ہم دیکھ
رہے ہیں دین کے لیے انسان کے اندر کوشش لگن اور محبت کا جذبہ کم سے کم ہوتا جا رہا
ہے انسان دنیا کی محبت میں اس قدر مگن ہو چکا ہے کہ آج تو وہ جو کوشش کر رہا ہے دنیا
میں ترقی کے لیے دنیا کو حاصل کرنے کے لیے وہ سب کر رہا ہے لیکن وہ مزید سے مزید تر
کی خواہش میں دین کے احکام و شرائط کو بھولتے جا رہے ہیں دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں
ہر طرف نفسا نفسی کا ہی عالم ہے ہر بندہ مال کے معاملے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنا چاہتا
ہے حالانکہ ایک دوسرے سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والا معاملہ پایا جانا چاہیے اس کا
سبب دین سے دوری ہی تو ہے جس کی بنا پر ہم لوگ اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کر رہے
ہیں اپنے نظریے کے مطابق دین کے احکام و شرائط کو ڈھال رہے ہیں۔
دین سے دوری کی وجوہات:
انسان
دنیا کی محبت میں اس قدر گم ہے کہ وہ صحیح غلط حلال حرام اچھے برے کی تمیز بھولا بیٹھا ہے اور دن بدن دین سے دور ہوتا جا
رہا ہے اور افسوس صد کروڑ افسوس کے دین سے دوری کو محسوس ہی نہیں کر پا رہا کہ آخر
وہ کس قدر نقصان کر رہا ہے اپنا چیزوں کی چاہ
میں، جیسا کہ سورۃ حدید آیت نمبر 20 میں اللہ پاک کا فرمان ہے: اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا
الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ
وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-ترجمہ جان لو دنیا
کی زندگی نہیں مگر کھیل خود اور ارائش اور تمہارا اپس میں برائی مارنا اور مال اور
اولاد میں ایک دوسرے سے زیادہ چاہنا۔
دین سے
دوری کا ایک سبب سستی ہے ٹیکنالوجی کے دور نے انسان کو اس قدر سست و کاہل کر دیا ہے
کہ وہ اپنے نجی کام بھی اس جس حد تک ممکن ہو مشینوں کے ہی ذریعے کرتا ہے اور یہی
کاہلی اور سستی انسان دین اور اور اسلام کے احکام کو پورا کرنے میں کرنے میں بھی دکھاتا
ہے آج کا کام کل پر چھوڑ دینا اور آج کی نماز قضا ہو رہی ہیں انسان اس بات سے بھی بے
خبر ہے بوجہ سستی اور شیطان ان انسان کو دین کی طرف نہیں آنے دیتا سست تر بناتا چلا
جاتا ہے اور اخروی نقصان کے اسباب اکٹھے کیے جاتا ہے اور اپنے صبح شام غفلت میں گزار
دیتا ہے اپنے صبح شام اللہ کی نافرمانی میں گزار دیتا ہے اور اللہ پاک کا خوف دل سے
نکالتا جاتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ
خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا
تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵) (پ 9،
الاعراف: 205) ترجمہ: اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو عاجزی اور ڈر اور بے آواز
نکلے زبان سے صبح اور شام غفلوں میں نہ ہونا۔
بندگی
نفس اپنے دل کو بے حیائی والی باتوں کی طرف ہر وقت رکھنا برے کام کرنے پر شرمندگی اور
ندامت نہ ہونا اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے ہر جائز اور ناجائز کام کرتے جانا دین سے
دوری کا بہت بڑا سبب ہے نفس کی پیروی کر کے انسان اپنی خواہشات کو پورا کرتا رہتا ہے
چاہے وہ حلال ہوں حرام ہوں اس کا اخروی نقصان جہنم ہی کیوں نہ ہو اور اسی اثناء میں
انسان اپنا ایمان کھو بیٹھتا ہے ایمان ضائع کر لیتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: سمجھدار ہے
وہ شخص جو اپنا محاسبہ کرے اور آخرت کی بہتری کے لیے نیکیاں کرے اور احمق ہے وہ جو
اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ تعالی سے انعام آخرت کی امید رکھے۔ (مسند
امام احمد، 4/171، حدیث: 132)
اتباع
شیطان شیطان کی پیروی کرنا دین سے دوری کی ایک اور بڑی وجہ ہے انسان شیطان کے وسوسوں
کے مطابق چلنا شروع کر دیتا ہے اور شیطان انسان کے دماغ میں دل میں اللہ پاک کی نافرمانی
اور اس کے کام کو بجا نہ لانے کے طریقے ڈالتا رہتا ہے اور غلطیوں کا پتلا انسان ان
طریقوں اور شبہات کی پیروی کرتے ہوئے اپنا ایمان ضائع کر بیٹھتا ہے اور نارِ جہنم کا
حقدار ٹھہرتا ہے اور شیطان کی پیروی کو واضح بے حیائی اور برے کام ہی ہیں دین کی ترقی
والے کاموں سے روکنا، فحش باتیں کروانا، زناکاری، شراب، تہمتیں لگانا، جھوٹی گواہیاں
دینا، قتل و غارت کرنا، معاشرے میں انتشار پھیلانا، ہر وقت ہر بات پر جھوٹ کہنا، حرام
کمانا، حرام کھانا، ماں باپ کی نافرمانی کروانا، دنیا کی محبت میں گم رکھنا ہی ہے اور
شیطان ان سب برے کاموں کی دلدل میں انسان کو تب تک دھنساتا ہے جب تک وہ پوری طرح دین
سے دور ہو کر اپنے رب کا نافرمان نہیں ہو جاتا۔ قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ
الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18،
النور: 21) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو
شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بری ہی بات بتائے گا۔
لہذا ہمیں
ہر وقت اللہ پاک کا فرمانبردار رہنا چاہیے اس کی اور اس کے محبوب ﷺ کی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کرنا چاہیے تاکہ ہم
آخرت میں جنت کے حقدار کہلائیں۔