عشا کے لفظی معنی کیا ہیں؟عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔فرائضِ نماز: نماز کے سات فرائض ہیں۔ 1۔تکبیر ِتحریمہ میں اللہ اکبر کہنا۔2۔قیام یعنی سیدھا کھڑا ہو کر نماز پڑھنا فرض ہے۔وتر واجب اور سنت ِنماز میں قیام فرض ہے، بلاعذرِ صحیح اگر یہ نمازیں بیٹھ کر پڑھے گی تو ادا نہیں ہوں گی، نفل نماز میں قیام فرض نہیں۔

3۔قراءت یعنی مطلقاً ایک آیت پڑھنا فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنت و وتر ونوافل کی ہررکعت میں فرض ہے، جبکہ مقتدی کسی نماز میں قراءت نہیں کرے گا۔4۔رکوع کرنا۔5۔سجدہ کرنا۔6۔قعدۂ اخیرہ یعنی نماز پوری کر کے آخر میں بیٹھنا۔7۔خروجِ بصنعہ یعنی دونوں طرف سلام پھیرنا۔ان فرضوں میں سے ایک بھی رہ جائے تو نماز نہیں ہوئی، اگرچہ سجدہ سہو کیا جائے۔لغتِ عربی میں لفظِ عشا کے معنی اور ترجمہ:

اصلی الفاظ

معانی

عشا(علم)

(اسم)رات کا کھانا،(مقابل غذاء) ڈنر

عشا(علم)

(اسم)رات کی ابتدائی تاریکی، مغرب سے مکمل تاریکی کا وقت

عشا(قرآن)

اندھیرا پڑے

عشا طَعَامُ العشا حَادُبۃُ عشا، وجبۃُ اطَعَام الرئیسیہ( غذائ کانت او عشا) حادبۃ ویمۃ

(اسم)ڈنر

عشا(عام)

(اسم)رات کی ابتدائی تاریکی، مغرب سے مکمل تاریکی کا وقت

سب سے پہلے نمازِ عشا کس نے پڑھی؟عشا کی نماز سب سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام نے ادا کی، جس وقت آپ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس سے دس سال قیام کے بعد واپس مصر تشریف لارہے تھے ،تو آپ علیہ السلام پر چار فکریں طاری تھیں، گھر میں ولادت کا وقت تھا اس کی فکر، اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی فکر، اپنے دشمن فرعون کا خوف اوراپنی ہونے والی اولاد کی فکر، رات بہت ٹھنڈی تھی، حضرت موسی علیہ السلام نے کوہِ طور پر آگ جلتی دیکھی تو آگ لینے کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے، لیکن وہاں پر اللہ پاک نے انہیں نبوت عطا فرمائی تو آپ علیہ السلام نے ان چار فکروں سے نجات اور نبوت ملنے کی خوشی پر چار رکعتیں ادا فرمائیں، اللہ پاک کو یہ چار رکعتیں پسند آئیں اور امتِ محمدیہ پر نمازِ عشا فرض فرما دی۔امام حلبی رحمۃ اللہ علیہ،امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح مسند ِ شافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں:حدیثِ مبارکہ میں ہے :حضرت آدم علیہ السلام نے صبح کی نماز پڑھی،حضرت داؤد علیہ السلام نے ظہر کی نماز پڑھی،حضرت سلیمان علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھی،حضرت یعقوب علیہ السلام نے مغرب کی نمازِ پڑھی، حضرت یونس علیہ السلام نے نمازِ عشا پڑھی۔ عشا کی نماز کے بارے میں سات فرامینِ مصطفی:1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)2۔تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے،سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت( یعنی پہچان) عشا کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 133،حدیث 298 )3۔حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ منافق صرف دکھاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور وقتوں میں توخیر جیسے جیسے پڑھ لیتے ہیں، مگر عشا کے وقت نیند کا غلبہ،فجر کے وقت نیند کی لذت انہیں مست کر دیتی ہے، اخلاص اور عشق مشکلوں کو حل کرتے ہیں، وہ ان میں سے نہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی ہیں)پس اس سے معلوم ہوا !جو مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کرے،وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔(مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 396)4۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پہنچنے کی جلدی ہوتی تو آخر وقت سے کچھ دیر پہلے مغرب کی اقامت کہہ کر نماز پڑھ لیتے،سلام پھیر کر کچھ دیر ٹھہرتے،پھر عشا کی اقامت ہوتی اور نمازِ عشا کی دو رکعتیں پڑھتے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، الصلاۃ، باب یصلی المغرب ثلاثاً فی السفر،3741،حدیث1092، تفسیر صراط الجنان، جلد دوم)5۔حدیثِ مبارکہ: حضرت نافع حضرت عبداللہ بن واقد رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مؤذن نے نماز کے لئے کہا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چلتے رہو، یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے کے قریب ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اُتر کر نماز مغرب پڑھی، پھر انتظار فرمایا، یہاں تک کہ ڈوب گئی، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے نمازِ عشا پڑھی، پھر فرمایا :حضور سیدِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جب کسی کام کی وجہ سے جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے، جیسا میں نے کیا۔(ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین2/1، حدیث1212، تفسیر صراط الجنان، جلد دوم)اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ نمازِ عشا کے بارے میں لکھا ہے، اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین