حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : مصیبت اور بلا میں  مبتلا رہنے والے قیامت کے دن حاضر کئے جائیں  گے نہ اُ ن کے لئے میزان قائم کی جائے گی اور نہ اُن کے لئے اعمال ناموں  کے دفتر کھولے جائیں  گے ان پر اجرو ثواب کی بے حساب بارش ہوگی یہاں  تک کہ دنیا میں  عافیت کی زندگی بسر کرنے والے ان کا بہترین ثواب دیکھ کر آرزو کریں  گے کہ’’کاش وہ اہلِ مصیبت میں  سے ہوتے اور ان کے جسم قینچیوں  سے کاٹے گئے ہوتے تاکہ آج یہ صبر کا اجرپاتے۔( معجم الکبیر، ابو الشعثاء جابر بن زید عن ابن عباس، ۱۲ / ۱۴۱، الحدیث: ۱۲۸۲۹)

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹)

ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)

( تفسیر صراط الجنان) : ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم ہوسکیں جیسے ترازو اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۲۰۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۹۲، ملتقطاً)

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

( تفسیر صراط الجنان): اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے۔ ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں۔

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

( تفسیر صراط الجنان): اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے۔ اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔

اللہ رب العزت نے کائنات کو ایک نہایت ہی موزوں اور متوازن نظام ، پر قائم فرمایا ہے۔ اس توازن کا ایک اہم حصہ قیامت کے دن اعمال کے حساب و کتاب کا نظام ہے، جسے میزان کہا جاتا ہے۔ میزان، یعنی ترازو، وہ عدل کا آلہ ہے جس پر بندوں کے نیک و بد اعمال کو تولا جائے گا۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس میزان اور اس کے عدل و انصاف کا ذکر کیا گیا ہے، جو ہمیں آخرت کی جواب دہی اور دنیا میں نیک اعمال کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔

میزان کا لغوی اور اصطلاحی معنی: لغت میں "میزان" کا معنی تولنے کا آلہ یعنی ترازو ہے۔ اسلامی اصطلاح میں، میزان سے مراد وہ عظیم ترازو ہے جو قیامت کے دن قائم کی جائے گی تاکہ بندوں کے اعمال کا وزن کیا جا سکے اور اسی کے مطابق انہیں جزا یا سزا دی جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کامل عدل کا مظہر ہے۔

قرآن مجید میں میزان کا ذکر مختلف سیاق و سباق میں آیا ہے، جو اس کی اہمیت اور حقیقت کو واضح کرتا ہے

قیامت میں عدلِ الٰہی کا مظہر: اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے انصاف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ قیامت کے دن عدل و انصاف کی بنیاد پر حساب لیا جائے گا اور ذرا برابر نیکی یا بدی بھی ضائع نہیں ہوگی۔ اللہ کا عدل اتنا کامل ہوگا کہ کوئی ذرہ بھی چھپا نہیں رہ سکے گا۔

اعمال کے وزن کی حقیقت: اعمال کے وزن کے بارے میں مزید وضاحت فرمائی گئی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۳) ترجمہ کنزالایمان: تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہونچے اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)

یہ آیات بتاتی ہیں کہ کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار اعمال کے وزن پر ہوگا۔

قیامت کے دن کی ہولناکی اور میزان کا خوف: قرآن پاک میں ایک اور مقام پر میزان کا ذکر کرتے ہوئے آخرت کی جواب دہی کا احساس دلایا گیا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

یہ آیت تاکید کرتی ہے کہ وزن کا عمل ایک حقیقی اور برحق ہے۔ یہ کوئی مجازی عمل نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جس کا سامنا ہر انسان کو کرنا پڑے گا۔

میزان پر کیا چیز تولی جائے گی؟ مفسرین اور محدثین کے اقوال کے مطابق میزان پر تین چیزوں میں سے کوئی ایک یا مجموعہ تولا جا سکتا ہے:خود اعمال کا وزن: یعنی اعمال کو جسمانی صورت دے کر تولا جائے گا۔

اعمال نامے کا وزن: یعنی وہ رجسٹر جن میں اعمال لکھے گئے ہیں۔

عامل (عمل کرنے والے) کا وزن: یعنی خود بندے کو تولا جائے گا۔

احادیثِ مبارکہ میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص آئے گا جس کے گناہوں کے ننانوے (99) دفتر ہوں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہوگا۔ لیکن ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر کلمۂ طیبہ "لا إله إلا الله محمد رسول الله" لکھا ہوگا، اور وہ ان تمام گناہوں کے دفاتر پر بھاری ہو جائے گا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا، كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ. فَيَقُولُ: أَفَلَكَ عُذْرٌ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ. فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، وَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ، فَتُخْرَجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. فَيَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ. فَيَقُولُ: يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ. فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كِفَّةٍ، وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَّةٍ، فَطَاشَتْ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتْ الْبِطَاقَةُ، فَلَا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک آدمی کو تمام مخلوقات کے سامنے (علیحدہ) کرے گا، اس پر ننانوے (99) رجسٹر کھولے جائیں گے، ہر رجسٹر حد نگاہ تک پھیلا ہوگا۔ پھر اللہ فرمائے گا: کیا تو ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے نگہبان لکھنے والوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب! اللہ فرمائے گا: کیا تیری کوئی معذرت ہے؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب! اللہ فرمائے گا: نہیں! بلاشبہ تیری ہمارے ہاں ایک نیکی ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر ”اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ“ لکھا ہوگا۔ اللہ فرمائے گا: اپنا وزن حاضر کر۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! یہ پرچہ ان (ننانوے) رجسٹروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ پس رجسٹروں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور پرچے کو دوسرے پلڑے میں، تو رجسٹر (ہلکے ہو کر) اڑ جائیں گے اور پرچہ وزنی ہو جائے گا۔ اور اللہ کے نام کے ساتھ کوئی چیز وزنی نہیں ہو سکتی۔(سنن ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی ان کلمۃ الاخلاص تثقل الموازین، حدیث نمبر: 2639)

میزان کا قرآنی بیان ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی زندگی آخرت کی تیاری کا نام ہے۔ ہمیں ہر لمحہ اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ قیامت کے دن ہر چیز کا حساب لیا جائے گا اور کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ اس دن کی کامیابی انہی کے لیے ہے جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا۔

یا اللہ! ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا فرما اور قیامت کے دن ہمارے میزان کو نیکیوں سے بھاری کر دے، اور ہمیں اپنے عدل کے دن رسوائی سے بچا کر کامیابی عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین


مرنے کے بعد حساب ہوگا ، اس کیلئے میزان ہوگا اور یہ قیامت کے ہولناک مراحل میں  سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ ہے کہ جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے گا لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ میزان کے متعلق قرآنی آیات میں کیا بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند ملاحظہ کیجئے۔

میزان کے متعلق عقیدہ : میزان (اعمال تولنے کی ترازو) حق ہے، یعنی دلائلِ سمعیہ قطعیہ (قراٰن و سنّت) سے ثابت ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب ہے۔(المعتقد مع المعتمد، ص333)

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالعرفان : ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:9)

اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)

وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص868) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، 9 / 361)

میزان کیا ہے اور اس کے بارے اہلسنت والجماعت کا عقیدہ ملاحظہ ہو : صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان ، ج 03 ، ص 269)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں : نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ، 1 / 260، الحدیث: 282)

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: 47، 5/ 285-286، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: 47، ص273، ملتقطاً)

اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن’’ فتاوی رضویہ‘‘ شریف میں فرماتے ہیں : ’’وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اٹھے گا اور بدی کا پلّہ نیچے بیٹھے گا، قال اللہ عزوجل : اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ22، فاطر: 10 ’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج 29 ، ص 626)

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تَدارُک کرے اور لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الخصماء ورد الظلم، 5/ 281-282)


انسان جب اپنے بارے میں غور وفکر کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا میری زندگی کا کوئی مقصد ہے اور میں کسی کا جواب دہ ہوں؟ تو اس کا قرآنی جواب ہے ، جی ہاں! کیوں کہ وہ اللہ کا نائب ہے اور آزمائش کےلئے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال کو کل قیامت کے دن میزان عمل پر تولے گا، اور پورا پورا انصاف فرمائے گا۔پھر آزمائش میں کامیاب ہونے والوں کو جزا اور ناکام ہونے والوں کو سزا ملے گی۔ میزان کا مطلب ہے ترازو، لہذا مطلب ہوا کہ ایسا ترازو جس میں اعمال تولے جائیں گے۔ اس ترازو کے دو پلڑے اور ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا ضروری ہے، بہرحال اس میزان کے پلڑوں کی کیفیت اور وزن معلوم کرنے کا طریقہ اسے اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔

قرآن پاک میں بارہا میزان عمل کا ذکر آیا ہے، ذیل میں چند آیات قرآنیہ کا بیان ہے جس میں اللہ تعالٰی نے میزان الاعمال کا تذکرہ فرمایا ہے ۔

پہلی آیت : اللہ تعالٰی قیامت کے دن انسان کے اعمال کو میزان عمل میں تولے گا اور اس میں کامیاب وہی ہو گا جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 8 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنز العرفان:ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)

قرآن پاک جیسی عظیم کتاب میں جب اللہ تعالٰی میزان عمل کو حق کہے، تو ہمیں چاہیے کہ اس پر ایمان لا کر اپنے اعمال کی فکر کریں۔

دوسری آیت: دنیا کی لذتیں فانی ہیں اور سب کو میدان حشر میں اٹھایا جائے گا جہاں ہر کوئی اللہ کے جلال سے خود و خشیت میں مبتلا ہو گا۔ اور ہر کسی شخص کو اپنے انجام کی فکر ہو گی۔ تب اللہ انسانوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ فرمائے گا۔ ایسا عدل کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

اس آیت میں لفظ " قسط" آیا ہے اس کا معنی بھی انصاف ہے۔ اللہ تعالٰی کی عدالت میں کوئی بھی عمل ضائع نہیں جائے گا۔ لہذا ہمیں کثرت سے نیک اعمال کرنے چاہیے اور گناہوں سے بچنا چاہیے۔

تیسری آیت: انسان ایک عرصہ تک دنیا میں جیتا ہے اور معاملات سنبھالتا رہتا ہے۔ اس دوران جو شخص اپنی زندگی کو اللہ تعالٰی کی رضا میں گزارتا ہے اسے قیامت میں کوئی تنگی و تکلیف نہیں ہو گی، البتہ جو غفلت میں پڑا رہتا ہے اور ظلم و نا انصافی کرتا ہے اللہ کی ناراضی کی صورت میں اسے سختیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ القارعۃ کی آیت نمبر 6 سے 11 میں فرماتا ہے:

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)

میزانِ عمل کا عقیدہ ہمیں زندگی میں سنجیدگی، دیانتداری اور پرہیزگاری کا درس دیتا ہے۔ ہمیں اپنے وقت، زبان، مال، دل اور نیتوں کا حساب رکھنا چاہیے، کیونکہ میزان پر سب کچھ تولا جانا ہے۔ کامیاب وہی ہو گا جو نیکیوں کا بوجھ لے کر وہاں پہنچے گا۔


موت کے بعد انسان کی ابدی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ وہاں نہ رشتہ داری کام آتی ہے، نہ دولت، نہ عہدہ بلکہ صرف اعمال۔ قرآن پاک  اور احادیثِ مبارکہ میں بار بار آخرت کے دن کا ذکر آیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ عدل و انصاف سے فیصلہ فرمائے گا۔اس دن انسان کے اعمال کو ایک ترازو (میزان) میں تولا جائے گا اور اسی کے مطابق جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔ یہ مضمون میزان کے بارے میں قرآن مجید کے ارشادات کو آسان اور عام فہم انداز میں بیان کرتا ہے۔

وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تفسیر الصراط الجنان ج:3،ص:269)

قرآن مجید نے متعدد مقامات پر میزان کا ذکر کیا ہے۔ آئیے چند آیات کو ترجمہ اور مختصر وضاحت کے ساتھ دیکھتے ہیں:

وزن کا بھر جانایا کم ہونا: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ "جنّت میں مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی تو اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے جنّت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفّار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنّم میں داخل کیا جائے گا" ۔(تفسیر خزائن العرفان،سورۃ القاریۃ :7)

(1) عدل کے ترازو: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)

(2) میزان اور انصاف کا وعدہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7، 8)

(3) میزان اور اعمال کی حقیقت: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَوْمَىٕذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّیُرَوْا اَعْمَالَهُمْؕ(۶) فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸) ترجمہ کنزالایمان: اس دن لوگ اپنے رب کی طرف پھریں گے کئی راہ ہو کر تاکہ اپنا کیا دکھائے جائیں تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔ (الزلزال:6تا 8)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ "حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ ہر مومن و کافر کو روزِ قیامت اس کے نیک و بداعمال دکھائے جائیں گے مومن کو اس کی نیکیاں اور بدیاں دکھا کر اللہ تعالٰی بدیاں بخش دے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا فرمائے گا اورکافر کی نیکیاں رد کردی جائیں گی کیونکہ کفر کے سبب اکارت ہوچکیں اور بدیوں پر اس کو عذاب کیا جائے گا ۔ محمّد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ کافر نے ذرّہ بھر نیکی کی ہوگی تووہ اس کی جزا دنیا ہی میں دیکھ لے گا یہاں تک کہ جب دنیا سے نکلے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوگی اور مومن اپنی بدیوں کی سز ا دنیا میں پائے گا تو آخرت میں اس کے ساتھ کوئی بدی نہ ہوگی ۔ اس آیت میں ترغیب ہے کہ نیکی تھوڑی سی بھی کارآمد ہے اور ترہیب ہے کہ گناہ چھوٹا سا بھی وبال ہے ۔ بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ پہلی آیت مومنین کے حق میں ہے اور پچھلی کفّار کے "۔(تفسیر خزائن العرفان،سورۃ الزلزال :8)

"میزان" کا قرآنی تصور نہایت اہم، باوزن اور سبق آموز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں عدل کا پیمانہ مقرر فرمایا ہے جس سے ہر چھوٹے بڑے عمل کو تولا جائے گا۔

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی نیت کو درست رکھیں، اخلاص سے نیک اعمال کریں اور گناہوں سے بچیں۔ کیونکہ آخرت کا ترازو صرف ظاہر نہیں بلکہ باطن کو بھی تولے گا اور وہاں کوئی سفارش، تعلق یا فریب کام نہیں آئے گا۔اللہ ہمیں آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


اللہ پاک نے انسان کو ایک مقصد کے لیے پیدا فرمایا  جو اس نے دنیا میں پورا کرنا ہے پھر آخرت میں اپنا مقصد پورا کرنے والوں کو انعام اور مقصد بھول جانے والوں کو سزا کے لیے کئی طرح سے جدا کیا جائے گا جیسے سوالات ِ قبر ، پل صراط وغیرہ ،  انہیں میں سے ایک منزل میزان بھی ہے جہاں پر اعمال کا وزن ہو گا۔

میزان کے متعلق عقیدہ : میزان برحق یعنی ثابت ہے اس پر دلائل سمعیہ قطعیہ نے دلالت کی  اسکی تصدیق واجب ہے۔ (المعتقد المعتقد مترجم ص241 الغنی)

میزان کا ثبوت اور معنیٰ : قرآن مجید   میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

تفسیر مدارک میں ہے : الموازین میزان کی جمع ہے اور یہ اس آلہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے چیزوں کا وزن کیا جاتا ہے اور الموازین کو آیت میں جمع صرف تعظیم شان کے لیے لایا گیا ہے ۔(تفسیر مدارک جلد 2 ص 407 دار ابن کثیر)

میزان  کیسا ہوگا : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

علامہ سیوطی رحمۃ الله علیہ تفسیر در منثور میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ نے ترازو کے دو پلڑوں کو زمین اور آسمانوں جیسا تخلیق فرمایا ۔ (تفسیر در منثور مترجم جلد 3 ص 225)

اور علامہ علی قاری اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں : جمہور مفسرین کے نزدیک اعمال کے صحیفوں کو میزان میں تولا جائے گا جس کا ایک کانٹا ہوگا (اسے عربی میں لسان المیزان کہتے ہیں جس سے وزن کی شناخت ہوتی ہے) اور دو پلڑے ہوں گے مخلوق اسے دیکھ رہی ہوگی ۔ (تفسیر انوار القرآن و اسرار الفرقان جلد 2 ص105 دار الکتب العلمیہ)

وزن کی کیفیت : میزان میں اعمال کے صحیفوں کو تولا جائے گا جیسا کہ علامہ علی قاری کا قول گزرا ، پھر انکا وزن کیا جائے گا تو جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا وہ کامیاب ہوگیا اور جس کا گناہوں والا پلڑا بھاری ہوگا تو وہ عذاب کا حقدار ہوگا ، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد رب تعالیٰ ہے

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 11)

پیارے اسلامی بھائیو ! آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے جہاں صرف ایک عمل کی وجہ سے انسان جنت میں بھی جا سکتا ہے اور جہنم میں بھی جیسا کہ تفسیر در منثور میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کا حساب لیا جائے گا تو جس کی ایک نیکی بھی  اس کی برائیوں کی نسبت زیادہ ہوگی تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس کے گناہوں میں سے ایک بھی ، نیکیوں کی نسبت زیادہ ہو گا وہ  جہنم میں داخل ہو گا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ۔۔۔۔۔۔۔ الآیتین ۔ (تفسیر در منثور مترجم جلد 3 ص 224 تحت  الآیۃ  والوزن یومئذ۔۔۔ الخ)

لہذا کسی بھی نیکی کو حقیر مت سمجھیں اور نہ کسی گناہ کو ہلکا جانیں کیا خبر اسی نیکی کے سبب ہمیشہ کی سعادت حاصل ہو جائے یا اس گناہ کی وجہ سے سخت عذاب! اور میزان میں اعمال کے بھاری اور ہلکا ہونے کا معاملہ یہاں کے  خلاف ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن  فرماتے ہیں : ’’وہ میزان یہاں  کے ترازو کے خلاف ہے وہاں  نیکیوں  کا پلّہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اٹھے گا اور بدی کا پلّہ نیچے بیٹھے گا،   قال اللہ عزوجل :

اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10۔ الفتاوی الرضویۃ   ، ج 29 ص 626)

یہ میزان کا مختصر  قرآنی بیان پیش کیا گیا ، ہمیں چاہیے کہ آخرت کے تمام مراحل کا علم حاصل کریں جیسے دنیا میں ہمیں کہیں جانا ہو تو اسکی معلومات پہلے سے کرلیتے ہیں تو آخرت جو  ہر انسان  پر  آنی ہے اسکی معلومات حاصل کرنی چاہئے اور آخرت کی تیاری بھی ۔

اللہ ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

انسان اس دنیا میں آیا تو خالی ہاتھ تھا، مگر واپس جائے گا اپنے اعمال کے وزن کے ساتھ۔ دنیا میں انصاف کا ترازو بظاہر صرف بازار تک محدود نظر آتا ہے، مگر قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اصل میزان تو قیامت کے دن قائم ہوگی۔ آج ہم دوسروں کا حق مار کر خوش ہو جاتے ہیں، مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ایک ایک عمل تولا جائے گا۔ قرآن کی مثالیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انصاف زندگی کی بنیاد ہے، چاہے باتوں کا ہو یا تولنے کا۔ آئیے قرآن کی میزان کے متعلق دی گئی مثالوں سے سبق سیکھیں تاکہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے:

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)

وزن اور میزان کا معنی:وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)

میزان کیا ہے:میزان حق ہے یہ ایک ترازو ہوگی اس کے دو پلے ہوں گے اِس پر لوگوں کے اچھے برے عمل تولے جائیں گے نیکی کے پلہ کے بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اُوپر اُٹھے بخلاف دنیا کی ترازو کے۔ ( قانون شریعت ص 15)

میزان سے متعلق دو اہم باتیں :  یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں :

(1) صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔

(2)میزان کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔

میزان کے خطرے سے نجات پانے والا شخص: قیامت کے ہولناک مراحل میں  سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ وہ ہے جب لوگوں  کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں  کسی کے ثواب میں  کمی کر کے یا کسی کے گناہوں  میں  اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں  کیا جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے گا لہٰذا اس مرحلے میں  کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیا میں  تیاری بہت ضروری ہے۔

ترمذی شریف میں  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم  ﷺ  کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور اس نے آپ کے سامنے بیٹھ کر عرض کی : یا رسولَ  اللہ ! ﷺ  ،  میرے کچھ غلام ہیں  جو مجھ سے جھوٹ بولتے  ،  میرے ساتھ خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں   ،  میں  انہیں  گالیاں  دیتا اور مارتا ہوں  ،  تو ان سے متعلق میرا کیا حال ہو گا؟ حضور اقدسﷺنے ارشاد فرمایا ’’( جب قیامت کا دن ہو گا تو) ان لوگوں  نے جوتمہاری خیانت کی  ،  تمہاری نافرمانی کی اور تم سے جھوٹ بولا اور جوتم نے انہیں  سزا دی ،  ان سب کا حساب لگایا جائے گا ،  پھر اگر تیری سزا ان کے جرموں  کے برابر ہو گی تو حساب بے باق ہے ،  نہ تیرا ان کے ذمہ نہ ان کا تیرے ذمہ کچھ ہو گا  اور اگر تیرا انہیں  سزا دینا ان کے قصوروں  سے کم ہوگا تو تجھے ان پر بزرگی حاصل ہوگی اور اگر تیرا انہیں  سزا دینا ان کے قصور سے زیادہ ہوا تو زیادتی کا تجھ سے بدلہ لیا جائے گا۔ وہ شخص ایک طرف ہوگیا اور چیخیں  مار کررونے لگا ،  نبی کریم ﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے  اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں  پڑھا؟

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

اس شخص نے عرض کی :میں  اپنے اوران غلاموں  کے لیے ان کی جدائی سے بہتر کوئی چیز نہیں  پاتا  ، میں  آپ کو گواہ بناتا ہوں  کہ یہ سارے آزاد ہیں ۔( ترمذی ،  کتاب التفسیر ،  باب ومن سورۃ الانبیاء علیہم السلام ،  ۵ / ۱۱۱ ،  الحدیث: ۳۱۷۶)

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں  اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں  شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال  ،  اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو ،  جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا ’’اپنے نفسوں  کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔

اللہ تعالی نے  ہمیں اپنی عبادت کرنے کے لئے پیدا فرمایا اگر ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اوراس کے پیارے نبی ﷺکی سنتوں پر عمل کریں گے تو ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی اگر نافرمانی کی تو برے اعمال لکھ دئیے جائیں گے بروز قیامت ان کا وزن ہو گا اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہوا تو جنت اگر برائیوں کا وزنی ہوا تو دوزخ ملے گی لہذا میزان (نامہ اعمال کا وزن ) حق ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف :8)

میزان (نامہ اعمال کا وزن)کی تفسیر میں دو قول ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کے اللہ تعالیٰ میزان کو قیامت کے دن قائم فرمائے گا اس کے دو پلڑے ہوں گے اور اس میں بندوں کے اچھے برے اعمال کا وزن ہوگا ، حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا مومن کو اس کا عمل اچھی صورت میں دیا جائے گا تو تب مومن کے عمل کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیاں برائیوں پر بھاری ہو جائیں گی ۔دلائل سمعیہ و قطعیہ سے ثابت ہے کے میزان حق ہے نیز اس پر ایمان لانابھی واجب ہے(المعتقد المنتقد،333،ط الغنی پبلیشر)

نیز قرآن پاک میں ارشاد ہے:

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے فرمایا وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہو گا وہاں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا تو اوپر اٹھے گا اگر بدی کا بھاری ہوگا تونیچے کی طرف ہو گا ۔ ( فتاوی رضویہ، ج 29،ص 626 ، ط رضا فاونڈیشن) قرآن پاک میں ارشاد ہے کے

اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)

مزید قرآن پاک میں ارشاد ہے

فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)

اس آیت میں وزن قائم نہ کرنے کا مطلب قیامت میں ان کے ظاہری اعمال کی قدر وقیمت نہ ہو گی اور کفار کے اعمال کا کوئی وزن نہ ہو گا ان کفار کے ظاہری نیک اعمال کا وزن جب ان کے کفر و معصیت کے ساتھ ہو گا تو ان نیکیوں کا کوئی وزن نہ ہو گا اس وجہ سے کہ نیکیوں کا دارو مدار ایمان و اخلاص پر ہے یہ کفار ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو اس وجہ سے ان کے اعمال کا وزن نہ ہو گا ( تفسیر صراط الجنان ، ج6،الکہف ، آیت 105، ص44، ط المدینۃ العلمیۃ )

وزن اور میزان کا معنی:   وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)

قرآن مجید میں میزان کا لفظ کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد ایک ایسا پیمانہ یا عدل و انصاف کا نظام ہے جس کے ذریعے قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ میزان کا تصور صرف ایک مادی ترازو تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد عدل و انصاف کا وہ نظام بھی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال کا وزن کرے گا۔ قرآن مجید میں میزان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

اسی طرح ارشاد فرمایا: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(سورۃ الاعراف، آیت 8)

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔ (مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷، الحدیث: ۸۷۷۸)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۶۰، الحدیث: ۲۸۱)

اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو۔۔( الرحمن، آیت: 7، 8)

اللہ تعالیٰ نے آسمان کو محل اور رتبے کے اعتبار سے بلند پیدا فرمایا ہے۔ محل کے اعتبار سے بلندی تو ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے اونچا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے آسمان کی بلندی یہ ہے کہ وہ فرشتوں کا مَسکن ہے اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کے اَحکام صادر ہوتے ہیں ۔ (ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۶۶۱ ، ملخصاً)

ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۲۰۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۹۲، ملتقطاً)

حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’اے انسان !تو دوسروں کے ساتھ اسی طرح انصاف کر جس طرح تجھے پسند ہے کہ تیرے ساتھ انصاف کیا جائے اور تو دوسروں کو اسی طرح پورا پورا ناپ تول کر دے جیسے تجھے پورا پورا ناپ تول کر لینا پسند ہے کیونکہ عدل و انصاف ہی سے لوگوں کے حالات درست رہ سکتے ہیں ۔( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۵۷۶)

قرآن کریم  میں اللہ تبارک و تعالی نے ہر چیز کا بیان بڑے احسن انداز سے فرمایا انسانی تخلیق سے لے کر اس کے اختتام تک نصیحت اور دیگر معاملات قرآن کریم میں موتیوں کی طرح سمو دیے گئے آج ہم قرآن کریم میں جن جن مقامات پر میزان کے بارے میں ذکر موجود ہے ان کو تحریر کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔

قرآن میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اگلی آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن سورت اعراف)

اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ الْمِیْزَانَؕ- وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ(۱۷) ترجمہ کنزالعرفان: اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب کو اتارا اور میزان کو اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔(پ25، الشوری :17)

وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف: 09)

تفسیر صراط الجنان: جن کے نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور ان میں کوئی نیکی نہ ہو گی تو یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا۔ بعض علماء کے نزدیک قیامت کے دن صرف مسلمانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور کافروں کے اعمال کا وزن نہ ہو گا لیکن اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں کو اللہ تعالیٰ جلد دوزخ میں ڈالناچاہے گا انہیں اعمال کے وزن کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا اور بقیہ کافروں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اسی طرح بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں داخل کر دے گا۔

وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف: 09)

تفسیر صراط الجنان: ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو۔ (الرحمٰن: 7، 8)

تفسیر صراط الجنان: اللہ تعالیٰ نے آسمان کو محل اور رتبے کے اعتبار سے بلند پیدا فرمایا ہے۔ محل کے اعتبار سے بلندی تو ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے اونچا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے آسمان کی بلندی یہ ہے کہ وہ فرشتوں کا مَسکن ہے اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کے اَحکام صادر ہوتے ہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان قرآنی آیات میں غور و فکر کرنے اور اپنی اخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)


یہ دنیا ایک عارضی مقام ہے، جہاں انسان کی   آخرت کے لیے تیاری کا موقع دیا گیا ہے۔ مرنے کے بعد ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا ، میدان محشر میں اعمال کا حساب کے لیے ترازو لایا جائے گا جس میں تمام لوگوں کے اعمال کو تولا جائے گا۔ جس کی نیکیاں زیادہ ہو گئی کامیاب ہوگا۔

میزان کیا ہے؟ عربی زبان میں ’’میزان‘‘ اس آلے کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے وزن کیا جاتا ہے۔ (لسان العرب، جز:2، ج2، ص4276)

قیامت کے دن بھی اعمال کو ایک خاص ترازو میں تولا جائے گا، جس کی نوعیت دنیا کے ترازو سے مختلف مگر حقیقی ہوگی۔ قرآنِ کریم میں فرمایا:

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)

ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن نیکیوں اور بدیوں کا وزن کیا جائے گا۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے مراد میزان کے ذریعے اعمال کا حقیقی وزن ہے۔ (خازن، الاعراف، 2/78)

میزان کے متعلق عقیدہ: اہل سنت و جماعت کے نزدیک میزان حق ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: میزان حق ہے۔ اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے ( بہار شریعت،ج1،حصہ اول، ص 48،عقیدہ نمبر 9)

قیامت کے دن میزان کا قائم ہونا قرآن سے ثابت ہے:

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)

ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

جن لوگوں کی بدیاں زیادہ ہوں گی وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:

وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:9)

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ (پ30، القارعہ: 6-9)

کافروں کی نیکیوں کا وزن بروز قیامت تولہ جائے گا یا نہیں تولا جائے گا اس کے متعلق قرآن پاک میں ہے: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: وزن قائم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کے ظاہری نیک اعمال کی کوئی قدر وقیمت ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔ (پ19، الفرقان: 23)

اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک بہت ہی موٹے تازے آدمی کو جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا تو ( اتنا بھاری بھر کم ہونے کے باوجود) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہو گا اور فرمایا کہ یہ آیت پڑھ لو

فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)

( بخاری، کتاب التفسیر، باب اولئک الذین کفروا بآیات ربّہم ولقائہ فحبطت اعمالہم، ۳ / ۲۷۰، الحدیث: ۴۷۲۹)

پس ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور اپنے میزان کو بھرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرے تو چاہیے کہ اورادوظائف اور عبادات میں کثرت کریں اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸) ترجمہ کنزالایمان: تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔ (الزلزال: 7، 8)

چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔ فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو حق کی پیروی کرے گا تو اسکی نیکیوں کا ترازو بھاری ہوگا تواس کا ٹھکانہ جنت ہوگی اور جو باطل کی پیروی کرے گا تو اس کی برائیوں کا ترازو بھاری ہوگا تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔

وزن کے بارےمیں ایک قول ہے کہ قیامت کےدن مؤمنوں کےاعمال اچھی صورت میں لا کر میزان پر رکھے جائیں گے اگر نیکیوں کا وزن زیادہ ہوگا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور اگر برائیوں کا وزن زیادہ ہوگا تو وہ جہنم میں جائے گا یا اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے بخش دے گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مؤمنوں کےاعمال تولےجائیں گے جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اور جس کی گناہ زیادہ ہوں گے انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا جبکہ کافروں کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائےگا جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:

فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105) ( مدارک، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۶-۱۰، ص۱۳۷۰)

اور قیامت کے دن میزان کا قائم ہونا اور اعمال کا وزن کرنا حق ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:8، 9)