بعض لوگ سخت لہجہ میں گفتگو کرنے کو باعث فخر تصور کرتے ہیں حالانکہ اللہ کے محبوب دانائے غیوب ﷺ نے اسے عیب قرار دیا ہے اور نرمی کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی چھین لی جاتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1398، حدیث: 12594)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جسے نرمی میں سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی میں سے حصہ دیا گیا اور جو نرمی کے حصے سے محروم رہا وہ بھلائی میں اپنےحصے سے محروم رہا۔ (ترمذی، 3/258، حدیث:2525)

روایت ہے حضرت خالد بن ولید سے فرماتے ہیں کہ میرے اور عمار ابن یاسر کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تو میں نے گفتگو میں ان پر بہت سختی کی عمار میری شکایت کرنے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے۔ پھر خالد پہنچے فرمایا عمار نبی ﷺ سے شکایت کر رہے تھے تو خالد ان پر بہت سختی کرنے لگے ان کی سختی بڑھتی گئی نبی ﷺ خاموش تھے کچھ کلام نہیں فرماتے تھے جناب عمار رونے لگے بولے یا رسول الله کیا حضور خالد کو دیکھتے نہیں، تو نبی ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا جو عمار سے دشمنی کرے خدا اس سے دشمنی کرے اور جو عمار سے بغض رکھے خدا اس سے ناراض ہو، خالد فرماتے ہیں کہ پھر میں نکلا تو مجھے حضرت عمار کی خوشنودی سے زیادہ پیاری کوئی چیز نہ تھی پھر میں نے ان سے ان کی رضا کا برتاؤ کیا تو وہ راضی ہو گئے۔ (مراة المناجيح، 8/509)

رسول الله ﷺ نے فرمایا: مال والے کا ٹال مٹول اس کی آبرو کو اس کی سزا کو درست کر دیتا ہے۔ ابن مبارک نے فرمایا: آبرو حلال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سخت کلامی کرے اور سزا یہ ہے کہ اسے قید کر دیا جائے۔ (مراۃ المناجیح، 4/347)

ابن مبارک نے حضور کے دونوں کلمات کی تفسیر یوں فرمائی کہ معنی یہ ہیں کہ اس سے سخت کلامی کرے مثلاً کہے تو ظالم ہے لوگوں کا مال مارنے والا ہے یہ مطلب نہیں کہ اس پرنا جائز الزام لگائے۔

سخت کلامی پر صبر: ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے بہت سخت کلامی کی تو آپ نے کافی دیر تک اپنا سر مبارک جھکائے رکھا پھر اس سے فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں شیطان کے ہاتھوں کمزور ہو کر سلطانی غلبہ کے سبب تمہارے ساتھ ایسا سلوک کروں جس کا کل تم مجھ سے بدلہ لو؟ (احیاء العلوم، 3/205)

ہمیں حضور پاک ﷺ کے اخلاق کے مطابق کلام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم کسی سے تلخ کلامی سے پیش آئیں تو وہ شخص ہم سے بدظن ہوگا۔ آج کل ہمارے معاشرے میں اس طرح کی گفتگو بہت عام ہوئی ہے ایسی گفتگو کسی کی دل آزاری کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ حضور ﷺ نے تو اسی گفتگو کو عیب قرار دیا ہے اللہ ہمیں اچھے انداز سے گفتگو کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین


فی زمانہ اسلامی تعلیمات پر بحیثیت مجموعی عمل کمزور ہونے کی وجہ سے اخلاقی و معاشرتی برائیاں بہت عام ہوگئی ہیں جو حسن معاشرت کے بگار کا سبب بن رہی ہیں اور اگر گہری نظر ڈالی جائے تو ایک اہم پہلو تلخ کلامی بھی ہے گویا کہ لگتا ہے ہر کوئی معاشرے کی تلخ کلامی جیسی نحوست کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔

تلخ کلامی سے چھٹکارا پانے کے لیے اس کے مفہوم پر غور کریں تو اس سے مراد ایسا کلام جو لوگوں کی ایذا رسانی اور دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔ اس ضمن میں تین روایات پڑھیئے اور اسے اپنی فکر آخرت کے مدنی گلدستے میں سجائیے۔

1۔ صدر الشریعہ، بدر الطریقہ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت جلد 2 صفحہ 407 پر لکھتے ہیں: جو شخص مسلمان کو کسی فعل یا قول سے ایذا پہنچائے اگرچہ آنکھ یا ہاتھ کے اشارے سے وہ مستحق تعزیر ہے۔ (در مختار، 6/106)

2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب انسان صبح کرتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں: ہم تجھے خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (ترمذی، 4/184، حدیث:2415)

3۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: کوئی شخص اچھی بات بول دیتا ہے اس کی انتہا نہیں جانتا اس کی وجہ سے اس کے لیے اللہ کی رضا اس دن تک کیلئے لکھی جاتی ہے جب وہ اسے ملے گا اور ایک آدمی بری بات بول دیتا ہے جس کی انتہا نہیں جانتا اللہ اس کی وجہ سے اپنی ناراضی اس دن تک لکھ دیتا ہے جب وہ اس سے ملے گا۔ (مشكاة المصابیح،2/193، حدیث: 2326)

لمحہ فکریہ: تلخ کلامی اکثر مسلمانوں کی ایذا رسانی کا ذریعہ بنتی ہے اور مسلمانوں کی ایذا رسانی اللہ اور نبی کریم ﷺ کی نافرمانی کا ذریعہ ہے۔

نقصانات: تلخ کلامی کے بے شمار نقصانات ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں: نیکیوں کا زائل ہونا، عداوت، قطع تعلقی، مبلغ کے ایسے انداز کے سبب لوگوں کی علم دین سے دوری، دل آزاری۔

تلخ کلامی کا علاج: اس ضمن میں تلخ کلامی کے چار علاج پیش خدمت ہیں: 1- نرم مزاجی کو اپنایا جائے 2-اخروی آفتوں کو یاد کیا جائے 3- غصے اور چرچڑا پن سے دور رہا جائے 4- اپنے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ایسا بولو کہ لوگ سننا پسند کریں۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

اللہ پاک ہمیں تلخ کلامی اور دل آزاری والی گفتگو کرنے سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ


خوش کلامی ایک مستحسن عمل ہے، اسلام میں اس کی تاکید کی گئی ہےجب ہم بازار خریداری کے لئے نکلتے ہیں تو ہمیں اپنی مطلوبہ چیز کی بہت ساری دکانیں نظر آتی ہیں لیکن ہم اس دکان میں جاتے ہیں جس دکاندار کا برتائو اور بطور خاص بات چیت ہمیں اچھی لگتی ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دکاندار نے اپنی مہذب باتوں اور خوش اخلاقی سے ہمارا دل جیت لیا ہے۔اس کے بالمقابل ہم میں سے اکثر لوگ اس دکان پر جانا پسند نہیں کرتے ہیں جہاں انہیں غیر مہذب،سخت اور ترش کلامی کا سامنا ہو۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دکاندار کی خوش کلامی سے صرف خریدار کا دل خوش نہیں ہوتا بلکہ دکاندار کی تجارت بھی ترقی پاتی ہے اورخاص بات یہ ہے کہ اس کے لئے تاجر کو پیسے بھی خرچ نہیں کرنے پڑتے،یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ایم بی اے جیسے کورسوں میں آداب گفتگو انتہائی اہمیت کے ساتھ سکھائے جاتے ہیں۔

خوش کلامی صرف مذکورہ ایک وجہ سے نہیں بلکہ متعدد وجوہات سے اسلام میں ایک مستحسن عمل ہے، اسی بنیاد پر قرآن و حدیث میں اس کی تاکید آئی ہے۔ دوستوں اور پیاروں سے پیار بھرے انداز میں سبھی بات کرتے ہیں لیکن اسلام نے اجنبیوں اور دشمنوں سے بھی نرم گفتگو کی تاکید کی ہے۔اس کی بہترین مثال قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے وقت کے ظالم ترین شخص اور دشمنِ اہلِ ایمان فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو انہیں یہ تاکید کی کہ اس سے نرم گفتگو کریں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰىۚۖ(۴۳) فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴) (پ 16، طہٰ: 43-44) ترجمہ: فرعون کے پاس جاؤ، بے شک وہ سرکش ہوگیا ہے، سو اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔ توجہ فرمائیں کہ قرآن پاک کی اس تعلیم میں کسی صاحب ایمان سے نہیں بلکہ ایک بے ایمان اور دین کے باغی شخص سے خوش کلامی کی تاکید کی گئی ہے؛اس سے جہاں اوروں کے ساتھ ہماری بات چیت کا معیار مقرر ہوتا ہے وہیں اس ضمن میں بدرجہ اولیٰ دینی بھائیوں سے حسن کلام کی ترغیب بھی ملتی ہے۔

دوسروں کو خوش کرنے کو اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ایک حدیث پاک میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:یقینا فرائض کو ادا کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کسی مسلمان کو خوش کرنا ہے۔ (معجم کبیر، 11/59، حدیث: 11079) یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ لوگوں کو خوش کرنے کا سب سے آسان طریقہ خوش مزاجی کے ساتھ ان سے گفتگو ہے۔عملاً ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ جس طرح کوئی ایک زہریلا لفظ کسی کا دن بگاڑنے کے لئے کافی ہے، اسی طرح پیار بھرا ایک لفظ کسی کا دن سنوارنے کے لئے بھی کافی ہے۔ لہٰذاہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے الفاظ تخریب کے بجائے تعمیر کے لئے استعمال ہوں۔ ہماری بات چیت کس طرح تعمیر و تخریب کا سبب بن سکتی ہے، اس کا اندازہ ہمیں ایک مشہور واقعہ سے ہوتا ہے:

واقعہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا، اس نے یہ خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ گئے ہیں،چنانچہ اس نے صبح کو ایک تعبیر بتانے والے کو بلوایا اور اس سے خواب کی تعبیر معلوم کی، اس نے بتلایا کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے سامنے آپ کے اہل خانہ اور اولادیں وفات پا جائیں گی،یہ سن کر بادشاہ بہت خفا ہوا اور اس معبر کا سر قلم کرنے کا حکم صادر کردیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے ایک دوسرے تعبیر بتلانے والے کو بلوایااور اس کے سامنے خواب کو بیان کیا، معبر نے بتلایا کہ بادشاہ سلامت! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لمبی عمر پائیں گے حتیٰ کہ آپ کے اہل خانہ سے بھی زیادہ آپ کی عمر ہوگی۔ یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور معبر کو انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔ غور فرمائیں کہ دونوں تعبیروں کا مطلب ایک ہی بتایا گیا ہے لیکن کہنے کے انداز اور اسلوب نے کس قدر فرق پیدا کردیا۔

خوش کلامی اور مہذب گفتگو کے فوائد معلوم ہوجانے کے بعد ہمارے لئے یہ ضروی ہے کہ ہم ذیل کی باتوں کو بھی اپنے ذہن میں رکھیں کہ لوگوں کو اچھی بات چیت سے یا کسی دوسرے طریقے سے خوش کرتے وقت ہم دین کی سرحدوں کو ہر گز پار نہ کریں یعنی اللہ پاک کو ناراض کرکے بندوں کو خوش نہ کریں کیونکہ بندوں کو خوش کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کوخوش کرنا ہے نہ کہ ناراض کرنا۔ لہٰذا کوئی قریبی شخص اپنی خوشی کے لئے ہم سے اگر یہ کہتا ہے کہ تم جھوٹ بول دو یا غلط بیان دے دو تو ہم محض اپنے پیارے کی خوشی کے لئے ہر گز ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ اس صورت میں اللہ کی خوشی سے ہم محروم ہوجائیں گے۔ اسی طرح اسلام نے ہمیں خوش کلامی کی ترغیب دی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم غیر محرموں سے لچھے دار باتیں کر کے اپنی عاقبت ہی خراب کرلیں۔

چونکہ ہم سب کی منزل آخرت ہے اس وجہ سے ہمیں خوش کلامی اور بد کلامی کو آخرت کے نتائج کے آئینے میں ضرور دیکھنا چاہئے۔ اس حوالے سے ذیل کی حدیث ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونی چاہئے:

حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ ﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے (لیکن) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے (یعنی برا بھلا کہتی ہے)۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا: وہ دوزخ میں ہے۔ پھر اس شخص نے عرض کیا یا رسو ل اللہﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نفلی روزہ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے بلکہ اس کا صدقہ وخیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کو ئی تکلیف نہیں دیتی۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: وہ جنت میں ہے۔(شعب الایمان، 7/78، حدیث: 9545)


تلخ کلامی کے معانی تلخ گوئی، بدزبانی، سخت کلامی، وہ شخص جس کی باتیں طنزیہ ہو۔

تلخ کلامی وبیہودہ وفحش گفتگو کی وجہ سے عوام و خواص کے قلوب پرخراش پڑتی ہے خاندانوں میں عداوتیں پڑ جاتی ہے ہیں کبھی کبھی تلخ کلامی کی وجہ سے قتل وغارت گری کابھی قوی اندیشہ رہتا ہ توایسے معاشرے میں قرآن وحدیث پرعمل کرتے ہوئے ہم میٹھے بول اچھی کلامی سے آپس میں گفتگو کریں توقرآن وحدیث پرعمل کرنے کاثواب بھی ملے گااور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کے دلوں میں محبت بھی پیداکردی جاتی ہے۔

احادیث مبارکہ:

1) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، نجات کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: اپنی زبان پر قابو رکھو اور تمہارا گھر تمہارے لیے گنجائش رکھے (یعنی بے کار ادھر ادھر نہ جاؤ) اور اپنی خطا پر آنسو بہاؤ۔ (ترمذی، 4/182، حدیث: 2414)

2)سفیان ثوری رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: زبان سے ایسی بات نہ نکالو جسے سن کر لوگ تمہارے دانت توڑ دیں۔

3) ایک بزرگ رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: اپنی زبان کو بے لگام نہ چھوڑو تا کہ یہ تمہیں کسی فساد میں مبتلا نہ کر دے۔ (منہاج العابدين، ص 76)

4) حضرت سید نا بلال بن حارثہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ بندہ زبان سے بھلائی کا ایک کلمہ نکالتا ہے حالانکہ وہ اس کی قدر و قیمت نہیں جانتا تو اس کے باعث اللہ ﷺ قیامت تک اپنی رضا مندی لکھ دیتا ہے، اور بیشک ایک بندہ اپنی زبان سے ایک برا کلمہ نکالتا ہے اور وہ اس کی حقیقت نہیں جانتا تو اللہ یعنی اس کی بناء پر اس کے لئے قیامت تک کی اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے۔ (ترمذی، 4/143، حدیث: 2326)

5) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے ارشادفرمایا: جو اپنا غصہ پی لے گا اللہ اس سے اپنا عذاب دور کرے گا اور جو اپنی زبان کی حفاظت کرے گا اللہ اسکے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (مجمع الزوائد، 8/132، حدیث: 12983)

6) مؤمن طعنہ دینےوالا، لعنت کرنے والا، فحش بکنے اور بیہودہ گفتگو کرنے والانہیں ہوتا۔ (ترمذی، 3/393، حدیث: 1984)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں سب کے ساتھ حسن اخلاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور تلخ کلامی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین


اخلاق ایک ایسی چیز ہے جس میں جنت اور جہنم بھی ہے اگر اخلاق اعلیٰ و حسین اور لوگوں سے معاملات اور کردار میں اچھائی ہوئی اور اس بارے اللہ پاک کا خوف ہو گا تو یہی خوبی جنت میں جانے کا باعث بنے گی اور اگر خدا نخواستہ کردار میں اور اخلاق میں برائی ہوئی تو یہی خصلت (Habit) دوزخ بن جائے گی۔

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو نرمی سے محروم ہوا تو وہ تمام بھلائیوں سے محروم رہ گیا۔ (ابو داود، ص 512، حدیث: 1382)

دنیا میں جہاں خوش اخلاقی سے بندہ دوسروں کے دلوں میں خوشی داخل کرتا ہے وہیں تلخ کلامی، بد اخلاقی، فحش کلامی جیسے اعمال سے دوسروں کی دل آزاری بھی کرتا ہے جو کہ حرام ہے اور تلخ کلامی سے دو افراد بلکہ دو خاندان تک متاثر ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بغض، نفرتیں، دشمنیاں جنم لیتی ہیں، تلخ کلامی کا آغاز عموماً بداخلاقی سے ہوتا ہے کیونکہ بد اخلاق شخص عام بات پر بھی اپنی بد اخلاقی کی وجہ سے تلخ کلامی، فحش کلامی پر اتر آتا ہے جس کے نتیجے میں لڑائی جھگڑے، قتل و غارت تک بات پہنچ جاتی ہے۔ بداخلاقی کرنے والے کو خود بھی اپنی بد اخلاقی اور برے رویے کا خیال بہت دیر بعد ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں بداخلاقی کے متعلق ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ یہاں بد اخلاقی کی مذمت کےبارے میں کچھ احادیث ذکر کی جا رہی ہیں تاکہ بندہ بد اخلاقی کے نقصانات جان کر تلخ کلامی اور فحش کلامی جیسے گناہوں سے بچ سکے۔ چنانچہ

فرامین مصطفیٰ:

1۔ عمل کا برباد ہونا: بداخلاقی عمل کو اس طرح برباد کردیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کشف الخفا، ص 405، حدیث: 1496)

2۔ بداخلاق تنہا رہ جائے گا: جس کا اخلاق برا ہوگا وہ تنہا رہ جائے گا اور جس کے رنج زیادہ ہوں گے اس کا بدن بیمار ہوجائے گا اور لوگوں کو ملامت کرے گا اس کی بزرگی جاتی رہے گی اور مروت ختم ہوجائے گی۔ (کتاب البر و الصلۃ، 7/116، حدیث: 2602)

3۔ بداخلاق کی توبہ نہیں: بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بداخلاق کی توبہ نہیں، کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ جاتا ہے۔ (جامع الاحادیث للسیوطی، 2/375، حدیث: 6064)

4۔ جنت میں نہ جائے گا: بداخلاق آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مساویٔ الاخلاق للخرائطی، ص 168، حدیث: 361)

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے، اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (شعب الایمان، 7/78، حدیث: 9545)

قیامت کے دن مؤمن کے میزان عمل میں سب سے زیادہ بھاری عمل اچھے اخلاق ہوں گے اوراللہ فحش کلامی کرنے والے بے حیا آدمی کوبہت ناپسند فرماتا ہے۔ (ترمذی، 3/403، حدیث: 2009)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بد اخلاقی، فحش کلامی، تلخ کلامی جیسے تمام برے اخلاق سے بچنے کی توفیق عطا فرما کر خوش اخلاق بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارا دین اسلام جو مکمل ضابطہ حیات ہے وہ ہمیں جہاں رہنے سہنے چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے آنے جانے الغرض ہر چیز کی رہنمائی فراہم کرتا ہے وہاں دین اسلام ہمیں بولنے پکارنے کا بھی طریقہ سکھاتا ہے جی ہاں اسلام ہمیں اچھے اخلاق اپنانے، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے، قرآن کی رو سے اگر دیکھا جائے تو قرآن پاک میں رب العزت ارشاد فرماتا ہے: وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌۚ-وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا(۵۳) (آیت نمبر 53 الفرقان) ترجمہ کنز الایمان:اور وہی ہے جس نے ملے ہوئے رواں کئے دو سمندر ایک یہ میٹھا ہے نہایت شیریں اور یہ کھاری ہے نہایت تلخ اور ان کے بیچ میں پردہ رکھا اور رو کی ہوئی آڑ۔

اللہ کے آخری نبی ﷺ جو کہ نہایت میٹھی اور شیریں نرم گفتگو فرماتے تھے انکی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ اور مثال ہے کہ اللہ کے پیارے آخری نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بد صورت کر دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1398، حدیث: 2592)قرآن بھی نرمی کا حکم دیتا اور سختی کی مذمت فرماتا ہے اور پیارے آقا کریم ﷺ کی تعلیمات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نرمی ہر بھلائی کی کنجی ہے۔ اللہ پاک نرمی کو پسند فرماتا ہے، عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالی نرمی کرنے والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے، اور نرمی پر وہ جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ سختی اور اس کے علاوہ کسی چیز پر عطا نہیں فرماتا۔ (ابن ماجہ، 4/198، حدیث: 3688)

ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے۔

اخلاق کا معنی صرف یہی نہیں کہ بدتمیزی نہ کی جائے سب سے ہنس کر بولا جائے بلکہ اخلاق میں تمام بھلائیاں مراد ہیں، جیسا کہ برائی کا جواب بھلائی سے دینا، اس کے متعلق آقا تاجدار مدینہ ﷺ کا ارشاد ہے: برائی کو بھلائی سے دور کرو۔ یعنی ہمارے ساتھ کوئی برا سلوک کرے تو ہم بھی اسکے ساتھ ویسا ہی سلوک کر ڈالیں ہرگز نہیں بلکہ ہمارا پیارا دین ہمارے نبی ﷺ ہمیں برائی کو بھلائی سے دور کرنے کا حکم ارشاد فرما رہے ہیں۔ کوئی ہمارے ساتھ برا سلوک کرے ہمیں چاہیے کہ اسکے ساتھ بھلائی کریں اس سے نرمی سے پیش آیا جائے اگر ممکن ہو تو نیکی کی دعوت دی جائے سمجھایا جائے حسن سلوک کیا جائے اور معاف کر دیا جائے درگزر سے کام لیا جائے۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جو تم سے توڑے تم اس سے جوڑوں جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو مزید یہ کہ اخلاق میں اور بہت سے کام شامل ہیں جیسا کہ نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا بھی عمدہ اخلاق میں شامل ہے اور قرآن مجید فرقان حمید نے اس عظیم نیکی (برائی سے روکنا نیکی کا حکم دینا) اسے متقین یعنی نیک اور پرہیزگاروں طریقہ بتایا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکنے والے ہوتے ہیں۔

کسی کو معاف کرنا درگزر سے کام لینا طاقت ہوتے ہوئے بھی بدلہ نہ لینا اللہ کی رضا کی خاطر معاف کر دینا چھوڑ دینا صلح کرنا لڑائی چھڑوانا، یہ تمام کام بھی عمدہ اخلاق کی نشانیاں ہیں الغرض کہ رستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا کہ مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچے یہ بھی اچھا اخلاق ہے اور نیکی اور صدقہ ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ- (پ 24، حم السجدۃ: 34) ترجمہ: اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہو۔

اللہ برائی کے جواب میں نرمی اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے کہ برائی کا جواب بھلائی نرمی سے دیا جائے۔

اخلاق ایسے کہ جہنم کی آگ چھو نہ سکے! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جہنم کی آگ ہر اس شخض پر حرام ہے:

1جو تواضع اختیار کرنے والا ہو۔

2نرم مزاج رکھنے والا۔

3آسانیاں پیدا کرنے والا۔

4لوگوں کی قربت اختیار کرنے والا ہو۔ (مسند امام احمد، 2/90، حدیث: 3938)

نرمی کی فضیلت پر نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: بے شک اللہ تعالی نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر جو چیز دیتا ہے وہ سختی اور دیگر اشیاء پر نہیں دیتا۔(ابن ماجہ، 4/198، حدیث: 3688)

سخت کلامی کا جواب نرمی سے دینا بڑے کمال اور حوصلے کی بات ہے طبیعت میں نرمی اہل جنت کی صفت ہے اتنی بڑی اور کمال حوصلے کی بات پر سودا بھی چھوٹا نہیں بہت بڑا کہ جنت کی صفات میں سے ایک صفت کا ہونا سعادتوں کی معراج ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے اور نرم اخلاق والے پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ (ترمذی، 4/220، حدیث: 2496)

لوگوں میں بد ترین انسان کون؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھی جب ایک آدمی نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ اپنے خاندان کا برا آدمی ہے۔ پھر آپ نے اسے آنے کی اجازت دی، جب وہ آیا تو آپ ﷺ نے سختی کی بجائے نرمی سے گفتگو فرمائی، پھر جب وہ چلا گیا تو میں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ آپ نے پہلے وہ بات فرمائی، پھر اس شخص کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ! لوگوں میں بد ترین انسان وہ ہے جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں یا فرمایا لوگ اس سے دور رہیں۔ (بخاری، 4/114، حدیث: 6054)

نرم اور سہل کلام وہ ہوتا ہے جو احترام سے پُر ہو جس میں فحش کلامی یا تکبر نہ ہو، اس میں سختی اور شدت نہ ہو کیونکہ انسان نرم کلام سننے پر زیادہ آمادہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ آج کے دور کی روحانی شخصیت مولانا الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ جن کے دنیا بھر میں ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں دیوانے ہیں، امیر اہل سنت نہایت نرمی سے گفتگو فرماتے ہیں انکی نرم گفتار اور کردار کی وجہ سے کروڑوں لوگ انکے مرید اور ان پر جان لٹاتے ہیں۔ امیر اہل سنت اپنی ذات پر کی جانےوالی تنقید کا جواب بھی نہایت نرمی اور مسکراتے ہوئے چہرے سے فرماتے ہیں کہ تنقید کرنے والا درس حاصل کرتا اور ہدایت کی راہ پر گامزن ہوتا ہوا امیر اہل سنت کے مریدوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ امیر اہل سنت اپنے مریدوں کو بھی نرمی اختیار کرنے کا حکم دیتے اور سختی سے گریز کرواتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ دعوت اسلامی جو آج دنیا بھر میں دین کا کام کر رہی ہے اللہ کے کرم اور آقا کریم ﷺ کی نظر عنایت کے بعد نرمی کی بنا پر اس قدر آگے بڑھی ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی ہے اپنے مریدوں کو وقتا فو وقتا نرمی کے فضائل بتاتے اور سختی کی مذمت بیان فرماتے رہتے ہیں مدنی انعامات کے رسالے پر غور کیا جائے تو اس میں بھی مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی پر کافی زور دیا گیا ہے جن کا تعلق اخلاق سے ہے، امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ ارشاد فرماتے ہیں:

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

ہمیں چاہیے کہ ہم نرمی کو اپنائیں اور سختی بدکلامی بد مزاجی تلخ کلامی بچیں کیونکہ تلخ کلامی جہاں رب تعالی کو ناراض کرنے کا سبب ہے وہاں معاشرے کی بنیاد کو بھی ہلا ڈالتی ہے اس سے معاشرے پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے اور گھر امن و سکون کا گہوارہ بننے کی بجائے بے راہ روی اور پریشانی کا گہوارہ بنتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں پیارے آقا کریم ﷺ کے صدقے عمدہ اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے تلخ کلامی سے بچائے اور نرمی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


تلخ گوئی، بدزبانی، سخت کلامی، ایسی باتیں یا لہجہ جس سے کسی کی دل آزاری ہو کسی کا مذاق اڑانا طنز و طعنہ زنی کرنا وغیرہ۔

حکم: مذاق اڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (جہنم کے خطرات، ص173)

مومن کی صفات: فرمان آخری نبی ﷺ ہے: مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے۔ (ترمذی، 3/393، حدیث: 1987)

کیمیائے سعادت میں حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: کسی شخص نے حضرت امیرالمؤمنین عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے سخت کلامی کی۔ آپ نے سرجھکا لیا اور فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ مجھے غصّہ آجائے اور شیطان مجھے تکبر اور حکومت کے غرور میں مبتلا کرے اور میں تم کو ظلم کا نشانہ بناؤں اور بروز قیامت تم مجھ سے اس کا بدلہ لو مجھ سے یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ فرما کر خاموش ہوگئے۔ (کیمیائے سعادت، 2/597)

کسی شخص نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو گالی دی۔ انہوں نے فرمایا: اگر بروزقیامت میرے گناہوں کاپلّہ بھاری ہے تو جو کچھ تم نے کہا میں اس سے بھی بدتر ہوں اور اگر میرا وہ پلّہ ہلکا ہے تو مجھے تمہاری گالی کی کوئی پرواہ نہیں۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 9/416)

ہمارے نبی رحمت ﷺ کا انداز مبارک: شہنشاہ خیر الانام ﷺ نے ایک غلام کو کسی کام کیلئے طلب فرمایا، وہ دیر سے حاضر ہوا توحضور انور، مدینے کے تاجور ﷺ کے دست منوّر میں مسواک تھی فرمایا:اگر قیامت میں انتقام نہ لیا جاتا تو میں تجھے اس مسواک سے مارتا۔ (مسند ابو یعلیٰ، 6/90، حدیث: 6892)

دیکھا آپ نے! ہمارے میٹھے میٹھے آقا، شہنشاہ خیرالانام ﷺ کبھی بھی اپنے نفس کی خاطر انتقام نہیں لیتے تھے اور ایک آج کل کا مسلمان ہے کہ اگر نوکر کسی کام میں کوتاہی کردے تو گالیوں کی بوچھاڑ بلکہ مار دھاڑ پر اتر آتا ہے۔

بد گوئی طریقہ کفار ہے، وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ(۶)ترجمہ کنز العرفان: اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے! بے شک تم مجنون ہو جواب باری تعالیٰ: مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ(۲) (پ 29، القلم: 2) ترجمہ کنز الایمان: تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: کفار نے نبی اکرم ﷺ کی شان میں (گستاخی کرتے ہوئے) آپ کو مجنون کہاتو اللہ تعالیٰ نے قسم ارشاد فرما کر ان کی بد گوئی کا رد کرتے ہوئے اپنے حبیب ﷺ سے ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! قلم اور ان کے لکھے کی قسم! آپ مجنون نہیں ہیں کیونکہ آپ پر آپ کے رب تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کا لطف و کرم آپ کے شامل حال ہے، اس نے آپ پر انعام و احسان فرمائے، نبوت اور حکمت عطا کی، مکمل فصاحت، کامل عقل، پاکیزہ خصائل اور پسندیدہ اخلاق عطا کئے، مخلوق کے لئے جس قدر کمالات ہونا ممکن ہیں وہ سب علیٰ وجہ الکمال عطا فرمائے اور ہر عیب سے آپ کی بلند صفات ذات کو پاک رکھا اوران چیزوں کے ہوتے ہوئے آپ مجنون کیسے ہو سکتے ہیں۔ (تفسیر خازن، 4/293)

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ قرآن پاک میں بکثرت مقامات پر انبیاء کرام علیہم السّلام سے کفار کی جاہلانہ گفتگو کا ذکر ہے جس کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بدبخت طرح طرح سے انبیاء کرام کی بارگاہ میں سخت کلامی اوربیہودہ گوئی کرتے اور وہ مقدّس حضرات اپنے عظیم حلم اور فضل کے لائق انہیں جواب دیتے، لیکن حضور سیّد المرسلین ﷺ کی خدمت والا میں کفار نے جو زبان درازی کی ہے اس کا جواب زمین و آسمان کی سلطنت کے مالک رب تعالیٰ نے خود دیا ہے اور محبوب اکرم، مطلوب اعظم ﷺ کی طرف سے خوددفاع فرمایا ہے اورطرح طرح سے حضور پر نور ﷺ کی (کفار کے الزامات سے) پاکی اور براء ت ارشاد فرمائی ہے اور بکثرت مقامات پر دشمنوں کے الزامات دور کرنے پر قسم یاد فرمائی، یہاں تک کہ غنی اور غنی کرنے والے رب تعالیٰ نے ہر جواب سے حضور اقدس ﷺ کو بے نیاز کر دیا،اور اللہ تعالیٰ کا جواب دینا حضور انور ﷺ کے خود جواب دینے سے بدرجہا حضور پر نور ﷺ کے لیے بہتر ہوااور یہ وہ مرتبۂ عظمیٰ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ (فتاوی رضویہ، 30/ 162تا 164ملخصاً)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

ملک خاص کبریا ہو مالک ہر ما سوا ہو

کوئی کیا جانے کہ کیا ہو عقل عالم سے ورا ہو

فرمان امام غزالی ہے: اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ جس پر نبی کریم ﷺ اور صحابہ ٔکرام قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو،کسی کے دل کو اذیّت نہ پہنچاؤ،حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو تمہارے لئے بھی کوئی حرج نہیں لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے۔ (احیاء علوم الدین، 3/159)

اللہ کا محبوب بننے کا نسخہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶) (پ5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخر کرنے والا ہو۔

موضوع آیت: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور عبادت کے جملہ طریقے اسی کےلئے خاص کردئیے جائیں یعنی جانی، مالی، زبانی، قلبی، ظاہری، باطنی ہر طرح کی عبادت اسی پاک پروردگار کےلئے خاص ہو اور کسی قسم کی عبادت میں اصلاً اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔

اور بندوں کے حقوق میں بنیادی اصول دوسروں کو تکلیف سے بچانا اور سہولت و راحت پہنچانا ہے۔ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں، بدکلامی اور بدگمانی سے بچیں، کسی کا عیب نہ بیان کریں، کسی پر الزام تراشی نہ کریں، تلخ کلامی سے بچیں، نرمی سے گفتگو کریں، مسکراہٹیں بکھیریں، جو اپنے لئے پسند کریں وہی دوسروں کےلئے پسند کریں، دوسروں کو اپنے شر سے بچائیں اور ان کے لئے باعث خیر بنیں۔

ہمارےرسول اللہ ﷺ نےتو مسلمانوں کو ایک جسم فرمایاہے جس کے ایک حصے میں ہونے والی تکلیف کوپوراجسم محسوس کرسکے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ امت مسلمہ کےاس جسد واحد کو تلخ کلامی کسی کی دل آزاری کی عادت کس کس طرح نقصان پہنچاتی ہے، تلخ کلامی مسلمانوں کا کلچر نہیں مسلمانوں کے کلچر میں تو ایک دوسرے کوبرے نام سے پکارنے یانام بگاڑنے کی بھی گنجائش نہیں، مسلمانوں کے کلچر میں لہجےکوشہد سے زیادہ میٹھا اورالفاظ کو روئی سے زیادہ نرم رکھنا شامل ہے۔اسلام کےعطاکردہ آرٹ آف کمیونیکیشن پر عبور حاصل کرنے والوں کےذریعےہی دین دنیا بھر میں پہنچا اور دلوں کو فتح کیا۔ اللہ پاک کے نیک بندوں کے حالات زندگی ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ حضرات زبان سےعزتیں ذبح نہیں کرتے تھے بلکہ زبان سے عزتوں کوزندگی اورعزم و حوصلے کو توانائی فراہم کیا کرتے اور اپنےعمل سےیہ ثابت کرتے کہ تعلیمات نبوی پرعمل کرکے یوں دلوں پر حکومت کی جاتی ہے۔

اللہ کریم نے حضور رحمت عالم ﷺ کے ذریعے ہمیں اصول زندگی (Rules of life) عطا فرمائے ہیں جن پر عمل کرکےجینے کاسلیقہ بھی آجاتا ہے اورزندگی دشوار بنانے والے کاموں سے نجات کا راستہ بھی مل جاتا ہے۔ انتخاب کا اختیار ہمارے پاس ہے کہ خواہشات کے پیچھے چل پڑتے ہیں یا اسلام کے عطا کردہ اصول زندگی اپناتے ہیں۔

آئیے! اپنا اختیار استعمال کریں اور اسلام کے عطا کردہ اصول زندگی اپنالیں تاکہ دین ودنیا کی کامیابیاں حاصل کرسکیں۔


کسی انسان کے ساتھ ایسے طریقے سے کلام کرنا کہ الفاظ بہت سخت ہو اسے تلخ کلامی کہتے ہیں۔ جس طرح اگر جسم پر تیز چھری چلائی جائے اگرچہ جسم کاٹنے کی غرض سے نہ چلائی ہو مگر جسم کاٹ دیتی ہے اسی طرح تلخ کلامی کی وجہ سے اگلے کا دل کٹ جاتا ہے۔ تلخ کلامی ہمارے معاشرے کی ایک بہت عام عادت ہے جو نہ جانے روزانہ کتنے لوگوں کے دل کاٹتی ہے۔ اس ضمن میں چند احادیث مبارکہ ملاحضہ کیجیے۔

خیر سے محرومی کا باعث: حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو نرمی سے محروم کیا گیا وہ تمام خیر سے محروم کیا گیا۔ (ابو داود، ص 512، حدیث: 1382)

کونسا اسلام افضل ہے: حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو ارشاد فرمایا کہ اس شخص کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام مسلمان سلامت رہیں۔ (بخاری، 1/16، حدیث:11)

سچا مسلمان کون ہے: رسول الله ﷺ نے فرمایا: سچا مسلمان وہ جس کے زبان و ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور سچا مؤمن وہ جس سے لو گ اپنے خون و مال میں مطمئن رہیں۔ یعنی اس کا برتاؤ ایسا اچھا ہو کہ لوگوں کو قدرتی طور پر اس کی طرف سے اطمینان ہو کہ یہ نہ ہمارے مال مارے گا، نہ تکلیف دے گا،یہ اطمینان مسلمین الله کی بڑی نعمت ہے اسی لئے بزرگ فرماتے ہیں کہ کسی کی قوت ایمانی جانچنے کے لئے اس کے پڑوسیوں اور دوستوں سے پوچھو۔ اس حدیث سے اشارۃً معلوم ہورہا ہے کہ اسلام اور ایمان میں فرق ہے اسلام کا تعلق ظاہر اعضاء سے ہے اور ایمان کا قلب سے۔ (مراۃ المناجیح، 1/54)

ہمیں چاہیے کہ ہمارے ہر ہر اعضاء سے ہمارے مسلمان بھائی محفوظ رہے۔ اللہ پاک ہمیں پیارے آقا ﷺ کے پیارے انداز گفتگو کے صدقے ہماری زبان بھی اچھی کر دے کہ کسی کو ہماری وجہ سے کوئی ایذا نہ ہو۔


تلخ کلامی کا مطلب ہے تلخ گوئی، بدزبانی، سخت کلامی، وہ شخص جس کی باتیں طنز کی ہوں۔ ہمارا پیارا دین امن و سلامتی کادین ہے جو دیگر تعلیمات کے ساتھ ساتھ ہمیں اچھے آداب و اخلاق بھی سکھاتا ہے، زبان ہمارے بدن کا وہ حصہ ہے جس کے متعلق حدیث مبارکہ کا مضمون ملتا ہے کہ جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے اعضاء جھک کر زبان سے کہتے ہیں: ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر! کیونکہ ہم تجھ سے متعلق ہیں اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر تو ٹیڑھی ہو گی ہم بھی ٹیرھے ہو جائیں گے۔ (ترمذی، 4/183، حدیث: 2415)

بہت سے گناہ ایسے ہیں جو زیادہ تر زبان سے ہی ہوتے ہیں جیسے جھوٹ، غیبت چغلی، بد کلامی کرنا، وغیرہ وغیرہ ایذائے مسلم کی بہت سی باتیں زبان سے تعلق رکھتی ہیں انہی میں سے ایک گناہ تلخ کلامی بھی ہے، اگر انسان اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور اے کاش! زبان کا قفل مدینہ عطا ہو جائے تو بہت سے گناہوں سے بچا جا سکتا ہے

حکم: تلخ کلامی ایک ایسا گناہ ہے جس سے دوسروں کو ایذا ہوتی ہے اور ایذا دینی حرام ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص44)

اللہ پاک سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 42 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴۲)ترجمہ کنز العرفان: گرفت صرف ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

یاد رہے کہ ظلم کی دو قسمیں ہیں (1) شخصی ظلم۔ (2) قومی ظلم۔آیت کے ا س حصے یظلمون النّاس میں شخصی ظلم مراد ہے جیسے کسی کو مارنا، گالی دینا، مال مار لینا۔

حدیث مبارکہ میں صحابی رسول حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مکی مدنی آقا ﷺ نے فرمایا: بےشک مجھے تم میں سے سب سے پیارا اور قیامت کے دن میرے نزدیک تر وہ شخص ہوں گے جو تم سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہیں اور تم میں سے مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور قیامت کے دن مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو برے اخلاق والے ہیں، جو زیادہ باتیں کرنے والے منھ پھٹ، باچھیں کھول کر اور منہ بھر کر باتیں کرنے والے ہیں۔ (شعب الایمان، 6/ 234، حدیث: 7989)

تلخ کلامی کے اسباب و علاج:

1۔ بری صحبت برے اخلاق کا سبب بنتی ہے جن لوگوں کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ان کی عادات و اطوار ہماری ذات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ نیک اور بااخلاق و باعمل لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ بدکلامی جیسی عادت بد سے جان چھڑائی جا سکے۔

2۔ تلخ کلامی کا ایک سبب بےجا غصہ کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ انسان ذاتی انتقام کے لیے غصہ کرے کیونکہ غصے میں انسان بہت سی ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جن کے متعلق بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے اس کا علاج یہ ہے کہ انسان خود کو یوں ڈرائے کہ اگر غصے کے سبب مجھ سے تلخ کلامی ہوگئی کسی کی دل آزاری ہو گئی تو کہیں یہ فرمان مجھ پر ہی لاگو نہ ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جہنم میں ایک دروازہ ہے اس سے وہی داخل ہوں گے جن کا غصہ کسی گناہ کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ (مسند الفردوس، 1/205، حدیث: 784)

3۔ تلخ کلامی کا ایک سبب جہالت بھی ہے کہ بعض لوگ اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور جب کسی مرض کے متعلق علم ہی نا ہو تو اس کا علاج بھی ممکن نہیں اس کا علاج یہ ہے کہ اس کے بارے میں علم دین حاصل کیا جائے اور تلخ کلامی کے عذابات کو پڑھا جائے اور اپنے نازک بدن پر غور کیا جائے کہ اگر ان میں سے کوئی عذاب ہم پر مسلط کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔

4۔ کسی کے لیے دل میں بغض و کینہ بھی تلخ کلامی کا سبب بن سکتا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ سلام و مصافحہ کی عادت بنائی جائے تاکہ دل میں پیارو محبت کے جذبات پیدا ہوں مزید دل میں احترام مسلم کا جذبہ جنم لے۔

5۔ تلخ کلامی کا ایک سبب خشیت الہی کی کمی بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کے دل میں اللہ کا خوف نہ رہے اور اس سبب اس کے دل میں جو آئے کرتا چلا جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کی صحبت میں رہا جائے خوف الٰہی رکھنے والے ہوں اس کا بہترین ذریعہ ہماری پیاری تحریک دعوت اسلامی کا پیارا پیارا مہکا مہکا مدنی ماحول ہے جس سے ہر دم وابستہ رہنا چاہیے تاکہ گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے تاکہ ہمارا بھی اللہ کے فضل و کرم اور پیارے آقا ﷺ کے صدقے بیڑا پار ہو جائے۔ آمین بجاہ طہ و یسین ﷺ

اللہ ہمیں ظاہری و باطنی گناہوں کی معلومات کے بارے میں علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین