ماں باپ بہن بھائی اور رشتے داروں کے بعد پڑوسیوں کے بے شمار حقوق بیان کیے گئے ہیں اور ہم پر یہ حقوق لازم ہیں۔ سرکار مدینہ، راحت قلب و سینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہیں۔ (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔ (2) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں۔ (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔ مسلمان رشتہ دار کے تین حق ہیں، حق اسلام اور رشتہ داری کا حق،مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں، حق پڑوس اور حق اسلام۔ مشرک، پڑوسی کا صرف ایک حق ہے حق پڑوس۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560 ) اس حدیث پاک میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے مشرک کا بھی صرف پڑوس کے باعث حق ثابت فرمایا۔

پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا جائے: حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا تو آپ نے فرمایا: اے غلام! جب تو کھال اُتارے تو سب سے پہلے ہمارے پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا۔ غلام نے کہا: آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں

خدشہ ہوا کہ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیں۔ (ترمذی، 3/379، حدیث: 1949)

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ پڑوسیوں کے ہم پر جو حقوق ہیں ان میں سے پہلا یہ ہے کہ ان کی عزت کی جائے عزت کی حفاظت کی جائے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

2۔ پڑوسیوں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ سلام میں پہل کرے سلام میں پہل تو ہر مسلمان کے ساتھ کرنی چاہیے لیکن یہاں خاص بیان کیا گیا کہ پڑوسیوں سے سلام میں پہل کی جائے تاکہ ان کے دل میں محبت پیدا ہو سکے۔

3۔ پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔ یعنی اپنے پڑوسی کی ہر حالت پر نظر ہو اور اگر وہ بیمار ہو، پریشان ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔

4۔ پڑوسی سے جھگڑا نہ کرنا بھی ایک حق ہے کہ خلیفہ اول امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اپنے پڑوسی سے جھگڑا کر رہے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا: اپنے پڑوسی سے مت جھگڑو کیونکہ لوگ چلے جاتے ہیں جبکہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے۔(کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

5۔ پڑوسیوں کا ہم پر ایک یہ بھی حق ہے کہ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا جائے یعنی اگر اس کو مالی کوئی پریشانی ہو یا اگر ان پر قرض ہو تو اُس معاملے میں بھی ان کی مدد کی جائے۔ اور ان حقوق کو کون ادا کر سکتا ہے اس بارےمیں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (شعب الایمان، 7/73، حدیث: 9560) اس حدیث مبارکہ سے ہمیں یہ پتا چلا کہ پڑوسیوں کے حقوق صرف وہی ادا کرسکتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور یہ بات بھی کہ جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے اس پر ہی رحم کیا جاتا ہے اس لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم پڑوسیوں کے حق ادا کریں کیونکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے اور یہ تب تک معاف نہیں ہوں گے جب تک یہ لوگ خود معاف نہیں کریں گے اس لیے ہمیں اس دنیا میں ہی ان سے معافی مانگنی چاہیے بلکہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان کو کوئی بھی تکلیف نہ دیں۔ اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، امن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمان کے قرب و جوار (پڑوسی) کو محروم نہیں رکھا بلکہ انکی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا ہے کہ اگر ان تعلیمات پر عمل کیا جائے تو ایک مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر کوئی دوسرے کی جان و مال اور عزت کا محافظ ہو دوسروں کے حقوق کو اپنا فرضِ عین سمجھے۔

قرآنِ کریم میں بھی پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین ارشاد فرمائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی(کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

آئیے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پڑوسی کے حقوق جاننے سے پہلے یہ جان لیتی ہیں کہ حقوق کہتے کسے ہیں؟

چنانچہ حقوق جمع ہے حق کی جس کے معنیٰ ہیں فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔ (معجم وسیط، ص 188)

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ نبی کریم ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله کی قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول الله! وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

2۔ اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسول الله ﷺ نے کسی شخص کے کامل مومن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرما دیا۔

اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے مگر اس کا پڑوسی بھوکا پیاسا رہے۔ چنانچہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

3۔ پڑوسی سے حسنِ سلوک تکمیل ایمان کا ذریعہ جبکہ ان کو ایذا دینا اور انکی حق تلفی کر دینا ان سے بدسلوکی کرنا دنیا و آخرت کے نقصان کا حقدار بنا سکتی ہے، جیسا کہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جس کے شر سے اس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص43، حدیث:73)

4۔ پڑوسی کو تکلیف دینا پیارے آقا ﷺ کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے الله پاک کو ایذا دی نیز جس نے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے الله سے لڑائی کی۔ (ترغیب و ترہیب، 3/286، حدیث: 3907)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرائیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

5۔ فرمانِ صدیقِ اکبر رضی الله عنہ: اپنے پڑوسی کے ساتھ جھگڑا مت کرو کیونکہ یہ تو یہیں رہے گا لیکن جو لوگ تمہاری لڑائی کو دیکھیں گے وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔ (کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

6۔ مزید پڑوسی کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ جب وہ بیمار ہو اسکی عیادت کی جائے، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے اگر عیب دار ہو جائے تو اس کی پردہ پوشی کی جائے، مدد طلب کرے تو اسکی مدد کی جائے، اسکی خوشی میں مبارک باد دی جائے اور مصیبت میں اسکی تعزیت کی جائے۔

7۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے: سالن کی خوشبو سے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خرید کر لاؤ تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ایسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560)

الله پاک ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کو ہر طرح کی اذیت پہنچانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق کو بڑی اہمیت دی ہے ہمارے معاشرے میں جو تعلقات باہم رابطے کا ذریعہ بنتے ہیں ان میں رشتہ داروں کے بعد ہمسائیگی کا تعلق ہے، ہم سب کا مشاہدہ ہے ہمسائے نہایت ہی قریب ہونے کی وجہ سے رشتہ داروں سے بھی پہلے مدد کو پہنچتے ہیں خالصتاً انسانی مسئلہ اور ہمدردی کی بنا پر لوگوں کو ہمسایہ کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لہٰذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے ہمسائیوں کے حقوق کے معاملے میں بےتوجہی نہ برتے ان کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے۔ اللہ کریم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

ہمسائیوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس حوالے سے مفسرین کے تین اقوال ہیں:

1۔ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ جو محلہ دور تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔

2۔ جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ

٣ ٭جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی ہو وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275)

پڑوسی کے حقوق عام مسلمانوں کے حقوق سے بھی زیادہ ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جسکا ایک ہی حق ہے دوسرا وہ جس کے دو حق ہیں اور تیسرا وہ جس کے تین حقوق ہیں اور وہ جس کے تین حقوق ہیں وہ مسلمان اور قریبی رشتہ دار ہے اور جس کے دو حق ہیں وہ مسلمان ہے اور جس کا ایک حق ہے وہ مشرک ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، 5/235، حدیث: 6948)

آپ ﷺ کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے مشرک کے حق کو ثابت کرنا پڑوسی کے حق کی تاکید پر دلالت کرتا ہے۔

پڑوسی کے حقوق:

حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اگر وہ تم سے مدد مانگے تو اسکی مدد کرو، قرض مانگے تو قرض دو، اگر وہ محتاج ہو تو اسے کچھ دو، بیمار ہو تو عیادت کرو، مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ، اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دو، مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، بلا اجازت اسکے مکان سے اونچا مکان بنا کر اسکی ہوا نہ روک دو، اگر تم پھل خریدو تو تحفۃً اسے بھی دو اور اگر ایسا نہ کرو تو پھر پوشیدہ طور پر لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج پہنچے گا، اپنی ہانڈی کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ اسے بھی کچھ نہ کچھ بھجوا دو، کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ کریم رحم فرمائے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243)

پڑوسیوں کی خاطر شوربا زیادہ پکالو: حدیث پاک میں پڑوسیوں سے خیر خواہی کرنے کی ترغیب آئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! جب شوربا پکاؤ تو اسکا پانی زیادہ کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625) مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ معمولی سالن بھی پڑوسیوں کو بھیجتے رہنا چاہیے، کیونکہ آقا ﷺ نے یہاں شوربا فرمایا گوشت کا ہو یا کسی اور چیز کا۔ دوسرا یہ کہ ہر پڑوسی کو ہدیہ دینا چاہیے قریب ہو یا دور، اگرچہ قریب کا حق زیادہ ہے۔ تیسرا یہ کہ ہمیشہ لذت پر الفت اور محبت کو ترجیح دینا چاہیے کیونکہ جب شوربے میں فقط پانی پڑے گا تو مزہ کم ہو جائے گا لیکن اس کے ذریعے پڑوسیوں سے تعلقات زیادہ ہو جائیں گے اسی لیے فرمایا صرف پانی ہی بڑھادو اگرچہ گھی اور مصالحہ نہ بڑھا سکو۔ (مراۃ المناجیح،3/121)

پڑوسی کو تکلیف نہ دیجیے: کوئی تکلیف دے تو اس کے شر سے بچنے کے لیے اٹھا جا سکتا ہے، آئندہ اس سے ملنے سے بچا جا سکتا ہے اس سے تعلقات ختم کیے جاسکتے ہیں لیکن اگر پڑوسی ہی تکلیف دینے پر تل جائے تو انسان کہاں پناہ ڈھونڈے؟ کیونکہ اس کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا یا مکان بدلنا پڑے گا جو کہ بہت دشوار ہے، آقا ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ کریم اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو ہرگز تکلیف نہ دے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 47) حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: پڑوسی کی حاجت پوری کرنے کے لیے اس کی مدد کرے، اس سے برائی دور کرے اور اس پر خصوصی عطائیں کرے تاکہ وعید کا مستحق نہ ہو۔ مزید فرماتے ہیں: حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: جو شریعت اسلامیہ کا التزام کرنا چاہے اس کے لیے پڑوسی اور مہمان کا اکرام اور ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا بھی لازم ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243)

وہ ایمان والا نہیں ہو سکتا: آقا ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: اللہ کی قسم! وہ مؤمن نہیں، اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! وہ کون ہے؟ فرمایا: جس کی برائیوں سے اسکا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ ( بخاری، 4/4، حدیث:6016) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: تین بار فرمانا تاکید کے لیے ہے۔ لا یؤمن میں کمال ایمان کی نفی ہے یعنی مؤمن کامل نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا۔ حضور ﷺ نے اسکی وضاحت پہلے ہی نہ فرمادی، بلکہ سائل کے پوچھنے پر بتایا تاکہ سننے والوں کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے، جو بات بعد میں معلوم ہو وہ بہت دلنشین ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/555)

جتنا خود کو دوسروں کے شر سے بچانا ضروری ہے اتنا ہی اپنے شر سے دوسروں کو بچانا۔ اللہ کریم ہمیں دوسروں کو تکلیف دینے سے بچائے اور دوسروں کو راحتیں پہنچانے والا بنائے۔ آمین یارب العالمین


ہماری دعوت اسلامی نے ہمیں علم سیکھنے کاایک اور موقع دیا کہ ہم پڑوسیوں کے حقوق بھی جان لیں کہ پڑوسیوں کے کون کون سے حقوق ہوتے ہیں جو جاننا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ تو پڑوسیوں کے حقوق جاننے سے پہلے ہم اس بات کا علم حاصل کر لیتے ہیں کہ پڑوسی کسے کہتے ہیں؟ قریب کے پڑوسی وہ ہوتے ہیں جن کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوتا ہے۔ دور کے پڑوسی وہ ہیں جو محلہ دار تو ہوں مگر ان کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔ قرآن کریم کی سورۂ نساء کی آیت نمبر 36 میں الله پاک نے پڑوسی کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ اب پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں 5فرامین مصطفیٰ ملاحظہ فرمائیں۔

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ اے ابو ذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈال لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔(مسلم، ص 1413، حدیث: 2625)

2۔ اے مومن خواتین! تم میں سے کوئی ایک بھی اپنی پڑوسن سے آنے والی کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو۔ خواہ وہ بکری کا ایک پایہ ہو۔ (بخاری، 2/165، حدیث: 2566)

3۔ اے ابو ذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈال لیا کرو۔اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625)

4۔ جو شخص الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

5۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کے بھی حقوق ادا کرنا کتنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے کہ اگر وہ تم سے مدد چاہے تو تم اُنکی مدد کرو، اگر انہیں بھلائی پہنچے تو انہیں مبارکباد دو، اگر کوئی مصیبت پہنچے تو ان کی تعزیت کرو، اُن کا کوئی عیب آپ پر ظاہر ہو تو اس کی پردہ پوشی کرو،

بیمار ہو تو عیادت کرو، اگر فوت ہو جائے تو جنازے میں شرکت کرو، ان کے گھر کی طرف نہ جھانکو، انہیں نیکی کا حکم دو، برائی سے منع کرو۔(مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243)

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


جہاں ایک مسلمان پر والدین، رشتہ داروں وغیرہ کے حقوق ہیں وہیں ہماری شریعت مطہرہ نے ہمسائے کے حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں، حدیث پاک میں آیا ہے: پڑوسی اور سائل کا حق پہچانو۔ (مسند امام احمد، 4/273، حدیث: 12397) اگر ہمسائے کے حقوق کماحقہ ادا کرنے میں ہم سب کامیاب ہوجائیں تو ایک بہترین معاشرے کو تشکیل دے سکتے ہیں۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی (کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

ہمسائے کی تعریف: قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، ص 275)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ پڑوسی کی عزت کی جائے: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

2۔ شر سے محفوظ رکھے: فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)

3۔ عیادت کرنا: ”پڑوسی“ کے حقوق بیان کرتے ہوئے نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔ (معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)

4۔ کھانا کھلانا: فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

5۔ پڑوسی سے جھگڑا نہ کیا جائے: خلیفۂ اول امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسی سے مت جھگڑو کیونکہ لوگ چلے جاتے ہیں جبکہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے۔ (کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

چند مزید حقوق: پڑوسی کو خوشی ملے تو اس کو مبارکباد دی جائے اسکی خوشیوں میں شرکت کی جائے، اسکے بچوں کے ساتھ نرمی کی جائے، اسکے گھر کے سامنے کچرا نہ پھینکا جائے، اسکے گھر میں نہ جھانکا جائے، اسکو حاجت ہو تو اسکی مدد کی جائے، اسکے ساتھ لمبی گفتگو نہ کی جائے، اسکے گھر مہان آئیں تو انکی بھی عزت کی جائے۔

ایک بزرگ کا واقعہ: کسی بزرگ نے اپنے دوستوں سے گھر میں چوہوں کی کثرت کی شکایت کی، تو ان سے کہا گیا آپ بلی کیوں نہیں پال لیتے؟ فرمایا مجھے اس بات کا خوف ہے کہ پڑوسی کی آواز سن کر چوہے پڑوسیوں کے گھروں میں چلے جائیں گے یوں میں انکے لیے اس بات کو پسند کرنے والا ہوجاؤں گا جس بات کو اپنی ذات کے لیے پسند نہیں کرتا۔

پڑوسی کے حقوق کی رعایت کا ذہن اللہ پاک اسکو عطافرماتا ہے جس کو پسند فرماتا ہے۔ لہٰذا اے عاشقان رسول! حقوق الله کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کو بھی پورا کیجیئے۔ اللہ پاک ہم سب کو پڑوسیوں کے حقوق احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے، اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت امن وسلامتی کی تعلیم دی ہے۔ وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے اسلامی بھائیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ انکی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر گھر ایک دوسرے کے جان ومال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی (کے ساتھ بھلائی کرو)۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھ کو پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

پڑوسیوں کے حقوق: اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔

حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب تمہارے پڑوسیوں پرکوئی مشکل وقت آئے تو ان کا ساتھ دو۔ خوشی میں ان کو مبارکباد دو۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرو۔ دین ودنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو تو اس میں ان کی رہنمائی کرو۔ ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرو۔ مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرو۔ (احیاء العلوم، 2/772)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی بے شک اس نے مجھے ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بےشک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کى۔ ( کنزالعمال، 5/25، حدیث:24922)

ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! فلاں عورت کی بات اس کی نماز صدقہ روزوں کی کثرت کی وجہ سے کی جاتی ہے، مگر وہ اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے تو رسول ﷺ نے فرمایا: وہ عورت جہنمی ہے۔ پھرعرض کی گئی: یا رسول الله! فلاں عورت نماز روزے کی کمی اور پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرنے کے باعث پہنچانی جاتی ہے مگر وہ پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ عورت جنتی ہے۔ (مسند امام احمد، 3/441، رقم: 9681)

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھتے ان کی خبر گیری فرماتے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہو جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہو کر اس کے حق میں مغفرت و نجات کی دعا کرتے اور ان کےگھر والوں کو صبر کی تلقین کرتے اور ان کو تسلی دیا کرتے۔ (معین الارواح، ص 188)

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے، کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔ (احیاء العلوم، 2/267)

پڑوسیوں کو تکلیف دینے کے سبب بندہ جنت سے محروم ہو کر جہنم کا حقدار قرار پاتا ہے۔ آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ جیسے ہمارے بزرگان دین کا انداز تھا پڑوسیوں کے حقوق کے معاملے میں ہمیں بھی ویسا ہی انداز اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمسایہ کسے کہتے ہیں؟ چاروں طرف یعنی دائیں بائیں آگے پیچھے چالیس گھر انسان کے ہمسایہ شمار ہوتے ہیں۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہر ایک کے حقوق کو پورا کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے انہیں میں سے ہمسایوں کے حقوق بھی ہیں جن کا ذکر قرآن و احادیث میں آیا ہے، چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

پڑوسیوں کے حقوق: احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق ملاحظہ فرمائیں:

1۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے الله کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں میں سے جس کا گھر تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595) چنانچہ وہ پڑوسی جس کا گھر آپ کے گھر سے متصل ہو یقیناً اس کا حق اس پڑوسی سے زیادہ ہے جس کا گھر آپ کے گھر سے کچھ دوری پر ہو۔

2۔ آقا ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله پاک کی قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول الله وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

3۔ اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسول الله ﷺ نے کسی شخص کے کامل مومن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آقا ﷺ سے عرض کی: یا رسول الله! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں، تو آپ نے فرمایا: نیک بن جاؤ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نیک بن جانے کا علم کیسے ہوگا؟ ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسی سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہیں تو تم نیک ہو اور اگر وہ بُرا کہیں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان، 7/85، حدیث:9567)

3۔ آقا ﷺ نے پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو اسکی عیادت کرو، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائے تو اسکی پردہ پوشی کرو۔ (معجم کبیر، 19/419، حدیث:1014)

4۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے شر سے اسکا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص43، حدیث:73)

الغرض اسلام نے جہاں ہمیں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے دیگر رشتہ داروں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا درس دیا اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں پر ہر کوئی ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ الله پاک ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


اسلام نے جہاں ماں باپ، عزیز و اقارب، رشتہ داروں اور دوستوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر کے ساتھ گھر یعنی ہمارے پڑوسیوں کے حقوق بھی ہمیں سکھاتا ہے۔ ہمارے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں سے ملنا تو کبھی کبھار ہوتا ہے مگر ہمارا واسطہ ہمارے پڑوسیوں سے ہر روز ہو ہی جاتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں جانیں کہ حق پڑوس کیا ہے؟

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم جلد 2صفحہ 866پر لکھتے ہیں کہ یا درکھئے! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا، لہذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔

منقول ہے کہ قیامت کے دن فقیر پڑوسی اپنے امیر پڑوسی کا دامن پکڑ کر بارگاہ الہی میں عرض کرے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے اپنے حسن سلوک سے کیوں محروم رکھا؟ اور میرے لئے اپنے گھر کا دروازہ کیوں بند کیا؟(مکاشفۃ القوب، ص 579)

پڑوسی کے گھرکی دیوار کے سائے کا حق: ابن مقفع کو یہ خبر ملی کہ اس کا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا جب تو میں نے اس کے گھر کے سائے کا بھی حق ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کی قیمت ادا کی اور اس سے کہا گھر مت بیچو! (احیاء العلوم، 1/771)

حقِ پڑوسی کا احساس: کسی بزرگ نے اپنے دوستوں سے گھر میں چوہوں کی کثرت کی شکایت کی تو ان سے کہا گیا: آپ بلی کیوں نہیں لیتے؟ فرمایا: مجھے اس بات کا خوف ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے پڑوسیوں کے گھروں میں چلے جائیں گے یوں ان کے لئے اس بات کو پسند کرنے والا ہو جاؤں گا جس بات کو اپنی ذات کے لیے پسند نہیں کرتا۔ (احیاء العلوم، 2/771)

سالن پکاؤ تو پڑوسی کو بھی کچھ دو: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب تم ہنڈیا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو پھر اپنے کچھ پڑوسیوں کو دیکھ کر اس میں سے کچھ ان کو دو۔ (مسلم، ص 1313، حدیث: 2625)

گھر کے قریبی پڑوسی کا حق زیادہ ہے: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا دروازے سے کچھ دور اور بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595)

پڑوسی بھوکا نہ سوئے: فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)

اخوت و بھائی چارہ: جیسا کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)

ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنا چاہیے جب انہیں مدد کی ضرورت ہو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ان کے دکھ درد تکلیف میں ان کا ساتھ دینا چاہیئے، کیونکہ حقوق العباد تب ہی معاف ہوتے ہیں جب بندہ معاف کرے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقوق العباد اور حقوق اللہ کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمسایہ کا حق صرف یہ نہیں کہ آپ اس سے اس کی تکلیفیں دور کریں بلکہ ایسی چیزیں بھی اس سے دور کرنی چاہئے کہ جن سے اسے دکھ پہنچنے کا احتمال ہو، ہمسائے سے دکھ دور کرنا، اسے دکھ دینے والی چیزوں سے دور رکھنے کے علاوہ کچھ اور بھی حقوق ہیں، اس سے نرمی اور حسن سلوک سے پیش آئے، اس سے نیکی اور بھلائی کرتا رہے۔ ہمسایوں کے حقوق حدیث پاک کی روشنی میں ملا حظہ فرمائیں۔

اپنے ہمسائے سے اچھا برتاؤ کرو: فرمان رسول ﷺ ہے: اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کر تب تو مسلمان ہوگا۔ (شعب الایمان، 5/53، حدیث: 575)

اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دیجیئے: ایک شخص آقا ﷺ کی خدمت میں اپنے ہمسایہ کا شکوہ کیا حضور ﷺ نے اس سے فرمایا صبر کر، تیسری یا چوتھی بار آپ نے فرمایا اپنا سامان راستہ میں پھینک دے، راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے جب اس کے سامان کو باہر راستہ پر پڑا دیکھا تو پو چھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا مجھے ہمسایا ستاتا ہے، لوگ وہاں سے گزرتے رہے، پوچھتے رہے اور کہتے رہے اللہ پاک اس ہمسایہ پر لعنت کرے، جب اس ہمسایہ نے یہ بات سنی تو آیا، اسے کہا اپنا سامان واپس لے آؤ، بخدا میں پھر تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔ (صحیح ابن حبان، 1/368، حدیث: 521)

ہمسائے کو دکھ دینے والا جہنم میں جائے گا: مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا میرا ہمسایہ ہے جو مجھے تکلیف دیتا ہے، گالیاں دیتا ہے اور تنگ کرتا ہے، آپ نے یہ سن کر فرمایا جاؤ اگر وہ تمہارے متعلق اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو تم اس کے بارے میں اللہ کی اطاعت کرو، حضور ﷺ سے عرض کی گئی، یارسول اللہ فلاں عورت دن کو روزہ رکھتی ہے،رات کو عبادت کرتی ہے مگر اپنے ہمسایوں کو دکھ دیتی ہے آپ نے یہ سن کر فرمایا: وہ جہنم میں جائے گی۔ (مستدرک للحاکم، 5/231، حدیث: 7384)

جب کوئی چیز لائے تو اپنے ہمسایہ کو بھی کھانے کے لیے دے، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا اور آپ کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا آپ نے کہا: اے غلام جب بکری کی کھال اتار لے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی ہمسایہ کو گوشت دینا،آپ نے یہی بات متعدد بار کہی تو غلام نے کہا اب اور کتنی مرتبہ کہیں گے؟ تب آپ نے فرمایا: حضور ﷺ ہمیں ہمسائیوں کے متعلق وصیت فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں ہمسایوں کو وارث نہ بنا دیا جائے۔ (ترمذی، 3/379، حدیث: 1949)

اپنے ہمسائے کی عزت کیجیے: حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آ خرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

آقا ﷺ کا فرمان ہے: ہمسائے تین ہیں، ایک ہمسایہ کا ایک حق، دوسرے کے دو حق اور تیسرے کے تین حقوق ہیں، جس ہمسائے کے تین حقوق ہیں وہ رشتہ دار مسلمان ہمسایہ ہے، اس کا ہمسائیگی کا حق، اسلام کا حق اور رشتہ داری کا حق ہے۔ جس ہمسایہ کے دو حقوق ہیں وہ مسلمان ہمسایہ ہے اس کے لیے ہمسائیگی کا حق ہے اور اسلام کا حق ہے اور جس ہمسائے کا ایک حق ہے وہ مشرک ہمسایہ ہے۔ غور کیجئے کہ اسلام نے مشرک ہمسایہ کا بھی حق ہمسائیگی رکھا ہے۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560 )

اللہ پاک ہم سب کو اخلاص کے ساتھ ہمسائیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


ہمسائیگی کو عربی میں ”جوار“ کہا جاتا ہے اور پڑوس کو ”جار“ کہتے ہیں اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لیے انسانی زندگی کو کوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسا نہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ ہر ایک کو اپنے ہمسائے یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ نے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ( کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ)۔

حدیث شریف میں ہے: جبرائیل مجھے ہمیشہ پڑوسی کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے! یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے وارث ہی بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

بہترین پڑوسی کون؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کریم کے نزدیک بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوستوں کے لیے اچھا ہو اور اللہ کریم کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے لیے اچھا ثابت ہو۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560 )

پڑوسی کو تکلیف نہ دیجیے: تاجدارِ رسالت ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو ہرگز تکلیف نہ دے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 47) مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی اس کو تکلیف دینے کے لیے کوئی کام نہ کرے، کہا جاتا ہے: ہمسایہ اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں۔ افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے قرآن مجید میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا، بہرحال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگیے۔ (مراۃ المناجیح، 6/53)

مزید پڑوسیوں کے حقوق ملاحظہ فرمائیں: اگر وہ محتاج ہوں تو اسے کچھ دے، بیمار ہو تو عیادت کرے، کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دے، مصیبت پہنچے تو تعزیت کرے، مر جائے تو جنازے میں شریک ہو، بلا اجازت اس کے مکان سے اونچا مکان بنا کر اس کی ہوا نہ روکے، اگر کوئی پھل خرید کر لائے تو کچھ اسے بھی دے۔

ہمسائے کی بکری کو بھی تکلیف نہ دو! حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک دن ہمسائے کی بکری گھر میں داخل ہوگئی جب اس نے روٹی اٹھائی تو میں اس کی طرف گئی اور روٹی کو اس کے جبڑے سے کھینچ لیا۔ یہ دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا: تجھے اس کو تکلیف دینا امان نہ دے گا کیونکہ یہ بھی ہمسائے کو تکلیف دینے سے کچھ کم نہیں۔ ( مکارم الاخلاق، ص 395، حدیث: 239)

اللہ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین


ہمسایہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے ”ہم“ اور ”سایہ“ ہمسایہ کے لئے عربی زبان میں ”جار“ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد وہ لوگ جو ایک دوسرے کے قرب و جوار اور پڑوس میں رہتے ہیں۔ عام اصطلاح میں ہمسایہ سے مراد ہم رہائش یعنی ساتھ ساتھ رہنے والے ہی ہوتے ہیں۔ الله پاک نے قرآن کریم میں ہمسایوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

پڑوسی کے حقوق سے متعلق 5 فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

2️۔ الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں بہتر ہو۔ (ترمذی، 3/379، حدیث:1951)

3۔ الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے شیریں بنا دیتا ہے۔ عرض کی گئی: شیریں بنانے سے کیا مراد ہے؟ تو ارشاد فرمایا: ہمسایوں کے نزدیک اسے محبوب بنا دیتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/658، حدیث: 1298)

4۔ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اس بات سے منع نہ کرے کہ وہ اس کی دیوار میں شہتیر گاڑھ لے۔ (مسند امام احمد، 3/105، حدیث: 7706 )

5۔ جو شخص الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 48 )

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا پڑوسی کے حقوق ادا کرنا ہم پر لازم ہے پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ اچھا اور نیک سلوک کیا جائے ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں، پڑوسی کی عزت و تکریم کی جائے اس کی مالی و جسمانی ہر طرح سے مدد کی جائے اس کو تکلیف دینے سے گریز کیا جائے، پڑوسی کو تحائف سے نوازے کہ ”تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے“ اگر پڑوسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کیا جائے پڑوسی کو برے افعال سے روکا جائے اور نیکی کی تلقین کی جائے، دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں ان کی رہنمائی کرے پڑوسی کی خوشی میں شریک ہونے سے اس کی خوشی دوبالا ہو جاتی ہے اور غمی میں شریک ہونے سے اس کا غم ہلکا ہو جاتا ہے، پڑوسی کے ساتھ سلام میں پہل کرے، اس کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔

الله سے دعا ہے کہ ہمیں دوسروں کو تکلیف دینے سے بچائے اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب سے امن و سلامتی محبت ہمدردی و اخوت، پیار اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حکم دیا ہے وہیں ہمارے آس پاس رہنے والے لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے یعنی اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ہے کیونکہ اگر ایک محلے یا سوسائٹی میں رہتے ہوئے اپنے پڑوسیوں سے نہ ملیں گے یا اچھا سلوک نہ کریں گے تو اس سے معاشرہ میں خرابیاں پیدا ہوں گی اگر ہم پڑوسیوں سے مل جل کر رہیں گے تو معاشرہ اچھار ہے گا۔ پڑوسیوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ اللہ تین طرح کے لوگوں سے محبت فرماتا ہے (ان میں سےایک وہ ہے) جس کا برا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اس کے تکلیف دینے پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی یا موت کے ذریعے کفایت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/ 152، حدیث: 1637)

2۔ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ ( معجم كبير، 19/ 419، حديث: 1014)

3۔ جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ایذا دی، نیز جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔ (ترغیب و ترہيب، 3/286، حديث:3907)

4۔ جس کے شر سے اُس کا پڑوسی بےخوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)

5۔ نبی کریم ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله کی قسم! وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! وہ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/104، حديث: 6016)

درس: پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں ہم نے احادیث مبارکہ پڑھیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھیں ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور ان کو کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی نہ دیں۔ الله پاک ہمیں دوسروں کے حقوق پورا کرنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ بالخیر ایمان پر ہو۔ آمین