الحمدللہ اللہ پاک نے ہم مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جن کی بے شمار فضیلت و اہمیت ہے ۔ جس کام میں مشکل زیادہ ہو، اس کام میں ثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔عشا کے وقت میں لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں،اس لئے اس کی فضیلت بھی زیادہ ہے۔عشا کے لغوی معنی:رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں۔اصطلاحی معنی:رات کی ابتدائی تاریکی میں پڑھی جانے والی نماز کو نماز ِعشا کہتے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے،اس لئے اس نماز کو نمازِ  عشا کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الآثار،ج3،ص34)سب سے پہلے عشاکی نماز کس نے پڑھی؟سب سے پہلے عشا کی نماز ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ادا فرمائی، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو عشا کی نماز زیادہ محبوب تھی۔( ملخصااز شرح معانی الآثار)نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت:نمازِ عشا کی فضیلت و اہمیت کئی کتب میں وارد ہوئی ہیں، چند فضائل ذکر کئے جاتے ہیں۔1۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:سب نمازوں میں زیادہ گراں منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437)2۔فرمانِ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت عشا کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 133)3۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 35)4۔آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔5۔آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وتر حق ہے،جو وتر نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(ابو داؤد، جلد 1، صفحہ 201)ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بالخصوص عشا کی نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے، لہٰذا بالخصوص عشا کی نماز کی پابندی فرمائیےاور بالعموم تمام نمازوں کی پابندی کی نیت فرمائیے۔اللہ کریم عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


عشا کے لفظی معنی کیا ہیں؟عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔فرائضِ نماز: نماز کے سات فرائض ہیں۔ 1۔تکبیر ِتحریمہ میں اللہ اکبر کہنا۔2۔قیام یعنی سیدھا کھڑا ہو کر نماز پڑھنا فرض ہے۔وتر واجب اور سنت ِنماز میں قیام فرض ہے، بلاعذرِ صحیح اگر یہ نمازیں بیٹھ کر پڑھے گی تو ادا نہیں ہوں گی، نفل نماز میں قیام فرض نہیں۔

3۔قراءت یعنی مطلقاً ایک آیت پڑھنا فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنت و وتر ونوافل کی ہررکعت میں فرض ہے، جبکہ مقتدی کسی نماز میں قراءت نہیں کرے گا۔4۔رکوع کرنا۔5۔سجدہ کرنا۔6۔قعدۂ اخیرہ یعنی نماز پوری کر کے آخر میں بیٹھنا۔7۔خروجِ بصنعہ یعنی دونوں طرف سلام پھیرنا۔ان فرضوں میں سے ایک بھی رہ جائے تو نماز نہیں ہوئی، اگرچہ سجدہ سہو کیا جائے۔لغتِ عربی میں لفظِ عشا کے معنی اور ترجمہ:

اصلی الفاظ

معانی

عشا(علم)

(اسم)رات کا کھانا،(مقابل غذاء) ڈنر

عشا(علم)

(اسم)رات کی ابتدائی تاریکی، مغرب سے مکمل تاریکی کا وقت

عشا(قرآن)

اندھیرا پڑے

عشا طَعَامُ العشا حَادُبۃُ عشا، وجبۃُ اطَعَام الرئیسیہ( غذائ کانت او عشا) حادبۃ ویمۃ

(اسم)ڈنر

عشا(عام)

(اسم)رات کی ابتدائی تاریکی، مغرب سے مکمل تاریکی کا وقت

سب سے پہلے نمازِ عشا کس نے پڑھی؟عشا کی نماز سب سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام نے ادا کی، جس وقت آپ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس سے دس سال قیام کے بعد واپس مصر تشریف لارہے تھے ،تو آپ علیہ السلام پر چار فکریں طاری تھیں، گھر میں ولادت کا وقت تھا اس کی فکر، اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی فکر، اپنے دشمن فرعون کا خوف اوراپنی ہونے والی اولاد کی فکر، رات بہت ٹھنڈی تھی، حضرت موسی علیہ السلام نے کوہِ طور پر آگ جلتی دیکھی تو آگ لینے کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے، لیکن وہاں پر اللہ پاک نے انہیں نبوت عطا فرمائی تو آپ علیہ السلام نے ان چار فکروں سے نجات اور نبوت ملنے کی خوشی پر چار رکعتیں ادا فرمائیں، اللہ پاک کو یہ چار رکعتیں پسند آئیں اور امتِ محمدیہ پر نمازِ عشا فرض فرما دی۔امام حلبی رحمۃ اللہ علیہ،امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح مسند ِ شافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں:حدیثِ مبارکہ میں ہے :حضرت آدم علیہ السلام نے صبح کی نماز پڑھی،حضرت داؤد علیہ السلام نے ظہر کی نماز پڑھی،حضرت سلیمان علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھی،حضرت یعقوب علیہ السلام نے مغرب کی نمازِ پڑھی، حضرت یونس علیہ السلام نے نمازِ عشا پڑھی۔ عشا کی نماز کے بارے میں سات فرامینِ مصطفی:1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)2۔تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے،سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت( یعنی پہچان) عشا کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 133،حدیث 298 )3۔حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ منافق صرف دکھاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور وقتوں میں توخیر جیسے جیسے پڑھ لیتے ہیں، مگر عشا کے وقت نیند کا غلبہ،فجر کے وقت نیند کی لذت انہیں مست کر دیتی ہے، اخلاص اور عشق مشکلوں کو حل کرتے ہیں، وہ ان میں سے نہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی ہیں)پس اس سے معلوم ہوا !جو مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کرے،وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔(مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 396)4۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پہنچنے کی جلدی ہوتی تو آخر وقت سے کچھ دیر پہلے مغرب کی اقامت کہہ کر نماز پڑھ لیتے،سلام پھیر کر کچھ دیر ٹھہرتے،پھر عشا کی اقامت ہوتی اور نمازِ عشا کی دو رکعتیں پڑھتے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، الصلاۃ، باب یصلی المغرب ثلاثاً فی السفر،3741،حدیث1092، تفسیر صراط الجنان، جلد دوم)5۔حدیثِ مبارکہ: حضرت نافع حضرت عبداللہ بن واقد رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مؤذن نے نماز کے لئے کہا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چلتے رہو، یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے کے قریب ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اُتر کر نماز مغرب پڑھی، پھر انتظار فرمایا، یہاں تک کہ ڈوب گئی، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے نمازِ عشا پڑھی، پھر فرمایا :حضور سیدِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جب کسی کام کی وجہ سے جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے، جیسا میں نے کیا۔(ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین2/1، حدیث1212، تفسیر صراط الجنان، جلد دوم)اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ نمازِ عشا کے بارے میں لکھا ہے، اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین


اللہ کریم قرآنِ مجید،فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتٰبا موقوتا۔ترجمۂ کنز الایمان:بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(پارہ 5، سورہ نساء:103)پانچوں نمازوں کی بےشمار فضیلتیں ہیں، ہر نماز اپنی الگ حیثیت سے اعلیٰ درجے پر ہے، اسی طرح نمازِ عشا پڑھنے والوں کی بھی بے شمار فضیلتیں ہیں۔عشا کے لغوی معنی ہیں: رات کی ابتدائی تاریکی، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔(فیضان نماز، صفحہ 114)

تو پانچوں نمازوں کی پابند کردے پئے مصطفی ہم کو جنت میں گھر دے

عموماً عشا کی نماز کے وقت لوگ اپنے بستر کا رُخ کر لیتے ہیں اور عشا کی نماز میں سستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عشا میں تہائی رات تک تاخیر مستحب ہے اور آدھی رات تک تاخیر مباح ہے۔نمازِ عشا کے فضائل و اہمیت پر پانچ فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا تو انہیں حکم دیتا کہ عشا کو تہائی یا آدھی رات تک پیچھے کریں۔ (مراۃالمناجیح، جلد 1، صفحہ 375)2۔تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان) عشا کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(فیضان نماز، صفحہ 112) 3۔فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی تو گویا اس نے تمام رات نماز پڑھی۔(معجم کبیر، جلد 1، حدیث 148)4۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا؛جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی بھی رکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لئے نفاق اور جہنم سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔(شعب الایمان، جلد 3، حدیث2875)5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:منافقوں پر فجر اور عشا سے زیادہ کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر جانتے کہ ان دونوں میں کیا ثواب ہے تو گھسٹ کر بھی ان میں پہنچتے۔(مرآۃ المناجیح، جلد 1، 383)ہمیں چاہئے کہ پانچوں نمازوں کو پابندی وقت کے ساتھ ادا کریں کہ نماز مسلمانوں پر فرض ہے، اس کا چھوڑنا گناہِ کبیرہ ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پابندی وقت کے ساتھ پانچوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری کوئی نماز قضا نہ ہو۔آمین


نماز دینِ اسلام کا بنیادی رکن ہے۔اللہ  پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن نماز ہے۔اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔یہ شبِ معراج میں ہم پر فرض کی گئی۔ صلوۃ کسے کہتے ہیں؟صلوۃ کا معنی و مفہوم:ذاتِ باری کی بارگاہِ صمدیت میں اس کے بلند پایاں جو دو کرم اور فضل و رحمت کی خیرات طلب کرنے کے لئے کمالِ خشوع و خضوع کے ساتھ سراپا التجا بنے رہنے اور اس کے حقِّ بندگی بجا لانے کو صلوۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ عبادات میں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن ِحکیم میں 92 مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے اور متعدد مقامات پر صیغۂ امر کے ساتھ(صریحا) نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ سورۃ طٰہٰ میں ارشاد ہے:واقم الصلاۃ لذکری ترجمہ:اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔قرآن و سنت اور اجماع کی رو سے نماز کی ادائیگی کے پانچ اوقات ہیں: فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا۔عشا کے معنی کیا ہیں؟عشا کے لغوی معنی:رات کا کھانا وغیرہ۔عشا(قرآن)اندھیرا پڑھے۔عَشِیَّۃ ( قرآن) شام کا وقت، تاریکی، رات کا ابتدائی حصّہ۔ فی الاصطلاح:طلوعِ شفق سے لے کر صبحِ صادق کا وقت عشا کہلاتا ہے۔نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت فی الحدیث:1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی، حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو مسجد میں باجماعت چالیس راتیں نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہونے پائے، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔( ابن ماجہ)2۔ فی الحدیث:سب نمازوں میں منافقین پرگراں نمازِ فجر و عشا ہے۔(طبرانی)3۔ فی الحدیث:جو نمازِ عشا کے لئے حاضر ہوا، گویا اس نے نصف شب قیام کیا۔(بیہقی)4۔فی الحدیث:قال رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :من صلی العشا ءفی جماعۃ فَكَاَنَّما قَام نصف اللیل۔جس نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی، گویا اس نے نصف رات قیام کیا۔(مسلم، صحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العشا والصیح فی الحدیث،1/454، رقم656)4۔فی الحدیث:وتر حق ہے،جو وتر نہ پڑھے،وہ ہم میں سے نہیں۔(ابو داؤد)5۔فی الحدیث: جس نے قصداً نماز چھوڑی،جہنم کے دروازے پر اس کا نام لکھ دیا جائے گا۔( ابو نعیم)ہر عام اور خاص کے لئے نماز کا حکم:فی القرآن:ترجمہ:نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔فی الحدیث:اللہ پاک نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس نے ان نمازوں کے لئے بہترین وضو کیا اور ان کے وقت پر ان کو ادا کیا، کاملاً ان کے رکوع کئے اور ان کے اندر خشوع سے کام لیا تو اللہ پاک نے ان کی بخشش کا عہد فرمایاہے اور جس نے یہ سب کچھ نہ کیا، اس کے لئے اللہ پاک کا کوئی ذمہ نہیں، چاہے تو اسے بخش دے، چاہے تو اسے عذاب دے۔(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ)اللہ پاک ہم سب کو پانچ وقت کی نماز خشوع وخضوع سے ادا کرنے والی بنائے۔آمین


نمازِ عشا کے بارے میں ربّ کریم نے قرآن میں اور  رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے احادیثِ طیبہ میں کئی فضائل بیان فرمائے ہیں۔قال اللہ :ترجمہ: اللہ کی تسبیح کرو، جس وقت میں شام ہو(نماز ِمغرب و عشا) اور جس وقت صبح ہو( نماز ِفجر) اور اسی کی حمد ہے،آسمانوں اور زمین میں اور پچھلے پہر کو(نماز عصر) اور جب تمہیں دن ڈھلے(نماز ظہر)۔(پارہ 21،الروم:18)عشا کے لغوی اور اصطلاحی معنی:عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔(فیضان نماز، ص114)سب سے پہلے نمازِ عشا حضور اکرم علیہ السلام نے ادا فرمائی:ہمارے پیارے آقا علیہ السلام نے نمازِ عشا ادا فرمائی، ہمارے سرکار علیہ السلام پر تہجد کی نماز بھی فرض تھی، نمازِ عشا حضور علیہ السلام کی امت کی خصوصیت ہے اور نمازِ پنجگانہ یعنی پانچ وقت کی نمازیں بھی اور نمازِ تہجد کی فرضیت سرکارِ مدینہ علیہ السلام کی خصوصیت ہے۔ (فیضان نماز، ص30)عشا کی نماز، فضائل ووعید:1۔منافقوں پر نمازِ فجر و عشا بھاری ہیں:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے،اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔شرح حدیث:حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ منافق صرف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور وقتوں میں تو خیر جیسے جیسے پڑھ لیتے ہیں، مگر عشا کے وقت نیند کا غلبہ، فجر کے وقت نیند کی لذت انہیں مست کر دیتی ہے، اخلاص اور عشق تمام مشکلوں کو حل کرتے ہیں، وہ ان میں سے نہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں(یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی ہیں)پس اس سے معلوم ہوا ! جو مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کرے، وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔ 2۔منافقین عشا و فجرمیں آنے کی طاقت نہیں رکھتے:تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے ،سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(فیضان نماز، ص111تا 112)3۔گویا ساری رات عبادت کی:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے، گویا کہ اس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے، گویا کہ اس نے پوری رات قیام کیا۔(فیضان نماز، ص93)4۔فجر و عشا چالیس دن باجماعت پڑھنے کی عظیم الشان فضیلت:جو خوش نصیب مسلسل چالیس دن تک فجرو عشا باجماعت ادا کرتا ہے وہ جہنم اور منافقت سے آزاد کر دیا جاتا ہے، جیساکہ خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجرو عشا باجماعت پڑھی،اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا،ایک نار(یعنی آگ) سے،دوسری نفاق(یعنی منافقت) سے۔5۔دوزخ سے آزادی:امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(فیضان نماز، ص97) نمازِ عشا سے پہلے سونا: حضور اکرم علیہ السلام فرماتے ہیں:جو نمازِ عشاسے پہلے سوئے، اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔عشا سے قبل سونا مکروہ ہے: بہارِ شریعت میں ہے:دن کے ابتدائی حصے میں سونا یا مغرب و عشا کے درمیان میں سونا مکروہ ہے۔(بہار شریعت،ص445)

تو پانچوں نمازوں کی پابند کر دے پئے مصطفی ہم کو جنت میں گھر دے


اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں جا بجا نماز کی تاکید فرمائی ہے۔ ہر مسلمان عاقل، بالغ، مرد و عورت پر روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے، اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔جو جان بوجھ کر ایک نماز ترک کرے، وہ فاسق، سخت گنہگار، عذابِ نار کی حق دار ہے۔

جنت اے بے نمازیو !کس طرح پاؤ گی ناراض ربّ ہوا تو جہنم میں جاؤ گی

نمازِ عشا کے لغوی معنی اور نام رکھنے کی وجہ:عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں۔(نزہۃ القاری، جلد 2، صفحہ 245) چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو عشا کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی،ج3،ص 31،34 ملخصاً)نماز جنت کی کنجی اور جہنم کے عذاب سے بچاتی ہے۔نماز مومن کی معراج ہے۔ نمازی کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اسے بروزِ قیامت اللہ پاک کا دیدار ہوگا۔ جس طرح ہر نماز اپنی حیثیت سے اعلیٰ درجے پر فائز ہے، اسی طرح نمازِ عشا کی کثیر فضیلتیں ہیں۔سب سے پہلے ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نمازِ عشا ادا فرمائی۔(شرح معانی الآثار ،ج1،ص 226، حدیث1014)نمازِ عشا حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ فرمان مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:1۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجرو عشا باجماعت پڑھی، اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا، ایک نار(یعنی آگ) سے، دوسری نفاق(یعنی منافقت) سے۔(ابن عساکر، جلد 52، صفحہ 338)2۔سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کافرمانِ عالیشان ہے:جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھےکہ پہلی رکعت فوت نہ ہو،اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(ابن ماجہ، ج1، صفحہ 437،حدیث798)3۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی، اس نے گویا تمام رات نماز پڑھی۔(معجم کبیر، جلد 1، صفحہ92،حدیث148)4۔سرورِ دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت(یعنی پہچان)عشا و فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے،کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 133،حدیث 298)5۔فرمانِ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے لیلۃ القدر میں قیام(یعنی عبادت) کرنے کے برابر ثواب ہوگا۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 137،حدیث 9761)اے خوش نصیب عاشقانِ نماز!میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نماز ِپنجگانہ اللہ پاک کی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے کہ اس نے اپنے کرمِ عظیم سے خاص ہم کو عطا فرمائی، ہم سے پہلے کسی امت کو نہ ملی۔(فتاوی رضویہ،ج5، ص43)صد کروڑ افسوس!آج اکثر مسلمانوں کو نماز کی بالکل پروا نہیں، اللہ پاک نے نماز فرض کر کے یقیناً ہم پر احسانِ عظیم فرمایا ہے، ہم تھوڑی سی کوشش کریں، نماز پڑھیں تو اللہ کریم ہمیں بہت سارا اجر و ثواب عنایت فرماتا ہے۔اللہ پاک ہمیں فرائض کے ساتھ ساتھ خوب نوافل پڑھنے اور کثرت کے ساتھ سجدے کرنے کی سعادت عنایت فرمائے۔آمین

فرائض پڑھوں، خوب نوافل پڑھوں میں کرم کر خدا! خوب سجدے کروں میں


اللہ کریم نے اپنے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شبِ معراج 50 نمازوں کا تحفہ عطا فرمایا جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے مشورے سے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کم کروائیں اور تخفیف کے بعد پانچ نمازیں تحفہ میں ملیں، مگر قربان جائیے! رحمتِ خداوندی کے کہ اس نے فرمایا:اگرچہ نمازیں پانچ ہیں، مگر ثواب پچاس کا ہی ملے گا۔یوں تو ہر نماز ہی بے شمار خوبیوں اور فضائل کی حامل ہے، مگر ان میں سے ایک نہایت اہم نماز جسے عموماً سستی اور غفلت وتھکن کی وجہ سے یا تو معاذ اللہ چھوڑ دیا جاتا ہے یا قضا کر کے پڑھا جاتا ہے اور کچھ لوگ تو مکمل پڑھتے ہی نہیں۔ سب سے پہلے عشا کا معنی ،پھر اس کے فضائل ،وعید جانتی ہیں اور ساتھ ساتھ پابندی سے ساری ہی نمازیں پڑھنے کی نیت کرلیتی ہیں۔عشا کا لغوی معنی: عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)حدیثِ مبارکہ کی شرح:حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ منافق صرف دکھاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور وقتوں میں تو خیر جیسے جیسے پڑھ لیتے ہیں،مگر عشا کے وقت نیند کا غلبہ، فجر کے وقت نیند کی لذت انہیں مست کر دیتی ہے، اخلاص اور عشق مشکلوں کو حل کرتے ہیں، وہ ان میں سے نہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی ہیں)پس اس سے معلوم ہوا !جو مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کرے، وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔(مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 396)2۔تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے ،سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت(یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ123، حدیث298)مذکورہ حدیثِ مبارکہ کی شرح:حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس حدیثِ مبارکہ میں بیان کردہ منافق سے مراد(دورِ رسالت کے بد ترین کفار نہیں ہیں، جو خود کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کرتے تھے، مگر دل سے کافر تھے، بلکہ یہاں مراد)منافقِ عملی ہے، جو حقیقت میں مسلمان ہے، حدیثِ مبارکہ کے اس حصّہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتےسے مراد ہے:ہم ان نمازوں کو چستی کے ساتھ اور خوشی خوشی ادا کرتے ہیں، ہم ان دونوں نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کے لئے مسجد آتے ہیں، کوئی مشقت نہیں ہوتی،جبکہ منافقین پر یہ نمازیں بھاری ہیں، اس لئے وہ انہیں بشاشت یعنی خوشی اور چُستی کے ساتھ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: واضح رہے! منافقِ عملی عبادت قائم کرنے کے لئے نہیں، بلکہ عادت کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے اور چونکہ اس کا نفس نماز پڑھنے کو ناپسند کرتا ہے، اس لئے وہ سب کے ساتھ نہیں، بلکہ اپنے گھر میں تنہا نماز پڑھتا ہے۔آگے مزید تحریر فرماتے ہیں: بعض عارفین یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والوں کا قول ہے :نمازِ فجر باجماعت پابندی سے پڑھنے سے دنیا کے مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں، نماز ِعصر و عشا میں جماعت کی پابندی سے زہد پیدا ہوتا ہے(یعنی دنیا سے بے رغبتی نصیب ہوتی ہے)، خواہشات کی پیروی سے نفس باز رہتا ہے۔(فیض القدیر، جلد 1، صفحہ 84،85)3۔بہار شریعت میں ہے: دن کے ابتدائی حصّے میں سونا یا مغرب اور عشا کے درمیان سونا مکروہ ہے۔(بہار شریعت، جلد 3، صفحہ 439)4۔نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشادفرماتے ہیں:جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے،اللہ پاک اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔(جمع الجوامع،جلد 8، صفحہ289،حدیث23192)امیر المؤمنین حضرت فاروق ِاعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے حکام کو ایک فرمان لکھا، جس میں یہ بھی تھا کہ جو عشا سے پہلے سو جائے، خدا کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں۔( موطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 25، حدیث 4) فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کے متعلق حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:جناب فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی یہ دعائے ضرر اظہارِ غضب یعنی ناراضی ظاہر کرنے کے لئے ہے، خیال رہے! نمازِ عشاسے پہلے سو جانا اور اس کے بعد بلا ضرورت جاگتے رہنا یہ دونوں ہی کام سنت کے خلاف اور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ناپسند ہیں، لیکن نماز سے پہلے سو کر نماز ہی نہ پڑھنا اور ایسے ہی عشا کے بعد جاگ کر فجر قضا کر دینا حرام ہے، کیونکہ حرام کا ذریعہ بھی حرام ہوتا ہے۔(مرآۃالمناجیح، جلد 1، صفحہ 377)5۔سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے، کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں دلجمعی کے ساتھ اور خوشی و چُستی کے ساتھ تمام نمازوں سمیت نمازِ عشا کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


مشکل کام کا ثواب زیادہ: جو کام جتنا مشقت والا ہوتا ہے،اس کا ثواب بھی اتنا ہی ہوتا ہے،جیسے صبر کرنا مشقت کا کام ہے، لیکن اس کا بدلہ جنت ہوتا ہے ،صبر اگر آسان ہوتا تو پھر اس کے عوض جنت نہ ہوتی، صبر کرنا مشقت ہے، اس لئے اس کے عوض میں جنت ہے۔اسی طرح سے نماز ِعشا میں مشقت ہوتی ہے، لیکن اس کا اجر زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ مشقت والے کام میں اجر زیادہ ہوتا ہے۔تلخ حقیقت:لوگ عشا کی نماز اپنی کاہلی اور سستی کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں، مشقت کا کام سمجھتے ہیں، جبکہ اسے خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھا جائے تو اس میں زیادہ سُرور آتا ہے۔عشا کو مؤخر کرنا کیسا؟آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عشا کی نماز تہائی رات تک مؤخر کرو ۔ اس سے ثابت ہوا ! عشا کی نماز بوجھ نہیں، بلکہ اجرِ عظیم تصور کر کے نماز ادا کی جائے۔عشا کے لغوی و اصطلاحی معنی:عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہوجانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نماز ِعشا کہا جاتا ہے۔سب سے پہلے نماز ِعشا کس نے پڑھی؟شرح معانی الآثار میں ہے:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سب سے پہلے نمازِ عشاادا فرمائی اور یہ نماز حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پسندیدہ نماز ہے۔فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(فیضان نماز)2۔ تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے، سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔3۔فرمانِ مصطفیٰصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے نمازِ عشا باجماعت پڑھی، اس نے تمام رات نماز پڑھی اور جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی، گویا اس نے سارا دن نماز پڑھی۔(فیضان نماز)4۔فرمانِ مصطفیصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے فجرو عشا کی نماز باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی بھی رکعت فوت نہ ہوئی ہو، اس کے لئے جہنم ونفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔فرمایا: جہاں تک تعلق ہے عشا کی نماز کا، یاد رکھو !قبر ایک تاریک کوٹھری ہے، روزِ قیامت بھی تاریک، تو جو شخص رات کے اندھیرے میں نمازِ عشا کی ادائیگی کے لئے چلتا ہے، اللہ پاک اس پر جہنم کو بھی حرام فرما دیتا ہے اور اللہ پاک اس کو ایک ایسا نور عطا فرمائے گا بروزِ محشر جس کی برکت سے وہ پل صراط کو پار کر جائے گانیز اس کی قبر میں بھی نور علی نور معاملات فرمائے جائیں گے۔ بقول مفتی نذیر احمد رضا قادری۔ان فرامینِ مصطفی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نمازِ عشا کتنی عظیم ہے کہ اس کو پڑھنے پر کتنا ثواب ملتا ہے تو پھر کیوں ہم عظیم وکبیر ثواب کو چھوڑیں اور نمازِ عشا کو ترک کرنے کا عذاب اپنے سر لیں! ہمیں چاہئے کہ عشا کی نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کریں اور صرف عشا ہی نہیں، بلکہ تمام نمازیں، کیونکہ نماز فرض ہے اور فرض مطلب جو آپ پر لازم ہے، ضروری ہے لہٰذا ترک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یعنی ہمیں ہر حال میں نماز ضرور بضرور پڑھنی ہے، یہاں تک کہ نماز کے احکام اتنے سخت ہیں کہ ایک پانی میں ڈوبتے ہوئے شخص پر نماز فرض ہے، اس کا طریقہ بھی موجود ہے تو صحیح سالم شخص پر تو بدرجہ اولیٰ نماز کی ادائیگی ہے کہ جب پانی میں کوئی شخص ڈوبتا ہے تو اس کا بھی طریقہ ارشاد ہے تو ہمیں کیا نماز چھوڑنی چاہئے؟ نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے اور اس پر بہت ثواب ہے تو ہم تو ہمیشہ فائدے کا سودا کرتی ہیں تو پھر یہاں پر نماز چھوڑ کر نقصان کا سودا کیوں کریں؟انسان کی تو فطرت میں ہے کہ وہ فائدے کا سودا کرتا ہے اور ہر ذی عقل کو نظر آتا ہے کہ نماز کتنی مفید ہے! جو لوگ اپنے موٹاپے سے پریشان ہیں، وہ پانچوں وقت کی نماز ادا کریں تو ان شاءاللہ فائدہ خود دیکھیں گی، جو رزق روزی کی وجہ سے پریشان ہیں تو وہ بھی آرامِ قلب پائیں گی۔ ہمیں چاہئے کہ نماز کی پابندی کریں اور اللہ پاک کا قرب پائیں اور جو جوان ہیں، انہیں تو لازمی نماز ادا کرنی چاہئے کہ جوانی کی عبادت تو زیادہ مقبول ہوتی ہے۔


اللہ پاک نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جس نے انہیں ادا کیا اور ان کے حق کو معمولی جانتے ہوئے ان میں سے کسی کو ضائع نہ کیا تو اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر اس کے لئے وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کر دے اور جس نے انہیں ادا نہ کیا، اس کے لئے اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر عہد نہیں، چاہے اسے عذاب دے، چاہے جنت میں داخل فرمائے۔(سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب فی من لم یوتر، جلد 2، صفحہ 89، حدیث1420)ہمارے اور منافقین کے درمیان عشا و فجر کی(جماعت میں) حاضری کا فرق ہے، منافقین کو ان دونوں نمازوں میں حاضری کی طاقت نہیں۔(المؤطا الامام مالک، کتاب صلاۃ الجاعۃ،باب ماجاء فی العتمۃ والصبح، جلد 1، صفحہ 330، حدیث298)عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو عشا کہا جاتا ہے۔

تو پانچوں نمازوں کی پابند کردے پئے مصطفی ہم کو جنت میں گھر دے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس)کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)حدیثِ مبارکہ کی شرح:حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ منافق صرف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور وقتوں میں تو خیر جیسے جیسے پڑھ لیتے ہیں، مگر عشا کے وقت نیند کا غلبہ، فجر کے وقت نیند کی لذت انہیں مست کر دیتی ہے، اخلاص اور عشق مشکلوں کو حل کرتے ہیں، وہ ان میں سے نہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی ہیں)پس اس سے معلوم ہوا ! جو مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کرے، وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔(مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 396)تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے،سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ شرحِ حدیث:حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس حدیث میں بیان کردہ منافق سے مراد (دورِ رسالت کے بدترین کفار نہیں ہیں، جو خود کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کرتے تھے، مگر دل سے کافر تھے، بلکہ یہاں مراد) منافق عملی ہے۔( فیض القدیر، جلد 1، صفحہ 84، 85)حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشادفرماتے ہیں:جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے، اللہ پاک اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔(جمع الجوامع،جلد 7، صفحہ289،حدیث23192)امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اپنے حکام کو ایک فرمان لکھا، جس میں یہ بھی ہے کہ جو عشا سے پہلے سو جائے، خدا کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 35، حدیث 6)امیر المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے، تو گویا وہ آدھی رات عبادت میں کھڑا رہا اور جو فجر جماعت سے پڑھے، تو گویا وہ ساری رات عبادت میں کھڑا رہا۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد۔۔ الخ،باب صلاۃ العشا۔۔الخ، صفحہ 329، حدیث265)ابنِ ماجہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو مسجد میں باجماعت چالیس راتیں نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہونے پائے،اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(ابن عساکر، جلد 52، صفحہ338) سب نمازوں میں منافقین پر گراں نماز ِفجر اور عشا ہے۔(طبرانی)محترم اسلامی بہنو!نماز قضا کر دینا سخت گناہ ہے، لہٰذا جو اسلامی بہن نماز قضا کر بیٹھے، وہ سچے دل سے توبہ بھی کرے اور جو اسلامی بہن نہ وقت پر نماز پڑھے اور نہ قضا ہو جانے پر ادا کرے، وہ تو سراسر خسارے میں ہے، کیونکہ اس کی نمازیں کے ذمہ قرض ہیں، ادا کرے گی تو چھٹکارہ پائے گی، ورنہ عذابِ الٰہی میں پھنس جائے گی۔یقیناً عافیت اسی میں ہے کہ نماز کا وقت ہوجائے تو تمام کام کاج چھوڑ کر نماز ادا کرنی چاہئے، قضا نمازوں کو بھی ادا کرنے کی کوئی ترکیب بنانی چاہئے، اس سلسلےمیں امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کا رسالہ قضانمازوں کا طریقہ کا مطالعہ فرما لیجئے، ان شاءاللہ معلومات کا بے بہا خزانہ آپ کے ہاتھ آئےگا۔قضا نمازوں کو ادا کرنے کی نیت ابھی سے فرما لیجئے، کیوں کہ نیت صاف منزل آسان۔حدیثِ پاک میں ہے:نیۃُ المْؤمِنِ خَیْر مِّنْ عَمَلِہ یعنی مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔


سورۂ طٰہ کی آیت نمبر 14 میں ارشادِ ربّانی ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ۔بلاشبہ نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں، کیونکہ یہ ایک فرض عبادت ہے اور فرائض کی ادائیگی اللہ پاک کا قرب حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس کے علاوہ نماز پیارے پیارے، آخری نبی ،مکی مدنی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، نماز پڑھنے سے اللہ پاک خوش ہوتا ہے، نماز سے گناہ معاف ہوتے ہیں، نماز اندھیری قبر کا چراغ ہے، نماز مومن کی معراج ہے، نمازی کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اسے قیامت کے دن اللہ پاک کا دیدار ہوگا، نماز کی اہمیت کا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ پاک نے سب احکام اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو زمین پر بھیجے اور جب نماز فرض کرنی منظور ہوئی تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنے پاس عرش ِعظیم پر بلا کر اسے فرض کیا اور معراج کی رات مسلمانوں کو یہ تحفہ عطا کیا۔ محترم اسلامی بہنو!یوں تو پنج وقتہ نماز کے فضائل بکثرت قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں، لیکن انفرادی طور پر ہر نماز کے فضائل بھی بیان کئے گئے، انہی میں بالخصوص نمازِ عشا کی فضیلت پر بھی احادیث شامل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان دن بھر کی تھکن سے چور کھانا کھاتے ہی بسترِ راحت پر دراز ہونا چاہتا ہے اور شیطان حیلوں، بہانوں سےاسے نماز پڑھنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن بندۂ خدا نفسانی خواہشات اور شیطان کے حربوں کے باوجود بارگاہِ ایزدی میں نماز کے لئے حاضر ہو کر شیطان کے سارے عزائم خاک میں ملا دیتا ہے۔نمازِ عشا کی فضیلت پر پانچ احادیث: آئیے !حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی احادیث کی روشنی میں نمازِ عشا کی فضیلت ملاحظہ کیجئے:1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجرو عشا باجماعت پڑھی،اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا،ایک نار(یعنی آگ)سے،دوسری نفاق(یعنی منافقت) سے۔(ابن عساکر، جلد 52، صفحہ 338)2۔امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھےکہ پہلی رکعت فوت نہ ہو،اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(ابن ماجہ، ج1، صفحہ 931،حدیث798)3۔نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی، گویا اس نے ساری رات قیام کیا، اور جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی گویا اس نے سارا دن نماز پڑھی۔( معجم کبیر، جلد 1،صفحہ92، حدیث 148)4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے،اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)5۔ہمارے پیارے آقا،مکی مدنی مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے فرمایا:جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے لیلۃ القدر میں قیام(یعنی عبادت) کرنے کا ثواب ہوگا۔( شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 137، حدیث9719)

جنت میں نرم نرم بچھونوں کے تخت پر آرام سے بٹھائے گی اے بہنو!نماز

اللہ اکبر! نماز کے کتنے فضائل و برکات ہیں اور نماز کتنی پیاری عبادت ہے کہ اس کے شروع کرتے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں!اے عاشقانِ نماز!دل لگ یا نہ لگے، خوب نمازیں پڑھے جائیے ان شاءاللہ ایک دن ہماری نماز میں خشوع و خضوع کے نور سے معمور ہو ہی جائیں گی، ہوسکے تو جگہ بدل بدل کر نماز پڑھی جائے کہ جہاں جہاں ہم نماز پڑھیں گی اور ذکر و درود کریں گی وہ تمام مقامات قیامت کے روز گواہی دیں گے اور نماز پڑھنے والی سے شیطان کس قدر پریشان رہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کوئی مسلمان درست طریقے سے نماز پڑھے گا، تو وہ گناہوں سے بچے گا اور میرے ہاتھ سے نکل جائے گا، شیطان مردود ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ ہم نماز پڑھیں، گناہوں سے بچیں اور جنت کی راہ لیں، ہمیں شیطان کا وار ناکام بناتے ہوئے خوب نمازیں پڑھنی ہیں اور ربّ کریم کو راضی رکھنا ہے ۔

پیارے نبی کی آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے جنت میں لے چلے گی جوبے شک نماز ہے

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں تمام تر ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


یوں تو نماز ِپنجگانہ پڑھنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر نماز کی فضیلت اور اہمیت الگ ہے، اسی طرح نمازِ عشا پڑھنے کے فضائل اور برکتیں بے شمار ہیں۔عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔(فیضان نماز، ص114)عشا کی نماز سب سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام نے ادا فرمائی، جس وقت آپ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس سے دس سال قیام کے بعد واپس مصر تشریف لارہے تھے ،تو آپ پر چار فکریں طاری تھیں، تو آپ نے ان چار فکروں سے نجات اور نبوت ملنے کی خوشی پر چار رکعتیں ادا فرمائیں، اللہ پاک کو یہ چار رکعتیں پسند آئیں اور امتِ محمدیہ پر فرض فرما دیں۔نمازِ عشا کے وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے، جس وجہ سے اکثر لوگ اس نماز کو پڑھنے میں سستی کرتے ہیں، لہٰذا نیند کی وجہ سے یا کوئی سستی کی وجہ سے نمازوں کو ادا نہ کرنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔نمازِ عشا کی اہمیت اور فضیلت پر پانچ فرامین ِمصطفی:1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)2۔سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ133، حدیث298)3۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔(جمع الجوامع،جلد 7، صفحہ289،حدیث23192) 4۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک بار کے سوا کبھی کسی سفر میں مغرب و عشا ملا کر نہ پڑھی۔(ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین2/9،حدیث1209)5۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:میں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ کو پہنچنے کی جلدی ہوتی تو(آخری وقت سے کچھ دیر پہلے)مغرب کی اقا مت کہہ کر نماز پڑھ لیتے،سلام پھیر کر کچھ دیر ٹھہر تے، پھر عشا کی اقامت ہوتی اور نمازِ عشا کی دو رکعتیں پڑھتے۔(بخاری، کتاب تقصیر الصلاۃ، باب یصلی المغرب ثلاثا فی السفر،1/374،حدیث1092) آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نمازِ عشا کے ساتھ تمام نمازوں کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


نماز اللہ پاک کی طرف سے تحفۂ معراج ہے اور اس کی اہمیت و فضیلت کا ادراک وہی انسان کر سکتا ہےجو اس کی پابندی و مواظبت(ہمیشگی) کا اہتمام کرے، تمام نمازوں کی بالعموم اور نمازِ عشا کی بالخصوص اپنی جگہ اہمیت ہے اور بے شمار فضائل و برکات ہیں۔عشا کا لغوی معنی:عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔(فیضان نماز، صفحہ 114) سب سے پہلے نمازِ عشا:پیارے پیارے آقا،مدنی مکی مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نمازِ عشا ادا فرمائی۔(شرح معانی الآثار،ج1، ص226، حدیث1014)نمازِ عشا چونکہ پورے دن کے اختتام پر رات میں ادا کی جاتی ہے، اس لئے تھکن و سستی کے سبب اکثر لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں اور نمازِ عشا کی ادائیگی سے قبل ہی یا تو سو جاتے ہیں یا پھر دنیاوی مشغولیت، شاپنگ سینٹرز میں جانے اور سیروتفریح کے سبب اسے ضائع کر دیتے ہیں، لہٰذا باقی نمازوں کی طرح اس کی ادائیگی کا بھی خوب خوب التزام کرنے کی کوشش کی جائے۔نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت نیز وعیدات حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں پیشِ خدمت ہیں۔ 1۔خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجرو عشا باجماعت پڑھی، اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا، ایک نار(یعنی آگ)سے، دوسری نفاق(یعنی منافقت) سے۔(ابن عساکر، جلد 52، صفحہ 338) 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: عشا کی نماز پڑھ کر نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے مکان میں جب تشریف لاتے تو چار رکعتیں پڑھتے۔(سنن ابی داؤد، حدیث 1303،جلد 2، صفحہ 47)3۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو،اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(ابن ماجہ، ج1، صفحہ 437،حدیث798)جہاں نمازِ عشا کی کتنی فضیلتیں ہیں، وہیں نمازِ عشا نہ پڑھنے والوں کے لئے بھی عبرت ہے، چنانچہ 4۔تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے،سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت( یعنی پہچان) عشا کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 133،حدیث 298) ایک اور فرمانِ عبرت نشان پڑھئے۔5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)درس:بے شک نماز میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، ہمیں چاہئے کہ ہر نماز کو اس کے مقررہ وقت میں شرائط و فرائض کے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نمازِ عشا کو بھی کامل و اکمل ادا کرنے کا اہتمام کریں، با لیقین اسی میں ہی ہماری نجات اور کامیابی و کامرانی پنہاں ہے۔