
مشورے کے معنی
کسی معاملے یا فیصلے میں کسی دوسرے کی رائے تجویز یا رہنمائی حاصل کرنا ہے۔ مشورہ
اپنے سے زیادہ تجربہ اور علم والے سے مانگا جاتا ہے۔ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ
وہ مشورہ مانگنے والے کو اپنے تجربے اور علم کے مطابق بہترین مشورہ دے اور مشورہ
دینے سے انکار نہ کرے، جب ہم سے مشورہ مانگا جائے اور ہمیں اس کے بارے میں علم
ہے۔ہم اس بارے میں جانتے ہیں۔ ہم اس بارے میں تجربہ رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے علم
اور اپنی عقل اور اپنی سمجھ کے مطابق بہتر سے بہتر مشورہ دینا چاہیے اور بعض مشورہ
دینے سے انکار کر دیتے ہیں کہ میرے پاس وقت نہیں۔
مشورہ نیکی
اچھائی اور اچھے کاموں کے لیے دینا چاہیے۔ غلط کاموں میں گناہ کے کاموں میں زیادتی
کے کاموں میں مشورہ نہیں دینا چاہیے۔ مشورہ جو بھی دیا جائے اپنے علم اور تجربے کے
مطابق درست اور صحیح دیا جائے۔
اگر ہم جانتے
بوجھتے کسی کو غلط مشورہ دیں تو سخت گناہ گار ہونگے ہم خیانت کے مرتکب ہونگے۔
مسلمان ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں
فرمایا گیا ہے: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ
اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
کسی کو غلط
مشورہ دے دینا اور پھر اس پر ہنسنا یہ بہت ہی غلط بات ہے اور خیانت ہے۔
اللہ پاک نے
نبی کریم ﷺ کو بھی مشاورت کا حکم دیا: وَ شَاوِرْهُمْ
فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل
عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ یعنی صحابہ کرام سے۔ نبی اکرم ﷺ اپنے اصحاب سے
مشاورت کرتے تھے۔ اور ان کے مشورے پر عمل بھی کرتے تھے۔
ایک صحابی نے
مشورہ دیا کہ یہ جگہ بہتر نہیں ہے فلاں جگہ پر پڑاؤ ڈالنا چاہیےجہاں پانی نزدیک ہو
آپ نے ان کے مشورے سے جگہ تبدیل کی۔ جنگ بدر میں آپ نے مشورے کی بنیاد پر پڑاؤ کی
جگہ تبدیل کی، قیدیوں کے بارے میں اصحابہ کرام سے مشاورت کی، جنگ احد میں مدینہ سے
باہر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مشورے سے ہوا حالانکہ
نبی کریم ﷺ مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنا چاہتے تھے، جنگ خندق میں خندق کھودنے
کا مشورہ حضرت سلمان فارسی نے دیا جس پر عمل ہوا۔
جن سے مشورہ
مانگا جائے وہ بہترین مشورہ دے۔ اگر مشورہ دینے والے کو اس بارے میں علم نہ ہو تو
مشورہ لینے والے کو بتا دے۔ اگر جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو اس نے خیانت کی اور
خیانت بہت برا جرم ہے۔
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس سے اس کے کسی
بھائی نے مشورہ طلب کیا اور اس نے غلط مشورہ دیا تو اس نے مشورہ دینے والے کی
خیانت کی۔(ابو داود، 3/449، حدیث:3657)
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی سے اس کے بھائی
نے مشورہ مانگا اور اس نے بغیر سوچے مشورہ دے دیا تو اس نے اس مسلمان بھائی کے
ساتھ خیانت کی۔ (الادب المفرد، ص 254)

مشورہ کے
معنیٰ: کسی معاملے میں کسی کی رائے دریافت کرنا۔ کام کسی بھی نوعیت کا ہو! اسے
کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا بہت مفید ہے۔
مشورہ کرنا
سنّت سرکار ہے۔ آپ ﷺ نے میدان بدر میں جگہ کے انتخاب کے لئے حضرت حباب بن منذر رضی
اللہ عنہ کا مشورہ قبول فرمایا جس کا مسلمان لشکر کو فائدہ ہوا۔ (تاریخ اسلام، 3/286)
ہمارے خلفائے
راشدین بھی مشورہ کرتے تھے، چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ نوجوان اورعمر رسیدہ دونوں طرح کے علمائے کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبد
العزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے شریف کے گورنر بنے تو پہلا کام
یہ کیا کہ وہاں کے فقہائے کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا اور ان کی باقاعدہ
مجلس شوریٰ بنادی جو آپ کو ضرورتاً مشورے دیا کرتی تھی۔ (البدایۃ و النھایہ، 6/ 332)
آج
کے دور میں مشورہ کس سے مانگیں؟ ہر کسی سے بھی مشورہ لینا عقلمندی نہیں
ہے ہر معاملے میں ہر کسی سے بھی مشورہ نہیں لیا جا سکتا۔ کیونکہ ہر چیز کی قیمت اس
چیز کا قدر دان ہی بہتر جان سکتا ہے۔
جیسے کہ ایک
نایاب موتی کی قیمت ایک سونار ہی جان سکتا ہے۔ مگر عام آدمی کی نظر میں اس کی کچھ
قیمت نہیں۔ اس لیے مشورہ بھی کسی عقلمند اور تجربی کار انسان سے کیا جائے جو آپ کو
کسی مصیبت میں بھی نہ ڈالے۔
جیسا کہ تفسیر
روح المعانی میں بیان ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے
جب خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی
حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب
نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر
کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں
عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب
ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی
وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء: 16،
ص 682)
ہامان کے
فرعون کو غلط مشورے نے اس کو ایمان قبول کرنے سے محروم کر دیا ایسے ہی بہت سے
بیوقوف لوگ ہیں جو دوسروں کو غلط مشورے دے کر ان کو مصیبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔
حالانکہ ان کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا مشورہ دے رہے ہیں۔
جس سے مشورہ
کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا،
فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تواس نے اپنے بھائی
کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے
مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو
وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی،
راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)
اس لیے چاہیے
کہ کسی کو غلط مشورہ نہ دیا جائے۔ کیونکہ ہر کسی کی جسمانی و ذہنی کیفیات مختلف
ہوتی ہیں۔ ایک ہی چیز کسی کو ترقّی دے دیتی ہے اور کسی کو زمین پر دے مارتی ہے!
شاید آپ کہیں کہ ہم نے محبت اور ہمدردی میں مشورہ دیا تو یاد رکھئے کہ نادان دوست
سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، ہر سمجھ دار شخص اپنے برے بھلے کو خوب پہچانتا ہے اس
کی ہمدردی کسی اور کے ساتھ ہو نہ ہو اپنے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔
اس لیے ہمیں
چاہیے کہ کو مشورہ دیں تو غلط مشورہ نہ دیں بلکہ اس کو صحیح مشورہ دیں اور صحیح
انسان سے ہی مشورہ کرے۔

زندگی میں
مشورہ ہماری رہنمائی کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم ہر دن مختلف مسائل کا سامنا
کرتے ہیں اور بہتر فیصلے کرنے کے لئے دوسروں سے مشورہ لیتے ہیں۔ تاہم، بعض اوقات
غلط مشورے بھی دیئے جاتے ہیں جو ہمیں مشکلات میں ڈال سکتے ہیں۔ غلط مشورہ ایک ایسا
مشورہ ہوتا ہے جو غلط یا غیر مناسب معلومات پر مبنی ہو اور جو کسی شخص کے فائدے کی
بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
غلط
مشورے کے اثرات: غلط
مشورے کے اثرات مختلف صورتوں میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ
ہم اپنے فیصلے میں غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں، جو کہ ہمارے مقصد کے حصول میں
رکاوٹ بنتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو کاروبار شروع کرنے کے لئے غلط مشورہ
ملے تو وہ صحیح حکمت عملی اختیار نہ کر سکے گا، اور اس کے کاروبار کو نقصان پہنچے
گا۔
غلط مشورے کی وجوہات: غلط مشورے
دینے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مثلاً: غلط معلومات، ذاتی مفادات اور غلط فہمی
وغیرہ۔
غلط مشورے سے
بچنے کے لئے چند اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں، مثلاً: معلومات کی تصدیق کریں، ماہر
افراد سے مشورہ لیں اور خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنائیں۔
غلط مشورہ
انسان کو مشکلات میں ڈال سکتا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم مشورے کو احتیاط سے سنیں
اور صرف ایسے مشورے پر عمل کریں جو ہماری حالت اور مقصد سے ہم آہنگ ہوں۔ زندگی میں
بہترین فیصلے کرنے کے لئے خود اعتمادی، صحیح معلومات اور مناسب رہنمائی ضروری ہے۔
غلط مشورہ
دینا یا لینا ایک طرح سے کسی کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے، جو کہ اسلام میں سخت
ناپسندیدہ ہے۔
جب تمہیں کوئی
مشورہ دیا جائے تو اسے ٹھیک سے سنو اور پھر فیصلہ کرو، کیونکہ مشورہ آپ کو بہترین
راستہ دکھاتا ہے۔
اس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ مشورہ دینا اور لینا ایک ذمہ داری ہے اور اس میں اخلاص اور سچائی ضروری
ہے تاکہ فائدہ ہو نہ کہ نقصان۔
اسلام ہمیں یہ
سکھاتا ہے کہ ہم کسی سے مشورہ لینے سے پہلے اس شخص کی صلاحیت اور علم کا جائزہ
لیں۔ اگر وہ شخص کسی مخصوص شعبے میں ماہر نہیں ہے تو اس سے مشورہ لینے سے اجتناب
کرنا چاہیے۔
حدیث کی روشنی
میں ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ غلط مشورہ دینا یا لینا صرف دنیاوی مشکلات کا سبب نہیں
بنتا بلکہ دین کے اعتبار سے بھی یہ ناپسندیدہ ہے۔ مشورے کے انتخاب میں احتیاط اور
صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں میں کامیاب اور محفوظ
رہیں۔
اسلام میں
مشورہ کی اہمیت اور اس کی صحیح نوعیت پر قرآن مجید میں بھی گہری توجہ دی گئی ہے۔
قرآن میں مشورہ لینے کی اہمیت بیان کی گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان
کیا گیا ہے کہ غلط مشورہ دینا یا لینا ایک سنگین معاملہ ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید میں
مشورہ لینے کو ایک مثبت عمل قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشورٰی میں
فرمایا: وَ
الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ
شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
غلط مشورہ از بنت محمد رفیق، جامعۃ المدینہ طارق
بن زیاد کالونی ساہیوال

مشورہ اسلامی
تعلیمات میں سے ایک نہایت مہتم بالشان حکم ہے، اور رسول الله ﷺ کی سنت اور آپ کے
عمل سے ثابت ہے۔ مشورے کے متعلق آپ نے فرمایا: جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ
امانت دار ہوتا ہے۔ اسے امانتداری کا پورا حق اد کرنا چاہئے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث:
2831)
مشورہ کی
ضرورت عموماً اس وقت پیش آتی ہے جب کسی معاملے کے دو یا اس سے زیادہ پہلو نظروں کے
سامنے ہوں اور دونوں پہلوؤں میں فائدے اور نقصان دونوں باتوں کااحتمال ہو۔
مشورہ
کس سے کیا جائے ؟ ہر
کسی سے مشورہ لینادانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا
اہل ہوتا ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ
نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گاـ
چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقوی والے، خبر خواہ اور
بے غرض ہوں۔
غلط
مشورہ نہ دیجئے: جس
سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ مشورہ دے وہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا۔
فرمان مصطفی ﷺ
ہے: جو اپنے بھائی کو جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت
کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور
دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشورہ دینے والا پکاّ
خائن ہے۔ خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ
المناجیح، 1/212)
مشورہ
دینے والے کیلئے حکم: جس طرح اسلام میں مشورہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی
ہے اسی طرح ان افراد کے بارے میں بھی احکام ہیں، جن سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً
یہ کہ خیر خواہی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ـ
مشورہ میں خیانت کرنے کو گناہ کبیرہ کہا گیا ہے۔
غیر مسلم کو
بھی غلط مشورہ نہ دیا جائے، غیر مسلموں کیلئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ مشورہ طلب کریں
تو ان سے کسی قسم کی خیانت نہ کی جائے اور جو صحیح رائے ہو وہی انہیں دی جائے۔

مشورہ کرنے کا
حکم اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کو قرآن کریم میں دیا۔ مشورہ کرنا سنت مصطفی
ہے۔ مشورہ کرنے والا دانائی اور حکمت کو پا لیتا ہے۔ مشورہ انسان کو درستی کے قریب
کر دیتا ہے۔ لیکن یہ سب برکات اچھے اور درست مشورے کے ساتھ خاص ہیں جبکہ اس کے
برعکس غلط مشورہ انسان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ غلط مشورے نے ہی
فرعون کو دلائل واضح ہوجانے کے باوجود حق کا انکار کرنے پر ابھارا۔غلط مشورے نے ہی
عقبہ بن ابی معیط کو مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہونے پر مجبور کیا۔غلط مشورہ ہی ابن
سعد کی امام حسین رضی اللہ عنہ پر لشکر کشی کا سبب بنا۔ غرض یہ کہ ایک غلط مشورہ
کی وجہ سے انسان انسانیت کے درجے سے گرے کام کر گزرتا ہے اور پھر دنیا و آخرت میں
شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو غلط مشورہ تین پہلوؤں پر مشتمل
ہے:
غلط فرد سے
مشورہ کرنا،غلط کام کا مشورہ کرنا،کسی کو غلط مشورہ دینا۔آئیے مختصرا ان کا جائزہ
لیتے ہیں:
غلط
فرد سے مشورہ لینا: نااہل سے مشورہ کرنا مشورہ کرنے والے کی نااہلیت پر
دلالت کرتا ہے۔احمق اور بیمار سے مشورہ کرنے سے منع کیا گیا کہ احمق فائدہ پہنچانے
کے چکر میں نقصان پہنچا دے گا اور بیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔ کسی بھی
معاملے میں مشورہ طلب کرتے وقت مشیر کی قابلیت اور صلاحیت کو مد نظر رکھا جائے
ورنہ اگر ہیرے کی قیمت میں سبزی فروش سے مشورے کرنے پر اس کی قیمت چند لیموں ہی طے
پا سکتی ہے۔
کفار غلط
افراد سے مشورہ طلب کرنے اور دوستی کے سبب نصیحت آنے کے باوجود کفر پر قائم رہے
اور قیامت کے دن ان کی حسرت کے الفاظ کو یوں بیان فرمایا گیا: یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ
لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ
اِذْ جَآءَنِیْؕ- (پ
19، الفرقان: 28، 29)ترجمہ کنز العرفان: ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں
کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا۔
حضرت سفیان
ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:تمہارے مشیر متقی، امانت دار اور اللہ سے
ڈرنے والے ہوں۔
غلط
کام کا مشورہ کرنا: اگر جس کام کیلئے مشورہ کیا جا رہا ہے وہ ہی برا
اور مذموم ہے تو اس کیلئے مشاورت بھی یقینا غلط ہی ہے۔قرآن پاک میں برائی کے کام
پر ایک دوسرے کی مدد کرنے سے منع فرمایا گیا: وَ
تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ
وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6،
المائدۃ: 2) ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور
زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ یوہیں غلط کام کیلئے مشورہ کرنے والوں کیلئے
فرمایا: لَا خَیْرَ فِیْ
كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ (پ 5، النساء: 114) ترجمہ کنز العرفان:
ان کے اکثرخفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔
صراط الجنان
میں ہے: اس آیت مبارکہ میں اس گروہ کے لئے نصیحت ہے جن کے مشورے فضولیات پر مشتمل
ہوتے ہیں یا جو معاذاللہ گناہ کو پروان چڑھانے کیلئے مشورے کرتے ہیں جیسے سینما
بنانے، بے حیائی کے سینٹر بنانے، فلمی صنعت کی ترقی کیلئے مشورے کرتے ہیں یہ مشورے
صرف خیر سے خالی نہیں بلکہ شر سے بھر پور ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا
فرمائے۔
غلط
مشورہ دینا: بعض
اوقات ایسا بھی ہوتا ہے مشیر اہل ہونے کے باوجود کسی فاسد غرض کی بنا پر درست
مشورہ نہیں دیتا۔کبھی معاملہ سلجھتا نظر آ رہا ہوتا ہے مگر کہیں یہ مجھ سے آگے نہ
نکل جائے اس دوڑ میں غلط مشورے سے اس کو مزید الجھا دیا جاتا ہے تو کبھی بغض و
کینہ یا حسد غلط رائے دینے پر ابھارتا ہے۔ جیسے شیطان نے جنت میں حضرت آدم علیہ
السلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے وسوسہ ڈالا کہ تمہیں تمہارے رب نے ممنوعہ درخت
سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے
نہ بن جاؤ اس مشورے کی وجہ سے حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے اس درخت سے کھایا اور
حضرت آدم علیہ السلام کو بھی دیا اس پر دونوں کو جنت سے زمین پر اترنے کا حکم الہی
ہوا۔ یاد رہے کہ مشورہ دینے والا امین ہے۔اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: جو
اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ یہ جانتے ہوئے دے کہ درستی اس کے علاوہ میں ہے اس
نے اس کی خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)
اللہ پاک ہمیں
اچھے افراد کی صحبت عطا فرمائے اور برے افراد کے شر سے محفوظ رکھے۔

قارئین! وعظ و
نصیحت کا لفظ عام طور پر خلوص و عزت کے لیے بھلائی کی بات بتانے اور نیک صلاح
مشورے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ شفاء شریف میں ہے کہ جس شخص کو نصیحت
کی جا رہی ہو اس کی مکمل بھلائی اور خیر خواہی کے ارادے کو لفظ نصیحت تعبیر کیا
جاتا ہے۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 351)
مشورہ دو طرح
کا ہوتا ہے: 1)اچھا مشورہ 2)غلط مشورہ۔
غلط مشورہ ایک
ایسا مشورہ ہوتا ہے جو کسی کے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مشورہ
نادانستہ طور پر دیا جا سکتا ہے جیسا کہ کسی کی نا واقفیت کی وجہ سے، یا جان بوجھ
کر جیسا کہ کسی کے خلاف سازش کے طور پر۔
مشورہ
کی تعریف: کسی
معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔
اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ
اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
مفسرین نے
لکھا ہے کہ یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے سید المرسلین ﷺ کی زبان
اقدس سے اپنے رب پاک کی دعوت قبول کر کے ایمان اور اطاعت کو اختیار کیا۔ ان انصار
کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ جب انہیں کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو پہلے آپس میں
مشورہ کرتے ہیں پھر وہ کام سرانجام دیتے ہیں، اس میں وہ جلد بازی اور من مرضی نہیں
کرتے۔ (صراط الجنان، 9/80 )
مشورہ
کرنے کی اہمیت: مشورے
کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو بھی
اجتہادی امور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ
فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل
عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
اور تاجدار
رسالت ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام بھی دینی و دنیاوی اہم امور باہم مشورے
سے طے کرتے تھے۔
مسلمانوں کو
اچھے مشورے کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ برے مشورے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ
فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ وَ
تَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَ التَّقْوٰىؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ
تُحْشَرُوْنَ(۹)
(پ 28، المجادلۃ:9) ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم آپس میں مشورہ کرو تو گناہ اور حد
سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کا مشورہ نہ کرو اور نیکی اورپرہیزگاری کا مشورہ
کرو اوراس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تمہیں اکٹھا کیا جائے گا۔
اس آیت مبارکہ
سے مشورے کے متعلق معلوم ہونی والی 2 باتیں:
1) مسلمان
صلاح مشورے مسلمانوں ہی سے کریں، کفار سے نہ کریں اور انہیں اپنا مشیر وغیرہ نہ
بنائیں۔
2)آپس میں
مشورے بھی اچھے ہی کریں، برے نہ کریں۔
مشورہ کرنا
سنت ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہو جاتا
ہے اگر اس نے جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو وہ خیانت کرنے والا کہلائے گا۔ (ترمذی،
4/375، حدیث: 2831)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (جب) تم سے کوئی مشورہ کرے تو اچھا مشورہ دو، اگر
شرعی مسئلہ پوچھے تو ضرور بتاؤ یعنی خالص اچھی رائے دو جس میں برائی کا شائبہ نہ
ہو۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 359)
حضرت حسن رضی اللہ
عنہ نے فرمایا: جو قوم مشورہ کرتی ہے وہ صحیح راہ پر پہنچتی ہے۔ (صراط الجنان، 9/81)
بار بار غلط
مشورہ ملنے سے بسا اوقات انسان خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے، جس کے سبب
وہ درست فیصلہ بھی نہیں کر پاتا۔ جس سے مشورہ لیا جائے اس پر لازم ہے کہ مخلص ہو
کر اچھا مشورہ دے۔
جس سے مشورہ
لیا جائے اس میں درج ذیل خصوصیات ہونی لازمی ہیں:

دین اسلام میں
مشورہ کی بڑی اہمیت ہے قرآن پاک میں پوری ایک سورت شوریٰ اسی نام سے موجود ہے جو
مشورہ کی فضلیت پر دلیل ہے، چنانچہ میں ارشاد ہوتا ہے: وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
جس طرح صحیح
مشورہ دینے کی بڑی فضیلت ہے اسی طرح غلط مشورہ دینے کی وعیدات بھی ہیں۔
پیاری اسلامی بہنو!
کسی مسلمان کا نقصان چاہنا اور جان بوجھ کر اسے غلط مشورہ دینا ناجائز و گناہ ہے ایسے
شخص کو حدیث پاک میں خائن (خیانت کرنے والا) کہا گیا ہے۔چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جو اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ یہ جانتے ہوئےدے کہ درستی اس کے علاوہ
میں ہے اس نے اس سے خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)
مفسّر شہیر، حکیم
الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی
اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ کرے اور وہ دانستہ (جان بوجھ) غلط مشورہ دے تاکہ وہ
مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو وہ مشیر (مشورہ دینے والا) پکا خائن ہے خیانت صرف مال
ہی میں نہیں ہوتی بلکہ عزت جان مال مشورہ تمام امور میں ہو سکتی ہے۔
مشورہ کرنا
سنت ہے، درست مشورہ دینا نیکی ہے، حضور ﷺ نے فرمایا: جس شخص سے مشورہ لیا جائے وہ
امین ہو جاتا ہے۔ اگر اس نے جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو وہ خیانت کرنے والا ہے۔
(ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)
ایک روایت میں
خیانت کرنے والے کو منافق قرار دیا گیا ہے۔
غلط مشورہ
دینے کے چند اسباب یہ ہیں: بغض، کینہ، حسد، رشتہ داروں سے ناچاقی، سنجیدہ لوگوں سے
مشورہ نہ لینا۔
غلط مشورہ سے
بچنے کے لئے ایماندار سنجیدہ شخص سے مشورہ لیجیے، مشورہ دینے والے خوف و خدا کو
ملحوظ رکھے، مشورہ نیکی سمجھتے ہوئے دے۔

مشورہ
کی تعریف: مشورہ
کے معنیٰ ہیں کسی معاملے میں کسی کی رائے دریافت کرنا۔
کام کسی بھی
نوعیت کا ہو اسے کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا بہت مفید ہے۔ اللہ پاک نے اپنے
نبیّ پاک ﷺ کو صائب الرّائے (یعنی درست رائے والا) ہونے کے باوجود صحابۂ کرام
علیہم الرضوان سے مشورہ لینے کا فرمایا کہ اس میں ان کی دلجوئی بھی تھی اور عزّت
افزائی بھی! مشورہ کرنا سنّت سرکار ہے، چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا
ہے:
وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ یعنی
اہم کاموں میں ان سے مشورہ بھی لیتے رہیں کیونکہ اس میں ان کی دلداری بھی ہے اور
عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہوجائے گا اور آئندہ امت اس سے نفع
اٹھاتی رہے گی۔
مشورہ
کی اہمیت: مشورہ
کرنا برکت کی چابی (Key) ہے جس کی وجہ سے غلطی کا امکان کم ہوجاتا
ہے۔ ہر کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ
دینے کا اہل ہوتا ہے،چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے
مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے
گا۔
چنانچہ مشورہ
ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقویٰ والے، خیرخواہ اور بےغرض ہوں،
اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ ان شاء اللہ
جس سے مشورہ
کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا۔
فرمان مصطفیٰ ﷺ
ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تواس نےاپنے بھائی کے ساتھ خیانت
کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)
یعنی اگر کوئی
مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں
گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی
میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)
حضرت موسیٰ
کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے
فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ
کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو
رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس
نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم
ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں
بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول
کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء: 16، ص 682)

مشورہ کا معنی
ہے ہدایت کرنا اصلاح کرنا یا رائے معلوم کرنا، کسی معاملے میں دوسرے کی صلاح یا
رائے معلوم کرنے کا عمل مشورہ کہلاتا ہے۔
مشورہ اسلامی
تعلیمات میں سے ایک نہایت مہتم بالشان حکم ہے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ کے
عمل سے ثابت ہے اور دین کے کئی معاملات میں آ پ نے مشورہ فرمایا، اسی طرح صحابہ
کرام سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے کئی دنیاوی معاملات میں پیارے آقا ﷺ سے
مشورہ فرمایا۔
لہذا دین اور
دنیا کے اہم معاملات میں مشورہ لینا سنت سے ثابت ہے اور بہتر عمل ہے اور دنیا آخرت
میں باعث برکت ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ مشورہ کر لینا چاہیے لیکن یہ بات بھی یاد
رکھیں کہ مشورہ کرنا لازم یا واجب نہیں ہے کہ اگر کوئی معاملہ مشورہ کے بغیر طے کر
لیا جاتا ہے تو اس میں گناہ ہو ایسی بات بھی نہیں ہے اسی طرح جو امور شریعت سے
پہلے طے شدہ ہوں یعنی جس کا کرنا ضروری ہو یا نہ کرنا ضروری ہو ان کے کرنے یا نہ
کرنے کے بارے میں مشورہ نہیں کیا جائے گا جیسا کہ نماز پڑھی جائے گی یا نہیں ہاں
اس بات پر مشورہ ہو سکتا ہے کہ نماز اسی جگہ پر پڑ ھی جائے گی یا سفر میں تھوڑا آگے
چل کر پڑھی جائے گی۔
ارشادِ باری تعالیٰ
ہے: وَ
الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ
شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
مشورہ دو طرح
کا ہوتا ہے درست مشورہ اور غلط مشورہ۔ غلط مشورہ دینا گویا خیانت کرنا ہے کیونکہ
مشورہ مانگنے والا اس شخص پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے اپنی صلاح مانگتا ہے تو اگر
وہ شخص اس کی برائی چاہتے ہوئے اسے غلط مشورہ دیتا ہے تو گویا وہ امانت میں خیانت
کرتا ہے اور اس سے دھوکہ دیتا ہے اس لیے غلط مشورہ دینے سے بچنا چاہیے۔
حدیث مبارکہ ہے:
اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ (جان بوجھ) کر غلط مشورہ دے تا
کہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر ( مشورہ دینے والا) پکا خائن ( خیانت
کرنے والا) ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212 )
اسی طرح ایک
اور جگہ پر ارشاد فرمایا: ہم تم میں سے جسے کسی کام پر عامل بنائیں پھر وہ ہم سے
سوئی یا اس سے زیادہ چھپا لے تو یہ بھی خیانت ہے جسے وہ قیامت کے دن لائے گا (مسلم،
ص 787، حدیث: 7434) بعض اوقات غلط مشور ہماری دنیا تو کیا آخرت کو بھی برباد کر
دیتا ہے اس لیے مشورہ ان سے لے جو اس کے اہل ہوں جیسے کہ حضرت موسی کلیم اللہ اور
حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے فرعون کو ایمان کی
دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آ سیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا انہوں نے ارشاد
فرمایا: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان دونوں کی دعوت کو رد کرے۔ فرعون اپنے
وزیر ہامان سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا
تو اس نے کہا میں تمہیں عقلمند سمجھتا تھا تم حاکم ہو یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن
جاؤ گے اور تم رب ہو اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے چنانچہ ہامان کے
مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح
المعانی، جز: 16، ص 682)
اس سے معلوم
ہوا کہ ہر کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست
مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے لہذا ہمیشہ مشورہ ایسے لوگوں سے لیجئے جو تجربہ کار
عقلمند تقوی والے خیر خواہ اور بے غرض ہوں اس کے فوائد آپ خود دیکھ لیں گے ان شاء اللہ
اور اگر کوئی مشورہ مانگے تو درست مشورہ ہی دیجئے حکم نہ دیجئے۔
آج کل غلط
مشورہ دینے والوں کی کمی نہیں ہے اس لیے غلط مشورہ دینے والوں سے بچیں آپ اپنی
زندگی بہتر جانتے ہیں آپ کو اپنے لیے جو بہتر لگتا ہے وہ کریں لیکن اس سے مشورہ کا
انکار کرنا مراد نہیں بلکہ غلط مشورہ سے بچنا مراد ہے اور کوئی شخص اپنے مسلمان
بھائی کو اچھا مشورہ تب ہی دے گا جب وہ اس کا خیر خواہ ہو اسے محبت رکھنے والا ہو
اور اس کا دل اس کے بارے میں بغض و کینہ اور حسد وغیرہ سے محفوظ ہو لہذا کسی سے
مشورہ لیتے وقت دیکھ لیں کہ وہ شخص آ پ کے ساتھ کتنا مخلص ہے تاکہ بعد میں تکلیف و
پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے اسے امانت کا
پورا حق ادا کرنا چاہیے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)

اسلام نظام
فطرت اور ایسا ضابطہ حیات ہے جس میں معاشرے کے ہر فرد کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے
دین اسلام نے تمام معاشرتی امور اور دنیا کے مختلف کاموں کی انجام دہی سے قبل
باہمی مشاورت اور مشورے کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے نہ صرف اس عمل کو سراہا بلکہ
مختلف مواقع پر حکم دیا کہ مشورہ اور مشاورت سے کام لیا جائے مشورے کو مسلمانوں کا
وصف خاص قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ الَّذِیْنَ
اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى
بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
مشورے
کی اہمیت: مشورے
کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نبی کریم ﷺ نے خود صحابہ کرام سے مشورہ
فرمایا اور صحابہ کرام کی رائے کو اہمیت دی اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو
صائب الرائے (یعنی درست رائے والے) کہتے ہیں آپ ایسی درست رائے کے حامل تھے کہ نبی
کریم ﷺ نے آپ سے مشورہ فرمایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ جیسےدور اندیش اور تجربہ کار اپنے دور خلافت میں آپ سے مشورہ
فرماتے تھے۔
مشورہ
امانت ہے: حضرت
ابو مسعود عقبہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جس سے مشورہ
لیا جائے وہ امانت سنبھالنے والا ہے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)جس طرح امانت میں
خیانت جائز نہیں اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا جائز نہیں مشورہ لینے والا اپنے
مسلمان بھائی پر اعتماد کر کے اس کے سامنے اپنے حالات رکھتا ہے لہذا یہ جائز نہیں
کہ اس کی راز کی باتیں دوسروں کے سامنے ظاہر کی جائیں۔
مشورہ
کس سے کیا جائے: سب
سے زیادہ غلط فیصلے اس سے ہوتے ہیں جو ہر ہر بندے کو اپنا مسئلہ بتا کر اس سے
مشورے کر رہا ہوتا ہے۔ کسی بزرگ سے پوچھا وہ کون سی چیزیں ہیں جس سے انسان اپنی
عزت اور اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے؟ فرماتے ہیں: وہ جو بہت زیادہ بولتا ہے، وہ جو
دوسروں کے راز سب کے سامنے کھول دیتا ہے اور وہ بندہ جو ہر آدمی پر بغیر تحقیق کے
اندھا دھند اعتبار کر لیتا ہے۔
یاد رکھیے!
ہزار لوگوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اگر وہ اس کام میں ماہر نہیں ہے جس
کام کے بارے میں مشورہ کیا جا رہا ہے اب وہ بندہ جس نے ساری زندگی گھر سے قدم ہی
باہر نہیں نکالا اس سے آپ جا کر پوچھ رہے ہیں مجھے بتاؤ سفرکیسے کرتے ہیں سفر میں
کیا پریشانی آتی ہے وہ آپ کو کیسے بتا سکتا ہے اسی طرح کوئی میڈیکل رائے آپ کسی سے
لے رہے ہیں اور وہ ڈاکٹر نہیں ہے تو وہ کیسے آپ کو مشورہ دے سکتا ہے ماہرانہ رائے
کی اہمیت کو سمجھیں اور بہترین ماہرین کا انتخاب کریں چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے
کیجئے جو تجربہ کار، عقلمند، تقویٰ والے خیرخواہ اور بےغرض ہوں ان سے مشورہ کرنے
میں بےشمار فوائد حاصل ہوں گے۔
غلط
مشورہ نہ دیجئے: جس
سے مشورہ کیا جائے اسے چاہیے کہ درست مشورہ دے ورنہ خیانت کرنے والا ٹھہرے گا
فرمان مصطفی ﷺ ہے: جس نے اپنے مسلمان بھائی کو جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا اس نے
اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ
دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ
دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں
ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)
مشورہ ہمیشہ
ایسے شخص سے کرنا چاہیے جسے متعلقہ معاملے میں پوری بصیرت ہواور تجربہ حاصل ہو بلا
شبہ مشورہ خیر و برکت عروج و ترقی کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ
ہمیں عقلِ سلیم نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

اسلام میں غلط
مشورہ دینا ایک ناپسندیدہ اور گناہ کا عمل سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ دوسروں کو
نقصان پہنچانے یا انہیں گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن و سنت میں اس بات پر زور
دیا گیا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی اور بھلائی کے جذبات رکھیں اور
نیکی و تقویٰ کی ترغیب دیں۔
اللہ تعالیٰ
قرآن میں فرماتاہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى
الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ: اور نیکی اور
پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ
کرو۔
مشورہ دینا
ایک امانت ہے اور قرآن کریم میں امانت داری کی سخت تاکید کی گئی ہے: اِنَّ اللّٰهَ
یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-(پ 5، النساء:
58) ترجمہ: بےشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ۔
چونکہ مشورہ
ایک امانت ہے لہٰذا اگر کسی کو غلط مشورہ دیا جائے تو یہ خیانت میں شمار ہو گا۔ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے۔ (یعنی اسے چاہیے کہ سچا
اورخیرخواہی پر مبنی مشوره دے)۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)
غلط
مشورے کے اثرات: کسی
کی زندگی یا فیصلے پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔ باہمی اعتماد اور تعلقات کو خراب کرتا
ہے۔ گناه اور نقصان کی صورت میں مشورہ دینے والا بھی شریکِ جرم شمار ہوتا ہے۔
اسلام ہمیں
سچائی، خیرخواہی اور انصاف کے ساتھ مشوره دینے کی تلقین کرتا ہے۔ غلط مشورہ دینا
امانت میں خیانت کے زمرے میں آتا ہے اور قیامت کے دن اس کا حساب ہوگا۔ مسلمان کا
فرض ہے کہ وہ ہمیشہ بھلائی اور تقویٰ پر مبنی مشورہ دے تاکہ دوسروں کی دنیا اور
آخرت سنور سکے۔
پیاری اسلامی
بہنو!دینی و دنیادی امور میں مشورے کی بڑی اہمیت و ضرورت ہے۔ ایک شخص کی رائے اس
کچے دھاگے کی مثل ہے جس سے کوئی وزنی چیز نہیں اٹھائی جا سکتی۔ چنانچہ واحد شخص کی
رائے کے مقابلے میں مشورے کے ذریعے انتخاب کردہ رائے درستی تک پہنچتی اور نتیجے
میں زیادہ کار گر رہتی ہے اور اگر بالفرض وہ (منتخب رائے) مقصود و مطلوب تک نہ بھی
پہنچے اور نتیجے میں درستی نہ بھی حاصل ہو تو بھی مشورہ کرنے والا شرمندگی و ندامت
اور طعنہ زنی و ملامت سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ معاملہ سب کی رائے سے طے پایا تھا۔
اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ
اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى
بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ:
38) ترجمہ: اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے
سارے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے
ہیں۔
مشورے
کی تعریف: آپس
میں تبادلہ خیال اور بحث و تکرار کے بعد کوئی رائے قائم کرنے کو مشاورت اور مشورہ
کہتے ہیں۔
مسلمانوں کا
یہ دستور تھا کہ جب بھی کوئی مشکل یا پیچیدہ مسئلہ پیش آتا تو سب اکھٹے ہو کر اس
کے ہر پہلو پر غور کرتے اور آخر کار ایک نتیجے پر پہنچتے۔
حضور ﷺ کا یہ
معمول تھا جب بھی ایسی کوئی مشکل پیش آتی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بلا کر
مجلس مشاورت منعقد فرماتے اور بحث کے بعد فیصلہ فرماتے۔
حضرت فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس شوری مقرر کی ہوئی تھی جو جلیل القدر صحابہ کرام
علیہم الرضوان پر مشتمل تھی اور تمام ملکی، سیاسی، جنگی اور مجلس کے فیصلے کے
مطابق عمل کیا جاتا۔ جب آپ نے قیصر و کسری کے مقابلے کے لیے بنفس نفیس تشریف لے
جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو خلاف مصلحت سمجھا اور
خود جانے سے روکا اور آپ کی رائے کے مطابق عمل کیا گیا۔
دعوت اسلامی
کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ مدنی کاموں کی تقسیم صفحہ 31 میں ہے: اللہ
تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنے کام باہم مشورے سے انجام دینے کی ترغیب ارشاد فرماتے
ہوئے مسلمانوں کے مشورے سے کام کرنے کو پسندیدگی کے طور پر ذکر فرمایا اپنے پیارے
کلام کی جس صورت میں ان کے مشورے کا فعل مذکور ہوا اس کا نام ہی سورۃ الشوریٰ رکھا
گیا ہے۔
مشورہ کرنے کی
مزید اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب کریم ﷺ سے ارشاد
فرمایا: وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
ہمارے پیارے
آقا ﷺ صحابہ کرام کے مشوروں اور آراء کی خوب قدر افزائی فرماتے اور صحابہ کرام
علیہم الرضوان بھی سرکار مدینہ ﷺ کی اس قدر دانی و شفقت، نرمی و رحمت اور مناسب
مشورے قبول فرمانے والی مبارک خصلت کی ڈھارس سے دل کھول کر اپنے پیارے آقا ﷺ کے اس
حسن اخلاق کی برکتیں لوٹتے ہوئے اپنی رائے بار گاہ رسالت میں پیش کر دیتے۔
اے کاش !ہم
بھی اسلاف کے طریقے پر عمل پیرا ہوں اور اپنے ماتحت سے مشورہ لینے کی ترکیب بنایا
کریں۔ مگر افسوس ایک ہم ہیں کہ ہمیں کوئی منصب یا ذمہ داری مل جاتی ہے تو کسی
ماتحت سے مشورہ کرنا تو کجا اگر کوئی ماتحت از خود ہمیں مشورہ دینے کی جسارت کر
بیٹھے تو اس کو بد تہذیب، بے ادب گستاخ اور زبان دراز جانتے اور اپنے عہدے کے غرور
اور بدخلق وحوصلہ شکن رویے کے فتور سے اس کے دل کا شیشہ چکنا چور کر ڈالتے ہیں۔
کاش ہم عاجزی اپنا کر اپنے آقائے خوش خصال ﷺ کی مشورہ کرنے والی سنت پر بھی عمل
پیرا ہوں اور وسعت قلبی سے اپنی ماتحت اسلامی بہنوں کی رائے لینے کا خلق اپنائیں
اور ان کی مناسب رائے قبول بھی کریں۔
مشورہ
کس سے لیا جائے؟ مشورہ
کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جس سے مشورہ لیں وہ مشورے کا اہل بھی ہو
بیماری میں پولیس اور عمارت کی تعمیر میں طبیب سے مشورہ نہیں لیا جائےگا
اور صائبِ رائے ہی کی رائے کو فوقیت دی جائے۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ مندرجہ ذیل سے
مشورہ نہ کیا جائے: جاہل، دشمن، ریاکار، بزدل، بخیل اور خواہشات کا پیرو۔ کیونکہ
رائے دینے میں جاہل گمراہ کرے گا، دشمن ہلاکت چاہے گا، ریاکار لوگوں کی خوشنودی کو
پیش نظر رکھے گا، بزدل کم ہمتی کا مظاہرہ کریگا، بخیل کی رائے حرص مال سے خالی نہ
ہوگی اور خواہشات کی پیروی کرنے والا اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے سو اس کی رائے
اس کی خواہش کے تابع ہوگی۔
لالچی اور
خوشامدی سے بھی مشورہ نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ہمیشہ اپنا فائدہ سوچے گا اور اجتماعی
مفادات سے کچھ غرض نہ رکھے گا۔
مشورہ
دینے والا کیسا ہو؟ لہذا مشورہ دینے والے کو چاہئے کہ مذکورہ بالا صفات
مذمومہ سے خود کو بچائے اور اپنے اندر ایسی اعلیٰ صفات اور ایسی کڑھن اور اخلاص
پیدا کرے کہ اس کے مشورے مدنی کاموں میں زیادہ سے زیادہ بہتری لانے کے لئے مفید و
سود مند ثابت ہو سکیں۔ لہذا ضروری ہے کہ مشورہ دینے والا اپنے آپ کو ان اوصاف سے
متصف کرے جس سے اس کی رائے خام سے تام ہو جائے اور وہ مشورہ دینے میں مفید کردار
ادا کر سکے۔ چنانچہ مشورہ دینے والی معاملے کی نوعیت سے صحیح طور پر آگاہ، آداب
مشورہ سے واقف، تہذیب و شائستگی کی پیکر، خلوص وللہیت کی حامل، غور و خوض کی عادی
سلجھی ہوئی، سنجیدہ فکر اسلامی بہن ہونی چاہیے۔
مشورہ دینے کے
آداب میں منقول ہے مشورہ دینے والی معاملے کی باریکیوں کا صحیح علم رکھنے والی،
مہذب و شائستہ رائے والی ہو کیونکہ بہت سے علم والے درست رائے کی معرفت نہیں رکھتے
اور کئی ایسے ہیں جو معمولی بات میں بحث کرنے میں بھی درستی پر نہیں ہوتے۔
مشیر کے لئے
امانت دار اور صاحب راز ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ جس نے ہم سے مشورہ لیا ہم اس کے
راز کی حفاظت کریں کبھی بھی کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں اور اچھا مشورہ دے ہرگز
ایسا مشورہ نہ دیں جس سے سامنے والے کو نقصان نہ ہو۔
امیر
اہلسنت دامت بر کاتہم العالیہ کے مدنی مشورے کا انداز: شیخ طریقت
امیر اہلسنت کے مدنی مشورے میں مدنی آقا ﷺ کے اس فرمان بشارت نشان کی عملی تصویر
نظر آتی ہے کہ: آسانی پیدا کرو اور تنگی نہ دو اور خوشخبری دو اور متنفر نہ کرو۔
(بخاری، 1/ 42، حدیث : 69)
چنانچہ دیکھا
گیاہے کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی مشاورت کی تھپک اور آپ کا مزاج مدنی مشورے کو
اتنا حوصلہ دے دیتا ہے کہ باوجود یہ کہ رعب ولایت کے کوئی بھی اسلامی بھائی اپنے
مشورے کی پیش گزاری میں جھجک محسوس نہیں کرتا کوئی کیساہی خفیف و نامناسب بلکہ
احمقانہ ہی مشورہ دے بیٹھے آپ اس کو انتہائی تحمل و شفقت ظرفی سے سنتے ہیں اور بڑے
پُرشفقت اور حکیمانہ انداز میں اس مدنی مشورے کی کمزوریوں پر روشنی ڈال کر اس کا
مناسب نہ ہونا واضح کر دیتے ہیں کہ مشورے دینے والے کی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہوتی
اوروہ اپنے ناقص مشورے سے رجوع بھی کر لیتا ہے۔
پیاری پیاری
اسلامی بہنو! ہمارے مدنی مشورے کا انداز کیسا ہونا چاہیے؟ مدنی مشوروں میں مذاق، طنز
و تضحیک نہ ہو بلکہ مشورے کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے مشورے کرتے جائیں کسی کا
کیساہی احمقانہ مشورہ ہو تب بھی بہت تحمل کے ساتھ مکمل سنیے غلطی ہونے پر اس کی
تفہیم فرمائیں ہر گز کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
جب ہم مدنی
مشوروں کے ذریعے اسلامی بہنوں کی رائے و مشورے کے قیمتی موتی چننا شروع کر دیں گے
تو ان شاءاللہ ہمیں اسکے فوائد حاصل ہونگے۔

اسلامک
ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیۃ) کا ایک
ذیلی شعبہ ”شعبہ ہفتہ وار رسالہ“ بھی ہے جو علمی و تحقیقی انداز میں اور خوب محنت
و لگن سے ہفتہ وار رسائل تیار کرتا ہے جسے ہر ہفتے مدنی مذاکرے میں پڑھنے/سننے کی
ترغیب دلائی جاتی ہے۔
اسی
شعبے نے اپنی محنت و کوشش سےقرآن پاک کی تفسیر کی کتاب ”تفسیر نور العرفان“ سے چند
مدنی پھول اخذ کرکے ایک رسالہ بنام ”تفسیر نورُ العرفان سے 105 مدنی
پھول(قسط 05)“ تیار
کیا ہے۔شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ
مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے
اس ہفتے عاشقانِ رسول کو رسالے کو پڑھنے/سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/سننے
والوں کو اپنی دعاؤں سے نوازا ہے۔
دعائے
عطار
یااللہ
پاک! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”تفسیر نورُ العرفان سے 105 مدنی پھول(قسط 05)“ پڑھ یا
سُن لے اُسےقراٰن کریم کی تلاوت کا شوق
عطا فرما اور اس کو ماں باپ اور خاندان سمیت بے حساب بخش دے۔ اٰمین بجاہِ خاتَم النبیّن صلی اللہ علیہ و سلم
یہ
رسالہ آڈیو میں سننے اور اردو سمیت کئی زبانوں میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے
گئے لنک پر کلک کیجئے: