ہمارا دین اسلام جو مکمل ضابطہ حیات ہے وہ ہمیں جہاں رہنے سہنے چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے آنے جانے الغرض ہر چیز کی رہنمائی فراہم کرتا ہے وہاں دین اسلام ہمیں بولنے پکارنے کا بھی طریقہ سکھاتا ہے جی ہاں اسلام ہمیں اچھے اخلاق اپنانے، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے، قرآن کی رو سے اگر دیکھا جائے تو قرآن پاک میں رب العزت ارشاد فرماتا ہے: وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌۚ-وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا(۵۳) (آیت نمبر 53 الفرقان) ترجمہ کنز الایمان:اور وہی ہے جس نے ملے ہوئے رواں کئے دو سمندر ایک یہ میٹھا ہے نہایت شیریں اور یہ کھاری ہے نہایت تلخ اور ان کے بیچ میں پردہ رکھا اور رو کی ہوئی آڑ۔

اللہ کے آخری نبی ﷺ جو کہ نہایت میٹھی اور شیریں نرم گفتگو فرماتے تھے انکی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ اور مثال ہے کہ اللہ کے پیارے آخری نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بد صورت کر دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1398، حدیث: 2592)قرآن بھی نرمی کا حکم دیتا اور سختی کی مذمت فرماتا ہے اور پیارے آقا کریم ﷺ کی تعلیمات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نرمی ہر بھلائی کی کنجی ہے۔ اللہ پاک نرمی کو پسند فرماتا ہے، عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالی نرمی کرنے والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے، اور نرمی پر وہ جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ سختی اور اس کے علاوہ کسی چیز پر عطا نہیں فرماتا۔ (ابن ماجہ، 4/198، حدیث: 3688)

ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے۔

اخلاق کا معنی صرف یہی نہیں کہ بدتمیزی نہ کی جائے سب سے ہنس کر بولا جائے بلکہ اخلاق میں تمام بھلائیاں مراد ہیں، جیسا کہ برائی کا جواب بھلائی سے دینا، اس کے متعلق آقا تاجدار مدینہ ﷺ کا ارشاد ہے: برائی کو بھلائی سے دور کرو۔ یعنی ہمارے ساتھ کوئی برا سلوک کرے تو ہم بھی اسکے ساتھ ویسا ہی سلوک کر ڈالیں ہرگز نہیں بلکہ ہمارا پیارا دین ہمارے نبی ﷺ ہمیں برائی کو بھلائی سے دور کرنے کا حکم ارشاد فرما رہے ہیں۔ کوئی ہمارے ساتھ برا سلوک کرے ہمیں چاہیے کہ اسکے ساتھ بھلائی کریں اس سے نرمی سے پیش آیا جائے اگر ممکن ہو تو نیکی کی دعوت دی جائے سمجھایا جائے حسن سلوک کیا جائے اور معاف کر دیا جائے درگزر سے کام لیا جائے۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جو تم سے توڑے تم اس سے جوڑوں جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو مزید یہ کہ اخلاق میں اور بہت سے کام شامل ہیں جیسا کہ نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا بھی عمدہ اخلاق میں شامل ہے اور قرآن مجید فرقان حمید نے اس عظیم نیکی (برائی سے روکنا نیکی کا حکم دینا) اسے متقین یعنی نیک اور پرہیزگاروں طریقہ بتایا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکنے والے ہوتے ہیں۔

کسی کو معاف کرنا درگزر سے کام لینا طاقت ہوتے ہوئے بھی بدلہ نہ لینا اللہ کی رضا کی خاطر معاف کر دینا چھوڑ دینا صلح کرنا لڑائی چھڑوانا، یہ تمام کام بھی عمدہ اخلاق کی نشانیاں ہیں الغرض کہ رستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا کہ مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچے یہ بھی اچھا اخلاق ہے اور نیکی اور صدقہ ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ- (پ 24، حم السجدۃ: 34) ترجمہ: اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہو۔

اللہ برائی کے جواب میں نرمی اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے کہ برائی کا جواب بھلائی نرمی سے دیا جائے۔

اخلاق ایسے کہ جہنم کی آگ چھو نہ سکے! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جہنم کی آگ ہر اس شخض پر حرام ہے:

1جو تواضع اختیار کرنے والا ہو۔

2نرم مزاج رکھنے والا۔

3آسانیاں پیدا کرنے والا۔

4لوگوں کی قربت اختیار کرنے والا ہو۔ (مسند امام احمد، 2/90، حدیث: 3938)

نرمی کی فضیلت پر نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: بے شک اللہ تعالی نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر جو چیز دیتا ہے وہ سختی اور دیگر اشیاء پر نہیں دیتا۔(ابن ماجہ، 4/198، حدیث: 3688)

سخت کلامی کا جواب نرمی سے دینا بڑے کمال اور حوصلے کی بات ہے طبیعت میں نرمی اہل جنت کی صفت ہے اتنی بڑی اور کمال حوصلے کی بات پر سودا بھی چھوٹا نہیں بہت بڑا کہ جنت کی صفات میں سے ایک صفت کا ہونا سعادتوں کی معراج ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے اور نرم اخلاق والے پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ (ترمذی، 4/220، حدیث: 2496)

لوگوں میں بد ترین انسان کون؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھی جب ایک آدمی نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ اپنے خاندان کا برا آدمی ہے۔ پھر آپ نے اسے آنے کی اجازت دی، جب وہ آیا تو آپ ﷺ نے سختی کی بجائے نرمی سے گفتگو فرمائی، پھر جب وہ چلا گیا تو میں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ آپ نے پہلے وہ بات فرمائی، پھر اس شخص کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ! لوگوں میں بد ترین انسان وہ ہے جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں یا فرمایا لوگ اس سے دور رہیں۔ (بخاری، 4/114، حدیث: 6054)

نرم اور سہل کلام وہ ہوتا ہے جو احترام سے پُر ہو جس میں فحش کلامی یا تکبر نہ ہو، اس میں سختی اور شدت نہ ہو کیونکہ انسان نرم کلام سننے پر زیادہ آمادہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ آج کے دور کی روحانی شخصیت مولانا الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ جن کے دنیا بھر میں ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں دیوانے ہیں، امیر اہل سنت نہایت نرمی سے گفتگو فرماتے ہیں انکی نرم گفتار اور کردار کی وجہ سے کروڑوں لوگ انکے مرید اور ان پر جان لٹاتے ہیں۔ امیر اہل سنت اپنی ذات پر کی جانےوالی تنقید کا جواب بھی نہایت نرمی اور مسکراتے ہوئے چہرے سے فرماتے ہیں کہ تنقید کرنے والا درس حاصل کرتا اور ہدایت کی راہ پر گامزن ہوتا ہوا امیر اہل سنت کے مریدوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ امیر اہل سنت اپنے مریدوں کو بھی نرمی اختیار کرنے کا حکم دیتے اور سختی سے گریز کرواتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ دعوت اسلامی جو آج دنیا بھر میں دین کا کام کر رہی ہے اللہ کے کرم اور آقا کریم ﷺ کی نظر عنایت کے بعد نرمی کی بنا پر اس قدر آگے بڑھی ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی ہے اپنے مریدوں کو وقتا فو وقتا نرمی کے فضائل بتاتے اور سختی کی مذمت بیان فرماتے رہتے ہیں مدنی انعامات کے رسالے پر غور کیا جائے تو اس میں بھی مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی پر کافی زور دیا گیا ہے جن کا تعلق اخلاق سے ہے، امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ ارشاد فرماتے ہیں:

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

ہمیں چاہیے کہ ہم نرمی کو اپنائیں اور سختی بدکلامی بد مزاجی تلخ کلامی بچیں کیونکہ تلخ کلامی جہاں رب تعالی کو ناراض کرنے کا سبب ہے وہاں معاشرے کی بنیاد کو بھی ہلا ڈالتی ہے اس سے معاشرے پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے اور گھر امن و سکون کا گہوارہ بننے کی بجائے بے راہ روی اور پریشانی کا گہوارہ بنتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں پیارے آقا کریم ﷺ کے صدقے عمدہ اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے تلخ کلامی سے بچائے اور نرمی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین