آج کل بہوؤں پر اس قدر ظلم کیا جارہا ہے کہ انہیں خودکشی جیسے سنگین اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ موجودہ بہوؤں کے لیے سسرال نہ صرف غیر محفوظ بلکہ وبال جان بنتا جارہا ہے۔اس طرح کے انسانیت سوز واقعات نے ہم سب کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آخر یہ معاشرہ عورتوں کے لیے کیوں خطرہ بنتا جارہا ہے؟ بہوؤں کے تئیں سسرال والوں کا منفی رویہ کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ آجکل کا معاشرہ بیٹی اور بہو کو یکساں مقام کیوں دینے میں ناکام کیوں ہوتا جا رہا ہے۔؟ اس دوغلے پن اور دہرے معیار کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں، جو ہر ذی شعور انسان کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

عورت اس دنیا میں کتنے کردار نبھاتی ہے۔ کبھی بہن کا کردار ادا کر کے اپنے بھائی کا فخر ہوتی ہے۔ قدم قدم پر اپنے بھائی کا ساتھ دیتی ہے۔ یہی عورت جب بیٹی کا کردار نبھاتی ہے تو اپنے باپ کا سہارا بنتی ہے جب سب لوگ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں وربیٹے باپ کی دولت کو لیکر لڑ رہے ہوتے ہیں تو بیٹی اس وقت بھی باپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے۔ جب ماں بنتی ہے تو اپنے بچوں کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اپنا چین سکون سب کچھ اپنے بچوں پر قربان کر دیتی ہے۔

یہی عورت جب بیوی کا کردار نبھاتی ہے تو اپنے شوہر کے لیے اپنے بھائی بہن ماں باپ اپنا گھر سب کچھ چھوڑ دیتی ہے۔ اپنے شوہر کا دکھ سکھ بانٹتی ہے۔ دن بھر گھر کا کام کرتی ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن افسوس یہ شوہر اس سب کے بدلے میں بیوی سے مسکراتے ہوئے بات بھی نہیں کرتا۔ اس سب کے بدلے میں بیوی کے لیے شاباشی کا ایک لفظ بھی کسی بڑے تحفے سے کم نہیں تھا۔ عورت کے بھی جذبات ہیں۔ اس کی بھی اپنی خواہشیں ہیں، تمنائیں ہیں، ہمیں ان کے جذبات خواہشوں اور تمناؤں کی قدر کرنی چاہئے۔

شوہر کو چاہیے کہ مناسب رویہ اختیار کرے جہاں اسے لگے کہ اسکی بیوی اس کے ماں باپ سے زیادتی کرتی ہے وہاں ماں باپ کا ساتھ دینا چاہئے اور جہاں لگے کہ اس کے والدین یا بھائی بہنیں اس کی بیوی سے زیادتی کر رہے ہیں۔ وہاں اپنی بیوی کا ساتھ دینا چاہیے۔ بیوی کی ہر بات اطمینان سے سننی چاہئے کیونکہ شوہر کے سوا بیوی کا کوئی نہیں ہوتا ہے جس سے وہ راز کی باتیں کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرے تاکہ معاشرے میں ایک طرح کا توازن بنا رہے کیونکہ میاں بیوی معاشرے کی گاڑی کے دو پہئے ہیں۔

سسرال والے بہو لاتے وقت بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ وہ بہو کو بیٹی کا درجہ دیں گے لیکن بہو کو گھر پہنچا کر ہی ان کے تیور بدل جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہو نہیں بلکہ ایک نوکرانی کو گھر لایا ہے۔ اس سے ہر قسم کی خدمت کرنے کی امید لگائی جا رہی ہے۔ شوہر بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ کے لیے نوکرانی لائی ہے۔ جب کہ وہ یہ نہیں سمجھتا ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنا اس کا حق ہے نہ کہ اس کی بیوی کا۔ بہو جب تک صحت یاب ہوگی سسرال میں رہ سکتی ہے لیکن تھوڑی سی صحت کیا بگڑ گئی اسے میکے والوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔اگر بیٹی کوئی غلطی کر دے تو معاشرہ اسے معاف کر دیتا ہے لیکن اگر بہو سے غلطی ہو جائے تو اس پر بوال کھڑا کر دیا جاتا ہے

ہمیں اس دوغلے پن سے باہر آنا ہو گا۔ اتناہی نہیں عورتوں کو گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی کا شکار بھی بنایا جا رہا ہے جو نہایت ہی افسوسناک امر ہے۔ ہم سب کو سمجھنا چاہئے کہ عورت محض کام کرنے والی یا بچہ جننے والی مشین نہیں ہے کہ مرد اس سے اپنی خدمت کروائے اور اس سے جنسی لذت حاصل کرے۔ بلکہ عورت سے یہ دنیا آگے بڑھتی ہے۔ بہو کو بہو کا مقام دیا جائے کچھ عورتیں شادی کے نام پر ڈر جاتی ہیں اسکی وجہ ہی سسرال والوں کا بےجا رویہ اور بہو کو نوکرانی سمجھنا ہے۔

سسرال والوں کی طرف سے وہ محبت اور شفقت کا نہ ملنا جو اسکو اپنے والدین کے پاس ملتی ہے عورت بہو بننا پسند نہیں کرتی کہ جو آزادی اسکو اپنے والدین کے گھر ملتی کہ وہ جہاں چاہے اس کو روک ٹوک نہیں ہوتی لیکن بہو بنتے ہی اسکی تمناؤں اور خواہشات کا جنازہ نکل جاتا ہے، نکاح سنت مبارکہ ہے تو معاشرے کے ہر فرد کو یہ چاہیے کہ وہ خود کو درست کرے تاکہ عورت جو سسرال کے نام پر ڈر کر اسکے نام سن کر شادی سے ڈر جاتی ہے اس جاہلانہ رسم بہو کو نوکرانی سمجھنا ختم کیجیے تا کہ اس سنت مبارکہ نکاح کر کے اپنے میکے میں جیسے زندگی گزارتی ویسے ہی سسرال میں گزار سکے۔