علی شان (درجہ ثانیہ مرکزی
جامعۃالمدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)
نصیحت کا مطلب
ہمدردی اور خیر خواہی کرناہے۔ہر نبی علیہ
السلام نے اپنے دورِ نبوت میں اپنی قوم کی
بھلائی کے لیے مختلف نصیحتیں کیں۔ان میں سے چند انبیاءکرام علیہ السلام کی نصیحتوں
کو قرآن کریم نے بیان کیا ہےان میں سے حضرت ھود علیہ السلام کی چند نصیحتوں کو ذیل
میں بیان کیا جاتا ہے۔
(1)
دعوتِ دین: حضرت ھود علیہ السلام
نے جو نصیحت فرمائی قرآن پاک میں اس کا ایسے تذکرہ آیا ہے: قَالَ یٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ترجمۂ
کنز الایمان: کہااے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔ (سورۃالاعراف 65)
(2)
کفار کے ردِ عمل پر جواب: جب ھود
علیہ السلام نے اپنی قوم کو وحدانیت کی دعوت دی تو کفار نے کہا کہ آپ ہمیں حماقت
کا شکار لگتے ہیں کہ باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر دوسرے دین کو مانتے ہیں۔ اس پر
حضرت ھود علیہ السلام نے جواب دیا اس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے : اَوَ
عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ ترجمۂ
کنز الایمان: اور کیا تمہیں اس کا اچنبھا
ہوا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک مرد کی معرفت
کہ وہ تمہیں ڈرائے۔ (سورۃالاعراف69)
(3)
انعامات یاد دلا کر نصیحت: حضرت
ھود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ پاک کے
انعامات یاد کرواکر نصیحت کی کہ اس وقت کو یاد کرو جب اللہ پاک نے
تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور
تمہیں زیادہ قوت و طاقت دی تو تمہیں چاہیے کہ ان نعمتوں کو یاد کرو اور شکرانے کے
طور پر ایمان لا کر اللہ پاک کی عبادت کرو
تاکہ فلاح حاصل کر سکو۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَ
اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی
الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جانشین کیا
اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا
ہو۔ (الاعراف 69)
(4) بُرے معمولات پر
نصیحت: حضرت ھود علیہ السلام کی
قوم کا معمول تھا کہ وہ بلند عمارات بناتے اور لوگوں کو نا حق تنگ کرتے اور غرور و
تکبر کے باعث بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے چنانچہ انہیں نصیحت کرتے ہوئے حضرت ھود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً
تَعْبَثُوْنَ(۱۲۸) وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ
تَخْلُدُوْنَۚ(۱۲۹) وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَۚ(۱۳۰) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۳۱) وَ اتَّقُوا الَّذِیْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا
تَعْلَمُوْنَۚ(۱۳۲) اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَۚۙ(۱۳۳) وَ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۚ(۱۳۴) اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ
عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍؕ(۱۳۵)
ترجمۂ کنز الایمان : کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو راہ گیروں
سے ہنسنے کو۔اور مضبوط محل چنتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے۔ اور جب کسی پر
گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہو۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو.اور
اس سے ڈرو جس نے تمہاری مدد کی ان چیزوں سے کہ تمہیں معلوم ہیں ۔تمہاری مدد کی
چوپایوں اور بیٹوں ۔اور باغوں اور چشموں سے۔بیشک مجھے تم پر ڈر ہے ایک بڑے دن کے
عذاب کا۔ (سورۃالشعرآء: 128تا135)
محمد
سلمان الحنفی (درجۂ رابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور،
پاکستان)
انسانی زندگی
میں نصیحت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ بزرگوں کی نصیحتوں کے بغیر حالات کی تاریکیوں
سے بچنا ناممکن سا ہے۔ زندگی میں کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جو اس کی خوشبو سے محروم
رہے ہوں۔ انبیاء کرام علیہم السلام صف اول کی ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قوموں
کو نصیحتوں کے پھول عطا کیے جن لوگوں نے ان کی نصیحتوں کو اپنے سینے سے لگایا وہ
ابدی نعمتوں سے سرفراز ہوئے اور مخالفت کرنے والے دردناک عذاب کے مستحق ہوئے۔ حضرت
ہود علیہ السلام کی کچھ نصیحتیں جو انہوں نے اپنی قوم عاد کو کیں آئیے ملاحظہ
کیجیئے:
(1)
ایک معبود کی عبادت : حضرت ہود
علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ایک الله کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ
تمہارا کوئی معبود نہیں جیسا کہ الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ
اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ترجمۂ کنز
الایمان: اور عاد کی طرف ان کی برادری سے
ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں
تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔(پ8،اعراف:65)
(2)
الله سے ڈرنا : حضرت ہود علیہ
السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ الله تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِذْ قَالَ
لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(124)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(125)فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ (126) ترجمۂ کنز الایمان: جب کہ ان سے ان کے ہم قوم ہود نے فرمایا کیا تم
ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور
میرا حکم مانو۔(پ19، الشعراء124-126)
تفسیر:
خلاصہ یہ ہے
کہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ’’عاد‘‘ نے انہیں اس وقت جھٹلایا جب آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: تم جس کفر و شرک
میں مبتلا ہو،کیا اس پر تم اللہ تعالٰی کے
عذاب سے ڈرتے نہیں ۔بیشک میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک ایسا رسول ہوں جس کی امانت
داری تم میں مشہور ہے اور میں اللہ تعالٰی کی وحی کا امین ہوں تو تم مجھے جھٹلانے
میں اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں تمہیں جو حکم دوں اس میں میری
اطاعت کرو۔ (صراط الجنان 7 /128، مکتبۃ المدینہ)
(3)
استغفار کرنا : حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اپنی
خطاؤں پر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرو جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ یٰقَوْمِ
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ
مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا
مُجْرِمِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم اپنے رب سے
معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ تم پر زور کا پانی بھیجے گا اور تم میں جتنی
قوت ہے اس سے اور زیادہ دے گا اور جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو۔(پ12، ھود52)
تفسیر:
جب قومِ عاد
نے حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت قبول نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے کفر کے سبب
تین سال تک بارش موقوف کردی اور نہایت شدید قحط نمودار ہوا اور اُن کی عورتوں کو
بانجھ کردیا، جب یہ لوگ بہت پریشان ہوئے تو حضرت ہود علیہ السلام نے وعدہ فرمایا
کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول کی تصدیق کریں اور اس کے
حضور توبہ و اِستغفار کریں تو اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا اور اُن کی زمینوں کو
سرسبز و شاداب کرکے تازہ زندگی عطا فرمائے گا اور قوت و اَولاد دے گا۔(صراط الجنان
4/ 450-451،مکتبۃ المدینہ)
حضرت نوح علیہ
السلام کے برسوں بعد اللہ تعالی نے ایک قوم پیدا فرمائی جسے اس زمانے میں
"قوم عاد" کہا جاتا تھا۔یہ لوگ ،طاقتور، بڑے قد اور لمبی عمروں والے
تھےلیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکار تھے۔ گمراہیوں کی تاریکیوں میں
بھٹکنے والی اس قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے اللہ تعالی نے اس قوم سے حضرت ہود
علیہ السلام کو رسول بنا کر ان کی طرف بھیجا۔آپ علیہ السلام نےقوم عاد کو جو
نصیحتیں کی اللہ تعالی نے ان کو قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے۔آئیے چند نصیحتیں
ملاحظہ فرماتے ہیں:
(1)
وحدانیت الہی پر ایمان لانے کی نصیحت : آپ علیہ السلام نے قوم عاد کو اللہ تعالی کی
وحدانیت پر ایمان لانے، اللہ تعالی سے ڈرنے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کا حکم
دیا۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: قَالَ
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
ترجمہ کنزالایمان: کہا اے میری قوم
اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔ ( الاعراف:65)
(2)
انعامات الہی یاد دلا کر نصیحت : آپ علیہ السلام نے قوم کو انعامات الہی یاد دلا
کر نصیحت کی ،چنانچہ فرمایا:اے میری قوم! اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد کرو اور
شکرانے میں ایمان لاؤ اور بندگی کا راستہ اختیار کرو ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: وَ
اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی
الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ ترجمہ
کنزالایمان: اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جانشین کیا اور تمہارے بدن کا
پھیلاؤ بڑھایا تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو۔ ( الاعراف:69)
(3)
عذاب سے ڈرا کر قوم کو نصیحت : آپ
علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو مجھے خوف ہے کہ تم
پر عذاب نہ آجائے۔جیسا کہ قرآن پاک میں
ہے: اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَؕ-اِنِّیْۤ
اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ترجمہ کنزالایمان: کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پُوجو بیشک مجھے تم پر
ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔ (پ26،الاحقاف:21)
(4)
قوم پر قحط سالی کا عذاب اور حضرت ہود
علیہ السلام کی نصیحت : جس
وقت قوم ہود کی سرزمین پر بارش نہ ہونے کے سبب شدید قحط پڑ
گیاتو آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اگر تم بارگاہ الہی میں گناہوں سے سچی توبہ
کرو تو اللہ تعالی موسلا دھار بارش سے تمہاری زمینوں کو سرسبز و شاداب کردے گا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں
ہے: یٰقَوْمِ
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ
مِّدْرَارًا ترجمہ
کنزالایمان: اے میری قوم اپنے رب سے معافی
چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ تم پر زور کا پانی بھیجے گا ۔ (پ12،ہود:52)
(5)
اللہ تعالی سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کرنے
کی نصیحت : آپ علیہ السلام نے اپنی
قوم سے فرمایا:بیشک میں اللہ تعالیٰ کا امانت دار رسول ہوں میری
اطاعت کرو اور اللہ تعالٰی سے ڈرو ۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: اِنِّیْ
لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(125)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنزالایمان: بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (پ19،الشعراء:125تا126)
نوٹ :
یاد رہے قوم
عاد دو ہیں : عاد اولیٰ یہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے اور یہ یمن
میں آباد تھے اور عاد ثانیہ،یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے،
اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ اولی
مراد ہے ۔ (تفسیر روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: 65، 3/ 175)
زین
علی خالد (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ
فیضان جمال مصطفی ڈیرہ گجراں لاہور ، پاکستان)
اللہ پاک کی
عبادت اور اطاعت انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہے۔ دنیا کی رنگینیوں اور نفس و
شیطان کے ورغلانے سے یہ مقصد نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس مقصد کو یاد دلانے اور
انسان کو سیدھی راہ پر چلانے کیلئے اللہ کریم نے
مختلف زمانوں میں کئی انبیائے کرام
بھیجے۔ انبیائے کرام انسان کو اس کے مقصدِ حقیقی کی پہچان کرواتے اور اس کی ہدایت
و رہنمائی فرماتے۔ یہ انبیاء مختلف زمانوں میں مخصوص قوموں اور ملکوں کی طرف بھیجے
گئے ان ہی انبیاء میں سے ایک حضرت ہود علیہ
السلام بھی ہیں ۔
حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کا مختصر
تعارف: حضرت ہود علیہ السلام حضرت
نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد میں سے ہیں آپ علیہ السلام کو قوم عاد کی
طرف بھیجا گیا اس قوم کو قوم عاد، اس قوم کے
والد یا بادشاہ کی نسبت سے کہا جاتا ہے، روئے
زمین پر عاد کے نام کی دو قومیں گزری ہیں (1) عاد اولیٰ: یہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے (2) عاد ثانیہ :
یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے جو کہ قومِ ثمود کی نام کے ساتھ مشہور ہے۔ (سیرت
الانبیاء صفحہ 204،206 اقتباساً) حضرت ہود
علیہ السلام کی قرآن پاک میں مذکور چند نصیحتیں یہ ہیں :
(1)
شرک سے روکنا: آپ علیہ السلام نے
اپنی قوم کو بتایا کہ وہ شرک کرکے اللہ پاک کی ذات پر بہتان عظیم باندھنے کے مرتکب
ہورہے ہیں لہذا اس سے بچیں قرآن پاک میں یہ بیان اس انداز کے ساتھ وارد ہوا ۔ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا
لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ ترجمہ کنز العرفان : فرمایا: اے میری قوم! اللہ
کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، تم تو صرف بہتان لگانے والے ہو۔ (پارہ 12 ، سورہ ھود ، آیت نمبر 50)
(2)
خوف خدا اور اپنی اطاعت کی نصیحت: حضرت
ھود علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنز العرفان : تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (پارہ 19 ، سورہ شعراء ، آیت نمبر 126)
(3)
اللہ پاک کی عبادت کی نصیحت: قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ترجمہ
کنز العرفان : ( ہود نے) فرمایا: اے میری
قوم ! اللہ کی عبادت کرو (پارہ 8 ، سورہ اعراف ، آیت نمبر 65)
(4)
توبہ و استغفار کی نصیحت : جب قومِ
عاد نے حضرت ہود علیہ السّلام کی دعوت قبول نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے
کفر کے سبب تین سال تک بارش مَوقوف کردی اور نہایت شدیدقحط نمودار ہوا اور اُن کی
عورتوں کوبانجھ کردیا ، جب یہ لوگ بہت پریشان ہوئے تو حضرت ہود علیہ
السّلام نے انہیں بارگاہِ رب غفار میں توبہ و استغفار کی نصیحت کرتے ہوئے
فرمایا : وَ
یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ ترجمہ کنز العرفان : اور اے میری قوم! تم اپنے رب سے معافی مانگو پھر
اس کی بارگاہ میں توبہ کرو ۔ (پارہ 12، سورہ
ھود ، آیت نمبر 52)
محمد
عامر بن محمد یعقوب (درجۂ سادسہ جامعۃُالمدینہ گلزارِ حبیب سبزہ زار لاہور)
حضرت ہود علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ قراٰنِ کریم میں ان کی نصیحتوں اور ان کی
قوم کے ساتھ مکالمے کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت ہود علیہ السّلام نے اپنی قوم
کو توحید، ایمان، نیک اعمال کی طرف بلایا اور انہیں گمراہی سے باز رہنے کی نصیحت
کی۔ ان کی چند نصیحتیں درج ذیل ہیں:
توحید کی دعوت: حضرت ہود علیہ السّلام نے اپنی قوم عاد
کو اللہ کی وحدانیت کی طرف
بلایا، جیساکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ
غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵)﴾
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔(پ8، الاعراف:65)
قومِ عاد نے رسالت کو جھٹلایا: حضرت ہود علیہ
السّلام نے جب اپنی قوم کو ایمان کی
دعوت دی اور اپنے رسول ہونے کا بتایا تو قومِ
عاد نے آپ کو رسول ماننے سے انکار کردیا، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿كَذَّبَتْ عَادُ اﰳلْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۲۳) اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ
هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۲۴) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۲۵) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِۚ(۱۲۶)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: (قومِ)
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا جب کہ ان سے ان کے ہم قوم ہود نے فرمایا کیا تم ڈرتے
نہیں بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم
مانو۔ (پ19، الشعرآء:123تا126)
مغروری اور سرکشی سے روکا: حضرت ہُود علیہ السّلام نے اپنی قوم کو سرکشی اور غرور سے
روکا۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَۚ(۱۲۹) وَاِذَا
بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَۚ(۱۳۰)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور مضبوط محل
چنتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی
سے گرفت کرتے ہو۔(پ19، الشعرآء: 129، 130)
اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی تاکید: آپ نے اپنی قوم کو اللہ پاک کی عطا کردہ
نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی تاکید کی۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَاذْكُرُوْۤا اِذْ
جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی
الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹) ﴾ ترجَمۂ کنزالایمان:
اور کیا تمہیں اس کا اچنبھا (تعجب) ہوا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی
طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک مرد کی معرفت کہ وہ تمہیں ڈرائے اور
یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جانشین کیا اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا تو
اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا ہو۔(پ8، الاعراف:69)
اللہ کے عذاب سے ڈرایا: حضرت ہود علیہ السّلام نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے
ڈرایا اور کہا کہ اگر وہ راہِ راست پر نہیں آئیں گے تو ان پر بھی عذاب نازل ہوگا۔ اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ
اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا
تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰)
قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ
رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّغَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ
اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ
سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱) فَاَنْجَیْنٰهُ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ
بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَمَا
كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: بولے کیا تم ہمارے
پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے
باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو کہا ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور
غضب پڑ گیا کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑرہے ہو
جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ
نے ان کی کوئی سند نہ اُتاری تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں تو ہم نے
اُسے اور اس کے ساتھ والوں کو اپنی ایک بڑی رحمت فرما کر نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان والے نہ تھے۔(پ8، الاعراف: 70تا72)