آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے ارشادات بیان فرمائے ۔ایسے ارشادات جو حکمت و نصائح ،تعلیم و تربیت ،اور ترغیب و تنبیہات سے مزین ہیں تاکہ مسلمان ان پر عمل کرکے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کریں اور بروز قیامت رب تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں۔آئیے!آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ ایسے ارشاد پڑھیے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلمہ ” اتانی“ کے ذریعے سے امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرانا: حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي، فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا

ترجمہ:کہ میرے پاس رب تعالٰی کے پاس سے آنے والا آیا تو مجھے اختیار دیا اس کا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل فرمائے اور درمیان شفاعت کے تو میں نے شفاعت اختیار فرمائی یہ شفاعت اس شخص کے لیے ہے جوکسی چیز کو الله کا شریک نہ ٹھہرائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الفتن،باب الحوض و الشفاعۃ، جلد2،صفحہ505،حدیث:5357)

مسجد کو صاف ستھرا رکھنا: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ نے جوتے اتار دیئے اور اپنے بائیں طرف رکھ لئے جب قوم نے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کی تو فرمایا کہ تمہیں جوتے اتارنے پرکس نے آمادہ کیا عرض کی ہم نے آپ کو جوتے اتارتے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إِنَّ جِبْرِيْلَ أتانِيْ فَأَخْبَرَنِيْ أَنَّ فِيْهِمَا قَذَرًا، إِذا جَاءَ أَحَدكُم الْمَسْجِدَ فَلْيَنْظُرْ، فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا فَلْيَمْسَحْهُ وَلِيُصَلِّ فِيْهِمَا

ترجمہ: حضرت جبریل میرے پاس آئے مجھے بتایا کہ ان میں گندگی ہے جب تم میں سے کوئی مسجد میں آیا کرے تو دیکھ لیا کرے اگر جوتوں میں گندگی دیکھے تو انہیں پونچھ دے اور ان میں نماز پڑھ لے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الصلوٰۃ،باب الستر،جلد1،صفحہ74،حدیث:709)

مریض کی عیادت کرنا: مریض کی عیادت کو جانا آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

مَرِضْتُ مَرَضًا أَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَضَعَ يَدَهٗ بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتّٰى وَجَدْتُ بَرْدَهَا عَلٰى فُؤَادِي

ترجمہ:میں بیمار ہوا تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے اپنا ہاتھ میرے سینےکے بیچ رکھا حتی کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے دل پر پائی۔(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الاطعمۃ ،جلد2، صفحہ379، حدیث:4037)

گھر میں تصویر اور کتے کی ممانعت: گھر کی چار دیواری میں تصویر اور کتا رکھنے کی دین اسلام میں ممانعت ہے کیونکہ یہ ملائکہ رحمت کے آنے سے مانع ہو جاتے ہیں جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے :

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ: أَتَيْتُكَ الْبَارِحَةَ فَلَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَكُونَ دَخَلْتُ إِلَّا أَنَّهٗ كَانَ عَلَى البَابِ تَمَاثِيلُ وَكَانَ فِي الْبَيْتِ قِرَامُ سِتْرٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ وَكَانَ فِي الْبَيْتِ كَلْبٌ

ترجمہ:فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میرے پاس جناب جبریل آئے بولے کہ میں آج رات آپ کے پاس آیا تھا مجھے داخل ہونے سے کسی چیز نے نہ روکا بجز اس کے کہ دروازے پر تصاویر تھیں اور گھر میں باریک کپڑے کا پردہ تھا جس میں تصاویر تھیں اور گھر میں کتا تھا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب اللباس،باب التصاویر،جلد2،صفحہ399،حدیث:4299)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سمجھائی ہوئی ترغیبات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین مبارکہ ہر انسان کے لیے مشعلِ راہ ہیں اور ان فرامین کو اپنا کر انسان اپنی زندگی کو بدل سکتا ہے اور حضور نے انسان کی ہر معاملے میں تربیت فرمائی اس میں ایک لفظ جو احادیث طیبہ میں ملتا ہے وہ لفظ اتانی بھی ہے تو اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کو سنتے ہیں:

(1) اللہ عزوجل کی بندوں سے محبت: عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْوِیہِ عَنْ رَبِّہِ قَالَ:اِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا، وَاِذَا تَقَرَّبَ مِنِّی ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا، وَاِذَا اَتَانِیْ مَشْیًا اَتَیْتُہُ ہَرْوَلَۃً.

ترجمہ: حضرت سَیِّدُنااَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے روایت کرتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے روایت کرتے ہیں کہ ربّ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا :جب بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک گز قریب ہوتا ہوں اور جب وہ مجھ سے ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دو گز قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔

حدیث کی شرح: حدیث کے ظاہری معنی کی وضاحت:علامہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰ بِن شرف نووی فرماتے ہیں : ’’ اس حدیث کا ظاہری معنی لینا محال ہے (کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ چلنے یا دوڑنے سے پاک ہے) ۔حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص عبادت کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اپنی توفیق، رحمت اور اعانت اس کے قریب کر دیتا ہوں ۔بندہ جتنی زیادہ عبادت کرتا ہے میں اتنا ہی زیادہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور اس پراپنی رحمت نچھاور کرتا ہوں ۔ ‘‘(فیضان ریاض الصالحین جلد:2،صفحہ :164،حدیث نمبر:96 )

(2) نبی ہونا معلوم ہوا:وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ كَيْفَ عَلِمْتَ أَنَّكَ نَبِيٌّ حَتّٰى اسْتَيْقَنْتَ فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ! أَتَانِي مَلَكَانِ وَأَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ، فَوَقَعَ أَحَدُهُمَا عَلَى الأَرْضِ وَكَانَ الْآخَرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهٖ: أَهُوَ هُوَ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَزِنْهُ بِرَجُلٍ فَوُزِنْتُ بِهٖ فَوَزَنْتُهٗ ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِعَشَرَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِمِئَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَنْتَثِرُونَ عَلَيَّ مِنْ خِفَّةِ الْمِيزَانِ. قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمَا لصَاحبه: لَوْ وَزَنتُهٗ بِأُمَّتِهٖ لَرَجَحَهَا

ترجمہ: روایت ہے حضرت ابو ذر غفاری سے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ نے کیسے جانا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں حتی کہ آپ نے یقین کرلیا تو فرمایا اے ابو ذر میرے پاس دو فرشتے آئے جب کہ میں مکہ کے بعض پتھریلے علاقہ میں تھا تو ان میں سے ایک تو زمین کی طرف آگیا اور دوسرا آسمان و زمین کے درمیان رہا تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہ ہی ہیں اس نے کہا ہاں اس نے کہا کہ انہیں ایک شخص سے تولو میں اس سے تولا گیا تو میں وزنی ہوا پھر اس نے کہا کہ انہیں دس سے تولو تو میں ان سے تولا گیا میں ان پر وزنی ہوا،پھر اس نے کہا کہ انہیں سو سے تولو میں ان سے تولا گیا میں ان پر بھاری ہوا گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے مجھ پر گرے پڑتے ہیں تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم انہیں ان کی پوری امت سے تولو تو بھی یہ سب پر بھاری ہوں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، باب فضائل سید المرسلین ،جلد:2، فصل ثالث،صفحہ: 524،حدیث نمبر: 5523)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول کی محبت عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


نبی کریم ﷺ کی تربیت کے مختلف طریقے تھے، جن میں ایک طریقہ "اَتَانِي" (مجھے خبر دی گئی، میرے پاس آیا) جیسے الفاظ سے تربیت دینا بھی شامل تھا۔ اس طریقے میں رسول اللہ ﷺ کسی واقعہ یا حکم کی اطلاع دے کر اس پر وضاحت فرماتے، صحابہ کرام کی اصلاح کرتے اور امت کو ہدایت عطا فرماتے تھے۔

ذیل میں چند ایسی احادیث مع حوالہ جات پیش کی جا رہی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے لفظ "(أَتَانِي)" کے الفاظ استعمال فرما کر تعلیم و تربیت فرمائی:

(1) حضرت جبرائیل کا نبی کریم ﷺ کے پاس آنا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، عِشْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَيِّتٌ، وَأَحْبِبْ مَنْ شِئْتَ فَإِنَّكَ مُفَارِقُهُ، وَاعْمَلْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَجْزِيٌّ بِهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ شَرَفَ الْمُؤْمِنِ قِيَامُهُ بِاللَّيْلِ، وَعِزُّهُ اسْتِغْنَاؤُهُ عَنِ النَّاسِ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور کہا: اے محمد! جتنا چاہو جیو، مگر (یاد رکھو) تمہیں مرنا ہے۔ جس سے چاہو محبت کرو، مگر تمہیں اس سے جدائی ہونی ہے۔ اور جو چاہو عمل کرو، مگر تمہیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور جان لو کہ مؤمن کی عزت اس کے رات کے قیام (عبادت) میں ہے، اور اس کی سربلندی اس کا لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے۔(شعب الايمان للبیہقی، حدیث نمبر: 10484، جلد: 7، صفحہ: 379)

(2). حضور علیہ السلام نے شیطان کو پکڑ لینا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:أَتَانِي الشَّيْطَانُ فِي صَلَاتِي، فَأَخَذْتُهُ فَخَنَقْتُهُ، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِي، فَلَوْلَا دُعَاءُ أَخِي سُلَيْمَانَ، لَرَبَطْتُهُ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز کے دوران شیطان میرے پاس آیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا اور گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی، تو میں اسے مسجد کے ستون سے باندھ دیتا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔( سنن النسائی، كتاب السهو، حدیث نمبر: 1210، جلد: 3، صفحہ: 51)

(4). میرے پاس رات ایک فرشتہ آیا: عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقُلْ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ.

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: عمرہ حج کے ساتھ۔ (سنن النسائی، كتاب المناسك، حدیث نمبر: 2754، جلد: 5، صفحہ: 118)

یہ احادیث نبی کریم ﷺ کے تربیتی انداز اور وحی کے نزول کے طریقوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان میں ایمان، اعمال صالحہ، شیطان کے وسوسوں سے بچاؤ، اور آخرت کی حقیقتوں کی طرف رہنمائی دی گئی ہے۔

تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی فرمائی اور لوگوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بہترین نمونہ بنایا ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز سے لوگوں کی تربیت فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی بات کو واضح کرنے کے لیے "اتانی" جیسے عربی الفاظ کے ساتھ سمجھانے کا اسلوب بہت حکمت آمیز اور جامع تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو ہمیشہ حکمت، اختصار اور تاثیر کا نمونہ ہوا کرتی تھی۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہوتی تھی، آپ کا ہر جملہ حکمت سے بھرپور اور ہر لفظ سامع کے دل میں اتر جانے والا ہوتا تھا۔ آپ جب کسی بات کو سمجھاتے، تو الفاظ کا ایسا انتخاب فرماتے جو نہ صرف مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق ہوتا بلکہ اس میں تاثیر بھی نمایاں ہوتی۔ ایسے ہی ایک انداز میں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض مواقع پر لفظ ”اتانی“ استعمال فرما کر تربیت فرمائی۔ایسی چند احادیث ملاحظہ کیجیے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں لفظ "أتانی" (میرے پاس آیا) کا استعمال اُن مواقع کی نشاندہی کرتا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی یا ہدایت موصول ہوئی۔

(1) گندگی والے جوتوں میں نماز: إن الملك أتاني فأخبرني أن بنعلي أذى، فإذا جاء أحدكم إلى باب المسجد فليقلب نعليه، فإن رأى فيهما شيئا فليمسحهما، ثم ليصل فيهما أو ليخلعهما إن بدا له طس عن أبي هريرة

ترجمہ: فرشتہ میرے پاس آیا تھا اور اس نے مجھے خبر دی تھی کہ میرے جوتے میں گندگی لگی ہوئی ہے، پس جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آیا کرے تو پہلے اپنے جوتوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیا کرے اگر ان میں کچھ لگا ہوا ہو تو اس کو صاف کردیا کرے پھر ان میں نماز پڑھ لے یا اگر چاہے تو نکال دے۔ (الاوسط للطبرانی عن ابو ہریرہ ۔ کنزالعمال ،کتاب: نماز کا بیان، باب الإکمال ، حدیث نمبر: 20130، جلد 7، صفحہ 534)

(2) شفاعت کے بارے میں فرمان: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا

ترجمہ: عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السلام) میرے پاس آیا اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہوگا ۔ (جامع ترمذی، کتاب: قیامت کا بیان، باب: اسی کے متعلق، حدیث نمبر: 2609، جلد 4، صفحہ 199، حدیث نمبر: 2449 )

(3) درودشریف کی فضیلت: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ يُرَى الْبِشْرُ فِي وَجْهِهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرَى فِي وَجْهِكَ بِشْرًا لَمْ نَكُنْ نَرَاهُ قَالَ أَجَلْ إِنَّ مَلَكًا أَتَانِي فَقَالَ لِي يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ لَكَ أَمَا يُرْضِيكَ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَلَا يُسَلِّمَ عَلَيْكَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا قَالَ قُلْتُ بَلَى

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن ابوطلحہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ تشریف لائے آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے تو عرض کی گئی یا رسول اللہ آج ہم آپ کے چہرہ مبارک پر ایسی خوشی دیکھ رہے ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھی نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا :ہاں !ابھی فرشتہ میرے پاس آیا تھا اور اس نے مجھ سے کہا اے محمد آپ کا پروردگار آپ سے یہ فرما رہا ہے کہ کیا آپ اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا میں اس پردس رحمتیں نازل کروں گا جو شخص آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پردس مرتبہ سلام بھیجوں گا تو نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں میں نے کہا ہاں۔ میں اس بات سے راضی ہوں۔(سنن دارمی، کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان، باب: نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنے کی فضیلت، حدیث نمبر: 2815، جلد: 3، صفحہ: 1825)

(4) حضرت فاطمۃ الزہرا ، امام حسن و حسین کی فضیلت:أتاني ملك فسلم علي، نزل من السماء لم ينزل قبلها، فبشرني أن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة. ابن عساكر - عن حذيفة

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک فرشتہ میرے پاس آیا پس اس نے مجھے سلام کیا جو آسمان سے اترا اور اس سے پہلے کبھی نہیں اترا اس نے مجھے خوشخبری دی کہ حسن اور حسین رضى الله عنهما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور بیشک فاطمہ رضى الله عنها جنتیوں کے عورتوں کی سردار ہیں۔ (ابن عساکر بروایت حذیفہ۔کنزالعمال، کتاب: فضائل کا بیان، باب: حضرت حسنین کا تذکرہ، حدیث نمبر: 34217 ، جلد:12، صفحہ:107)

یہی وہ اندازِ بیان تھا جس نے عرب کے فصیح و بلیغ افراد کو بھی حیران کر دیا، اور یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت اسلام کا پیغام عام فہم اور دل نشین ہو کر پھیلا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اسلوبِ بیان سے راہنمائی لیتے ہوئے بات کو واضح اور مؤثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں، تاکہ سننے والے کے دل میں اثر پیدا ہو اور وہ حق کی طرف مائل ہو جائے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ اس پر عمل کر کے آگے پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

احادیثِ طیبات ہمارے دین کا ایک عظیم حصہ ہیں۔ قراٰنِ مجید کے بعد احادیث دوسری سب سے بڑی ‏راہنمائی کا ذریعہ ہیں جس ‏سے مسلمان اپنی زندگی کے تمام اہم معاملات کو حل کرتے اور خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏کی تعلیمات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے جو فرد، خاندان اور معاشرتی زندگی ‏کے تمام پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔ ‏

‏” اَتَانِی “ ایک ایسا لفظ ہے جو احادیث میں کئی بار استعمال ہوا ہے اور یہ لفظ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ اللہ پاک کی ‏طرف سے ‏پیغامات اور ہدایات حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچانے کا عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ لفظ ہمیں اللہ کی جانب سے ہدایت ‏‏کی اہمیت اور جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے پیغام رسانی کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔

آئیے! ہم ایسی احادیث ملاحظہ کرتے ہیں جن میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لفظ ” اَتَانِی “ کا استعمال ‏فرمایا ہے۔

(1)دو فرشتے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: ‏یَارسولَ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ نے کیسے جانا کہ ‏آپ الله کے نبی ہیں؟ حتّٰی کہ آپ نے یقین کرلیا، تو فرمایا: اے ابو ذر! اَتَانِي ‏مَلَكَانِ وَاَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ یعنی میرے پاس دو فرشتے ‏آئے جب کہ میں مکہ کے ایک پتھریلے علاقہ میں تھا، تو ان میں سے ‏ایک تو زمین کی طرف آگیا اور دوسرا آسمان و زمین ‏کے درمیان رہا، تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا یہ و ہی ہیں؟ اس ‏نے کہا: ہاں، اس نے کہا کہ انہیں ایک شخص ‏سے تولو، میں اس سے تولا گیا تو میں وزنی ہوا، پھر اس نے کہا کہ انہیں دس سے تولو، تو میں ‏ان سے تولا گیا، میں ان پر وزنی ‏ہوا،پھر اس نے کہا کہ انہیں سو سے تولو، میں ان سے تولا گیا، میں ان پر بھی بھاری ہوا، وہ بولا: انہیں ‏ہزار سے تولو، میں ان سے ‏تولا گیا، تو میں ان پر بھی بھاری ہوگیا، گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے مجھ ‏پرگرے پڑتے ہیں تو ان ‏میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم انہیں ان کی پوری امت سے تولو گے تو بھی یہ سب پر بھاری ‏ہوں گے۔(مشکاۃ المصابیح، 2/358، حدیث: 5774)یہ وزنی ہونا نبوت کے وزن سے ہوا، نبوت بڑی وزنی نعمت ہے۔(مراٰةُ المناجيح، 8/40)‏

(2)امتی کے لئے جنت کی خوشخبری:حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہُ عنہ نے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کیا کہ نبیِّ پاک ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمايا: ذَاكَ جِبْرِيلُ اَتَانِي فَاَخْبَرَنِي اَنَّهٗ مَنْ مَاتَ مِنْ اُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه، ‏وَاِنْ زَنَى وَاِنْ سَرَقَ، قَالَ وَاِنْ زَنَى وَاِنْ سَرَقَ ترجمہ: یہ جبریل ہیں جو میرے پاس آئے اور مجھے خوشخبری دی کہ میری اُمّت میں سے ‏جو شخص فوت ہو گیا ‏اور اللہ پاک کا کسی کو شریک نہیں کرتا تھا وہ جنت میں داخل ہوگا، تو میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! اگرچہ وہ ‏چوری اور زنا کرے؟حضور علیہ السّلام نے فرمایا: اگرچہ وہ ‏چوری اور زنا کرے‏۔(دیکھئے: بخاری، 4/179، حدیث: 6268)‏

(3)حضور علیہ السّلام نے شفاعت کو اختیار فرمایا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ اَنْ ‏يُدْخِلَ نِصْفَ اُمَّتِي الجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا یعنی ‏ میرے رب کی طرف سے ‏ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السّلام) میرے پاس آئے اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی اُمت ‏جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا ‏حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص ‏کے لئے ہے ‏جو اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ پاک کے ‏ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ (ترمذی، 4/199، حدیث: 2449)‏

پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم ان احادیث سے سیکھ کر اپنی زندگیوں میں ان تعلیمات کو اپنائیں، تو ہم نہ صرف اپنی دنیا کو ‏بہتر بنا ‏سکتے ہیں بلکہ آخرت کی کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم