
نفسا نفسی
کا دور ہے اور حالات ناگفتہ بہ ہو گئے ہیں دن بہ دن دین سے دوری ہے اور دنیا کے لیے
انسان کی بھاگ دوڑ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے روزانہ انسان اس کے لیے کوشش کل سے زیادہ
کر رہا ہوتا ہے پہلے کے بزرگوں نے بھی اس بارے میں اپنا درد بیان فرمایا ہے چنانچہ،
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کے احوال کا جائزہ لیا تو بڑا ہی عجیب معاملہ
پایا کہ وہ گھروں کے برباد ہونے پر تو روتے ہیں، پیاروں کی موت پر اہیں بھرتے ہیں،
معاشی تنگدستی (روزی روزگار کی کمی) پر افسوس
کرتے ہیں حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی عمارت گر رہی ہے،دین ٹکڑوں میں ہو چکا
ہے،سنتیں مٹ رہی ہیں،خرافات کا غلبہ ہے، گناہوں کی کثرت ہے، لیکن ان میں سے اپنے دین
کے لیے رونے والا کوئی نہیں ہے میں اس سب کا ایک ہی سبب دیکھتا ہوں کہ دین ان کی نظروں
میں ہلکا ہو گیا ہے معاذ اللہ اور دنیا ان کی نظروں کا محور بن چکی ہے۔
آئیے!
دین سے دوری کے چند وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
1۔ بری صحبت دین سے دوری کی وجوہات میں شامل
ہے بد مذہبوں بے دینوں سے میل جول رکھنا ان
کے ساتھ کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا انسان کی صحبت پر برا اثر رکھتا ہے مشاہدہ ہے کہ اچھی
صحبت سے زیادہ بری صحبت جلدی اثر کرتی ہے اور اہستہ اہستہ انسان ان کے رنگ میں رنگنا شروع ہو جاتا ہے اور دین سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک
میں ہے: ان یعنی بد مذہبوں سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمہیں گمراہ
نہ کر دیں، وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (مسلم، ص 13،
حدیث:7) اس سے بچنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ نیک
صالح عاشقان رسول کی صحبت اختیار کی جائے اور اس کا بہترین ذریعہ دعوت اسلامی کا مہکتا
مہکتا مدنی ماحول ہے۔
2۔ مال
جمع کرنے کی حرص میں لگے رہنا مال جمع کرنے کی حرص میں لوگ کاروبار میں مشغولیت کے
سبب نماز پڑھنے میں کوتاہی کرتے ہیں ان کا مقصد صرف مال کا جمع کرنا ہوتا ہے مال کو
بچانے اور اس کی حفاظت کرنے میں لوگوں کا سکون تک برباد ہو جاتا ہے مال حاصل کرنے میں
وہ فرائض و واجبات کو ترک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان حقیقت نشان ہے: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں
بھی ہوں تو تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر
سکتی ہے۔ (مسلم، ص 521، حدیث: 116)
3۔ محبت دنیا بھی دین سے دوری کی بہت بڑی اور
اہم وجہ ہے کہ دنیا میں حد سے زیادہ مشغولیت آخرت سے غافل کرنے کا سبب ہے لہو و لعب
(کھیل کود) اور فضولیات میں کثرت سے مشغولیت میں پڑے انسان کے دل سے اپنا قیمتی وقت
ضائع ہونے کا احساس جاتا رہتا ہے دنیا کی وہ محبت جو اخروی نقصان کا باعث ہو قابل مذمت
اور بری ہے دنیا سے محبت کرنے والوں کی مذمت میں سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: چھ چیزیں
عمل کو ضائع کرتی ہیں: 1)مخلوق کے عیوب
کی ٹوہ میں لگے رہنا۔ 2)دل کی سختی۔ 3)دنیا کی محبت۔ 4)حیا
کی کمی۔ 5)لمبی امید۔ 6)حد
سے زیادہ ظلم۔ (کنز العمال، 16/36، حدیث: 44016) اس سے بچنے کے لیے آخرت کو یاد کیجئے
تاکہ دنیا اور اس کے ساز و سامان کی محبت دل سے نکلے۔
4۔ موبائل
فون کا غلط استعمال کرنا بد مذہبوں کی تقریبات میں شرکت کرنا یا ٹی وی انٹرنیٹ یا سوشل
میڈیا کے ذریعے ان کی گفتگو وہ تقریر سننا کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث
کی وضاحت کرنے کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیتا ہے اور مشاہدہ
ہے کہ وہ باتیں اور تقریر سننے والے کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں اور وہ خود بھی گمراہ
ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے صرف صحیح العقیدہ سنی علمائے کرام کے بیانات سنے جائیں۔
دین سے
دوری کی وجوہات از بنت ارشد محمود، جامعۃ المدینہ
چباں فیصل آباد

دینی امور
میں غفلت سے مراد وہ بھول ہے جو انسان پر بیدار مغزی اور احتیاط کی کمی کے باعث طاری
ہوتی ہے۔ (1)
علم دین
کی اہمیت و فضیلت مسلم ہے قرآن و حدیث کے صفحات علم دین کی فضیلت سے بھرے پڑے ہیں لیکن
ان فضائل کے باوجود بھی آج معاشرہ علم دین سے کوسوں دور ہوتا جا رہا ہے۔ اور دن بہ دن علم دین سے دوری میں اضافہ ہوتا جا رہا
ہے اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ صحیح
کلمہ پڑھنا نہیں جانتا، طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتا ہے، اسلام کی
بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتا۔
دین سے دوری کی کئی وجوہات ہیں یہاں پر چند بیان کی
جاتی ہیں:
1۔ دنیاوی
علم حاصل کرنے میں رغبت رکھنا مسلم معاشرہ آج دینی تعلیم کو حاصل کرنے میں دلچسپی کی
بجائے سارا زور صرف اور صرف عصری علوم کو حاصل کرنے پر لگا رہا ہے۔ اعلی نوکری اور
عمدہ جاب کے چکر میں دین و شریعت کی پاسداری کا لحاظ بھی بھلا بیٹھا ہے۔ بے شک دنیاوی
تعلیم کا حصول شریعت میں منع نہیں ہے لیکن شریعت کو پس پشت ڈال کر دینی تعلیم سے یکسر غافل ہو کر زندگی گزارنا دنیا
میں بھی نقصان دہ ہے اور آخرت میں بھی نقصان دہ ہے۔
اعلیٰ
حضرت فرماتے ہیں: دین کے ضروری علوم سے غافل ہو کر دنیاوی علوم میں مشغول ہونا حرام
ہے۔ (2)
2۔ ہر
وقت مال جمع کرتے رہنے کا مذموم جذبہ بھی علم حاصل کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
(3) انسان ہمیشہ حریص ہی رہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کثرت مال و دولت ہو اور
اس میں وہ یہ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ مال حلال طریقے سے حاصل کرتا ہے یا حرام طریقے سے۔
3۔ بعض
لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کن کن چیزوں کا علم سیکھنا فرض ہے بنیادی عقائد کے مسائل
سے لاعلمی اور نماز اور روزے کے درست مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا۔
امیر اہل
سنت اپنی کتاب میں ایک جگہ فرماتے ہیں: حسب حال (یعنی اپنی موجودہ حالت کے مطابق) فرض
علوم نہ جاننا گناہ اور نہ جاننے کے سبب گناہ کر گزرنا گناہ در گناہ و حرام و جہنم
میں لے جانے والا کام ہے۔ (4)
رسول اللہ
صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو علم حاصل
نہ کرے اور اس کے لیے بھی ہلاکت ہے جو علم حاصل کرے پھر اس پر عمل نہ کرے۔ (5)
4۔ شیطان
جس قدر دشمنی علم سے رکھتا ہے اور کسی چیز
سے نہیں رکھتا اور سب سے زیادہ وسوسے بھی علم سے روکنے کے لیے دل میں ڈالتا ہے۔ (6)
اللہ پاک
قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے! داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے
پورے اور نہ پیروی کرو شیطان کے قدموں (یعنی راستوں) کی بے شک وہ تمہارے لیے کھلا دشمن
ہے۔ (7) اس کی تفسیر میں قرطبی میں ہے: اس راستے پر نہ چلو جس کی طرف تمہیں شیطان بلا
رہا ہے۔ (8)
اور حضرت
قتادہ فرماتے ہیں: ہر گناہ خطوت شیطان میں
سے ہے۔ (9)
شیطان
کو انسان کا دشمن قرار دیا گیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اسے دشمن ہی سمجھیں۔
امیر اہل
سنت فرماتے ہیں کہ منجیات اور مہلکات منجیات یعنی نجات دلانے والے اعمال مہلکات یعنی
ہلاکت میں ڈالنے والے اعمال کا علم سیکھیں گے تو شیطان کا بھرپور مقابلہ ہو سکے گا۔
(10)
5۔ انٹرنیٹ
اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال اور بد مذہبوں کا اس بارے میں کردار
علم سیکھنے
سے دور کرنے میں ان چیزوں کا بھی بڑا کردار ہے کہ لوگ ان چیزوں کے غیر ضروری اور حد
سے زیادہ استعمال میں پڑ کر اپنا اپنا قیمتی وقت فضولیات کی نظر کر رہے ہیں اور لوگ
انٹرنیٹ وغیرہ سے علم دین حاصل کر رہے ہیں حالانکہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ وہ صحیح
سنی العقیدہ ہیں بھی یا نہیں بدمذہبوں سے ہرگز علم دین حاصل نہ کیا جائے اور ان سے
دور رہنا چاہیے۔ امام محمد بن سیرین نے فرمایا: یہ علم تمہارا دین ہے تو تم غور کر
لو کہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو۔ (11) لہذا ان بدمذہب سکالرز وغیرہ سے دور ہی
رہنا چاہیے۔
اللہ پاک
ہمیں علم دین کی صحیح قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اور مادیت کے اس خطرناک دور میں
علم دین کی شمع کو ہر تاریک گھر میں پہنچائے اور گھر گھر کو علم دین سے منور فرمائے۔
آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
حوالہ جات :
1۔باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 179
2۔فتاوی
رضویہ 648/23ملخصا
3۔ظاہری
گناہوں کی معلومات، ص 25
4۔نیکی
کی دعوت، ص 137
5۔ظاہری
گناہوں کی معلومات، ص 25
6۔ فیضان
علم و علماء، ص 23 بتغیر قلیل
7۔پ 2،
البقرۃ: 208۔ تفسیر قرطبی، 3/395
8۔ اے
ایمان والو، ص 110
9۔تفسیر
ابن ابی حاتم، 8/2552
10۔امیر
اہل سنت کی نصیحتیں، ص 55
11۔مسلم،
ص 11

دین سے
دوری دنیا و آخرت میں نقصانات اور خسارے کا باعث ہے،دین سے دوری کی صورت میں بد اخلاقی،
بد کرداری اور نتیجتاً برا انجام کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ قرآن پاک میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ
اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵۳) (پ
13، یوسف: 53) ترجمہ کنز الایمان: اور میں اپنے نفس کو بےقصور نہیں بتاتا بےشک نفس
تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بےشک میرا رب بخشنے
والا مہربان ہے۔
احادیث
مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
ایک روایت
میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے:
اے اللہ! میں اس علم سے جو نفع نہ دے، اس دل سے جو تجھ سے ڈرتا نہ ہو، اس نفس سے جو
سیر نہ ہوتا ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (ابن ماجہ، 1/ 92،
حدیث: 250)
حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تلاش سے
علم میں اضافہ ہوتا ہے اور علم میں مہارت سوال سے ہوتی ہے، توجس کا تمہیں علم نہیں
اس کے بارے میں سیکھو اور جو کچھ جانتے ہو ا س پر عمل کرو۔ (جامع بیان العلم وفضلہ،
ص 122، حدیث: 402)
ایک مرتبہ
حضرت فتح موصلی رحمۃ اللہ علیہ نے حاضرین سے استفسار فرمایا: جب مریض کو کھانے پینے
اور دواء سے روک دیا جائے تو کیا وہ مر نہیں جاتا؟ لوگوں نے عرض کی: جی ہاں۔ تو آپ
نے فرمایا: یہی معاملہ دل کا ہے جب اسے تین دن تک علم و حکمت سے روکا جائے تو وہ بھی
مر جاتا ہے۔ (لباب الاحیاء، ص 24)
دین سے دوری کی وجوہات: غفلت،جہالت، دنیا کی ہوس رغبت، لالچ، دنیا
کی اندھی محبت اور غیروں کی تقلید نے دین سے دور بہت دور کر دیا ہے۔
دین سے
دوری کی چند اور اہم وجوہات یہ بھی ہیں:
دینی تعلیمات
کو نظر انداز کرنا اور اپنی زندگیوں میں ان کی پیروی نہ کرنا۔ اپنی خواہشات کے پیچھے
چلنا اور اپنے دین کو نظرانداز کرنا۔ دینی علم اور حکمت کی کمی۔ دنیا کے لالچ اور فریب
میں پڑنا۔ برے کاموں اور گناہوں میں پڑنا۔ آخرت کی فکر نہ کرنا۔ دینی تعلیم اور تربیت
کی کمی۔ معاشرتی دباؤ۔
دین سے
دوری کی وجوہات از بنت رمضان احمد،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ

یہ ایک نفسانفسی کا دور ہے۔ جیسا کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں
کہ میں نے لوگوں کے احوال کا جائزہ لیا تو بڑا ہی عجیب معاملہ پایا وہ گھروں کے اجڑنے
یعنی برباد ہونے پر تو روتے ہیں، پیاروں کی موت پر آہیں بڑھتے ہیں، معاشی تنگدستی، روز گار کی کمی پر افسوس کرتے
ہیں اور پھر زمانے اور زمانے والوں کو برا بھلا بھی کہتے ہیں (حالانکہ حدیث پاک میں
زمانے کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے) حالانکہ وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی عمارت
گر رہی ہے۔اپنی عمارت کی فکر تو سب کو ہے لیکن اسلام کی عمارت گر رہی ہے، دین ٹکڑوں
میں ہو چکا ہے، سنتیں مٹ رہی ہیں اور گناہوں کی کثرت ہے لیکن ان میں سے اپنے دین کے
لیے رونے والا کوئی نہیں ہے، اپنی عمر برباد کرنے پر کسی کو افسوس نہیں ہے، اپنے وقت
کو ضائع کرنے پر کوئی غم نہیں کرتا۔ پھر مزید وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ میں ان سب کا ایک
ہی سبب دیکھتا ہوں کہ دین ان کی نظروں میں ہلکا ہو گیا ہے معاذاللہ اور دنیا ان کی
نظروں کا محور بن چکی ہے۔
وَ مَاۤ اُبَرِّئُ
نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ
رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵۳) (پ
13، یوسف: 53) ترجمہ کنز الایمان: اور میں اپنے نفس کو بےقصور نہیں بتاتا بےشک نفس
تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بےشک میرا رب بخشنے والا
مہربان ہے۔
دین سے دوری کی وجوہات: دین سے دوری کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
کچھ لوگ دین کے بارے میں نہیں جانتے ہیں، کچھ لوگ دین کو اپنی زندگی میں نہیں لا پاتے
اور کچھ لوگ دینی تعلیمات کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے، دین سے
دوری کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ لوگ دینی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں
اور اپنی زندگیوں میں ان کی پیروی نہیں کرتے۔
دین سے
دور کرنے والی چیزوں میں سے ایک اہم چیز دنیا کے لالچ ہیں۔ جب انسان دنیا کے لالچ میں
پڑتا ہے اور اس کے متعلق اپنی زندگی کو گھمبیر بناتا ہے یعنی اسی میں اپنی زندگی کو
الجھا دیتا ہے تو وہ اپنے دین اور اپنے مذہبی فرائض سے دور ہوتا جاتا ہے۔
جو چیز
دین سے دور کرتی ہے وہ ہے دنیا کے مال اور دولت کا لالچ جب انسان دنیا کے مال اور دولت
کے لالچ میں پڑتا ہے، تو وہ اپنے دین اور اپنے مذہبی فرائض کو نظر انداز کرنے لگتا
ہے۔
ایک اور
چیز جو دین سے دور کرتی ہے وہ ہے گناہوں کا ارتکاب اور برائی کے کاموں میں ملوث ہونا۔
جب انسان گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے اور برائی کے کاموں میں ملوث ہوتا ہے، تو وہ اپنے
دین سے دور ہوتا جاتا ہے اور اپنی روحانی زندگی کو خراب کرتا ہے۔
دین سے
دوری کی چند وجوہات یہ بھی ہیں: دنیا کا فخرو
تکبر، دنیا کی خواہشات کی پیروی، دین سے بے توجہی، دین سے بے توجہی کی وجہ سے دوسری
چیزوں کی طرف مائل ہونا، دنیا کی محبت، برائی اور گناہ کی طرف مائل ہونا، اپنی خواہشات کے پیچھے چلنا اور اپنے دین کو نظر
انداز کرنا، دینی علم اور حکمت کی کمی، دنیا کے لالچ اور فریب میں پڑنا، برے کاموں اور گناہوں میں پڑنا، تربیت کی کمی، معاشرتی دباؤ اور روایات کا اہم کردار، نماز روزے
اور دیگر فرائض و واجبات کی ادائیگی میں لاپرواہی، جہالت، آخرت کے معاملات میں لاپرواہی
دینی تعلیمات
سے لاپرواہی وغیرہ۔
دین سے
دوری کو دور کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
دین کی بنیادیں سیکھیں اور دینی تعلیمات
کو اپنی زندگی میں لاگو کریں۔ نماز اور دیگر دینی فرائض کو باقاعدگی سے ادا کریں۔ خود
کو دینی کتابوں سے روشناس کرائیں اور ان کا مطالعہ کریں۔ دین کے علما اور دینی رہنماؤں
سے رجوع کریں اور ان کی ہدایات پر عمل کریں۔ اپنے اردگرد دینی ماحول کو فروغ دیں اور
دینی کاموں میں حصہ لیں۔ خود کو دینی تقریبات اور اجتماعات میں شامل کریں۔ اپنے گھر
اور کام کے ماحول کو دینی اصولوں کے مطابق بنائیں۔ دین کے بارے میں سوچ اور تفکر کریں۔
حلال اور حرام کو جاننے کی کوشش کرنا۔ اپنے آپ کو دینی علم سے روشناس کرنا۔ دین کی
کتابوں کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا۔ دین کی تعلیمات کو اپنے زندگی کا حصہ بنانا۔ اپنے
گھر کے ماحول کو دین کے مطابق بنائیں۔ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو دین کی طرف رہنمائی
کریں۔ دین کی طرف لوگوں کو دعوت دیں۔
دین سے
دوری کی وجوہات از بنت محمد سلیم، جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ

بہترین
دین اسلام ہی ہے اور کوئی نہیں اسی دین پر قائم انبیاء کرام رہے جیسے کہ اللہ نے قرآن
پاک میں ارشاد فرمایا: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫-وَ مَا
اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ
الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ
اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۱۹) (پ 3، آل
عمران: 19) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے اور پھوٹ میں نہ
پڑے کتابی مگر بعد اس کے کہ انہیں علم ا چکا اپنے دلوں کی جلن سے اور جو اللہ کی آیتوں کا منکر ہو
تو بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔
ہر نبی
کا دین اسلام ہی تھا لہذا اسلام کے سوا کوئی اور دین بارگاہ الہی میں مقبول نہیں لیکن
اب اسلام سے مراد وہ دین ہے جو نبی کریم ﷺ لائے آپ ﷺ آخری نبی بن کر تشریف لائے
تو اب اگر کوئی کسی دوسرے آسمانی دین کی پیروی کرتا بھی ہو لیکن چونکہ وہ اللہ کے اس
قدری اور حتمی دین نبی کو نہیں مانتا اس کا آسمانی دین پر عمل بھی مردود ہے۔ دین سے
دوری کا سبب بےدینوں کی فریب کاریوں میں آنا بھی ہے۔
اس آیت
میں مسلمانوں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بے دینوں کی فریب کاریوں سے ہوشیار
رہیں اور ان کی باتوں سے دھوکا نہ کھائیں۔ حدیث مبارکہ میں بھی نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان سے دور ہو اور انہیں اپنے سے
دور کرو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دے کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیںَ (مسلم، ص
9، حدیث: 8)
اسی طرح
حسد بھی ایک ایسا باطنی مرض ہے جو دین سے دوری کی وجہ بنتا ہے جس کی وجہ سے ایمان تباہ
و برباد ہو جاتا ہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع
نہیں ہوتے۔ (مستدرک، 2/389، حدیث: 244)
دین سے
دوری کی ایک وجہ شریعت کے مقابلے میں باپ دادا کی پیروی کرنا بھی ہے یعنی ان کے دین
پر چلنا۔ شریعت کے مقابلے میں گمراہ باپ دادا کی پیروی کرنا حرام ہے یونہی گناہ کے
کاموں میں باپ دادا کی پیروی کرنا ناجائز ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی
کے کام میں کسی کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔ (مسلم، ص 1023، حدیث: 1840)
دین سے
دوری کی ایک وجہ بری صحبت بھی ہے بری صحبت انسان کے دین ایمان کو تباہ کر دیتی ہے جب
کوئی شخص نیک ہو اور برے دوستوں بے نمازیوں
گناہ کبیرہ کرنے والوں اور بد عقیدہ لوگوں کی محبت میں بیٹھنے لگے تو وہ اپنے ایمان
کو تباہ کر بیٹھتا ہے اور دین سے دور ہونے کے سبب معاذ اللہ مرتد ہو جاتا ہے یعنی اسلام
سے پھر جاتا ہے اس لیے اچھی محبت احتیار کرنی چاہیے یعنی کہ اچھی صحبت اختیار کریں
یہ دین کے قریب کرنے کا سبب ہے۔
دین سے
دوری کی ایک وجہ ایمان کی کمزوری یعنی شیطان کی پیروی کرنا ہے جس کی وجہ سے ایمان کمزور
ہو جاتا ہے اور انسان دین سے دور ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَ لَا تَتَّبِعُوْا
خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸) (پ
2، البقرۃ: 208) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا
کھلا دشمن ہے۔
دین سے
دوری کی وجوہات از بنت عنایت اللہ، جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ

ہم دیکھ
رہے ہیں دین کے لیے انسان کے اندر کوشش لگن اور محبت کا جذبہ کم سے کم ہوتا جا رہا
ہے انسان دنیا کی محبت میں اس قدر مگن ہو چکا ہے کہ آج تو وہ جو کوشش کر رہا ہے دنیا
میں ترقی کے لیے دنیا کو حاصل کرنے کے لیے وہ سب کر رہا ہے لیکن وہ مزید سے مزید تر
کی خواہش میں دین کے احکام و شرائط کو بھولتے جا رہے ہیں دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں
ہر طرف نفسا نفسی کا ہی عالم ہے ہر بندہ مال کے معاملے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنا چاہتا
ہے حالانکہ ایک دوسرے سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والا معاملہ پایا جانا چاہیے اس کا
سبب دین سے دوری ہی تو ہے جس کی بنا پر ہم لوگ اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کر رہے
ہیں اپنے نظریے کے مطابق دین کے احکام و شرائط کو ڈھال رہے ہیں۔
دین سے دوری کی وجوہات:
انسان
دنیا کی محبت میں اس قدر گم ہے کہ وہ صحیح غلط حلال حرام اچھے برے کی تمیز بھولا بیٹھا ہے اور دن بدن دین سے دور ہوتا جا
رہا ہے اور افسوس صد کروڑ افسوس کے دین سے دوری کو محسوس ہی نہیں کر پا رہا کہ آخر
وہ کس قدر نقصان کر رہا ہے اپنا چیزوں کی چاہ
میں، جیسا کہ سورۃ حدید آیت نمبر 20 میں اللہ پاک کا فرمان ہے: اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا
الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ
وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-ترجمہ جان لو دنیا
کی زندگی نہیں مگر کھیل خود اور ارائش اور تمہارا اپس میں برائی مارنا اور مال اور
اولاد میں ایک دوسرے سے زیادہ چاہنا۔
دین سے
دوری کا ایک سبب سستی ہے ٹیکنالوجی کے دور نے انسان کو اس قدر سست و کاہل کر دیا ہے
کہ وہ اپنے نجی کام بھی اس جس حد تک ممکن ہو مشینوں کے ہی ذریعے کرتا ہے اور یہی
کاہلی اور سستی انسان دین اور اور اسلام کے احکام کو پورا کرنے میں کرنے میں بھی دکھاتا
ہے آج کا کام کل پر چھوڑ دینا اور آج کی نماز قضا ہو رہی ہیں انسان اس بات سے بھی بے
خبر ہے بوجہ سستی اور شیطان ان انسان کو دین کی طرف نہیں آنے دیتا سست تر بناتا چلا
جاتا ہے اور اخروی نقصان کے اسباب اکٹھے کیے جاتا ہے اور اپنے صبح شام غفلت میں گزار
دیتا ہے اپنے صبح شام اللہ کی نافرمانی میں گزار دیتا ہے اور اللہ پاک کا خوف دل سے
نکالتا جاتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ
خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا
تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵) (پ 9،
الاعراف: 205) ترجمہ: اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو عاجزی اور ڈر اور بے آواز
نکلے زبان سے صبح اور شام غفلوں میں نہ ہونا۔
بندگی
نفس اپنے دل کو بے حیائی والی باتوں کی طرف ہر وقت رکھنا برے کام کرنے پر شرمندگی اور
ندامت نہ ہونا اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے ہر جائز اور ناجائز کام کرتے جانا دین سے
دوری کا بہت بڑا سبب ہے نفس کی پیروی کر کے انسان اپنی خواہشات کو پورا کرتا رہتا ہے
چاہے وہ حلال ہوں حرام ہوں اس کا اخروی نقصان جہنم ہی کیوں نہ ہو اور اسی اثناء میں
انسان اپنا ایمان کھو بیٹھتا ہے ایمان ضائع کر لیتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: سمجھدار ہے
وہ شخص جو اپنا محاسبہ کرے اور آخرت کی بہتری کے لیے نیکیاں کرے اور احمق ہے وہ جو
اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ تعالی سے انعام آخرت کی امید رکھے۔ (مسند
امام احمد، 4/171، حدیث: 132)
اتباع
شیطان شیطان کی پیروی کرنا دین سے دوری کی ایک اور بڑی وجہ ہے انسان شیطان کے وسوسوں
کے مطابق چلنا شروع کر دیتا ہے اور شیطان انسان کے دماغ میں دل میں اللہ پاک کی نافرمانی
اور اس کے کام کو بجا نہ لانے کے طریقے ڈالتا رہتا ہے اور غلطیوں کا پتلا انسان ان
طریقوں اور شبہات کی پیروی کرتے ہوئے اپنا ایمان ضائع کر بیٹھتا ہے اور نارِ جہنم کا
حقدار ٹھہرتا ہے اور شیطان کی پیروی کو واضح بے حیائی اور برے کام ہی ہیں دین کی ترقی
والے کاموں سے روکنا، فحش باتیں کروانا، زناکاری، شراب، تہمتیں لگانا، جھوٹی گواہیاں
دینا، قتل و غارت کرنا، معاشرے میں انتشار پھیلانا، ہر وقت ہر بات پر جھوٹ کہنا، حرام
کمانا، حرام کھانا، ماں باپ کی نافرمانی کروانا، دنیا کی محبت میں گم رکھنا ہی ہے اور
شیطان ان سب برے کاموں کی دلدل میں انسان کو تب تک دھنساتا ہے جب تک وہ پوری طرح دین
سے دور ہو کر اپنے رب کا نافرمان نہیں ہو جاتا۔ قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ
الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18،
النور: 21) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو
شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بری ہی بات بتائے گا۔
لہذا ہمیں
ہر وقت اللہ پاک کا فرمانبردار رہنا چاہیے اس کی اور اس کے محبوب ﷺ کی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کرنا چاہیے تاکہ ہم
آخرت میں جنت کے حقدار کہلائیں۔

دین سے
دوری کی وجوہات پر مضمون لکھنے کے لیے، ہم مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے جو نوجوان لڑکیوں
کو دین سے دور کر سکتے ہیں۔ یہ مضمون ان وجوہات کو اجاگر کرے گا اور ان کے ممکنہ حل
بھی پیش کرے گا۔
دین سے دوری کی وجوہات:
تعلیمی نظام: موجودہ تعلیمی نظام میں دینی تعلیم کی کمی
ایک بڑی وجہ ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں دینی تعلیم کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، جس
کی وجہ سے نوجوان لڑکیاں دین کی بنیادی تعلیمات سے ناواقف رہتی ہیں۔
خاندانی تربیت: والدین کی طرف سے دینی تربیت کا فقدان بھی
ایک اہم وجہ ہے۔ بعض والدین خود دین سے دور ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی دینی تعلیمات
سے دور رکھتے ہیں۔
سماجی دباؤ: معاشرتی دباؤ اور جدیدیت کی طرف رجحان بھی
دین سے دوری کا سبب بنتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں اپنے دوستوں اور معاشرتی حلقوں میں قبولیت
حاصل کرنے کے لیے دینی تعلیمات کو نظرانداز کر دیتی ہیں۔
میڈیا کا اثر: میڈیا اور سوشل میڈیا پر مغربی ثقافت اور
طرز زندگی کی تشہیر بھی دین سے دوری کا باعث بنتی ہے۔ نوجوان لڑکیاں انٹرنیٹ اور ٹی
وی پر دکھائے جانے والے مواد سے متاثر ہو کر دین سے دور ہو جاتی ہیں۔
ذاتی دلچسپی کی کمی: بعض اوقات نوجوان لڑکیوں میں خود دین کی
طرف دلچسپی کی کمی ہوتی ہے۔ یہ کمی ان کے اردگرد کے ماحول اور دوستوں کے اثرات کی وجہ
سے بھی ہو سکتی ہے۔
ممکنہ حل:
دینی تعلیم کا فروغ: اسکولوں اور کالجوں میں دینی تعلیم کو لازمی
قرار دینا چاہیے تاکہ نوجوان لڑکیاں دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہو سکیں۔
خاندانی تربیت: والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی دینی تعلیمات
پر عمل کریں اور اپنے بچوں کو بھی دین کی اہمیت سے آگاہ کریں۔
مثبت سماجی ماحول: نوجوان لڑکیوں کے لیے ایسے سماجی حلقے بنائے
جائیں جہاں دینی تعلیمات کی پیروی کی جاتی ہو اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔
میڈیا کا مثبت استعمال: میڈیا اور سوشل میڈیا پر دینی مواد کی تشہیر
کی جائے تاکہ نوجوان لڑکیاں دین کی طرف راغب ہو سکیں۔
ذاتی دلچسپی کی حوصلہ افزائی: نوجوان لڑکیوں کی دینی تعلیمات میں
دلچسپی بڑھانے کے لیے مختلف سرگرمیاں اور پروگرام منعقد کیے جائیں۔
دین سے
دوری کی وجوہات کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو دین
کی طرف راغب کرنے کے لیے ہمیں تعلیمی، خاندانی، سماجی اور میڈیا کے میدان میں مثبت
اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس طرح ہم ایک مضبوط اور دینی بنیادوں پر قائم معاشرہ تشکیل دے
سکتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مضمون آپ کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
دین سے
دوری کی وجوہات از بنت الطاف حسین، جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ

دین سے
دوری کی بے شمار وجوہات ہیں دین جو کہ اسلام مسلمانوں کا دین ہے اور وہ ایک ایسا مکمل
دین ہے جس کے بعد کسی اور دین کی گنجائش نہیں اور اسلام میں کسی بھی قسم کی زبردستی
نہیں کیونکہ یہ بات قرآن سے ثابت ہے مگر اس کے لیے جو خود کو مسلمان نہ ہی کہتا ہو
اور نہ ہی کہلواتا ہو لیکن دوسری طرف وہ لوگ جو اسلام میں داخل ہونے کا دعوی کرتے ہیں
اور خود کو مسلمان کہتے ہیں تو ان لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کرنا ہم پر فرض و واجب
ہیں۔
دین یعنی
اسلام سے دوری کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو ہلکا لے لیا ہے معاذ اللہ
اور دین دنیا اور اس کی لذتوں کو اپنا محور بنا لیا ہے دین کو چھوڑ دیا ہے۔
دوسری
بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے موت کو یاد کرنا چھوڑ دیا ہے یعنی اگر کوئی مسلمان موت کو کثرت
سے یاد کرے گا تو اسے دنیا کی زندگی سے محبت نہ رہے گی اور وہ دین کی طرف راغب ہوتا
جائے گا۔ حدیث شریف میں ہے: لذتوں کو کاٹنے والی موت کو سب سے زیادہ یاد کرو۔ (ترمذی،
4/138، حدیث: 2314)
تیسری
بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ نفس کی پیروی کرنے سے دین سے دور ہو گئے ہیں اور دین سے دوری
کی یہ وجہ ہی اصل تباہی و بربادی پیدا کرتی ہے اور ہم خود ہی اپنےنقصان کر بیٹھتے ہیں۔
دین سے
دوری کی ایک اور وجہ اللہ کی کتاب یعنی قرآن پاک سے دوری ہے اور اس کتاب کی تعلیم و
ہدایت سے غفلت ہی ہمیں دین سے دور کرتی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی کتاب کو مضبوطی
سے تھام لیں اور اس پر عمل کرے تاکہ ہمیں اس سے وابستگی حاصل ہو اور ہم غفلت میں نہ
پڑیں۔
دین سے
دوری کی ایک اور سب سے اہم وجہ صحبت کا اثر ہے یعنی ہم مسلمان اگر کسی ایسے شخص کی
صحبت میں پڑھیں گے کہ جس کا تعلق دنیا داری سے ہے اور وہ صرف دنیا داری کو ہی اہمیت
دیتا ہے تو اس کی صحبت بھی ہمیں دنیا کے مال مال کو جمع کروائے گی اور اس سے محبت میں مبتلا کر دے گی البتہ اگر ہم اپنے
کسی دیندار دوست کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور اس کی صحبت اختیار کریں گے تو ہمیں دین اور
اس سے محبت حاصل ہوگی اور صحیح اور غلط میں فرق کی سمجھ آئے گی۔ رسول ﷺ نے فرمایا: انسان اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے۔
ہماری
دین سے دوری کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اگر بھی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں اور اس
کو حاصل کرنے کی خاطر اپنا سارا کا سارا وقت صرف اسی مقصد میں سرف کر دیتے ہیں تاکہ
ہم بڑے بڑے عہدے حاصل کر سکیں اور خوب پیسے کمائیں ان مقاصد نے ہمیں اور حقیقتاً ہماری
نوجوان نسل کی توجہ کو منتشر کر دیا ہے اور ہم دین سے دن بدن دور ہوتے چلے جا رہے ہیں
حضرت علی نے فرمایا کہ ہماری دین کی دوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب ہم اپنے ارد گرد
علماء اور دیندار لوگوں کو کردار میں ضعیف پاتے ہیں تو ہم دین سے دور ہو جاتے ہیں اور
ہمارے ساتھ ساتھ ہماری اولادیں بھی دین سے دور ہو جاتی ہیں۔
دین سے
دوری کی وجوہات از بنت یاسر، فیضان عائشہ صدیقہ
مظفر پورہ سیالکوٹ

دین سے
دور کرنے والے امور بے شمار ہیں دور حاضر کی سب سے بڑی خرابی موبائل کا غیرضروری استعمال
اور موبائل کے غیر ضروری استعمال اور اس میں حد سے زیادہ مشغولیت کی وجہ سے انسان دین
سے دور ہو چکا ہے اور بعض اوقات تو انسان موبائل فون میں اتنا مشغول ہوتا ہے کہ وہ
نماز بھی قضاء کردیتا ہے اس کے علاؤہ مال کمانے کی حرص اس کی وجہ سے انسان علم دین
سے دور ہے اور صرف دنیاوی لالچ کی وجہ سے مال کمانے کی حرص اس میں پائی جاتی ہے۔
نماز قضاء کرنا: یعنی نماز کو اس کے وقت میں ادا نہ کرنا۔
فَخَلَفَ مِنْۢ
بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ
یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹) (پ 16، مریم: 59) ترجمہ: تو ان کے بعد انکی جگہ وہ
نا خلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں (ضائع کیں) اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو
عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے۔
فرض علم نہ سیکھنا: ہر آدمی پر اس کی موجودہ حالت کے مطابق
مسئلے سیکھنا فرض ہے اگر اس کو علم نہ ہوگا تو وہ دین سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ هَلْ یَسْتَوِی
الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ
اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹) (پ 23، الزمر: ) ترجمہ کنز الایمان: کیا
برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
موبائل فون: موبائل فون انٹرنیٹ سوشل میڈیا دین سے دور
کرنے میں ان چیزوں کا بھی کردار ہے کہ لوگ ان چیزوں کے غیر ضروری استعمال اور حد سے
زیادہ استعمال میں بڑھ کر اپنا قیمتی وقت فضولیات کی نظر کر رہے ہیں۔
بدمذہب کی صحبت: بد مذہب اور دین سے بیزار لوگوں کی صحبت
سے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے غلط نظریات ثابت کرنے کے لیے آیات واحادیث میں اپنی
طرف سے الفاظ کا خلط ملط کر کہ ان میں تبدیلیاں کر دیتے ہیں جن کو پڑھ کر انسان دین
سے دور ہو جاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: آخری زمانے میں کچھ لوگ برے دھوکے اور جھوٹ بولنے
والے ہوں گے وہ تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جو تم نے سنی نہ ہوں گی نہ تمہارے
باپ دادا نے تو تم اپنے آپ کو ان سے دور رکھو اور انہیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمہیں
گمراہ نہ کر دیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (مسلم، ص 13، حدیث: 7)
بے پردگی: ناجائز فیشن یہ بھی دین سے دوری کا ایک سبب ہے آج کل
مرد و عورت دونوں ہی ایسے فیشن کرتے ہیں جو دین میں ناجائز و حرام ہوں اور عورتیں بے
پردہ گھر سے باہر نکلتی ہیں جو دین سے دوری کا سبب ہے حتیٰ کہ عورتوں کر گھر میں رہنے
کا حکم دیا گیا ہے۔
وَ قَرْنَ فِیْ
بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ
22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو بے پردہ نہ رہو
جیسے اگلی جاہلیت کی بےپردگی۔
اللہ تعالیٰ
سے دعا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان فضول کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
دین سے
دوری کی وجوہات از بنت سلیمان،فیضان عائشہ
صدیقہ مظفر پورہ سیالکوٹ

حدیث مبارکہ
میں ہے: دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ آج کے دور میں دین سے دور کردینے والے
امور بے شمار ہیں دور حاضر کی سب سے بڑی خرابی موبائل فون کا غیر ضروری استعمال ہے
اور دین سے دور کرنے والے امور میں اس کا سب سے بڑا کردار ہے اور اس طرح کے اور بھی
بہت سے امور ہیں جو دین سے دور کرتے ہیں ان میں سے چند امور درج ذیل ہیں:
موبائل فون کا استعمال: موبائل فون،انٹرنیٹ،سوشل میڈیا کا دین سے
دور کرنے میں بڑا کردار ہے لوگ ان چیزوں کے غیر ضروری اور حد سے زیادہ استعمال میں
بڑ کر اپنا قیمتی وقت فضولیات میں ضائع کر دیتے ہیں۔بعض اوقات تو اسکی وجہ سے نمازیں
بھی قضا ہو جاتی ہیں اور موبائل فون میں مصروف ہونے کی وجہ سے انہیں اس کا احساس بھی
نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں ہے: فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ
وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹) (پ 16، مریم:
59) ترجمہ: تو ان کے بعد انکی جگہ وہ نا خلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں (ضائع کیں)
اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے۔
غی جہنم
میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں بھی پناہ مانگتی ہیں۔
بد نگاہی: جس کو دیکھنا جائز نہیں قصدا (یعنی جان بوجھ کر) اسے
دیکھنا بدنگاہی ہے جیسے بےپردہ اجنبی عورتوں کو دیکھنا یا پردہ دار عورت کو شہوت کے
ساتھ دیکھنا۔ امرد (خوبصورت) لڑکے کو شہوت سے دیکھنا حرام ہے اور واضح ہے کہ جس کو
دیکھنا حرام ہے اس پر قصداًیعنی جان بوجھ کر ڈالی جانے والی پہلی نظر بھی حرام ہے اور
جہنم میں لے جانے والے کام ہے۔
فرمان
مصطفیٰﷺ ہے: تم یا تو اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو گے
اور اپنے چہروں کو سیدھے رکھو گے یا تمہاری شکلیں بگاڑ دی جائیں گی۔ اگر آنکھ بہک جائے
اور بد نگاہی کر بیٹھے تو فوراً نظر وہاں سے ہٹا لیجیے ممکن ہو تو خود وہاں سے ہٹ جائے
اور سچے دل سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ بھی کیجیے۔
اگر مرد
کے ساتھ ایسا ہو تو اول و آخر درود شریف کے ساتھ یہ دعا پڑھے: اللّٰہُمَّ
اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النِّسَاءِ وَ عَذَابِ الْقَبْرَ۔
والدین کی نافرمانی: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں:
جو بلا وجہ شرعی والدین کو ایذا دے ان کی نافرمانی کرے شریعت میں اسے عاق کہتے ہیں۔
والدین کی نافرمانی حرام ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین
کا فرمانبردار ہے اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھول جاتے ہیں اور والدین میں
سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھولتا ہے اور جس نے اس حال میں شام کی کہ والدین کے بارے
میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں اور والدین
میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کی:اگرچہ والدین اس پر ظلم کریں
فرمایا:اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں۔
ان یعنی
والدین کی نافرمانی اور ناراض کرنا دونوں حرام ہیں اور یہ ناراض اور راضی کرنا ان کے
واضح حکم کے ساتھ خاص ہیں یعنی اگر والدین نے حکم نہ بھی دیا ہو لیکن معلوم ہو کہ فلاں
کام کرنے سے وہ ناراض ہوں گے تب بھی اس کام سے بچنا ضروری ہوگا۔ والدین اگر کسی ناجائز
بات کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائز نہیں۔

ہم دیکھ
رہے ہیں کہ دن بدن دین سے دوری ہے اور دنیا کے لیے ایک عام بندے کی بھاگ دور بڑھتی چلی جا رہی ہے روزانہ
اس کے لیے کوشش کل سے زیادہ ہورہی ہیں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگ دین سے دور بھاگ
رہے ہیں۔
امیر اہلسنت
بیان فرماتے ہیں کہ میں نوٹ کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں جب ملاقات ہوتی ہے یا کال پر ایک
دوسرے سے بات چیت کی جاتی ہے تو اس طرح کا رواج ہو گیا ہے کہ بھئی کیا حال ہے بچے ٹھیک
ہیں بکری مرغا ٹھیک ہیں اس کے بارے میں تو پوچھتے ہیں لیکن سلام نہیں کرتے سلام کرو
یہ سنت ہے۔
حدیث پاک
میں بھی آپس میں سلام کو عام کرنے کی ترغیب آئی ہے۔
بزرگوں
نے بھی درد اپنے بیان کیے ہیں ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کے احوال کا جائزہ
لیا تو دیکھا اور بڑا ہی عجیب معاملہ پایا وہ گھروں کے اجڑنے یعنی برباد ہونے پر روتے
ہیں۔ پیاروں کی موت پر آہیں بھرتے ہیں معاشی تنگدستی پر افسوس بھی کرتے ہیں اور زمانے
کو برا بھلا بھی کہتے ہیں حالانکہ حدیث پاک میں زمانے کو برا بھلا کہنے سے منع مگر
اسلام کی عمارت گر رہی ہے دین ٹکڑوں میں ہو چکا ہے سنتیں مٹ رہی ہیں اور گناہوں کی
کثرت ہو رہی ہے لیکن اب ان میں سے دین کے لیے رونے والا کوئی نہیں اپنی عمر برباد کرنے
پر کسی کو افسوس نہیں اپنے وقت کو ضائع کرنے میں کوئی غم نہیں کرتا اور مزید فرمایا
کہ میں ان سب کا ایک سبب دیکھتا ہوں کہ دین ان سب کی نظروں میں ہلکا ہو گیا ہے معاذ
اللہ دنیا ان کی نظروں کا محور بن چکی ہے۔
آج کی
صدی اور آج کے لوگوں کے حالات بہت عجیب و غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ دین سے دور ہو
رہے ہیں۔مذہبی کلپ لوگوں تک پہنچ بھی جائے تو اسے اوپر کر دیتے ہیں اور اس کو شئیر
بھی نہیں کرتے۔ دین سے دوری کا سب سے بڑا سبب آج کل کے سکول کالجز جہاں دین کی نہیں
بلکہ دنیا کی تعلیمات دی جا رہی ہیں ہم سب کو دین سے دوری کے افعال سے بچنا چاہیے دنیا
کی محبت بھی انسان کو دین سے دور کرتی ہے کیونکہ دنیوی محبت مال و دولت کی طرف لے کر جاتی ہے اور مال و
دولت کی محبت دین سے دور کر دیتی ہے اور بری صحبت بھی دین سے دور کرتی ہے۔
فرمان امیر اہلسنت: الله پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی بارگاہ میں جو اچھا ہے حقیقت میں وہی اچھا ہے
تو ہمیں چاہیے اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی بارگاہ میں اچھا بننے کے لیے اچھے اعمال کریں یعنی دین سے دوری اختیار نہ کریں اگر دین سے دوری اختیار
نہ کریں گے تو ان شاء اللہ الکریم جنت ٹھکانہ ہوگی، اگر دین سے دوری اختیار کی تو معاذ
اللہ ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی کو غنیمت جانیں اور اچھے اعمال
کریں اور اپنے دین کے فرمانبردار رہیں۔

دین اسلام
ایک کامل دین ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اس کامل دین کے بارے میں
اللہ پاک نے قرآن پاک میں پیارے آقا ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: وَ رَضِیْتُ لَكُمُ
الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-(پ 6، المائدۃ: 3) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
اب جو
لوگ اس کامل دین سے دوری اختیار کرتے ہیں ان کے اس دوری اختیار کرنے کی چند وجوہات
ہو سکتی ہیں جن کو ذیل میں ذکر کیا گیا ہے اور انکا حل بھی بیان کیا گیا ہے:
1- علم دین کی کمی: علم دین کی کمی کی وجہ سے لوگ دین سے دور
ہوتے جاتے ہیں بعض لوگ دینی معاملات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ترک کر دیتے ہیں
اور یوں وہ دین سے دور ہو جاتے ہیں۔
اسکا حل :ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنی حالت کے مطابق ضروری علم
دین حاصل کریں اور مطالعہ کتب دینیہ کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیں۔
2-سستی اور کاہلی: بعض لوگ بہت سست اور کاہلی پسند ہوتے ہیں اس وجہ سے وہ دین پر عمل نہیں کرتے اور
یوں وہ دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اسکا حل: ایسے لوگوں کو چاہیے کہ بے جا سستی و کاہلی کو دور کریں
دین کے معاملے میں کسی قسم کی سستی کو آڑھ نہ بننے دیں۔
3- بری صحبتیں: دین سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ بری صحبت
ہے انسان بسا اوقات بری صحبت کے اثر کی وجہ سے دین سے دور ہو جاتا ہے اور اس میں گم
ہو کر اپنی عاقبت خراب کر لیتا ہے۔
اسکا حل: اس لئے چاہیے کہ انسان خود کو بری صحبت سے بچائے جہاں
تک ہو سکے اہل دین، علمائے کرام اور اچھے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے۔
4- خوف خدا کی کمی: فی زمانہ لوگوں میں الله پاک کے خوف کا
بہت فقدان ہو گیا ہے جس وجہ سے لوگ دین پر عمل کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اس سے دوری
اختیار کر لیتے ہیں۔
اسکا حل: اسکا حل یہ ہے کہ انسان اپنے اندر اللہ پاک کا خوف پیدا
کرنے کی کوشش کرے اور خوف خدا پیدا کرنے کے لئے ہمارے بزرگان دین کے طریقوں کا مطالعہ
کرے۔
5- بد مذہبوں سے دوستی: بعض اوقات بد مذہبوں کی دوستی دین پر عمل
کرنے میں آڑھ بن جاتی ہے اور انسان اپنے حقیقی دین اسلام سے دور ہو جاتا ہے۔
اسکا حل: اسکا حل یہ ہے کہ انسان غیر مسلوں سے تعلقات نہ بنائے
ان سے دوستیاں نہ بنائے اور دینی احکامات پر عمل کرتا رہے۔
6- دنیا کی محبت: کچھ لوگ دنیا کی محبت میں اس قدر گم ہو
جاتے ہیں کہ آخرت کو بھول جاتے ہیں اور اپنی دنیا ہی کو درست کرنے کی کوشش میں وہ دین
سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں
اسکا حل: ایسے لوگوں کو چاہیے کہ دنیا کی محبت کو اپنے دل سے
نکالنے کی کوشش کریں اور اس پر اللہ پاک سے مدد طلب کریں اور اپنے دل میں آخرت کا خوف
پیدا کریں۔
بے جا رسومات: بعض اوقات معاشرے کی بے جا رسومات دین سے
دوری کا سبب بن سکتی ہیں انسان معاشرتی رسومات میں گم ہو کر دین کو بھول جاتا ہے اور
کبھی معاشرے کی خوف سے دین پر عمل کرنے میں عار محسوس کرتا ہے اور معاشرے کی شرمندگی
سے خود کو بچانے کے لئے دین کو ترک کر دیتا ہے۔
اسکا حل: ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں
دین کو مقدم رکھے اور کسی بھی دینی بات پر عمل کرنے کو کبھی عار کا باعث نہ سمجھے۔
اگر انسان
دین سے دوری کی وجوہات کو جان کر کے انکا حل تلاش کر کے انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو سارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ
بن جائے گا اور دین کی راہ میں آنے والی رکاوٹ دور ہو جائے گی اس پر عمل کرنا آسان
ہو جائے گا۔