قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) (پ18، المومنون: 1) ترجمہ کنز العرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ فلاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا کاٹنا کاشتکار کو بھی فَلاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیچ بوتا ہے کامیاب بھی وہی ہوتا ہے جو صعوبتوں کو قطع کرتے ہوئے مطلوب تک پہنچ جاتا ہے کامیابی کی راہیں اسکے لیے کھل جاتی ہیں اس پر بند نہیں ہوتیں۔ شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت مغفرت کا مستحق قرار پا جائے اسکے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے گو دنیا والے اسکے برعکس دنیوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔

الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) (پ18، المومنون: 2) ترجمہ کنز العرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات وساوس کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت جلالت کا نقش اپنے دل پر بیٹھانے کی سعی کرے اعضا و جوارح کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے کھیل کود نہ کرے بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف خشیت اور عاجزی کی فروتنی کی ایسی کیفیت طاری ہو جیسے عام طور پر کسی بادشاہ یا کسی بڑے کے سامنے ہوتی ہے۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) (پ18، المومنون: 3) ترجمہ: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔ ہر وہ کام ہر وہ بات جسکا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی دنیاوی نقصانات ہوں اس سے اعراض کا مطلب ہے کہ انکی طرف التفا بھی نہ کیا جائے۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) (پ 18، المومنون: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں۔ اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوٰة مفروضہ ہے جس کی تفصیلات یعنی اسکا نصاب اور زکوٰة کی شرح کو مدینہ میں بتلائی گی تھی تاہم اسکا حکم مکے میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے جس سے نفس کا تزکیہ اور اخلاق کردار کی تطہیر ہو۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) (پ 18، المومنون: 8) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔ امانات سے مراد مفوضہ ڈیوٹی کی ادائیگی راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت ہے۔

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ- (پ 17، الحج: 41) ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین پر ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰة دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔

7۔ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کےلیے ضروری قرار دیا گیا جس سے نماز کی اہمیت فضیلت واضح ہے لیکن آج کے مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالحہ کی طرح اسکی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہی۔

وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت اطاعت الہی اور اخروی درجات کے فضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے دونوں کےلیے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے دونوں ذیادہ سے ذیادہ نیکیاں اور اجرو ثواب کما سکتے ہیں جنس کی بنیاد پر اس میں کمی پیشی نہیں کی جاۓ گی علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے۔

اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) (پ18، المومنون: 10 ،11) ترجمہ کنز العرفان: یہی لوگ وارث ہیں یہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

ان صفات مذکورہ کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہوں گے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے جنت بھی جنت الفردوس جو جنت کا اعلی حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔


ہر وہ شخص جس نے کلمہ پڑھا، وہ مسلمان ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر مسلمان مؤمن بھی ہو۔ مومن اپنی عادات سے پہچانے جاتے ہیں۔ قرآن میں رب کریم نے مومنین کی صفات کا تذکرہ جابجا کیا ہے۔ قرآن سے مومنین کی چند صفات کا ذکر کرتے ہیں۔

1۔ اللہ کریم اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے والے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا (پ 26، الحجرات: 15) ترجمہ کنز العرفان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا۔ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے، پھر انہوں نے اپنے دین و ایمان میں شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا اوریہی لوگ ایمان کے دعوے میں سچے ہیں۔

2۔ فلاح پانے والے: قرآن کریم میں ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) (پ18، المومنون: 1) ترجمہ کنز العرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں گے۔

3۔ خشوع و خضوع کرنے والے: ارشاد ہے: الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) (پ18،المؤمنون:2) ترجمہ کنز الایمان: جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔مومنین خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں۔

4۔ فضول باتوں سے اجتناب کرنے والے: ارشاد ہوتا ہے: وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) (پ18، المؤمنون:3) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔قرآن میں مومنین کی صفات میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ کہ وہ ہر لَہو و باطل سے بچتے ہیں۔

5۔ زکوة کی ادائیگی کرنے والے: رب تعالٰی فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) (پ 18، المومنون: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں۔ مومنین پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’تَزکیہ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔

6۔ شرمگاہ کی حفاطت کرنے والے: ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) (پ18، المومنون:5) ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔مومنین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔

7۔ امانت و وعدے کی حفاطت کرنے والے: رب اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) (پ 18، المومنون: 8) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔ اگر مومنین کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ امانتیں خواہ اللہ کی ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔

8۔نمازوں کی نگہبانی کرنے والے: قرآن میں ہے: وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) (پ 18، المومنون: 8) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ مومن وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاطت کرتے ہیں اور انہیں اُن کے وقتوں میں، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں۔


مؤمن کے معنی ایسے کامل ایمان والے بندے کے ہوتے ہیں جس سے مسلمانوں کے جان و مال امن میں ہوں۔ جیسا کہ سرکار عالی وقار ﷺ کا فرمانِ مشکبار ہے: مؤمن وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان اپنی جان اور اپنے اموال سے بے خوف ہوں۔ (مستدرک للحاکم، 1/158، حدیث:24) مؤمنین اللہ کے وہ پسندیدہ بندے ہیں جن کی بہت سی پاکیزہ صفات رب کریم نے خود قرآن پاک میں جگہ جگہ ارشاد فرمائی ہیں۔ آئیے آج ہم ان میں سے دس صفات کا علم حاصل کرنے کی سعادت پاتے ہیں۔

سورۃ الانفال میں خالقِ ارض و سماء کا فرمانِ عظیم ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) (پ9، الانفال: 2) ترجمہ کنز العرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے مومن بندوں کی تین صفات بیان فرمائی ہیں:

1۔ ڈرنے والے: جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ یہاں ڈرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کے جلال و عظمت اور اس کی بے نیازی اور ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔

2۔ ایمان میں اضافہ: اللہ کی آیات سن کر ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کے ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہوتی ہے۔

3۔ اللہ پہ توکل: مؤمنین اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی سے نہ امید لگاتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالٰی سورۃ التوبۃ میں مؤمنین کی بہت پیاری پیاری صفات تعلیم فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ (پ 11،التوبۃ: 112) ترجمہ کنز الایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے۔

4۔ توبہ کرنے والے: گناہوں سے توبہ کرنے والے بندوں سے اللہ بہت محبت فرماتا ہے۔ اس لئے مومنین اس پاکیزہ صفت سے متصف ہوتے ہیں۔

5۔ عبادت کرنے والے: مومن بہت عبادت کرنے والے ہوتے ہیں۔ اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں پڑھتے اور رکوع و سجود بجالاتے ہیں۔

6۔ حمد کرنے والے: اللہ کے کامل ایمان والے بندے ہر حال میں اللہ کی حمد و ثناء میں مصروف رہتے ہیں۔

7۔ روزے رکھنے والے: روزہ اللہ کی محبوب عبادت ہے۔ رب کریم کے مومن بندوں کی یہ صفت بھی قرآن کریم میں بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ روزے رکھنے والے ہوتے ہیں۔

8۔ نیکی کی دعوت: نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی قرآن و احدیث میں بہت تاکید آئی ہے اور قرآن کریم میں یہ مؤمنین کی صفات میں شامل ہے۔

9۔ اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے: مؤمن اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادات اور معاملات میں جن باتوں کا حکم دیا گیا ہے ان پہ عمل کرتے ہیں اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جاتے ہیں۔

10۔ مسلمانوں کے دوست: سورۃ المائدۃ میں ربِ کریم نے مومنین کی بہت پیاری صفت تعلیم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا (پ 6، المائدۃ: 55) ترجمہ کنز العرفان: تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں۔

اللہ نے مومن بندوں کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں ہمیں چاہئے کہ ان کے ذریعہ اپنے نفس کا محاسبہ کریں اور انہیں اختیار کرنے کی کوشش کریں۔


اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275) تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

معاملات کی درستی عبادات کی درستی سے زیادہ اہم ہے یہاں پر پڑوسی کے کچھ حقوق پیش خدمت ہیں:

1۔ عزت کی حفاظت کرنا: پڑوسی کے گھر میں تانک جھانک نہ کی جائے اور نہ ہی اپنی چھت پر ایسے چڑھے کہ اس کی بے پردگی ہو۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں سے زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث: 23915)

2۔ حاجت روائی کرنا: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن وہ نہیں جو خود سیر ہو جاوے اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔(شعب الایمان، 3/225، حدیث: 3389) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اپنے عزیزوں، قرابت داروں، پڑوسیوں، محلہ داروں کے حالات کی خبر رکھے اور اگر کسی کی حاجت مندی کا پتا چلے تو ان کی حاجت روائی کو غنیمت جانے۔ (مراۃ المناجیح، 6/821)

3۔ ہدیہ بھیجنا: روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کسے ہدیہ دیا کروں؟ فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595) اس کی شرح میں ہے کہ پڑوسی کو ہدیہ دینا سنت ہے کہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/162)

4۔ غم و مصیبت میں ہمدردی کرنا: اگر پڑوسی بیمار ہو جائے تو اس کی مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تو تیمارداری کرنی چاہیئے اور اگر وفات پا جائے تو جنازے کے ساتھ شرکت کرے۔ حدیث پاک میں ہے: پڑوسیوں میں اللہ کے نزدیک بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔ (ترمذی، 3/ 379، حدیث: 1951)

5۔ اپنے شر سے بچانا: حدیث پاک میں ہے: اور مومن نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس کا پڑوسی اس کے شر سے امن میں ہو۔ (مراۃ المناجیح، 6/824)

گھر میں شور کرنا، بلند آواز سے ٹی وی گانے چلانا، پڑوسیوں کے عیبوں کو تلاش کرنا، اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف دینا وغیرہ وغیرہ پڑوسیوں کو شر پہنچانے میں شامل ہے۔


فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

پڑوسیوں کے حقوق: پڑوسیوں کے چند حقوق یہ ہیں: اس کے ساتھ ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ سلام کرنا اور جب بھی ملاقات ہو خیر و عافیت پوچھنا۔ بیمار ہونے پر عیادت کرنا۔ ضرورت اور مشکل وقت میں کام آنا۔ پڑوسی کی عزت آبرو اور مال و اولاد کا دفاع کرنا۔ پڑوسی کی پردہ پوشی کرنا اپنی نگاہوں کو اس کی عورتوں کو دیکھنے سے خاص طور پر بچانا۔

اللہ و رسول ﷺ کی محبت پانے کا ذریعہ: ایک دن حضور ﷺ وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام آپ کے وضو کے دھوون کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کی کہ ہم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کی محبت کے جذبے میں یہ کر رہے ہیں یہ سن کر آپ نے ارشاد فرمایا کہ جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ و رسول سے محبت کرے یا اللہ و رسول اس سے محبت کریں اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو وہ امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (شعب الایمان، 2/201، حدیث: 1533)

فرمانِ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہے: اپنے پڑوسی کے ساتھ جھگڑا مت کرو کیونکہ یہ تو یہیں رہے گا لیکن جو لوگ تمہاری لڑائی کو دیکھیں گے وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔ (کنز العمال، 5/49، حدیث:5599)

بسا اوقات پڑوسی سے کتنا ہی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام برے کے ساتھ برا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حسنِ تدبیر کے ساتھ اس برے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا ہے۔ معاشرے کو پرسکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے والا بنائے۔ آمین


اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق مقرر کیے ہیں جن کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت کے لیے ضروری ہے۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔ یعنی قریب والے اور دور والے پڑوسیوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور اچھا برتاؤ کرو۔ اور حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ پڑوسی کو پڑوسی کا وارث بنا ئیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014) ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ ایک بار رسول ﷺ وضو فرما رہے تھے اور صحابہ کرام آ پ کے وضو کے دھوون کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ نے فرمایا: تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کی: ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کے جذبے سے ایسا کرتے ہیں تو آ پ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: جس کو یہ بات پسند ہو کی وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کریں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو امانت کو ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (شعب الایمان، 2/201، حدیث: 1533) اور رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔ (شعب الایمان، 3/225، حدیث: 3389) ہر حال میں اپنے پڑوسیوں کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔

(1) اپنے پڑوسیوں کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقتِ ضرورت ان کی ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔ (2) اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور خیر خواہی و بھلائی میں لگا رہے۔

(3) کچھ ہدیوں اور تحفوں کا بھی لین دین رکھے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم اس کے ذریعے پڑوسیوں کی خیر خواہی اور ان کی مدد کر سکو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625)

(4) اس کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک کی قسم مومن نہیں! اللہ پاک کی قسم مومن نہیں! سوال کیا گیا کہ کون لوگ مومن نہیں فرمایا وہ شخص جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)اسی طرح مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہیں۔(مسلم، ص43، حدیث: 46)

(5) پڑوسی کے گھر سے کسی چیز کو حقیر نہ جانے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمان عورتو! اپنی پڑوسن کے لیے کوئی چیز حقیر نہ سمجھو اگر چہ بکری کا ایک کھر ہی ہدیہ بھیجے۔ (بخاری، 2/165، حدیث: 2566)

(6) حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر لکڑی گاڑنے سے نہ روکے۔ (بخاری، 2/132، حدیث: 2463)


اللہ پاک نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اچھا پڑوسی بھی ہے۔ پڑوسی سے مراد وہ شخص ہے جو دوسروں کی بنسبت قریب رہتا ہو۔

پڑوسیوں کے حقوق:

حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ پڑوسیوں کے چند حقوق بیان کرتے ہوئے ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں: کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اگر وہ تم سے مانگےتو اس کی مدد کرو،قرض مانگے تو قرض دو، اگر وہ محتاج ہو تو اسے کچھ دو، بیمار ہو تو عیادت کرو، مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ، اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دو، مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، بلااجازت اس کے مکان سے اونچا مکان بنا کر اس کی ہوا نہ روک دو، اگر تم پھل خریدو تو تحفۃً اسے بھی دو اور اگر ایسا نہ کرو تو پوشیدہ طور پر لاؤ اور تمہارے بچے انہیں لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج پہنچے گا۔ اپنی ہانڈی کے دھویں سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ اسے بھی کچھ نہ کچھ بھجوا دو۔ کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق وہی شخص ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث: 4243)

پڑوسی سے خیر خواہی: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! جب شوربا پکاؤ تو اسکا پانی زیادہ کرو! اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625) مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ معمولی سالن بھی پڑوسیوں کو بھیجتے رہنا چاہيے، کیونکہ سرکار ﷺ نے یہاں شوربا فرمایا گوشت کا ہو یاکسی اور چیز کا، دوسرے یہ کہ ہر پڑوسی کو ہدیہ دینا چاہیے، قریب ہو یا دور، اگرچہ قریب کا حق زیادہ ہے، تیسرے یہ کہ لذت پر الفت اور محبت کو ترجيح دینا چاہیے، کیونکہ جب شوربے میں فقط پانی پڑے گا تو مزہ کم ہو جائے گا، لیکن اس کے ذریعے پڑوسیوں سے تعلقات زیادہ ہو جائیں گے۔اسی لیے فرمایا کہ صرف پانی ہی بڑھا دو! اگرچہ گھی اور مصالحہ نہ بڑھا سکو۔ ( مراةالمناجیح،3/ 121)

مزید کچھ حقوق یہ ہیں: پڑوسیوں کو تکلیف نہ دیجیے، گھر کے سامنے کچرا نہ ڈالیں، اس کے دروازے پر شور نہ کریں، اس کے گھر نہ جھانکیں، اونچی آواز سے ٹیپ ریکارڈر یا ڈیک وغیرہ نہ بجائیں چاہے نعت ہی کیوں نہ ہو، اپنے گھر کا پانی پڑوسیوں کے گھر کے سامنے نہ چھوڑیں، ان کے بچوں کو نہ جھاڑیں اور نہ ہی ماریں۔

رسول اکرم ﷺ نے ایک غزوہ پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا: آج وہ شخص ہمارے ساتھ نہ بیٹھے جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی ہو۔ ایک شخص نے عرض کی: میں نے پڑوسی کی دیوار کے نیچے پیشاب کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آج تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو۔ (معجم اوسط، 6/ 481، حدیث: 9479)

اللہ کریم ہم سب پر رحم فرمائے اور ہم سب کو جُملہ حقوق العباد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دینِ اسلام کا حسن یہ ہے کہ اس نے حقوق الله کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف بھی مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو اچھا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ حقوق العباد میں سے ایک اہم حق حقِ پڑوسی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔ (کے ساتھ بھلائی کرو)

پڑوسی کون؟ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275)

پڑوسیوں کے چند حقوق زینتِ قِرطاس کیے جا رہے ہیں:

1) پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کرنا: پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اس سے اچھا سلوک کیا جائے کہ یہ تکمیلِ ایمان کا ذریعہ ہے۔ تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6014)

2) تحفوں کا لین دین: پڑوسیوں کو وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ تحفۃً دیتے رہنا چاہیے اس سے محبت بھی بڑھتی ہے اور ان کی خبرگیری اور مدد بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کسے ہدیہ دیا کروں فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595)

3)قولی و فعلی تکلیف سے پڑوسی کو بچانا: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ پہنچائی جائے نہ قول سے اور نہ فعل سے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو الله تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

4) پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی مصیبت پر صبر کرنا: حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یادرکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیاجائے، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے۔ (احیاء العلوم، 2/ 267)

آقا کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: جن لوگوں سے اللہ محبت فرماتا ہے ان میں وہ شخص بھی شامل ہے جس کا بُرا پڑوسی اسے ايذا دے تو وہ اس کی ايذا رسانی پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/152،حدیث:1637)

ہمیں ان احادیث پر عمل کرنا ہے تاکہ خوشگوار اور پُرسکون معاشرہ تشکیل پائے ورنہ

لطف تو جب ہے کہ کردار بھی کروٹ بدلے

ورنہ جذبے تو لیا کرتے ہیں انگڑائی بہت

الله پاک ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


قریب کے ہمسائے سے وہ مراد ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو۔ اور دور کے ہمسائے سے وہ مراد ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، ص 275)

دین اسلام ہی خوبصورت کامل دین ہے جس میں انسانوں کے بنیادی حقوق کو احسن آنداز سے پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ الحمدللہ دین اسلام پُڑ امن دین ہے جو پڑوسیوں کو بھی ان کے حقوق دیتا ہے مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ اچھا سلوک کرے خیرخواہی اور ان سے اچھا برتاؤ کرے۔ عبادت کی درستگی سے زیادہ اہم معاملات کی درستگی ہے۔ پڑوسی سے ہر وقت معاملہ رہتا ہے اس لیے ان سے اچھا برتاؤ کرنا بہت ضروری ہے۔ پڑوسی اگر کافر ہو پھر بھی اس کے حقوق ادا کریں۔ خیال رہے کہ پڑوسی کے حقوق اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کا انداز اس حدیث مبارکہ سے لگائیے۔!

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت سے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جناب جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے پڑوسی کے متعلق حکم الہی پہنچاتے رہے یہاں تک کے میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6105)

ایک اور حدیث پاک ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (مسلم، ص43، حدیث: 46)

افسوس کہ یہ سبق آج مسلمانوں کی ایک تعداد بھول چُکی ہے بلکہ آب تو ان کے تیر کا پہلا شکار ان کا پڑوسی ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر مسلمان اپنی شر سے بچانا ضروری ہے مگر پڑوسی کو بچانا نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ ہمارے اچھے اخلاق کا زیادہ مستحق ہے۔ رب تعالی فرماتا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اسے تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے ساتھ بھلائی کی جائے۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ درویش اور غریب ہمسایہ اپنے امیر و دولت مند ہمسایہ کے گلے پڑے گا اور عرض کرے گا اے اللہ اس کو پوچھ کہ اس نے میرے ساتھ نیک سلوک کیوں نہ کیا اور اپنے گھر کا دروازہ مجھ پر کیوں بند رکھا۔ (مکاشفۃ القوب، ص 579)

ایک بزرگ کو گھر کے چوہے بہت ستاتے تھے۔ لوگوں نے کہا! حضرت آپ بلی کیوں نہیں رکھتے ؟ بزرگ نے فرمایا اس خطرے سے کہیں چوہے بلی کی آواز سے ڈر کر پڑوسی کے گھر نہ چلے جائیں اور جو بات میں اپنے لیے پسند نہیں کرتا تو کسی دوسرے کے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔ (احیاء العلوم، 2/771)

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے؟ ہمسائے کا حق یہ ہے کہ اگر وہ تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرے اسے قرض کی ضرورت پیش آئے تو قرض دے غریب ہو تو اس کی مدد کرے بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے فوت ہوجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے اور اگر اُسے خوشی ملے تو مبارکباد دے مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کی ہمدردی کرے اور اپنے گھر کی دیوار بلند نہ کرے تاکہ اسے ہوا اور روشنی پہنچانے میں رکاوٹ نہ ہو۔ اور جب تُو میوہ کھائے تو اسے دے اور اگر تم ایسا نہ کرو تو پوشیدہ کرکے کھاؤ۔ اور ایسا نہ کر کے تیرے بچے ہاتھ میں میوہ لیے باہر نکلیں اور ہمسایہ کے بچے دیکھ کر غصہ کریں۔ جو کچھ پکایا جائے اس میں سے اسے بھی دے تاکہ وہ بُرا نہ منائے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے! اس خدائے واحد کی قسم جس کے قبضے قدرت میں میری جان ہے ہمسائے کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر وہی جس پر اللہ کی رحمت ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243)

ہمیں جاننا چاہیے کہ حقوق میں پہلے حساب پڑسیوں کا ہوگا۔ پڑوسی کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ چھت اور کھڑکی وغیرہ سے اس کے گھر جھانک کر نہ دیکھا جآئے اور آگر وہ تیری دیوار پر لکڑیاں رکھے تو منع نہ کرو اور اس کے مکان کا پرنالہ بند نہ کرو اور آگر تیرے گھر کے آگے کوڑا ڈالے تو جھگڑا نہ کرو اور پڑوسی کے جو عیب تجھے معلوم ہوں انہیں پوشیدہ رکھو۔ ( کیمیائے سعادت، ص 317 )

مومن کو چاہیے کہ اپنے عزیزوں قُرابت داروں پڑسیوں محلہ والوں کے حالات کی خبر رکھے۔ پڑوسی کے محتاج ہونے بھوکا ہونے کا پتا چلے تو ان کی حاجت روائی کو غنیمت جان کر کرے۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے اے اللہ ہمیں تمام لوگوں کے حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھنے کی توفیق دے دین اسلام پر استقامت عطا فرما اور حق تلفی سے ہمیں بچا۔ آمین یا رب العالمین 


اسلام نے جہاں والدین عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک، اخوت و ہمدردی اور پیار و محبت کی تعلیم دی ہے وہیں قرب و جوار میں بسنے والوں کو بھی محروم نہیں رکھا۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لئے انسانی زندگی کا انفرادی اور اجتماعی کوئی پہلو ایسا نہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ اپنے ہمسائے یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے الله پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت خوشگوار رہن سہن کے لئے صرف ترغیب نہیں دی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے ایک معاشرتی نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترين عمل ہے کے جس کی تعلیم خود ہمارا رب ہمیں ارشاد فرما رہا ہے، چنانچہ پارہ 5 سورۂ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

دیکھا آپ نے اسلام کتنا پیارا مذہب ہے جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے ہمسایوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، قرآن کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت ان کے ساتھ حسن سلوک بجا لانے اور ان کے حقوق کی بجا آوری کا ذہن دیا گیا ہے، چنانچہ

1۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مر جائے تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اس کو بھی دو اور میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے باہر لے کر نہ نکليں کہ اس سے پڑوسی کو رنج ہو گا۔ تمہیں معلوم ہے پڑوسی کا حق کیا ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں اور وہ وہی ہیں جن پر الله پاک کی مہربانی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243) حضور ﷺ مسلسل پڑوسیوں کے متعلق وصیت فرماتے رہے یہاں تک کے لوگوں نے گمان کیا پڑوسی کو وارث کر دیں گے۔(بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

2۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی بیشک اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے الله پاک کو ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بیشک اس نے الله پاک سے لڑائی کی۔ ( کنزالعمال، 5/25، حدیث:24922)

2۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہت سے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں کا دامن پکڑ لیں گے، مظلوم پڑوسی عرض کرے گا:یا رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا دروازہ کیوں بند کر رکھا تھا اور اپنی ضرورت سے زائد چیزيں مجھ سے کیوں روکی تھیں۔ (مکاشفۃ القوب، ص 579)

پڑوسیوں کے عام حقوق: حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے۔ ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔ ان کی عورتوں کے سامنے نگاہيں نیچی رکھے۔ ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔ دین و دنیا کے معاملے میں انہيں رہنمائی کی ضرورت ہو تو ان کی رہنمائی کرے۔ (احیاء العلوم، 2 /772)

الله کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمسائیگی کو عربی میں جوار کہا جاتاہے اور پڑوسی کو جار کہتے ہیں۔ اسلام سب سے پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لئے انسانی زندگی کوکوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسانہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ ر ہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ ہر ایک کو اپنے ہمسایہ یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے اللہ تعالی اور اس کے نبی ﷺ نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت خوشگوار رہن سہن اور بودو باش کے لئے بھی صرف ترغیب نہیں دی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے تقریبا ایک معاشرتی نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ قرآن حکیم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حقوق جوار میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل فرمایا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہمسائے تین قسم کے ہوتے ہیں: ایسے لوگ جو ہمسایہ ہونے کے ساتھ رشتہ دار بھی ہوں۔ ایسے لوگ جو قرب و جوار میں رہتے ہوں لیکن رشتہ دار نہ ہوں۔ وہ لوگ جو ہم نشین اور دوست ہوں۔ انسان کا انسان کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ حقوق العباد میں سرفہرست بڑا جرم اور بڑا گناہ ہے۔ ہمارے ہاں عموماً ہمسایوں کی اس طرح کی شکایات آج کل عام ہیں: بسنت کا غیر اسلامی تہوار کئی کبیر گناہوں کا ایک ساتھ منانا اور اس دوران گانے، باجے، میوزک، آتش بازی، لڑکوں لڑکیوں کا اجتماعی شور شرابہ اور فائرنگ کرنا وغیرہ عام ہے۔ دوسری بات روزانہ ہمسایوں کو تنگ کرنے کیلئے اونچے اسپیکر پر گانے لگا کر سننا جو عموماً انتہائی غلیظ اور واہیات، عشقیہ فتنے کا سبب ہوتے ہیں۔ تیسری بات ہمسایوں کو اونچی آوازوں میں اپنے گھر کے اندر شور شرابہ کر کے تنگ کرنا، بیماروں بوڑھوں، کم نیند کے مریضوں وغیره کو تنگ کرنا بھی بڑا گناہ ہے یہ تمام سال جاری رہنے والے غیر اخلاقی رویے ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کی حرکتیں ہیں جس کا گناہ ہوگا۔ نیز اس سے ایک دوسرے سے ناراضگی، بول چال کے خاتمے یا کشیدہ تعلقات لڑائی جھگڑے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کسی نیند کرتے ہوئے کو تنگ کرنا شریعت میں سخت منع ہے، بڑے بے مثال اخلاق ان بزرگوں کے تھے کہ بیوی سارے دن کے کام کاج سے تھکی ہوئی سوئی ہے تو اس کی نیند اپنی رات کی عبادات کیلئے خراب کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

ایک اہم معاشرتی کمزوری ہمسائیوں کا رات سونے کے وقت دیر سے گھر واپس لوٹنا ہے۔ اللہ پاک نے رات آرام سکون اور اگلے دن جسم کو کام کاج و عبادات کیلئے تندرست وتوانا رکھنے کیلئے بنائی ہے۔ ہمارے ہاں مرد خواتین راتوں کو دیر سے گھر آنے کے مرض مبتلا ہو گئے ہیں اس سے گھر میں اپنی محرم خواتین انتہائی تھکاوٹ بیماری کے باوجود انتظار میں جاگنے یا خاوند یا بیٹے کیلئے رات گئے دروازہ کھولنے کے تکلیف دہ عمل کا شکار ہوتی ہیں اس عادت بد کی وجہ سے محلے دار جو گہری نیند سور ہے ہوتے ہیں وہ ہمسائے کے بار بار اپنے اہل خانہ کو جگانے کیلئے گھنٹی بجانے، دروازہ زور زور سے پیٹنے یا گاڑی موٹر سائیکل کے لگاتار ہارن بجانے سے جاگ جاتے ہیں اور ان کی نیند ہمسایوں کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو دوبارہ فطری طور پر جلدی نیند نہیں آتی بعض لوگ قدرتی طور پر ایسی نیند کے عادی ہوتے ہیں کہ ایک دفعہ آنکھ کھلنے سے دوبارہ نہیں آتی یا ایسے بوڑھے لوگ جو کم سوتے ہیں وہ بہت اذیت سے گزرتے ہیں مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے، گناہ کبیرہ ہے اس کا بھی آخرت میں گناہ ہوگا۔ محلہ داروں ہمسایوں میں ایک دوسرے کے گھر کے سامنے کوڑے کچرے کے تھیلے یا گندگی پھینکنا بھی بڑا برا عمل ہے۔ ہمیں تو حضور ﷺ نے حکم دیا ہے کہ کوئی مسلمان اگر راستے میں پتھر، کانٹا، شیشہ یا نقصان دہ چیز دیکھے تو ہٹا دے یہ نیکی ہے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے گھروں کے آگے اپنے گھر کو صاف کر کے گندگی بکھیرنے کی عادات بھی معاشرے کے ماحول میں صفائی نہ ہونے کی بڑی وجہ ہے ہمیں اپنے ہمسایوں میں اپنے اعمال سے شرافت، ہمدردی، قربانی، اعلی اخلاق، دوستی، غمگساری، اللہ کے نام پر خرچ کرنا، برے وقت کام آنا، روٹی، دوائی، دعاؤں جیسے تحفے دینے اور معاشرتی حقوق کی ادائیگی کیلئے ہر گھڑی تیار اور اسلامی طرز معاشرت کے اصول اپنانے چاہئیں تا کہ ہم اپنے نیک مقبول اعمال حقوق العباد ( انسانوں مسلمانوں) میں کوتاہی کر کے برباد نہ کر دیں ہم یہی سمجھتے رہیں کہ ہم نے نماز روزہ و ز کو ۃ یا حج کے فرائض ادا کئے ہیں اور دوسری طرف وہ تمام غلط کام کرتے رہیں جس سے مسلمانوں کے حقوق ادا نہ ہوتے ہوں۔

اس لئے معلوم ہوا کہ اسلام نے صرف مسلمان ہمسایہ کے ساتھ ہی نیک سلوک کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلم ہمسایہ کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سلسلے میں حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: غیر مسلم ہمسایہ کا ایک حق ہے، مسلمان ہمسایہ کے دوحق اور مسلمان رشتہ دار اور ہمسایہ کے تین حق ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے ہمسایوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا جو ہمسایہ کی ضرورت کے وقت معمولی ضرورت کی چیز اپنے ہمسایہ کونہ دیں۔


پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو ان کا ہم پر بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہوں اور مسلمان بھی ہوں تو ان کے تین حق ہیں: پڑوسی کا حق، قرابت داری کا حق اور اسلام کا حق۔ اسی طرح اگر وہ قریبی ہے لیکن مسلمان نہیں تو اس کے دو حق ہیں: پڑوسی ہونے کا اور قرابت داری کا۔ اور رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق۔

اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور ان کے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں، چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

1۔ حدیث مبارکہ میں آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)

2۔ رسولُ کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا ”پڑوسی“ اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/152، حدیث: 1637)

3۔ ارشاد فرمایا: جس کے شر سے اس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم شریف، ص 43، حدیث:73 )

4۔ ارشاد فرمایا: جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/ 119، حدیث:12741)

اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسیوں کے حق ادا کرنے کی کس قدر اہمیت ہے۔ معاشرے کو پر سکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لئے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ایک پر امن معاشرہ بن سکتا ہے۔ اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ