احادیثِ طیبات ہمارے دین کا ایک عظیم حصہ ہیں۔ قراٰنِ مجید کے بعد احادیث دوسری سب سے بڑی ‏راہنمائی کا ذریعہ ہیں جس ‏سے مسلمان اپنی زندگی کے تمام اہم معاملات کو حل کرتے اور خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏کی تعلیمات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے جو فرد، خاندان اور معاشرتی زندگی ‏کے تمام پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔ ‏

‏” اَتَانِی “ ایک ایسا لفظ ہے جو احادیث میں کئی بار استعمال ہوا ہے اور یہ لفظ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ اللہ پاک کی ‏طرف سے ‏پیغامات اور ہدایات حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچانے کا عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ لفظ ہمیں اللہ کی جانب سے ہدایت ‏‏کی اہمیت اور جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے پیغام رسانی کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔

آئیے! ہم ایسی احادیث ملاحظہ کرتے ہیں جن میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لفظ ” اَتَانِی “ کا استعمال ‏فرمایا ہے۔

(1)دو فرشتے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: ‏یَارسولَ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ نے کیسے جانا کہ ‏آپ الله کے نبی ہیں؟ حتّٰی کہ آپ نے یقین کرلیا، تو فرمایا: اے ابو ذر! اَتَانِي ‏مَلَكَانِ وَاَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ یعنی میرے پاس دو فرشتے ‏آئے جب کہ میں مکہ کے ایک پتھریلے علاقہ میں تھا، تو ان میں سے ‏ایک تو زمین کی طرف آگیا اور دوسرا آسمان و زمین ‏کے درمیان رہا، تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا یہ و ہی ہیں؟ اس ‏نے کہا: ہاں، اس نے کہا کہ انہیں ایک شخص ‏سے تولو، میں اس سے تولا گیا تو میں وزنی ہوا، پھر اس نے کہا کہ انہیں دس سے تولو، تو میں ‏ان سے تولا گیا، میں ان پر وزنی ‏ہوا،پھر اس نے کہا کہ انہیں سو سے تولو، میں ان سے تولا گیا، میں ان پر بھی بھاری ہوا، وہ بولا: انہیں ‏ہزار سے تولو، میں ان سے ‏تولا گیا، تو میں ان پر بھی بھاری ہوگیا، گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے مجھ ‏پرگرے پڑتے ہیں تو ان ‏میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم انہیں ان کی پوری امت سے تولو گے تو بھی یہ سب پر بھاری ‏ہوں گے۔(مشکاۃ المصابیح، 2/358، حدیث: 5774)یہ وزنی ہونا نبوت کے وزن سے ہوا، نبوت بڑی وزنی نعمت ہے۔(مراٰةُ المناجيح، 8/40)‏

(2)امتی کے لئے جنت کی خوشخبری:حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہُ عنہ نے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کیا کہ نبیِّ پاک ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمايا: ذَاكَ جِبْرِيلُ اَتَانِي فَاَخْبَرَنِي اَنَّهٗ مَنْ مَاتَ مِنْ اُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه، ‏وَاِنْ زَنَى وَاِنْ سَرَقَ، قَالَ وَاِنْ زَنَى وَاِنْ سَرَقَ ترجمہ: یہ جبریل ہیں جو میرے پاس آئے اور مجھے خوشخبری دی کہ میری اُمّت میں سے ‏جو شخص فوت ہو گیا ‏اور اللہ پاک کا کسی کو شریک نہیں کرتا تھا وہ جنت میں داخل ہوگا، تو میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! اگرچہ وہ ‏چوری اور زنا کرے؟حضور علیہ السّلام نے فرمایا: اگرچہ وہ ‏چوری اور زنا کرے‏۔(دیکھئے: بخاری، 4/179، حدیث: 6268)‏

(3)حضور علیہ السّلام نے شفاعت کو اختیار فرمایا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ اَنْ ‏يُدْخِلَ نِصْفَ اُمَّتِي الجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا یعنی ‏ میرے رب کی طرف سے ‏ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السّلام) میرے پاس آئے اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی اُمت ‏جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا ‏حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص ‏کے لئے ہے ‏جو اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ پاک کے ‏ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ (ترمذی، 4/199، حدیث: 2449)‏

پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم ان احادیث سے سیکھ کر اپنی زندگیوں میں ان تعلیمات کو اپنائیں، تو ہم نہ صرف اپنی دنیا کو ‏بہتر بنا ‏سکتے ہیں بلکہ آخرت کی کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم