اطاعتِ رسول قرآن و حدیث کی روشنی میں:
یَوْمَ تُقَلَّبُ
وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَ
اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا(۶۶)
تَرجَمۂ کنز الایمان: جس دن اُن کے منہ اُلٹ اُلٹ کر آ گ میں تلے جائیں کہتے
ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا
ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا (احزاب
،66)
وَ قَالُوْا رَبَّنَاۤ
اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا(۶۷)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور کہیں گے اے
ہمارے رب ہم اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کے کہنے پر چلے (ف۱۶۳) تو اُنہوں نے
ہمیں راہ سے بہکادیا ( احزاب ، 67)
سنتِ رسول صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم چھوڑ کر
کوئی نیا طریقہ تلاش کرنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں سے زیادہ مغضوب ہے۔
الحدیث:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا
تین آدمی اللہ کے ہاں سب سے زیادہ مغضوب ہیں، حرم شریف کی حرمت
پامال کرنے والا(۲) اسلام میں رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا طریقہ چھوڑ کر جاہلیت کا طریقہ
تلاش کرنے والا۔(۳) کسی مسلمان کا نا حق خون طلب کرنے والا تاکہ اس کا خون بہائے(صحیح بخاری)
رسول اللہ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم نہ ماننے پر دنیا میں عبرتناک سزا
الحدیث :
شرح۔، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
روایت ہے کہ ان کے باپ نے انہیں بتایا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس بائیں ہاتھ سے کھانا کھایا
تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا،
اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس آدمی نے جواب دیا۔ میں ایسا نہیں کرسکتا، آ پ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا۔(اچھا اللہ کرے) تجھ سے ایسا نہ
ہوسکے، اس شخص نے تکبر کی وجہ سے یہ بات کہی تھی (حالانکہ کوئی شرعی عذر نہیں تھا)
راوی کہتے ہیں کہ وہ شخص عمر بھر اپنا
دایاں ہاتھ منہ تک نہ اٹھا سکا۔(صحیح مسلم شریف)
کامیابی پانے ، اچھا ماحول
بنانے، سکون پانے کردار اچھا کرنے کے لیے بہت سے Rolls and regulation بنائے جاتے ہیں تاکہ عمل
کرکے کامیابی پائیں ان طریقوں کے مطابق زندگی گزاریں تاکہ سکون ملے، کردار اچھاہو
معاشرہ اچھا ہو ملک میں امن ہو۔ ہر شعبے میں قانون بنائے جاتے ہیں تا کہ مقصدپورا ہو، کچھ Training دی جاتی ہےاچھےطریقے
سکھائے جاتے ہیں
عقل مند انسان جب کچھ کرنے لگتا ہے تو
Roll`s آداب درست طریقے سکھاتا ہے، عمل کرتا ہی عقل مند افراد سے مشورہ کرتا ہے
تجربات سے فائدہ حاصل کرتا ہے، عوام میں جو عقل والے ہیں ان کی عقل کی جہاں انتہا
ہے End ہے اس سے بہت زياده بلند الله کے ولیوں کی عقل شروع ہوتی ہے اولیا اللہ سے بھی بہت
زیادہ انبیا کرام کی عقل مبارک ہے اور سب کی عقل جمع کی جائے تو بھی ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی عقل مبارک ہے اب غور کیجئے کہ سنتِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم میں
کیسے فوائد ہوں گے اس کی کتنی اہمیت ہے۔
آج کل
آئیڈیل بنانے میں بہت کلام کیا جاتا ہے
اس کے فوائد بیان ہوتے ہیں، سنو میرے اللہ نے سب عقل والوں کو عقل عطا فرمائی اور وہ اپنے پاک
کلام میں ہمارے لیے کیسے آئیڈل کو پسند فرماتا ہے۔ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی میں ہمارے لیے بہترین
نمونہ ہے، صرف نمونہ نہیں صرف بہتر بھی نہیں بلکہ بہترین نمونہ ہے۔جب کہ آج جس کو
اہمیت دی جارہی ہے میری مراد سائنس جب اس
کی Researches اپنے End کو پہنچتی ہیں تحقیق کی تکمیل ہوتی تو بہت
بارہا ایسا ہوا کہ نتیجہ میں پیاری پیاری سنتِ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سامنے آئی۔
شیخ طریقت امیر اہلسنت
حضرت علامہ مولانا ابوالبلال محمد الیاس عطار قادر ی رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ نے اپنی پیاری کتاب نماز کے حکام میں تحریر
فرمایا ایک ڈاکٹر نے اپنے مقالے میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ میں نے ڈپریشن کے
چند مریضوں کے روزانہ پانچ بار منہ د ھولائے کچھ عرصے بعد ان کی بیماری کم ہوگئی، پھر ایسے
ہی مریضوں کے دوسرے گروپ کے روزانہ پانچ بار منہ اور پاؤں دھلوائے تو مرض میں بہت
افاقہ ہوگیا یہی ڈاکٹر اپنے مقالے کے آخر میں اعتراف کرتا ہے، مسلمانوں میں مایوسی
کا مرض کم پایا جاتا ہے کیونکہ وہ دن میں کئی مرتہ ہاتھ منہ اور پاؤں دھوتے (یعنی
وضو کرتے) ہیں
سنت اور بیماریوں سے حفاظت:
امریکن کونسل فار ہوئی کی
سرکردہ بیچرنے کیا خوب انکشاف کیا ہے، کہتی ہے مسلمانوں کو کسی قسم کے کیمیاوی لوشن کی حاجت نہیں
وضو سے انکا چہرہ دھل کر کئی بیماریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
اس جیسی اور بہت سی Descaschas جس ميں سنت مصطفی
صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حکمتیں فوائد ظاہر ہوتے ہیں، یہ تو دنیا میں
فائدے آخرت میں اس کے فوائد بے شمار جتنی Researches ہوں کم اور جگہ بھی کم، لاکھ باتوں کی ایک بات
کیا ہے؟
جسے یہ ملا وہ تو کامیاب:
فرمان انکا جو بے
مثل ولا جواب آداب سکھانے والوں کو آداب سکھانے والے پیارے
آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، کاش
توجہ سے پڑھیں جب اپنے پیارے کا ایس ایم
ایس آئے whatsapp آئے تحرير آئے
تو کیسے
توجہ دیتے ہیں تو غور کرلیجیے یہ فرمان تو
محبوبِ خدا کا ہے،کتنی توجہ سے پڑھنا چاہیے، سمجھنا چاہیے عمل کرنا چاہیے پڑھیے،
جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نےمجھ سے محبت کی وہ جنت
میں میرے ساتھ ہوگا۔
دنيا اور آخرت ميں کاميابی کا طریقہ کاش ہم سمجھیں اپنی جان پے رحم کریں پیارے آقا
کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں، کامیابی سکون عزت راحت ملنے کا ایک نسخہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت
پر عمل ان کی اتباع ہے۔
دنیا کا یہ دستو رہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے تواسی کی ہی اتباع ہوتی ہے کہ میں اس کی ہر ہر ادا کو اپناؤں اور
حضور صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت ایما ن کے کامل ہونے کا سبب ہے اور
محبت کا تقاضاتو یہ تھا کہ ہم حضور علیہ السلام کے ہر قو ل و فعل پر عمل کرتے مگر آج کل بے
باکی کا دور دورہ ہے جہالت دن بدن فروغ پارہی ہے فرائض وسنن کی پابندی تو کجا ان کے بارے میں علم تک حاصل نہیں کیا
جاتا، حالانکہ اسلام میں سنت کی اہمیت ایسے ہے جیسے ستون کی اہمیت عمارت میں سنت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں سنت پر عمل کرنے والوں کو بڑی کامیابی کا مژدہ (خوش
خبری) سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری
کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔ (سورہ احزاب آیت 71)
اور ایک مقام پر ارشاد رب العباد ہے : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو
کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو
تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے
گا ۔
یہ تو تھا قرآن سے سنت کا بیان آئیےاب احادیثِ طیبہ سے سنت کی اہمیت کو
جانتے ہیں۔
۔ حضرت سیدعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک
کے محبوب صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے ہر عمل میں ایک رغبت ہوتی ہے اور ہر رغبت کے لیے سکون ہوتا ہے
تو جس کا سکون میری سنت میں ہو وہ ہدایت
پا گیا اور جس کا سکون میری سنت کے غیر میں ہو تو وہ ہلا ک ہوگیا۔( الاحسان بترتیب
صحیح ابن حبان بالسنة الحدیث ۱۱)
دنیا وآخرت
کی سعادت:
حدیث پاک کے حصے( جس کا سکون میری
سنت میں ہو وہ ہدایت پا گیا)، اس کے تحت علامہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ ہر
وہ شے جس کی طرف وہ متوجہ تھا اور ہر وہ
معاملہ جس میں وہ منہمک تھا اسے ترک کردیا اور سنت نبوی اور طریقہ محمدی میں مشغول ہو گیا تو وہ دنیا اور آخرت میں سعادت مند ہو گیا ۔ (اصلاح
اعمال ص ۴۲ مطبوعہ مکتبہ المدینہ )
دنیا و
آخرت کی ہلاکت :
حدیث پاک کے حصے(جس کا سکون میری سنت کے غیر میں ہو تو وہ ہلا ک ہوگیا) س
کے تحت علامہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یعنی وہ سنت کی چھوڑ دیتا ہے اور
بدعت (سیئہ ) یا کسی دوسرے کام میں مشغول
ہوجاتا ہے اور وہ یوں راہ رسنت سے منہ موڑنے والا بن جاتا
ہے اور جو ایسا کرتا ہے وہ گمراہی
کےسبب ہلاکت میں پڑ جاتا ہے ۔(ایضاً)
۲۔ حضرت ابوہریرہرہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فساد کے وقت میری سنت پر عمل کرنے والے کے لیے
سوشہیدوں کا اجر ہے۔( شفا شریف ج ۲، ص ۱۲ مرکز اہل سنت برکات رضا)
بزرگان دین کے نزدیک
سنت کی اہمیت :
1۔حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے پہلے خطبے میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرتا رہوں تو تم بھی میری اطاعت کرتے رہو اور
جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو اس وقت تم پر میری اطاعت کی کوئی پابندی نہیں (فیضان صدیق اکبر 326)
2۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
سنت پر عمل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں (شفا شریف
،15)
3۔
حضرت عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جس نے اپنے آپ پر سنتِ قولی و فعلی کو حاکم بنایا اس نے حکمت کی باتیں کیں ۔ (ایضا ً)
سنت پر عمل کے فوائد
:
1۔جنت
میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب سنت پر عمل کرنا بھی بیان کیا گیا ہے ۔
2۔
سنت پر عمل کرنے پر اللہ پاک نے
ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔
3
۔ سنت پر عمل کرنا اللہ پاک کی رضا کا بہترین ذریعہ ہے
4۔ ایک مرتبہ
سفر میں آنکھوں کے ایک ڈاکٹر کی ملاقات
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے ہوئی اور اس وقت حضور حافظ
ملت کی عمر شریف 70 سال سے اوپر ہو چکی
تھی ڈاکٹر صاحب باربار آپ کو حیرت سے
دیکھتے رہے دوران ِ گفتگو ڈاکٹر صاحب نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہ مولانا
صاحب اس عمر میں بھی آپ کی بینائی میں کوئی فرق نہیں بلکہ آپ کی آنکھوں میں
بچوں کی آنکھوں جیسی چمک ہے ۔ مجھے بتائے
اس کے لیے آخر کیا چیز استعمال کرتے ہیں
۔فرمایا ڈاکٹر صاحب میں کوئی خاص دوا تو استعمال نہیں کرتا ہاں ایک عمل ہے جسے میں
بلا ناغہ کرتا ہوں رات کو سوتے وقت سنت کے مطابق سرمہ استعمال کرتا ہوں اور میرا
یقین ہے اس عمل سے بہتر آنکھوں کے لئے
دنیا کی کوئی دوا نہیں ہو سکتی ۔ (نیکی کی
دعوت ، 214)
دنیا کا یہ دستو رہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے تواسی کی ہی اتباع ہوتی ہے کہ میں اس کی ہر ہر ادا کو اپناؤں اور
حضور صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت ایما ن کے کامل ہونے کا سبب ہے اور
محبت کا تقاضاتو یہ تھا کہ ہم حضور علیہ السلام کے ہر قو ل و فعل پر عمل کرتے مگر آج کل بے
باکی کا دور دورہ ہے جہالت دن بدن فروغ پارہی ہے فرائض وسنن کی پابندی تو کجا ان کے بارے میں علم تک حاصل نہیں کیا
جاتا، حالانکہ اسلام میں سنت کی اہمیت ایسے ہے جیسے ستون کی اہمیت عمارت میں سنت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں سنت پر عمل کرنے والوں کو بڑی کامیابی کا مژدہ (خوش
خبری) سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری
کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔ (سورہ احزاب آیت 71)
اور ایک مقام پر ارشاد رب العباد ہے : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو
کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو
تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے
گا ۔
یہ تو تھا قرآن سے سنت کا بیان آئیےاب احادیثِ طیبہ سے سنت کی اہمیت کو
جانتے ہیں۔
۔ حضرت سیدعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک
کے محبوب صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے ہر عمل میں ایک رغبت ہوتی ہے اور ہر رغبت کے لیے سکون ہوتا ہے
تو جس کا سکون میری سنت میں ہو وہ ہدایت
پا گیا اور جس کا سکون میری سنت کے غیر میں ہو تو وہ ہلا ک ہوگیا۔( الاحسان بترتیب
صحیح ابن حبان بالسنة الحدیث ۱۱)
دنیا وآخرت
کی سعادت:
حدیث پاک کے حصے( جس کا سکون میری
سنت میں ہو وہ ہدایت پا گیا)، اس کے تحت علامہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ ہر
وہ شے جس کی طرف وہ متوجہ تھا اور ہر وہ
معاملہ جس میں وہ منہمک تھا اسے ترک کردیا اور سنت نبوی اور طریقہ محمدی میں مشغول ہو گیا تو وہ دنیا اور آخرت میں سعادت مند ہو گیا ۔ (اصلاح
اعمال ص ۴۲ مطبوعہ مکتبہ المدینہ )
دنیا و
آخرت کی ہلاکت :
حدیث پاک کے حصے(جس کا سکون میری سنت کے غیر میں ہو تو وہ ہلا ک ہوگیا) س
کے تحت علامہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یعنی وہ سنت کی چھوڑ دیتا ہے اور
بدعت (سیئہ ) یا کسی دوسرے کام میں مشغول
ہوجاتا ہے اور وہ یوں راہ رسنت سے منہ موڑنے والا بن جاتا
ہے اور جو ایسا کرتا ہے وہ گمراہی
کےسبب ہلاکت میں پڑ جاتا ہے ۔(ایضاً)
۲۔ حضرت ابوہریرہرہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فساد کے وقت میری سنت پر عمل کرنے والے کے لیے
سوشہیدوں کا اجر ہے۔( شفا شریف ج ۲، ص ۱۲ مرکز اہل سنت برکات رضا)
بزرگان دین کے نزدیک
سنت کی اہمیت :
1۔حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے پہلے خطبے میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرتا رہوں تو تم بھی میری اطاعت کرتے رہو اور
جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو اس وقت تم پر میری اطاعت کی کوئی پابندی نہیں (فیضان صدیق اکبر 326)
2۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
سنت پر عمل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں (شفا شریف
،15)
3۔
حضرت عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جس نے اپنے آپ پر سنتِ قولی و فعلی کو حاکم بنایا اس نے حکمت کی باتیں کیں ۔ (ایضا ً)
سنت پر عمل کے فوائد
:
1۔جنت
میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب سنت پر عمل کرنا بھی بیان کیا گیا ہے ۔
2۔
سنت پر عمل کرنے پر اللہ پاک نے
ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔
3
۔ سنت پر عمل کرنا اللہ پاک کی رضا کا بہترین ذریعہ ہے
4۔ ایک مرتبہ
سفر میں آنکھوں کے ایک ڈاکٹر کی ملاقات
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے ہوئی اور اس وقت حضور حافظ
ملت کی عمر شریف 70 سال سے اوپر ہو چکی
تھی ڈاکٹر صاحب باربار آپ کو حیرت سے
دیکھتے رہے دوران ِ گفتگو ڈاکٹر صاحب نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہ مولانا
صاحب اس عمر میں بھی آپ کی بینائی میں کوئی فرق نہیں بلکہ آپ کی آنکھوں میں
بچوں کی آنکھوں جیسی چمک ہے ۔ مجھے بتائے
اس کے لیے آخر کیا چیز استعمال کرتے ہیں
۔فرمایا ڈاکٹر صاحب میں کوئی خاص دوا تو استعمال نہیں کرتا ہاں ایک عمل ہے جسے میں
بلا ناغہ کرتا ہوں رات کو سوتے وقت سنت کے مطابق سرمہ استعمال کرتا ہوں اور میرا
یقین ہے اس عمل سے بہتر آنکھوں کے لئے
دنیا کی کوئی دوا نہیں ہو سکتی ۔ (نیکی کی
دعوت ، 214)
سنت کے لغوی معنی سيرت اور رطريقے کے ہیں ، خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا البتہ اہل علم
کے اغراض و مقاصد کے اختلاف کے باعث ان کے ہاں سنت کا مفہوم بھی مختلف ہے، مثلا
علما اصول شرعی دلائل کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں، جب کہ علما حدیث کا مطلوب و
مقصود ہر اس چیز سے شغف ہے جو امام کائنات سے نسبت رکھتی ہو، اور علما ئے فقہ کا
منتہائے مقصود احکام شرعیہ فرض، مستحب، اور حرام وغیرہ کے بارے میں گفتگو کرنا ہوتا ہے، اہل علم
کے انہیں مختلف اغراض و مقاصد کے باعث ان کے ہاں سنت کا اصطلاحی مفہوم بھی مختلف
ہے، علماءِ اصول کے ہاں سنت کا اطلاق ہر اس قول، فعل یا تقریر پر کیا جاتا ہے جو
آنحضرت صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے منقول ہو۔
اکثر علما شافعیہ اور جمہور علما اصول فقہی مفہوم کی نسبت سے مندوب، مستحب
اور نفل وغیرہ پر سنت کا اطلاق کرتے اور
کہتے ہیں کہ سنت سے مراد وہ فعل ہے جس کے کرنے پر انسان کو ثواب ملتا ہے اور نہ
کرنے پر گناہ نہیں ہوتا، علماءِ حدیث کے حالات و واقعات پر بھی ہوتا ہے اوراس معنی
و مفہوم کے اعتبار سے سنت کا لفظ حدیث شریف کے مترادف ہے اور اس وقت ہمارےپیش نظر
بھی سنت کا یہی معنی و مفہوم ہے۔
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔
اللہ عزوجل نے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کو رشد و ہدایت کاسر چشمہ بنا کر بھیجا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے لوگوں کا تعلق اللہ عزوجل سے جوڑا، دنیا اور آخرت کی بھلائی اور جنت کی رہنمائی فرمائی اللہ عزوجل کے احکامات کو اپنی مبارک سنتوں میں ڈال کر مخلوق تک پہنچایا، جس نے آپ کی سنت کی پیروی کی، وہ دارین
کی سعادتیں پا گیا، اور جس نے ان سے منہ
موڑا وہ خائب و خاسر ہوا، کیونکہ آپ علیہ الصلوة والسلام
کی اطاعت اللہ عزوجل کی اطاعت ہے۔
فرمانِ خداوندی ہے: مَنْ
یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم
مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا
۔(النساء 80)
فرمانِ خداوندی ہے: وَ
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے
نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے ۔(النجم: 3،4)
تفسیر روح
البیان میں ہے:
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے بلکہ اللہ عزوجل
حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف جو وحی فرماتا ہے جبرائیل علیہ السلام وہ وحی آپ علیہ السلام تک پہنچا دیتے ہیں۔
حضرت سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، میں تمہیں جو خبر دیتا ہوں
وہ اللہ عزوجل کی طرف سے ہوتی ہے اس میں شک نہیں
ہوتا۔
سیدنا ابوہریرہر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رحمت
عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں
حق بات ہی کہتا ہوں بعض صحابہ کرام نے عرض
کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ ہمارے ساتھ
خوش طبعی بھی فرماتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک ، میں اس وقت بھی حق کے سوا کچھ نہیں بولتا۔ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۳۱)
تَرجَمۂ
کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو
کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ آل
عمران ،31)
آیت و ترجمہ :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
تَرجَمۂ
کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول
اللہ کی پیروی بہتر ہے (احزاب ،21)
حدیث پاک :
تاجدار مدینہ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا:جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے
محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ ( ابن عساکر ج ۹،ص ۳۷۳)
سینہ تیری
سنت کا مدینہ بنے آقا
جنت میں
پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
ایک مسلمان کےنزدیک سنت کی اہمیت کیا ہوتی ہے اسی کا انداز ہ اس حکایت سے لگایا جاسکتا ہے۔
حکایت:
حضرت سیدنا عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ النورانی نقل فرماتے ہیںْ: ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر
شبلی بغدادی علیہ
الرحمہ اللہ الہادی کووضو کے وقت مسواک کی ضرورت ہوئی تلاش کی مگر
نہ ملی، لہذا ایک دینار یعنی ایک سونے کی اشرفی میں مسواک خرید کر استعمال فرمائی،
بعض لوگوں نے کہا یہ تو آپ نے بہت زیادہ خرچ کر ڈالا کہیں اتنی مہنگی بھی مسواک لی
جاتی ہے؟فرما یا:بے شک یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہ
عزوجل کے نزدیک مچھر کے پر برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں ، اگر بروز قیامت اللہ عزوجل نے مجھ سے یہ پوچھ لیا تو کیا جواب دوں گا کہ تو
نے میرے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت (
مسواک) کیوں ترک کی؟ جو مال و دولت میں نے تجھے دیا تھا اس کی حقیقت تو میرے نزدیک
مچھر کے پر برابر بھی نہیں تھی تو آخر ایسی دولت اس عظیم مسواک کو حاصل کرنے پر کیوں
خرچ نہیں کی ؟
اس حکایت سے حاصل ہونے والے مدنی پھول:
ایک مسلمان کو سنت سے ایسی محبت ہو کہ اگر اس کے
بدلے میں اسے اپنی عزیز ترین چیز بھی قربان کرنی پڑی تو اس سے دریغ نہ کرے۔
سنت کی
تعریف :
آقا علیہ
الصلوة والسلام نے جو عمل عادة ًکیا وہ سنت زائدہ ہے جیسے عبادةً
کیا وہ سنت ھدی ہے جسے ہمیشہ کیا وہ سنت
موکدہ ہے جسے کبھی کبھی کیا وہ سنتِ غیر مؤکدہ
ہے اگر ہمیشہ کرکہ تاکیدی حکم بھی دیا تو واجب ہے۔(مراة المناجیح)
جحیت ِسنت پر نص
قرآنی:
قُلْ اِنْ
كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
تَرجَمۂ
کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ
بخشنے والا مہربان ہے (آل عمران ،31)
حدیث پاک :
حضور
علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا میری اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل
کرنا تم پر واجب ہے اس کے ساتھ چمٹے رہو اور دانتوں کے ساتھ اسے مضبوطی سے پکڑ لو
اور دین میں نئی باتیں شامل کرنے سے بچو
کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
بدعت کی
اقسام : بدعت کی دو قسمیں ہیں۔۱۔ بدعت حسنہ ۔ ۲۔ بدًعت سیئہ
ہر وہ طریقہ جو آقا علیہ الصلوة والسلام کے زمانے میں نہ ہو بعد میں ایجاد ہوا ہو اور
شریعت کے خلاف نہ ہو تو بدعت حسنہ ہے، اگر وہ طریقہ شریعت کے خلاف ہو تو بدعت سیئہ
ہے۔
مسئلہ :
بدعت سیئہ سے بچنا ضروری ہے اور بدعت حسنہ پر عمل کرنا مستحب ہے۔
سنتِ رسول صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
فوائد:
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ آقا صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کدو شریف پسند فرماتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ)
کدو شریف کے
طبی فوائد:
کدو بخارزدہ لوگوں کے لیے مفید ہے سرد مزاج لوگوں کو راس نہیں آتا اگر اس کا پانی استعمال کیا جائے یااس سے
سر کو دھویا جائے تو سر درد ختم ہوجاتاہے۔(انتخاب احادیث)
کدو شریف کے
دیگر فوائد:
کدو کے پانی کی کلیاں کرنے سے مسوڑوں کا ورم جاتا رہتا ہے کدو کا چھلکا پیس
کر کھانے سے آنتوں اور بواسیر سے آنے والا خون بند ہوجاتا ہے، کدو کے پتوں کا
جوشاندہ قبض کا آسان علاج ہے کدو کا تیل سر میں ملنے سے نیند آتی ہے کدو آنتوں کی
سوزش اور یرقان کو دور کرتا ہے۔ (فیضانِ طب نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)
آج کی سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ کدو میں مندرجہ بالا خصوصیات پائی
جاتی ہیں جب کہ ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 1400 سال قبل ہی اپنی سنت کے ذریعے بتادیا۔
اللہ عزوجل ہمیں سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
وہ ڈھلتے سورج کو بغور دیکھ رہاتھا ساحل سمندر پر کھڑا وہ شخص بِنا کسی
رہبر و رہنما کے بے آسرا سا لگتا ہے جیسے خود
اعتمادی چھن سی گئی ہو، اپنی تہذیب سے دور
اپنے اسلاف سے دور وہ شخص کس قدر ادھورا تھا بے راہ روی کا شکار وہ شخص منزل کی
جستجو میں تھا مگر کوسوں دور الجھنوں کے شکار میں اس شخص کو جوذرہ قریب جا کے
دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا وہ مسلمان تھا۔
بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ تو وہ ہیں کہ جن پر ان کا رب مہربان ہے جن کا دین،
اسلام اور کتاب، قرآن ہے، وہی تو یہ ہیں کہ جن کے رہبر ورہنما کائنات کی عظیم
ترین شخصیت حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں وہ جن کو مسلمانوں کی مشقت میں پڑنا گراں
گزرتا ہے جو ان کی بھلائی چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان ہیں وہ جن کے اسوہ
کو قران نے بہترین نمونہ قرار دیا۔
پھر آج مسلمان کی یہ بے اعتماد ، الجھنیں اور بے راہ روی کیسی ؟ کہیں ایسا
تو نہیں کہ ہم وہ راہ ہی ترک کرچکے جو کامیابی کی ضامن تھی، کہیں رہنما ان کو تو
نہیں بنا بیٹھے جو خود بے راہ روی کا شکار ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے خود
طریقے ان کے اپنا لیے جو ہم سے ہماری شناخت ہی لے گئے۔
ہر کام کرنے کا ایک کامیاب طریقہ ہوتا ہے منزل پانےکے لیے کامیاب راستے کا
چناؤ کرنا ضروری ہے، اور ضروری ہے اس
شخصیت کے طور طریقے پر چلنا جو غیر معمولی کردار کے حامل وقار ، شجاعت، طاقت ،
سخاوت میں جن کا کوئی ثانی نہیں، جن کی پیروی دنیاو آخرت میں کامیابی کی ضامن ہے،
جن کی سنت تمام پر حاوی ہو۔
سنت کےلغوی معنی فریضہ و عادت ہے اور اصطلاح میں اس سے مراد ہادی برحق صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قول
فعل اور تقریر ہے اسے حدیث بھی کہتے ہیں۔(اصول الشاشی ۹)
یہی وہ طریقہ و عادت ہیں کہ جن کو
اپنانے والے کبھی بھٹکے نہیں بلکہ وہ دنیا کے رہنما ہوئے ان کی خودی، ان کے اوصاف
ان کی شخصیت اپنی مثال آپ ہوئے، انہیں سنت رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم میں سب کچھ ملا ، چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے،فرمانِ
مصطفی صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
جب تین
آدمی سفر پر روانہ ہوں تو وہ اپنے میں سےایک کو امیر بنالیں۔(ابوداد)
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم:
ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرو اس سے کینہ جاتا رہتا ہے اور ہدیہ بھیجو اس
سے آپس میں محبت ہوگی اور دشمنی جاتی رہے گی۔
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم :
مسکرا کر خندہ پیشانی سے بات چیت کرنا سنت ہے۔(
مشکوة)
جب کوئی آئے تو ان کے لیے سرک جانا اور جگہ کشادہ
کرنا سنت ہے ۔(فیضانِ سنت)
مسواک نظر کو
تیز، معدہ کو درست، جسم کو توانا، حافظہ کو مضبوط اور دل کو پاک اور نیکیوں میں
اضافہ کرتی ہے (فیضانِ سنت)
وضو نفسیاتی امراض کا بہترین علاج ہے، (وضو اور
سائنس)
وضو کا بچاہوا پانی پینا ستر امراض سے شِفا
ہےَ(حدیث)
اس کا پہلا اثر مثانے پر پڑتا ہے، پیشاب کی رکاوٹ
دور ہوتی ہے اور پیشاب کھل کر آتا ہے اس سے ناجائز شہوت سے خلاصی حاصل ہوتی ہے،
جگر معدہ اور مثانے کی گرمی دور ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ سنت مصطفی صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ تو
سائنسی دلائل و فوائد کی محتاج ہے اورنہ ہی دنیاوی کامیابیوں کی بلکہ عاشقانِ رسول
کے لیے تو یہی کافی ہونا چاہیے اتباع سنت و اطاعت رسول محبت رسول کی ضامن ہے،
ایمان کے کامل ہونے کی دلیل اور آقا صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت
کا تقاضاہے۔
عقل کو تنقید
سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال
کی بنیاد رکھ
سنت: سنت سے مراد حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
اقوال افعال اور احوال ہیں،لغوی معنی سیرت اور طریقے کے ہیں۔
اصطلاحی
معنی: اصطلاحی معنی میں اس قول کوفعل اور تقریر کہا جاتا
ہے جو رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے منقول ہو۔
سنتِ سلام : سلام کرنا پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بہت پیاری سنت ہے۔
سلام کرنے سے ایک دوسرے سے محبت
بڑھتی ہے
سلام کرنے سے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔
سلام کرنے سے دل کا کینہ وبغض اور حسد جاتا ہے۔
نیز جو ناراض ہو سلام کرنے سے ان کو راضی کیا جاسکتا ہے
سلام کرنے سے دل صاف ہوتے ہیں۔
سلام کرنا نہایت بڑی سنت ہے ۔
سورة النور کی آیت مبارکہ 61 میں اللہ عزوجل فرماتا ہے:فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى
اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةًؕ-
تَرجَمۂ کنز الایمان:
جب کسی گھر میں جاؤ
تو اپنوں کو سلام کرو ملتے وقت کی اچھی
دعا اللہ کے پاس سے مبارک پاکیزہ۔(سورة النور آیت نمبر 61 )
افسوس آج کل ہم مغربی ممالک کی طرح ہیلو، ہائے کرتے نظر آرہے ہیں اور سلام
جیسی پیاری سنت کو ترک کردیا ہے، اس سنت
کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں گھر سے آغاز کرنا چاہیے اپنے گھر میں سب کو سلام کریں،
جتنی بار گھر میں آئیں او رسلام کی سنتیں اور آداب اپنے بچوں کو سکھانی چاہیے تاکہ
سنت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قائم رکھ کر اور اس سے محبت
کرتے ہوئے ایک دوسرے سے تعلقات مضبوط کرکے
نیکی کی دعوت دے سکے۔مصافحہ کرنا سنت ہے کہ مسلمان بھائی مسلمان بھائی سے ملتے وقت
مصافحہ کرے مرد مرد سے اور عورت عورت سے ۔
حدیث میں ہے:
تاجدارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے ملے اور ہاتھ
پکڑے ( یعنی مصافحہ) کرے تو ان دونوں کے
گناہ ایسے گرتے ہیں جیسے تیز آندھی کے دن میں خشک درخت کے پتے
مسکرا
کر دیکھنا: نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنتوں میں ایک اور بہت پیاری سنت مسکرا کر
دیکھنا ہے۔
حدیث پاک میں ہے: اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ
ہے۔(ترمذی، حدیث 1956 )
مسکرانے کے
فوائد:
۱۔ مسکرانے سےعمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
۲۔مسکرانے سے بلڈپریشر کنٹرول ہوتا ہے۔
۳۔ مسکراہٹ سے ڈیپریشن (Depression) دور ہوتا ہے۔
۵۔جب انسان خود مسکراتا ہے
تو دوسروں کو بھی مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔
U۔ سلام کرنا، مصافحہ کرنا، مسکرانا۔ان تینوں
کو قائم رکھ کر معاشرے کے بہترین انسان بن سکتے ہیں اور ثواب کاخزانہ
کماسکتے ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں سنت پرعمل کرنے والا اور
اسے قائم کرنے والا بنادے اور خاتمہ ایمان پر ہو آمین۔
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں
تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے
اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ
کیا جائے۔
سرور
کائنات فخر موجودات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت مبارکہ اور سنتِ مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر فرض وو اجب ہے جیسا کہ فرمان
باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ
كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر
تم اللہ کو دوست رکھتے ہو
تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے
گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(آل
عمران 31)
اس لیے حضور کے پیارے صحابہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر سنت کریمہ کی پیروی کو لازم و ضروری جانتے
اور بال برابر بھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنتوں سے انحراف یا ترک گوار انہ کرتے۔(صحابیات اور عشق رسول ص ۲۴)
وعن ابی ھریرہ
قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم من تمسک بسنتی عندفساد امتی فلہ اجر
مائۃ شہید ۔فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: جس نے میری امت کے بگڑتے و قت میری سنت کو مضبوط
تھاما تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔
حضرت مفتی احمد یار خان اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کیونکہ شہید ایک بار
تلوار کا زخم کھا کر پار ہوجاتا ہے مگر یہ اللہ کا بندہ عمر بھر لوگوں کےطعنے اور زبانوں کے
گھاؤ کھاتا رہتا ہے، اللہ و رسول کی خاطر سب برداشت کرتاہے اس کا یہ جہاد
اکبر ہے جیسے اس زمانے میں داڑھی رکھنا اور سود سے بچنا وغیرہ۔(مراة المناجیح ج۱،
ص ۱۶۱)
جہاں اتباعِ رسول کی رسول کی نیت سے سنت پر عمل آخروی انمول خزانے کے حصول کا سبب ہے وہیں اس
کے بے شمار دنیاوی فوائد بھی ہیں ان میں سے چند پیش ِخدمت ہیں۔
وعن عبداللہ بن
حارث بن جزا قال ما رایت احداً اکثر تبسما
من رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
ترجمہ : میں نے کسی کو نہ دیکھا جو
رسول اللہ سے زیادہ تبسم والا ہو(مراة
المناجیح)
مسکرانا جسم کے علاوہ دماغ کی بھی بہترین دوا ہے، مسکراہٹ پیٹ کے عضلات کی
مالش کرتی ہے اشیا ء کو چمکاتی ہے، یہ بھی
ثابت کیا کہ مسکراہٹ صحت پر اچھے اثرات مرتب
کرتی ہے،( سنت مصطفی و سائنس، ص86)
امام بوصیری قصیدہ بردہ میں فرماتے
ہیں: کانما الولوء المکنون فی صدف من معدین منطق منہ
ومبتسم
آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب مسکراتے ہیں تو گویا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دہن اور لب دوکانیں ہیں جیسے سیپ میں چھپے موتی ہیں ۔(نشان مژدہ ص ۸۶)
مسواک میں منہ کی پاکیزگی اور اللہ کی خوشنودی کاسبب ہے (۴۰ فرامین مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم ۶۳)
جدید تحقیق کے مطابق مسواک سے ہر قسم کے وائرس اور کیڑوں کا خاتمہ ہوجاتا
ہے جب کہ حلق اور سانس کی نالی اور غذا کی
نالی میں کسی قسم کا انفکشن نہیں ہوتا۔( سنت مصطفی و سائنس، ص 17)
رب کو راضی کرنے والی ہے مسواک
منہ پاکیزہ کرنے والی ہے مسواک
وعن عائشہ قالت
کان فراش رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الذی ینام علیہ ادما حشوہ لیف
رسول
اللہ کا وہ بستر
جس پر آپ سوتے تھے چمڑے کا تھا جس کا بھراؤ کھجور کا لیف تھا۔(مراة المناجیح ، ج
۶،ص ۸۶)
جدید تحقیق کے مطابق آرام دہ بستر کے استعمال سے
عضلات ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور زندگی کے معمولات میں سستی آجاتی ہے بہت زیادہ نرم بستر گردوں پر برا اثر ڈالتے ہیں، یہ ریڑھ
کی ہڈی کے لیے نقصان دہ ہیں، ۔(سنت ِمصطفی و سائنس ص ۱۷)
امام بوصیری قصیدہ بردہ میں فرماتے ہیں:لاطیب یعدل ترباً فمَّ اعظمہ طوبیٰ لمنتشق منہ و ملتثم
ترجمہ: کوئی
خوشبو اس مٹی کے برابر نہیں ہوسکتی جو جسد مبارک کو چھو رہی ہے مبارک ہیں اس (خاک)
کو چومنے و سونگھنے والے( نشان مژدہ ، ص
87)
سبحان اللہ امیر
اہلسنت کا سنتوں پر عمل کرنے کا کس قدر جذبہ اور سنت رسول سے آپ کو کس قدر عشق ہے
اس واقعہ سے ملاحظہ فرمائیں۔
امیر اہلسنت کے کرتے میں سینے کی طرف دو جبیں ہوتی
ہیں مسواک شریف رکھنے کے لیے آپ اپنے الٹے ہاتھ والے جیب کے برابرایک چھوٹی سی جیب
بنواتے ہیں اس کا سبب آپ نے یہ ارشاد فرمایا میں چاہتا ہوں کہ یہ آلہ ادائے سنت
میرے دل سے قریب رہے۔ (فکر مدینہ مع41
حکایات عطاریہ ، ص ۱۲۱)
تیری سنتوں
پہ چل کے میرا دم جب نکل کےچلے تم
گلے لگانا مدنی مدینے والے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو راعنانہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر
رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں
کے لیے دردناک عذاب ہے (البقرہ ،104)
حدیث مبارکہ:
فرمان مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی
اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(پنجسورہ)
اے عاشقانِ رسول !سنت کی اہمیت کے بہت فضائل ہیں، سنت کی اہمیت پر اس بات
سےاندازہ لگایا جاسکتا ہے ، سنت پر عمل کی برکت سے کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں، سنت
پر عمل کی برکت سے بندے کے اندر اچھی عادتیں پیدا ہوتی ہیں، سنت پر عمل کی برکت سے ثواب کا بھی انبار لگ جاتا
ہے، اور آخرت میں بھی کامیابی کا سبب ہے، سنت پر عمل کی برکت سے نبی پاک صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خوش
ہوتے ہیں اور مدینے کا بلاوا بھی آجاتا ہے۔
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں
تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے
اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب “ کا مطالعہ
کیا جائے۔