وہ ڈھلتے سورج کو بغور دیکھ رہاتھا ساحل سمندر پر کھڑا وہ شخص بِنا کسی
رہبر و رہنما کے بے آسرا سا لگتا ہے جیسے خود
اعتمادی چھن سی گئی ہو، اپنی تہذیب سے دور
اپنے اسلاف سے دور وہ شخص کس قدر ادھورا تھا بے راہ روی کا شکار وہ شخص منزل کی
جستجو میں تھا مگر کوسوں دور الجھنوں کے شکار میں اس شخص کو جوذرہ قریب جا کے
دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا وہ مسلمان تھا۔
بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ تو وہ ہیں کہ جن پر ان کا رب مہربان ہے جن کا دین،
اسلام اور کتاب، قرآن ہے، وہی تو یہ ہیں کہ جن کے رہبر ورہنما کائنات کی عظیم
ترین شخصیت حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں وہ جن کو مسلمانوں کی مشقت میں پڑنا گراں
گزرتا ہے جو ان کی بھلائی چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان ہیں وہ جن کے اسوہ
کو قران نے بہترین نمونہ قرار دیا۔
پھر آج مسلمان کی یہ بے اعتماد ، الجھنیں اور بے راہ روی کیسی ؟ کہیں ایسا
تو نہیں کہ ہم وہ راہ ہی ترک کرچکے جو کامیابی کی ضامن تھی، کہیں رہنما ان کو تو
نہیں بنا بیٹھے جو خود بے راہ روی کا شکار ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے خود
طریقے ان کے اپنا لیے جو ہم سے ہماری شناخت ہی لے گئے۔
ہر کام کرنے کا ایک کامیاب طریقہ ہوتا ہے منزل پانےکے لیے کامیاب راستے کا
چناؤ کرنا ضروری ہے، اور ضروری ہے اس
شخصیت کے طور طریقے پر چلنا جو غیر معمولی کردار کے حامل وقار ، شجاعت، طاقت ،
سخاوت میں جن کا کوئی ثانی نہیں، جن کی پیروی دنیاو آخرت میں کامیابی کی ضامن ہے،
جن کی سنت تمام پر حاوی ہو۔
سنت کےلغوی معنی فریضہ و عادت ہے اور اصطلاح میں اس سے مراد ہادی برحق صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قول
فعل اور تقریر ہے اسے حدیث بھی کہتے ہیں۔(اصول الشاشی ۹)
یہی وہ طریقہ و عادت ہیں کہ جن کو
اپنانے والے کبھی بھٹکے نہیں بلکہ وہ دنیا کے رہنما ہوئے ان کی خودی، ان کے اوصاف
ان کی شخصیت اپنی مثال آپ ہوئے، انہیں سنت رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم میں سب کچھ ملا ، چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے،فرمانِ
مصطفی صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
جب تین
آدمی سفر پر روانہ ہوں تو وہ اپنے میں سےایک کو امیر بنالیں۔(ابوداد)
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم:
ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرو اس سے کینہ جاتا رہتا ہے اور ہدیہ بھیجو اس
سے آپس میں محبت ہوگی اور دشمنی جاتی رہے گی۔
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم :
مسکرا کر خندہ پیشانی سے بات چیت کرنا سنت ہے۔(
مشکوة)
جب کوئی آئے تو ان کے لیے سرک جانا اور جگہ کشادہ
کرنا سنت ہے ۔(فیضانِ سنت)
مسواک نظر کو
تیز، معدہ کو درست، جسم کو توانا، حافظہ کو مضبوط اور دل کو پاک اور نیکیوں میں
اضافہ کرتی ہے (فیضانِ سنت)
وضو نفسیاتی امراض کا بہترین علاج ہے، (وضو اور
سائنس)
وضو کا بچاہوا پانی پینا ستر امراض سے شِفا
ہےَ(حدیث)
اس کا پہلا اثر مثانے پر پڑتا ہے، پیشاب کی رکاوٹ
دور ہوتی ہے اور پیشاب کھل کر آتا ہے اس سے ناجائز شہوت سے خلاصی حاصل ہوتی ہے،
جگر معدہ اور مثانے کی گرمی دور ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ سنت مصطفی صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ تو
سائنسی دلائل و فوائد کی محتاج ہے اورنہ ہی دنیاوی کامیابیوں کی بلکہ عاشقانِ رسول
کے لیے تو یہی کافی ہونا چاہیے اتباع سنت و اطاعت رسول محبت رسول کی ضامن ہے،
ایمان کے کامل ہونے کی دلیل اور آقا صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت
کا تقاضاہے۔
عقل کو تنقید
سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال
کی بنیاد رکھ