مرنے کے بعد حساب ہوگا ، اس کیلئے میزان ہوگا اور یہ قیامت کے ہولناک مراحل میں  سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ ہے کہ جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے گا لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ میزان کے متعلق قرآنی آیات میں کیا بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند ملاحظہ کیجئے۔

میزان کے متعلق عقیدہ : میزان (اعمال تولنے کی ترازو) حق ہے، یعنی دلائلِ سمعیہ قطعیہ (قراٰن و سنّت) سے ثابت ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب ہے۔(المعتقد مع المعتمد، ص333)

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالعرفان : ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:9)

اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)

وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص868) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، 9 / 361)

میزان کیا ہے اور اس کے بارے اہلسنت والجماعت کا عقیدہ ملاحظہ ہو : صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان ، ج 03 ، ص 269)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں : نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ، 1 / 260، الحدیث: 282)

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: 47، 5/ 285-286، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: 47، ص273، ملتقطاً)

اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن’’ فتاوی رضویہ‘‘ شریف میں فرماتے ہیں : ’’وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اٹھے گا اور بدی کا پلّہ نیچے بیٹھے گا، قال اللہ عزوجل : اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ22، فاطر: 10 ’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج 29 ، ص 626)

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تَدارُک کرے اور لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الخصماء ورد الظلم، 5/ 281-282)