بسنے کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہنا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم والدین کا خاص خیال رکھیں ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتیں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ ہماری ذات سے انہیں ایذا نہ پہنچے ۔


والدین کسی بھی فرد کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں  اور ان کے حقوق کی تعظیم ہر معاشرے کا بنیادی اصول ہے۔ اسلام میں والدین کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے، اور ان کی خدمت اور احترام کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ والدین کے حقوق کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ایک مہذب معاشرے کی علامت ہے۔

والدین کی خدمت اور احترام* والدین کی خدمت اور احترام ہمارے معاشرتی اور دینی فرائض میں شامل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو (سورۃ الاسراء: 23)۔

اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت اور احترام کو اللہ کی عبادت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

والدین کے حقوق کی اہمیت: والدین کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔" (الترغيب والترهيب لقوام السنة ط دار الحديث - القاهرة: 1/281 (رقم الحدیث: 448)

یہ حدیث والدین کی خدمت اور ان کی دعاؤں کے حصول کی ترغیب دیتی ہے۔ والدین کی دعائیں اولاد کے لیے باعث برکت اور کامیابی ہوتی ہیں۔

والدین کی خدمت کے مختلف پہلو :ادب اور احترام: والدین کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا، ان کی باتوں کا ادب کرنا اور ان کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرنا۔

مالی معاونت: والدین کی ضروریات کا خیال رکھنا اور ان کی مالی مدد کرنا۔

صحت کا خیال: والدین کی صحت کا خیال رکھنا، انہیں وقت پر دوائیں دینا، اور ان کی دیکھ بھال کرنا۔

دعا: والدین کے لیے دعا کرنا، ان کی مغفرت اور صحت کے لیے اللہ سے دعا مانگنا۔

والدین کے حقوق کا معاشرتی پہلو:والدین کے حقوق کی ادائیگی سے نہ صرف فرد کی زندگی میں برکت آتی ہے بلکہ یہ معاشرتی امن اور ہم آہنگی کا سبب بھی بنتی ہے۔ ایک معاشرہ جہاں والدین کی عزت کی جاتی ہے، وہاں اخلاقی اقدار مضبوط ہوتی ہیں اور نئے نسلوں میں بھی ان اقدار کا فروغ ہوتا ہے۔

والدین کی نافرمانی کے نقصانات:والدین کی نافرمانی اور ان کے حقوق کی پامالی نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی نقصان کا باعث بھی بنتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "والدین کی نافرمانی کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔" (طبرانی صغیر 1/145)۔ والدین کی نافرمانی سے زندگی میں بے سکونی، مشکلات، اور برکت کی کمی واقع ہوتی ہے۔

والدین کے حقوق کی ادائیگی کے عملی طریقے:

وقت دینا: والدین کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی باتیں سننا، اور ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا۔

شکر گزاری: والدین کی قربانیوں کا اعتراف کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا۔

تحفے: والدین کو تحفے دینا، چاہے وہ چھوٹے چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، ان کی محبت اور عزت کی علامت ہے۔

مشورہ: زندگی کے اہم فیصلوں میں والدین سے مشورہ کرنا اور ان کی رائے کو اہمیت دینا۔

خلاصہ:والدین کے حقوق کی ادائیگی ہر مسلمان کا فرض ہے اور یہ معاشرتی زندگی میں توازن اور محبت کا باعث بنتی ہے۔ والدین کی خدمت اور احترام سے نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے والدین کے حقوق کو پہچانیں، ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھیں، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اس طرح ہم ایک بہترین اور خوشحال معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے امیر اہل سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا رسالہ سمندری گنبد بہت مفید ہے۔


قراٰنِ کریم کی تعلیم جہاں اللہ پاک کی عبادت کا حکم دیتی ہے وہیں انسان کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری اور ان کے ساتھ ‏حُسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید بھی فرماتی ہے۔ قراٰنِ پاک میں 4سے زائد مقامات پر والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک اور ان کی ‏اطاعت و فرماں برداری کا مختلف انداز میں بیان ہے، لہٰذا والدین کی اطاعت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ‏ہے۔

آئیے! والدین کے حقوق کے متعلق پانچ احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:‏

‏(1)والدین کی خدمت کرنا: ایک شخص نے حضور علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جہاد میں جانے کی اجازت مانگی تو آپ علیہ ‏السّلام نے فرمایا: تیرے والدین زندہ ہیں؟ عرض کی: جی ہاں، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت کر یہی تیرا ‏جہادہے۔ (بخاری، 2/310، حدیث: 3004)‏

‏(2)والدین کو ناراض نہ کرنا: حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ ‏وسلَّم! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ دونوں تیری جنّت اور دوزخ ہیں۔(ابن ماجہ، 4/186،حدیث:3662) یعنی تیرے ماں باپ ‏تیرے لئے جنّت دوزخ میں داخلہ کا سبب ہیں کہ انہیں خوش رکھ کر تو جنتی بنے گا انہیں ناراض کرکے دوزخی، یہ فرمان عالی وعدہ ‏وعید دونوں کا مجموعہ ہے اگرچہ یہاں خطاب بظاہر خاص ہے مگر حکمِ تا قیامت عام ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/540)‏

‏(3)ماں باپ کو گالی نہ دینا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو ‏گالی دے۔ عرض کیا گیا: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کوئی اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ فرمایا: اس کی صورت یہ ہے کہ ‏یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اِس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔(بخاری، 4/94، حديث: 5973)‏

‏(4)والدین کی قبر پر جانا: والدین کی وفات کے بعد بھی اولاد پر والدین کا حق لازم ہے وہ یہ کہ ان کی قبر پر جائے ایصالِ ثواب ‏کرے تو یہ اس شخص کیلئے بھی باعثِ ثواب ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو ماں باپ دونوں ‏یا ان میں سے کسی ایک کی قبر پر ہر جمعہ کو زیارت کے لئے حاضر ہو تو اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا اور وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا ‏برتاؤ کرنے والا لکھا جائے گا۔ (معجم اوسط للطبرانی،4/321،حديث: 6114)‏

‏(5)بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرنا: اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اُس کی ناک خاک ‏آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو) کسی نے عرض کیا: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ ‏کون ہے؟ حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں ‏داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)‏

اللہ ربُّ العزّت ہمیں اچھےطریقے سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی ناراضی سے محفوظ فرمائے ‏اور جنت کا حقدار بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تعلیم و تربیت کے مختلف انداز اختیار فرمائے ہیں، جن میں سے ایک اہم طریقہ چار چیزوں کے ذریعے نصیحت کرنا ہے۔ یہ احادیث نہ صرف زندگی کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرتی ہیں بلکہ ایک جامع تربیت کا سامان بھی فراہم کرتی ہیں۔

چار قسم کے دل: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف اقسام کے دلوں کی وضاحت فرمائی تاکہ ہم اپنے دلوں کی حالت کا جائزہ لے سکیں اور اصلاح کی کوشش کریں۔حدیث: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: الْقُلُوبُ أَرْبَعَةٌ: قَلْبٌ أَجْرَدُ فِيهِ مِثْلُ السِّرَاجِ يَزْهَرُ، وَقَلْبٌ أَغْلَفُ مَرْبُوطٌ عَلَى غِلَافِهِ، وَقَلْبٌ مَنْكُوسٌ، وَقَلْبٌ مُصْفَحٌ، فَأَمَّا الْقَلْبُ الْأَجْرَدُ: فَقَلْبُ الْمُؤْمِنِ سِرَاجُهُ فِيهِ نُورُهُ، وَأَمَّا الْقَلْبُ الْأَغْلَفُ: فَقَلْبُ الْكَافِرِ، وَأَمَّا الْقَلْبُ الْمَنْكُوسُ: فَقَلْبُ الْمُنَافِقِ عَرَفَ، ثُمَّ أَنْكَرَ، وَأَمَّا الْقَلْبُ الْمُصْفَحُ: فَقَلْبٌ فِيهِ إِيمَانٌ وَنِفَاقٌ (مسند احمد، حدیث نمبر 17147)

ترجمہ: "دل چار قسم کے ہوتے ہیں: ایک صاف دل جو چراغ کی طرح روشن ہے، ایک وہ دل جو غلاف میں بند ہے، ایک الٹا دل، اور ایک دو رخی دل۔" بہرحال صاف دل مؤمن کا دل ہے، بند دل کافر کا دل ہے، الٹا دل منافق کا دل ہے اور دو رخی دل جس میں ایمان و نفاق دونوں ہوں ۔

چار اعمال: چار اعمال کی طرف توجہ دلا کر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں بہترین عملی زندگی گزارنے کی تلقین فرمائی۔ حدیث: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: أربع من كن فيه كان منافقًا خالصًا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر.(صحیح بخاری، حدیث نمبر 34)ترجمہ: "چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جو شخص ان کا حامل ہو، وہ خالص منافق ہے: جب امانت دی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو وعدہ خلافی کرے، اور جب جھگڑا کرے تو بد اخلاقی کرے۔"

یہ حدیث ہمیں منافقت سے بچنے کی تلقین کرتی ہے اور ان چار اعمال کی نشاندہی کرتی ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔

چار نعمتیں: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان چار نعمتوں کی طرف اشارہ کیا جن کی قدر کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ حدیث: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: من أصبح منكم آمناً في سربه، معافى في جسده، عنده قوت يومه، فكأنما حيزت له الدنيا.(سنن ترمذی، حدیث نمبر 2346) ترجمہ: "جو شخص صبح اس حال میں کرے کہ وہ اپنے گھر میں امن و امان سے ہو، اس کا جسم تندرست ہو، اور اس کے پاس ایک دن کی روزی ہو، تو گویا اس کے لیے دنیا سمیٹ دی گئی۔"

تشریح: اس حدیث میں چار نعمتوں کا ذکر ہے: امن، صحت، روزی، اور ایمان۔ ان کی قدر دانی کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ایک کامیاب زندگی کے بنیادی عناصر ہیں۔

چار نیکیاں: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چار نیکیوں کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی جو انسان کی روحانی ترقی میں مددگار ہیں۔ حدیث: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: أربع إذا كن فيك فلا عليك ما فاتك من الدنيا: صدق الحديث، وحفظ الأمانة، وحسن الخلق، وعفة مطعم.(مسند احمد، حدیث نمبر 13025) ترجمہ: "چار چیزیں اگر تم میں موجود ہوں تو دنیا کی کوئی بھی چیز تمہارے ہاتھ سے چلی جائے تو فکر نہ کرو: سچ بولنا، امانت کی حفاظت، اچھے اخلاق، اور حلال کھانے کی پابندی۔"

تشریح: یہ حدیث ہمیں چار بنیادی نیکیوں کی تلقین کرتی ہے جو دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث ہیں۔

خلاصہ:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چار چیزوں کے بیان سے ہمیں اہم نصیحتیں فرمائیں۔ ان احادیث میں دلوں کی اقسام، منافقت سے بچنے کے اعمال، نعمتوں کی قدردانی، اور نیکیوں کی تلقین شامل ہے۔ یہ نصیحتیں ہماری زندگی کو بہتر بنانے اور آخرت کی کامیابی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ ان پر عمل کر کے ہم ایک کامیاب اور باوقار زندگی گزار سکتے ہیں۔


"تربیت " عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی "پرورش، ٹریننگ، تعلیم و تادیب" کے ہیں یہ ایک ایسا عمل ہے جو معاشرے کے افراد کے ظاہروباطن کو بُری خصلتوں سے پاک کرکےاچّھے اوصاف سے مزیّن کرتا اور انہیں معاشرے کا ایک باکردار فرد بناتاہے، یہ عمل قول و فعل دونوں طریقوں سے سر انجام دیا جاتا ہے، اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ شکر ہے جس نے ہمیں ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پید ا فرمایا کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کامل ومکمل نظرآئیں گے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلّمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، مزید وہ چاہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازدواجی زندگی ہو ، چاہے وہ مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی ہو ،چاہے وہ بچوں کے ساتھ آپ کے کا حسنِ سلوک ہو،جس طرح پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے افعال وکردار سے تربیت فرمائی اسی طرح اپنے فرامین سے بھی تربیت فرمائی۔آیئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وہ اقوال جن سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چار چیزوں کے ذریعے تربیت فرمائی ملاحظہ فرمائیے۔

چار چیزوں کا حکم: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں کہ قبیلہ عبدالقیس کا نمایندہ وفد جب نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں آیا تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا کہ تم کون قوم یا کون وفد ہو ؟ عرض کیا ہم ربیعہ ہیں فرمایا :یہ وفد یا قوم خوب اچھے آگئے کہ نہ رسوا ہوئے نہ شرمندہ عرض کیا یارسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم آپ تک صرف محترم مہینہ میں آسکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ حائل ہے لہذا ہمیں فیصلہ کُن خبر فرمادیں جس کی خبر ہم اپنے پیچھے والوں کوبھی دے دیں اور ہم جنت میں بھی پہنچ جائیں اور انہوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے شرابوں کے متعلق پوچھا تو حضور نے انہیں چارچیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ا ﷲ پر ایمان لانے کا حکم فرمایا ۔اور فرمایا: کیا جانتے ہوصرف اﷲ پر ایمان لانا کیا ہے؟ وہ بولے اﷲ اور رسول جانیں ۔ فرمایا: یہ گواہی دینا کہ اﷲ کے سواء کوئی لائق عبادت نہیں اورمحمد اﷲ کے رسول ہیں اور نماز قائم رکھنے، زکوۃ دینے ، رمضان کے روزے کا اور فرمایا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ حاضرکرو ۔ (صحیح البخاری، ج:1، کتاب العلم ، حدیث:87)

چار چیزوں سے پناہ مانگے:حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم میں سے کوئی جب دوسری التحیات سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے پناہ مانگے دوزخ اور قبر کے عذاب سے زندگی اور موت کے فتنوں سے مسیح دجال کی شرارت سے۔(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،ج:2،حدیث:940)

دنیا و آخرت کی بھلائی : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی ملی۔ (1) شکر گزار دل (2) یادِ خدا کرنے والی زبان (3) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن (4) ایسی بیوی کہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی مُتلاشی (یعنی اس میں خیانت کرنے والی) نہ ہو۔(معجم الکبیر،طلق بن حبیب عن ابن عباس،11/109، حدیث:11275)

چار چیزوں کی دعا: حضرتِ سَیِّدُنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے میرے پَرْوَردْگار! میں تجھ سے ہدایت ، تقویٰ ،پاکدامنی اور توَنگَری کاسو ال کرتا ہوں۔(فیضان ریاض الصالحین، ص:606، حدیث :71)

مُفَسِّر شہِیر حکیم الامت مُفتِی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :تونگری (دولت مندی) سے مراد مخلوق کا محتاج نہ ہونا، اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حاجتمند رہنا ہے۔

اللہ پاک ہمیں آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فیضانِ انبیاء سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کی ہدایت اصلاح اور تربیت کے لیے اپنے پیارے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا   اور ان کی بذات خود تربیت فرمائی پھر سرور دو عالم مالک و مختار نبی رسول ہاشمی خاتم النبیین و خاتم المعصومین نے اپنے پیارے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تربیت پر بڑا وقت لگایا جس کے سبب ایک امن والا اورمحبت والا خوشگوار معاشرہ قائم ہوا لیکن آج ہمیں یہ چیزیں نظر نہیں آتی کیونکہ ہم تربیت یافتہ کم اور تعلیم یافتہ زیادہ ہیں اگر آج ہی سے ہماری تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جائے تو وہ دن دور نہیں جس دن ایک ایسا معاشرہ قیام پذیر ہو جو محبت، رحم دلی،اور احساس کا گہوارہ ہو۔

آئیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے امتیوں کی زندگی کے مختلف شعبوں میں تربیت فرمانے کو ملاحظہ کرتے ہیں:

1:مومن نہیں: روایت ہے حضرت علی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک بندہ مؤمن نہیں ہوتا جب تک چار باتوں پر ایمان نہ لائے (1)گواہی دے کے الله کے سواکوئی معبود نہیں اور میں الله کا رسول ہوں(2) مجھے الله نےحق کےساتھ بھیجا(3) اور مرنے اورمرنےکے بعد اٹھنے(4) اور تقدیر پر ایمان لائے ۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 1, حدیث نمبر: 104)

2: چار چیزوں سے اللہ عزوجل کی پناہ: روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں الہی میں چار چیزوں سے تیری پناہ لیتا ہوں (1)اس علم سے جو نفع نہ دے(2)اس دل سے جس میں عجز نہ ہو(3) اس نفس سے جو سیر نہ ہو (4)اس دعا سے جو سنی نہ جائے (مراۃ المناجیح شرح مشکات المصابیح جلد نمبر 4, حدیث نمبر:2464)

3: چار چیزیں انبیاء علیہم السلام کی سنت سے ہیں: روایت ہے حضرت ابو ایوب سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہ چار چیزیں پیغمبروں کی سنت سے ہیں (1)شرم (2)عطر (3) مسواک (4) نکاح ۔ خیال رہے کہ یہاں چار کا اعداد حصر کے لیے نہیں ہے اور بھی بہت سنت انبیاء ہیں جن میں یہ چار بھی ہیں۔ ( مراۃ المناجیح شرح مشکات المصابیح جلد 1,حدیث نمبر: 382)

4: منافق کی علامتیں: روایت ہے عبداللہ بن عمر سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہ جس میں چار عیوب ہوں وہ نرا منافق ہے اور جس میں ایک عیب ہو ان میں سے اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک اسے چھوڑ نہ دے (1)جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (2)جب بات کرے تو جھوٹ بولے(3) جب وعدہ کرے تو خلاف کرے (4)جب لڑے تو گالیاں بکے۔(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 1, حدیث نمبر:6)

شرح حدیث: منافق کی دو قسمیں ہیں 1 :منافق اِعتِقَادی 2: منافق عملی منافق اعتقادی وہ ہے کہ زبان سے تو اسلام کا اظہار کرتا ہو مگر اپنے دل میں کفر چھپائے ہوئے ہو۔ منافق اعتقادی کافر ہے بلکہ کافر سے بھی بدتر ہے۔

منافق عملی وہ ہے کہ جس کے ایمان و عقائد میں کوئی خرابی ونفاق نہیں ہوتا بلکہ وہ ظاہر اور باطن میں مسلمان ہوتا ہے لیکن اس کے بعض اعمال اور خصلتیں منافقوں سے ملتی جلتی ہے اس حدیث میں جس منافق کی چار خصلتوں کا ذکر ہے اس منافق سے مراد منافق عملی ہے اور چاروں منافقانہ خصلتوں سے مراد منافقانہ عمل و کردار ہیں۔(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 1, حدیث نمبر:6)

5: دین اور دنیا کی بھلائی مل گئی: روایت ہے حضرت ابن عباس سے کہ رسول اللہ نے فرمایا چار چیزیں وہ ہیں جسے وہ دی گئیں اسے دین و دنیا کی بھلائی دی گئی (1) شکر والا دل(2) ذکر والی زبان (3)جسم مصیبتوں پر صبر والا اور(4) ایسی بیوی جو اپنے نفس اور اس کے مال میں بغاوت نہ کرے ۔(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 5 ,حدیث نمبر :3273)


آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ہر مقام پر اپنی امت کی تربیت فرمائی مگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی تربیت فرمانے کا انداز مختلف ہوا کرتا کبھی تو کوئی واقعہ بیان فرما کر تربیت کی کبھی کسی عذاب کا تذکرہ فرما کر اسی طرح کبھی کسی نیکی کا تذکرہ فرما کر اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے 4 چیزوں کے ذریعے بھی تربیت فرمائی چنانچہ آپ بھی پانچ احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیے۔

(1)اللہ پر ایمان لانا کیا ہے، روایت ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کا نمایندہ آیا تو انہوں نے حضور( صلی اللہ علیہ وسلم )سے شرابوں کے متعلق پوچھا تو حضور نے انہیں چارچیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ الله پر ایمان لانے کا حکم فرمایا: کیا جانتے ہوصرف الله پر ایمان لانا کیا ہے وہ بولے الله اور رسول جانیں فرمایا یہ گواہی دینا کہ الله کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اورمحمد الله کے رسول ہیں اور نماز قائم رکھنے، زکوۃ دینے، رمضان کے روزے کا اور فرمایا کہ غنیمت میں سے پانچواں حصہ حاضرکرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا ٹھلیا سے،تونبی سے،لکڑی کی دوری سے اور تارکول والے پیالے سے فرمایا یہ خود بھی یاد کرلو دوسروں کو اس کی خبر دے دو (مسلم و بخاری)لفظ بخاری کے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ، حدیث نمبر:17 )

(2)چار چیزیں پیغمبروں کی سنتوں سے ہیں ، روایت ہے حضرت ابوایوب سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ چار چیزیں پیغمبروں کی سنتوں سے ہیں شرم۔ ایک روایت میں ہے ختنہ، عطر ملنا،مسواک اور نکاح ( ترمذی) (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:382)

(3)وہ نرا منافق ہے، روایت ہے عبداللہ ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس میں چار عیوب ہوں وہ نرا منافق ہے اورجس میں ایک عیب ہو ان میں سے اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک کہ اُسے چھوڑ نہ دے جب امانت دی جائےتو خیانت کرے،جب بات کرے توجھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو خلاف کرے،جب لڑے تو گالیاں بکے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:56 )

(4)چار چیزوں سے پناہ مانگے، روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تم میں سے کوئی جب دوسری التحیات سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے پناہ مانگے دوزخ اور قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنوں سے، مسیح دجال کی شرارت سے۔ (مسلم) (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 , حدیث نمبر:940 )

(5)اس وقت تک بندہ مؤمن نہیں ہوتا : روایت ہے حضرت علی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک بندہ مؤمن نہیں ہوتا جب تک چار باتوں پر ایمان نہ لائے گواہی دے کہ الله کے سواکوئی معبود نہیں اور میں الله کا رسول ہوں مجھے الله نےحق کےساتھ بھیجا اور مرنے اورمرنےکے بعد اٹھنے اور تقدیر پر ایمان لائے (ترمذی،وابن ماجہ) (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:104 )

قارئین کرام آپ نے پڑھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت فرمانے کے انداز ۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم