فرض عین علم کا بىان :
معلم کائنات شاہِ موجودات صلى اللہ
تعالىٰ علىہ وسلم نے ارشاد فرماىا: طلب العلم فرىضہ على کل مسلم ىعنى علم حاصل کرنا
ہر مسلمان مرد(وعورت) پرفرض ہے۔(سنن ابن ماجہ،حدىث ۲۲۴۔ج۱۔ ص ۱۷)
اس بات مىں علما کا اختلاف ہے کہ وہ کون سا علم ہے جس کا
حصول ہر مسلمان پرفرض ہے اس مىں ۲۰ گروہ ہىں، ہر گروہ نے اسى علم کو فرض کىا جس پروہ خود
کار بند ہے۔(احىا العلوم جلد۱، ص ۱۲۱)
ہربندہ مومن کو اپنى ضرورت کا علم سىکھنا فرض
ہے:
شىخ طرىقت امىر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابوالبلال محمد
الىاس عطارقادرى دامت برکاتہم العالىہ اپنے اىک مکتوب مىں لکھتے ہىں: مىٹھے مىٹھے اسلامى بھائىو! افسوس ، آج کل صرف
اور صرف دنىاوى علوم ہى کى طر ف ہمارى اکثرىت کا رجحان ہے، علمِ دىن کى طرف بہت ہى
کم مىلا ن ہے، حدىث پاک مىں ہے۔ طلب
العلم فرىضۃ على کل مسلم ۔ یعنی ، علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
اس حدىث پاک کے بعد مىرے آقا اعلىٰ حضرت امام اہلسنت مولانا
شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃالرحمن نے جو کچھ فرماىا اس کا آسان لفظوں
مىں مختصراً عرض کرنے کى
کوشش کرتا ہوں۔
سب مىں اولىن واہم ترىن فرض ىہ ہے کہ بنىادى عقائد کا علم
حاصل کرے جس سے آدمى صحىح العقىدہ سنى بنتا ہے اور جس کے انکار و مخالفت سے کافر
ىا گمراہ ہوجاتا ہے۔۔اس کے بعد مسائل نماز ىعنى اس کے فرائض و شرائط و مفسدات
(ىعنى نماز توڑنے والى چىزىں) سىکھىں تاکہ نماز صحىح طور پر ادا کرسکے، پھر جب رمضان المبارک کى تشرىف آورى
ہو تو روزوں کے مسائل ،مالک نصاب نامى (ىعنى حقىقتا ىو ہوگئى بڑھنے والے مال کے
نصاب کا مالک) ہوجائے اور زکوة کے مسائل،صاحب استطاعت ہو تو مسائل حج، نکاح کرنا
چاہے تو اس کے ضرورى مسائل ، تاجر ہو تو خرىد و فروخت کے مسائل، مزارع ىعنى
کاشتکار (و زمىندار) ہو تو کھىتى باڑى کے مسائل، ملازم ہے اور ملازم رکھنے والے پر
اجارہ کے مسائل، وعلى ھذالقىاس (ىعنى اور اسى
پرقىاس کرتے ہوئے)
ہر مسلمان عا قل و
بالغ مرد و عورت پر اس کى موجودہ حالات کے مطابق مسئلے سىکھنا فرض عىن ہے۔
نىز مسائل قلب (باطنى مسائل) ىعنى فرائض قلبى ( باطنى
فرائض) مثلا عاجزى و اخلاص اور توکل
وغىرہا اور ان کو حاصل کرنے کا طرىقہ اور باطنى گناہ مثلا تکبر، رىا کارى ، حسد
وغىرہ اور ان کا سىکھنا ہر
مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔(فتاوىٰ رضوىہ
جل۲۳، ص ۶۲۳، ۲۳
البتہ انسان کو ان علوم کو بھى حاصل کرنا چاہىے جس کى انسان
کو معاشرے مىں ضرورت پڑتى ہے جىسے قرآن و حدىث کو صحىح معنوں مىں سمجھنے کے
لىے صرف و نحو کى اہم ترین ضرورت اس کے علاوہ اور دىگر علوم ۔
اللہ تبارک و تعالىٰ سے دعاہے
کہ علم دىن کو صحىح معنوں مىں سمجھنے اورسمجھانے
کى توفىق عطا فرمائے۔
علم کا مجھ کو شو ق
عطا کر خدا
علم نافع ہى دے از
پئے علما
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
علم سیکھنے کی ترغیب
پر کثیر احادیث موجود ہیں کہیں توزندگی کی
آخری ساعت پانے والے کو فرمایا جاتا ہے "اِشْتَغِلْ
بِالتَّعَلُّمِ" یعنی علم سیکھنے میں مشغول ہوجاؤ،(تفسیر
کبیر،ج1؛ص410)
اور کہیں فرمایا جاتا
ہے :"طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ
عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ "یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردوعورت)پر فرض ہے۔ـ(سنن ابن ماجہ:کتاب
السنۃ:باب فضل العلماء۔۔الخ؛ج1؛ص146؛حدیث 224)
موجودہ دور میں مختلف علوم سیکھنے سکھانے کا
رجحان بہت زیادہ ہے لیکن سبھی علوم کو
سبھی جانیں یہ ایک مشکل امرہے لہٰذا طلبِ علم کی روایت کا مفہوم ومطلب جاننا ضروری
ہے تاکہ اس بات کا علم ہو کہ مسلمان پر کونسے علوم سیکھنا فرض ہیں۔
فرض علوم کے بارے میں مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ کی
وضاحت:
حکیم الامت ،مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ
الرحمن ’’مراٰۃ
المناجیح‘‘ میں
لکھتے ہیں : "ہر مسلمان مرد عورت پر
علم سیکھنا فرض ہے،(یہاں)علم سے مراد بقَدَرِ ضرورت شرعی مسائل مراد ہیں لہٰذا روزے
نماز کے مسائل ضرور(یعنی ضروری مسائل) سیکھنا ہر مسلمان پر فرض،حیض ونفاس کے ضروری
مسائل سیکھنا ہر عورت پر،تجارت کے مسائل سیکھنا ہر تاجر پر،حج کے مسائل سیکھنا حج کو
جانے والے پر عَین فرض ہیں لیکن دین کا پورا عالم بننا فرضِ کفایہ کہ اگر شہر میں
ایک نے ادا کردیا تو سب بَری ہوگئے۔"(: مراٰۃ
المناجیح:ج1؛ص196)
سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی
وضاحت:
اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا
خان علیہ
رحمۃُ الرَّحمٰن فرض علوم کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سب میں پہلا فرض آدمی پر اسی کا تَعَلُّم ہے(یعنی
بنیادی عقائد کا علم حاصِل کرناکہ جس سے آدمی صحیح العقیدہ سُنّی بنتا ہے اور جن کے
اِنکار و مخالفت سے کافر یا گُمراہ ہو جاتا ہے۔) اور اس کی طرف احتیاج میں سب
یکساں، پھر علم مسائل نماز یعنی اس کے فرائض وشرائط ومفسدات جن کے جاننے سے نماز
صحیح طور پر ادا کرسکے، پھر جب رمضان آئے تو مسائل صوم، مالکِ نصابِ نامی(یعنی حقیقۃً
یا حکماً بڑھنے والے مال کے نِصاب کا مالک) ہو تو مسائل زکوٰۃ، صاحب استطاعت ہو تو
مسائل حج، نکاح کرناچاہے تو اس کے متعلق ضروری مسئلے، تاجر ہو تو مسائل بیع وشراء،
مزارع پرمسائل زراعت، موجرومستاجر پر مسائل اجارہ، وَ عَلیٰ ھٰذَاالْقِیاس( یعنی
اور اِسی پر قِیاس کرتے ہوئے ) ہرمسلمان عاقل وبالغ مردوعورت پر اُس کی موجودہ حالت
کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے۔اور انہیں میں سے ہیں مسائل حلال وحرام کہ
ہرفردبشر ان کا محتاج ہے اور مسائل علم قلب یعنی فرائض قلبیہ مثل تواضع واخلاص
وتوکل وغیرہا اور ان کے طرق تحصیل اور محرمات باطنیہ تکبر وریا وعُجب وحسد وغیرہا
اور اُن کے معالجات کہ ان کا علم بھی ہرمسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ (ماخوذاز
فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجَہ،ج۲۳، ص۶۲۳،۶۲۴)
علماء کرام کی وضاحت کو سامنے رکھتے ہوئے
ہر ایک کو اپنے بارے میں نہ صرف فیصلہ کرنا ہے کہ اس پر کونسے علوم سیکھنے فرض ہیں
بلکہ انہیں سیکھنے کےلیے بھرپور کوشش بھی کرنی ہے سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم
کے صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی
ہے کہ انہوں نے علومِ دینیہ کے حصول کے لیے کتنی صعوبتیں اٹھائی ہیں جبکہ موجودہ
دور میں حصول علم بہت آسان ہے لہٰذا فرض علوم سیکھنے میں کسی طرح کی بھی کوتاہی
نہیں کرنی چاہیے۔اللہ پاک عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
قرآن و حدىث مىں علم کے بہت فضائل بىان کىے
گئے ، ىہ ىاد رہے جہاں بھى علم سىکھنے سکھانے کى فضیلت بىان کى گئى ہے وہاں مراد شرعى
علم ہے ىعنى قرآن و حدىث اور فقہ وغىرہ کا علم ۔
حضرت
انس رضى اللہ
تعالىٰ عنہ
سے رواىت ہے کہ حضور صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم نے فرماىا
طالب
العلم فرىضة على کل مسلم یعنی علم
حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے (مشکوة ۳۳/۱ حدىث ۲۰۶)
امام
غزالى رحمہ
اللہ تعالىٰ علىہ فرماتے ہىں: جن علوم کا حاصل کرنا فرض ہے وہ تىن ہىں ۔
۱۔ علم توحىد ۔۲۔
دل اور اس کے باطنى مسائل سے تعلق رکھنے والا علم ۳۔ علم
شرىعت
ان
مىں سے ہر علم کتنا اور کس قدر دىکھنا ضرورى ہے، اس کى تفصىل درج ذىل ہىں۔
ضرورى علم توحىد :
علم توحىد مىں اتنا جاننا ضرورى ہے جس سے دىن کے بنىادى
اصول معلوم ہوجائىں وہ اصول ىہ ہىں۔
ىہ معلوم ہونا کہ تمہارا رب اىک ہے جو علم والا قدرت والا
ہمىشہ سے زندہ ، ارادہ فرمانے والا، کلام فرمانے والا، سننے والا، دىکھنے والا اور واحد دىکھتا ہے، تمام عىوب و
نقائص سے پاک ہے اور ہمىشہ سے ہے حضرت سىدنا محمد مصطفى صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم اس کے بندے اور
رسول ہىں وہ
اللہ پاک کے پاس سے جو بھى لائے ہىں اور انہوں نے جو فرماىا سچ فرماىا ، پھرسنت رسول صلى اللہ تعالىٰ علىہ
وسلم کے مسائل و اصول جاننا بھى لازم ہے، غرض ىہ کہ ہر وہ چىز
جس کا نہ جاننا ہلاکت مىں ڈال دے اس کا علم حاصل کر نا فرض ہے۔
علم باطن :
علم باطن ىا علم سر اتنا سىکھنا فرض ہے کہ ىہ پتا چل جائے کہ
کن چىزوں سے دل کى صفائى ہوتى ہے اور کن
چىزوں سے دل کو بچانا ضرورى ہے لہذا توکل ، صبر، توبہ و اخلاص، کا علم سىکھنا بھى تم پرواجب ہے اپنے دل کى مصنوعی چىزىں جیسے غصہ، لمبى امىدىں رىا
کارى ، تکبر اور خود پسندى وغىرہ کا جاننا بھى واجب ہے تاکہ ان سے بچ سکىں۔
علم شرىعت:
علم شرىعت میں اتنا سىکھنا فرض ہے جس سے تمہىں ہر وہ چىز معلوم
ہوجائے جس کا کرنا تم پر فرض ہے، مثلا طہار ت نماز اور روزہ جب کہ جہاد، حج ، زکوة
کا سىکھنا اس وقت فرض ہے جب ىہ عبادات تم پرلازم
ہوجائىں، ( منہاج العابدىن ص ۴۰۔۳۹)
ىونہى نکاح کر نا چاہے تو اس کے ضرورى مسائل تاجر ہو تو
خرىد و فروخت کے مسائل۔و علی ھذا
القىاس
ہر شخص پر اس کى
موجودہ حالت کے مطابق علم سىکھنا فرض ہے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
کن علوم کا سىکھنا فرض :
اللہ رب العزت نے انسان
کى تخلىق فرمائى اور اللہ
عزوجل جب کسى بھى شى کى تخلىق فرماتا ہے تو اس مىں کوئى نہ کوئى حکمت اور کسى مقصد کے لىے پىدا فرماتا ہے، اور خود اللہ
کرىم نے قرآن
پاک مىں انسا ن کى تخلىق کا مقصد بىان فرماىا ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ترجمہ : اور
مىں نے جن اور آدمى اس لىے بنائے کہ
مىرى عبادت کرىں۔ ( پارہ ۲۷۰۔ سورة
الذرىت ، آىت ۸)
اور
اگر اللہ پاک کے اس فرمان پر غور و تامل کىا جائے
کہ انسان کو اللہ پاک نے اپنى عبادت کے لىے پىدا فرماىا، تو
انسان اللہ کى عبادت جب ہى کرسکتا ہے کہ جب ان عبادات
کا علم ہو، ىہ بات تو واضح ہے کہ
کوئى بغىر علم حاصل کىے کىسے عبادت کرسکتا ہے۔
مثلا
کسى کو نماز پڑھ کر ىا پھر روزہ رکھ کر ىا حج ادا کرکے اللہ کى عبادت کرنى ہے تو ظاہر ہے پہلے نماز کا طرىقہ، روزے کے
مسائل ، حج کے ارکان کا علم حاصل کرکے اللہ کى عبادت کرسکتا
ہے۔
اور
مسلمان جس جس طرح اپنى عمر گزارتا رہتا ہے اور جوں ہى وہ بالغ ہوتا ہے وہ شرىعت کے
احکام کا پابند ہوجاتا ہے اور اس پر شرىعت مطہرہ کى جانب سے کچھ علوم کا سىکھنا
فرض ہوتا ہے اس مىں سے چند ىہ ہىں۔
سب
سے اول مسلمان کے لىے بنىادى عقائد کا علم حاصل کرنا فرض ہے جس سے مسلمان صحىح
العقىدہ سنى بنتا ہے اور جن کے انکار سے گمراہ ىا کافر ٹھہرتا ہے۔
۲۔ ہر مسلمان عاقل و بالغ پر اس کى
موجودہ حالت کے پىش نظر علم سىکھنا فرض
ہے۔
۳۔ ہر اىک کے لىے حلال و حرام بھى سىکھنا
فرض ہے۔
۴۔ مسلمان پر نماز فرض ہوگئ تو نماز کے
شرائط ، فرائض اور اس کے مفسدات (ىعنى جن سے نماز ٹوٹ جاتى ہے) بھى سىکھنا فرض ہے
تاکہ نماز صحىح طرح اد اہوسکے۔
۵۔ اگر روزہ فرض ہوتا ہے تو روزے کے اىسے
مسائل سىکھنا فرض ہىں کہ جس سے روزہ احسن انداز مىں پورا ہوتا ہے۔
۶۔ اگر زکوة فرض ہوئى تو اس کے ضرورى مسائل
سىکھنا بھى فرض ہىں تاکہ زکوة ادا کرنا رائىگا ں نہ جائے۔
۷۔ جب حج فرض ہوا تو اس کے ارکان اور حج سے
منسلک اہم مسائل سىکھنا فرض ہے ، تاکہ حج صحىح طور پر مکمل ہوسکے۔
۸۔ اگر کوئى کاروبار کرتا ہے تو خرىد و
فروخت کے مسائل سىکھنا فرض ہے تاکہ روزى حلال طرىقے سے حاصل ہوسکے۔
۹۔ اىسے معاملات جن کا تعلق قلب سے ہے ىعنى باطنى فرائض جىسے عاجزى، اخلاص
اور توکل وغىرہ کا سىکھنا بھى فرض ہے۔
۱۰۔ باطنى گناہ، جىسے تکبر ، رىا کارى اور
حسد وغىرہ اور ان کا علاج سىکھنا فرض ہے۔
ىاد
رہے کہ ہمىں شرىعت کى طرف سے جو فرض کردہ علوم ہىں ان کو حاصل کرنے مىں کوتاہى
نہىں کرنى چاہىے ، کىونکہ اگر کوئى اپنى لا علمى کى وجہ سے خلافِ شرع کام کربىٹھتا ہے تو اس پر دو گناہ لازم ہوں گے اىک گناہ تو اس کى لا علمى کى
وجہ سے ، دوسرا گناہ خلافِ شرع کام کرنے سے ،تو ضرور اس بات کا خاص خىال رکھىں،
او راب تو علم حاصل کرنے کے ذرائع بھى اس جدىد دور مىں بہت آسان ہوگئے ہىں۔
اللہ کرىم ہمىں شرىعت کى جانب سے فرض کردہ علوم
کو بلا تاخىر حاصل کرنے کى توفىق عطا فرمائے، امىن
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
فرض علوم سىکھنا فرض ہے؟
صاحبِ شرع حضور نبى کرىم صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرماىا:
طلب العلم فرىضۃ على کل مسلم (ابن ماجہ کتاب السنہ ، باب فضل العلما الخ حدىث ۲۴۴)
ىعنى علم کا طلب کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے، تو اب کون سا علم
سىکھنا فرض ہے اور عبادت کے لىے بندے کوکتنا علم حاصل کرنا ضرورى ہے؟ تو ىاد رکھىں
جن علوم کا حاصل کر نا فرض ہے وہ تىن طرح کے علوم ہىں۔۱۔ علم توحىد۲۔ دل اور اس کے
باطنى مسائل سے تعلق رکھنے والا علم سِر ۳۔ علم شرىعت
ان مىں سے ہر علم کتنا اور کس قدر سىکھنا ضرورى ہے اس کى
تفصىل درجِ ذىل ہے۔
۱۔ علمِ توحىد :
علم توحىد مىں اتنا جاننا ضرورى ہے جس سے دىن کے بنىادى اصول معلوم ہوجائىں وہ
اصول ىہ ہىں تمہىں ىہ معلوم ہو کہ تمہارا
اىک معبود ہے، جو علم والا قدرت والا ہمىشہ سے زندہ ار ادہ فرمانے والا کلام
فرمانے والا ،سننے والا ىکتا و واحد ہے، جس کا کوئى شرىک نہىں، وہ تمام صفات
کمالىہ کا جامع ہے ،تمام عىوب و نقائص سے پاک ،اور ہمىشہ سے ہے، اور نبى کرىم صلى
اللہ تعالىٰ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہىں وہ اللہ کے پاس سے جو بھى لائے ہىں اور انہوں نے آخرت کے بارے مىں جو بھى فرماىا
سب مىں سچے ہىں، پھر جس چىز کو کتاب اللہ اور سنت رسول نے بىان نہىں کىا اس کو دىن مىں بدعت بنانے سے بچىں۔
اور رسول کرىم صلى اللہ علىہ وسلم کى سنت مسائل و اصول جاننا بھى تم پر لازم ہے، ورنہ اس کے
ساتھ تمہارا معاملہ بہت بڑے خطرے سے دو چار ہوجائے گا۔
۲۔ ضرورى
علم سِر:
علمِ سِر ىعنى باطنى علم اتنا سىکھنا فرض ہے کہ ىہ پتا چل
جائے کہ کن چىزوں سے دل کى صفائى ہوتى ہے
اور کن چىزوں سے دل کو بچانا ضرورى ہے ىہاں تک کہ تمہىں اللہ عزوجل کى تعظىم اس کے لىے اخلا ص ، نىت کى درستى اور عمل کى سلامتى نصىب ہوجائے۔
۳۔ ضرورى
علمِ شرىعت :
علمِ شرىعت سے اتنا سىکھنا فرض ہے جس سے تمہىں وہ چىز معلوم
ہوجائے جس کا کر نا تم پرفرض ہے تاکہ تم اسے ادا کر سکو۔ مثلا عبادت، نماز،
روزہ، حج جہاد و زکوة ان سب کا علم سىکھنا
فرض ہے ، جب کہ ىہ عبادات تم پر لازم ہو ہوچکىں ہوں، ىہ علم کى وہ مقدار ہے جس کا حاصل
کرنا بندے پر بہر صورت لازم ہے اور اب ضرورى ہونے کى حىثىت سے علم کى فرضىت متعىن
ہوگئى۔
ہر وہ چىز جس سے عدم واقفىت اور جہالت ہلاکت مىں ڈال دے اس
کا علم حاصل کر نا ضرورى بلکہ فرض ہے تمہارے لىے اس کے ترک کى کوئى راہ نہىں، اس
بات کو مضبوطى سے تھام لو اللہ عزوجل توفىق عطا فرمائے۔
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طلب العلم فریضة علی کل مسلم یعنی
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و (عورت ) پر فرض ہے۔ (شعب الایمان، باب فی طلب
العلم الحدیث ۱۴۴۵، ج ۲، ۔۲۵)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہر مسلمان مرد و
عورت پر علم سیکھنا فرض ہے(یہاں) علم سے بقدر ضرورت شرعی مسائل مراد ہیں لہذا روزے
نماز کے مسائل ضروریہ سیکھنا ہر مسلمان پر
فرض ہے۔ حیض و نفاس کے ضروری مسائل سیکھنا
ہر عورت پر، تجارت کے مسائل ہر تاجر پر ، حج کے مسائل سیکھنا حج کو جانے والے
پر عین فرض ہیں۔ لیکن دین کا پورا عالم
بننا فرض کفایہ کہ اگر شہر میں ایک نے ادا کردیا تو سب بری ہوگئے۔(مراة المناجیح،
ج ۲، ص ۲۰۲)
امیر اہلسنت اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
میٹھے میٹھےاسلامی بھائیو افسوس آج کل صرف
اور صرف دنیاوی علوم ہی کی طرف ہماری اکثریت کا رجحان ہے۔ علم دین کی طرف بہت ہی
کم میلان ہے حدیث پاک میں ہے علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے(سنن
ابن ماجہ، ج ۱، ص ۱۴۹، حدیث ۲۲۴)
اس حدیث پاک کے تحت آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ فرمایا
اس کا آسان لفظوں میں مختصر خلاصہ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
سب میں اولین و اہم ترین فرض یہ ہے کہ
بنیادی عقائد کا علم حاصل کرے جس سے آدمی صحیح العقیدہ سنی بنتا ہے، اس کے بعد
مسائل نماز یعنی اس کے فرائض و واجبات شرائط ومفسدات سیکھے تاکہ نماز صحیح طور پر
ادا کرسکے ،پھر جب رمضان کی تشریف آوری ہو تو روزوں کے مسائل م،الک نصاب ، نامی
(یعنی حقیقتہ یا حکماً بڑھنے والے سال کے نصاب کا مالک ہوجائے ، تو زکوة کے مسائل
صاحبِ استطاعت ہو تو مسائل حج، نکاح کرنا چاہے تو اس کے لیے ضروری مسائل سیکھے،
تاجر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل ، مزارع یعنی کاشتکار زمیدار کے لئے ، کھیتی باڑی کے مسائل ملازم بننے اور ملازم
رکھنے والے پر اجارہ کے مسائل ، وعلی ھذا القیاس
یعنی اس پر قیاس کرتے ہوئے ، ہر مسلمان
عاقل و بالغ مرد و عورت پر اس کی موجودہ حالت کے مطابق مسئلے سکھنافرض ہے۔ نیز مسائل قلب ( باطنی فرائض) مثلا عاجزی و اخلاص
اور توکل وغیرہ اور ان کو حاصل کرنے کا طریقہ اور باطنی گناہ مثلا تکبر و ریا کاری
حسد وغیرہا اور ان کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر فرائض سے ہے۔ مخرج (شوقِ علمِ ِ
دین،فتاویٰ رضویہ مخرجہ ج ۲۳، ص ۶۲۲، ۶۲۴)
نوٹ:
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
علم کے
لغو ی معنی جا ننے کے ہیں ۔ مگر ہر فن کے تعلق سے جا ننے کی نوعیت اور معلو مات کی
حیثیت مختلف ہو گی۔ انبیا ء کے تعلق سے جب اس کا استعمال ہو گا تو اس سے طبعا ًخدا
کی تو حید ذات و صفات دین و شریعت کے ا حکام اور اخلاقی تعلیمات مراد ہو گی ۔
حضر ت ابر ا ہیم علیہ اسلام تو حید
پر استدلال کر کے اپنے باپ سےفر ما تے ہیں: قر آن مجید کی سورۃ مر یم کی آیت نمبر43 میں اللہ تعالی ارشاد
فر ما تا ہے تر جمہ : اے میر ے باپ !میرے پاس
علم کا وہ حصہ آیا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا ۔ حضر ت
خضر علیہ
اسلام
کے متعلق ہے۔قر آن مجید کی سورۃ کہف کی آیت نمبر 65میں اللہ تعالی ارشاد
فر ما تا ہے ترجمہ اور ہم نے اپنے پاس سے اس
کو علم سکھایا ۔
خدا کے
پا س سے تو ہر چیز ہے پھر ’اپنے پا س سے علم سکھا نے‘کا مفہوم کیا ہے؟ ہر وہ شے جو
انسان کی ذاتی محنت کو شش اور جدوجہد وغیرہ معمولی ذرائع کے بغیر حا صل ہو تی ہے وہ من جا نب اللہ کہی جا
تی ہے اسی طر ح خدا کے پا س سے علم عطا ہو نے کے معنی اس علم کے ملنے کے ہیں جو انسان
کے طبعی ذرائع علم واستدلال اور تلا ش و تحقیق کے بغیر خود بخود عطا ہو۔ یہی علم خدا
داد ہے اور اسی لیے صو فیا ء کی اصطلاح میں اس کو علم لدنی {پا س والا علم}کہتے ہیں۔{سیرۃ
النبی صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جلد
نمبر ۴}
حدیث
:المبسوط جلد 30کی کتاب میں ہے اَ فْضَلُ الْعِلْمِ عِلْمُ
الْحَا لِ و َ اَفْضَلُ الْعَمَلِ حِفْظُ الْحَا لِ یعنی افضل تر ین علم
مو جو دہ درپیش امور سے آ گاہی حا صل کر نا ہے اور افضل تر ین عمل اپنے احو ال کی
حفا ظت کر نا ہے۔ پس ایک مسلمان پران علوم کا جا ننا بہت ضروری ہے جن کی ضرورت اس کو
اپنی زندگی میں پڑتی ہے خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔
ایک
مسلمان کے لیے پہلا فر ض تو نمازہی ہے لہذا ہر مسلمان پر نماز کے متعلق اتنی معلومات
کاجا ننا فر ض ہے کہ جن سے اس کا فر ض ادا ہو سکے اور اتنی معلومات کا حا صل کرنا واجب
ہے جن کی آگاہی سے وہ واجبات نماز کو ادا کر سکے کیونکہ ضا بطہ یہ ہے کہ وہ معلومات
جو ادائیگی فرض کا سبب بنیں ان کو حا صل کر نا فر ض ہے، اور وہ معلومات جو ادا ئیگی
واجب کا ذریعہ بنیں ان کو حا صل کر نا واجب ہے۔ اسی طرح روزے سے متعلق معلومات حا صل
کر نے کا معاملہ ہے نیزاگر صا حب مال ہے تو زکوۃ کا بھی یہی ضا بطہ ہے اور اگر کو ئی
تا جر ہے تو مسا ئل خرید و فر و خت جا ننے کے متعلق بھی یہی حکم ہے کہ اتنی معلومات
کا جا ننا فر ض ہے ، جن سے فر ض ادا ہو سکے اور اتنی معلومات کا حا صل کر نا واجب ہے
کہ جن سے و اجب ادا ہو سکے۔
ایک
مر تبہ امام محمد رحمۃاللہ تعالی علیہ کی با رگاہ میں عرض کیا گیا کہ آپ ’’زہد‘‘ { تقو ی و پر ہیز گا ری }کے عنوان پر کو ئی کتاب تصنیف کیوں نہیں فر ما تے ؟
آ پ رحمۃاللہ
تعالی علیہ
نے ارشاد فر مایا: میں تو خر ید و فر وخت کے مسائل سے متعلق ایک کتاب تصنیف کر چکا
ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ ،زاہد وہی ہے جو کہ تجارت کر تے وقت اپنے آپ کو
مکروہات وشبہات سے بچائے اور اسی طرح تمام معاملات اور صنعت و حرفت میں مکروہات وشبہات
سے بچناہی تو زہد ہے۔ جب ایک شخص کسی کام میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس پر اتنے علم کا
حا صل کرنا فر ض ہو جاتا ہے کہ جس کے ذریعے وہ اس فعل میں حرام کے ارتکاب سے بچ سکے۔
نیز ظاہری معاملات کی طرح ہی با طنی احوال یعنی توکل ،توبہ،خوف خدا،رضاء الہی وٖغیرہ
سے متعلق معلومات حا صل کر نے کا حکم ہے کیو نکہ بندے کو مذکورہ قلبی امور سے بھی ہر
وقت واسطہ پڑتا رہتاہے لہذا اس پر ا حوال قلب سے متعلق معلومات کا علم حا صل کر نا
بھی فر ض ہے۔
میٹھے میٹھے اسلا می بھا ئیو ! دیکھا آ پ نے کے
ہر شخص پر با لغ ہو تے ہی نماز روزہ کے ضر وری مسائل سیکھنا واجب ہو جا تا ہے، نیز
حج اور زکوۃ سے متعلق مسا ئل صا حب نصاب و استطا عت کے لیے سیکھنا ضروری ہے تا کہ ان کی صحیح طریقے سے ادا ئیگی کر سکے۔
مگر افسوس ! آج ہما ری اکثر یت ان چیزوں کے بنیا دی مسائل سے بھی نا و اقف ہے ، علم
دین سے دوری کے سبب ہو سکتا ہے بعض لو گوں کو تو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ طہارت کیسے
حا صل کی جا تی ہے؟ وضو کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟نماز کی کتنی شرائط اور کتنے فر ائض
ہیں؟ روزہ کن صورتوں میں ٹو ٹ جا تا ہے؟ کن صورتو ں میں روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟ روزے
کے مکر وہات کتنے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ کا ش ! ہم بھی علم دین حا صل کر نے والے بن جائیں۔
فرائض وواجبات وغیرہ کو سیکھ کر اس پر عمل کر نے والے بن جائیں۔ علم دین حاصل کرنے
والوں کے قرآن و سنت میں بہت فضا ئل بیان فر ما ئے گئے ہیں، چنا نچہ حصول علم دین
کی فضیلت پر مشتمل فرما ن مصطفے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ملا حظہ
کیجئے : ً علم سیکھنے سے ہی آتا ہے اور فقہ
غورو فکر سے حاصل ہوتی ہے اور اللہ عزوجل جس کے سا تھ بھلا ئی کا ارادہ فرماتا ہے اسے
دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے ۔
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
آئیے جانتے ہیں کہ کن کن علوم کا سیکھنا فرض ہے؟
دل کی آنکھوں سے پڑھیئے اور سمجھیئے۔
اس کے بارے میں علماعظام کا اختلاف ہے کہ کون
کون سا علم سیکھنا چاہیئے جس کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔اس بارے میں مختلف اقوال
ہیں۔ متکلمین نے فرمایا:
"وہ علم کلام ہے"کیونکہ اس کے ذریعے
اللّہ عزّوجل کی وحدانیت و یکتائی کا ادراک ہوتا ہے۔
فقہا نے
فرمایا:
"وہ علم فقہ ہے"کیونکہ اس کے ذریعے
عبادات،حلال و حرام اور جائز ناجائز معاملات کی پہچان ہوتی ہے۔
محدثین
و مفسرین نے فرمایا:
"وہ قرآن و سنت کا علم ہے"کیونکہ انہیں
کے ذریعے تمام علوم تک رسائی ہوتی ہے۔
صوفیا
نے فرمایا:
"وہ علم تصّوف ہے"کیونکہ اس کے ذریعے
بندہ اپنے حال کو جانتا ہے اور اللّہ عزّوجل
کے ہاں اپنا مقام و مرتبہ معلوم کرتا ہے۔
الغرض مختلف لوگوں نے اس میں مختلف علوم مراد لئے
ہیں۔ جبکہ حضرت سیدنا ابو طالب مکی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:
اس سے مراد ان چیزوں کا علم ہے جنہیں وہ حدیث
پاک شامل ہے جس میں اسلام کی بنیادوں کا ذکر ہے اور وہ یہ فرمان مصطفٰی صلی اللّہ علیہ وسلم ہے: "اسلام
کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللّہ عزوجل کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں(محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں،نماز قائم کرنا،زکوة دینا،حج
کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا)۔"
(صحیح البخاری،کتاب
الایمان،الحدیث:٨،ج١،ص١۴)
مندرجہ بالا حدیث میں جو پانچ اعمال مذکور ہیں
ان پر عمل کی کیفیت اور فرضیت کی کیفیت کا علم بھی فرض ہے۔ ایک اور حدیث پاک میں
ہے: طَلَبُ
الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلَٰی کُلِّ مُسْلِمٍ
ترجمہ:"علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض
ہے" (سنن ابن ماجہ،المقدمہ،الحدیث:٢٢۴،ج١،ص١۴٦
اس حدیث پاک میں عمومیت کے ساتھ ذکر ہے علم حاصل
کرنے کا۔لہذا!
اللّہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنے مقربین کے وسیلے سے
اپنا قرب عطا فرمائے اور علم نافع سیکھنے سکھانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النّبیّ الآمین
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
فرض علوم سے مُراد وہ علوم ہیں کہ جن کی طرف
انسان دین میں محتاج ہویعنی وہ علوم جن کی دین میں ضروت پڑتی ہواور ان میں سب سے
پہلے جس علم کا سیکھنا ضروری ہے وہ علم العقائد ہے،کہ جن کے اعتقاد سے انسان مسلمان سنُّی
المذہب ہوتا ہے اوربوجہ انکارو مُخالفت سے کافر یا بدعتی ہوجاتا ہے ۔مثلاً اللہ تعالی کی ذات وصفات،رسالت ونبوت،ملائکہ وجن
،قبروحشراور دوزخ وجنّت اورتقدیر و غیرہ کا علم۔
اوراس
کے بعد مسائلِ نماز کا سیکھنا ضروری ہے، یعنی نماز کے فرائض وشرائط اور مفسدات کا
علم جن کے جاننے سے نماز صحیح طور سے اداکی جاسکے، جب رمضان آئے تو مسائلِ صوم سیکھنا
لازم ہے یعنی کن چیزوں سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر صاحبِ نصاب ہے تو
مسائلِ زکوة کا جاننا ،صاحبِ استطاعت ہو تو مسائلِ حج کا سیکھنااور اگر نکاح کرنا
چاہتا ہے تو اس کے متعلق مسائل کا جاننااور اگر تاجر ہے تو مسائلِ بیع وشرا
کاجاننا لازم وضروری ہے۔
اسی طرح
حلال وحرام کا علم سیکھنا کہ ہر مسلمان کو اس کی حاجت ہے اور پھر مسائلِ علمِ قلب
کا جاننایعنی فرائضِ قلبیہ مثلاً تواضع، اخلاص،توکُّل وغیرہ اور ان
کے حصول کے طریقوں کا جاننااور محرماتِ باطنیہ کا علم مثلاً تکبر، ریا،عجب و حسد،غیبت
وغیرہ اور ان سے بچنے کے اسباب کا علم بھی ہر مسلمان پرفرضِ عین ہے،جس طرح بے نمازی فاسق و
فاجراورمرتکبِ کبائر ہے اسی طرح ریا کار ،غیبت و حسد کرنے والاگناہِ کبیرہ کا
مرتکب ہے۔
درمختار
میں ہے:
اعلم أن تعلم العلم یکون
فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج لدینہ۔جان
لیجئے!علم سیکھنا اوراسے حاصل کرنا فرضِ عین ہے اور اس سے مُراداتنی مقدار ہے کہ
جس کی دین میں ضرورت پڑتی ہے۔(الدر المختار)
ردالمحتار میں ہے:
فرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد علم الدین والہدایۃ
تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن نصاب، والحج لمن وجب علیہ،
والبیوع علی التجار لیحترزوا عن الشبہات والمکروہات فی سائر المعاملات، وکذا أہل
الحرف، وکل من اشتغل بشئ یفرض علیہ علمہ وحکمہ ولیمتنع عن الحرام فیہ ۔
دینی
علم اور ہدایت حاصل کرنے کے بعدہر عاقل بالغ مرد ،عورت پروضو،غسل،نمازاور روزہ کے
مسائل سیکھنا فرض ہے،اور اسی طرح مسائل زکوٰۃ کا اُس شخص کیلئے جانناجو صاحبِ
نصاب ہے اور حج کے مسائل جس پر وہ واجب ہے،اور خریدو فروخت کے مسائل کا
جانناکاروبارکرنیوالوں کیلئے تاکہ وہ اپنے تمام معاملات میں مشکوک اور مکروہ
کاموں سے بچ جائیں یونہی پیشہ ور اورہر ایسا آدمی جوکسی کام میں مشغول ہوتو اُس
پراس کام کا علم رکھنا فرض ہے،اور اس کا حکم یہی کہ تاکہ وہ اس
معاملے میں حرام سے بچ جائے۔(ردالمحتار)
اور اسی
میں ہے:
فی تبیین المحارم: لا شک فی فرضیۃ علم الفرائض
الخمس وعلم الاخلاص، لان صحۃ العمل موقوفہ علیہ، وعلم الحلال والحرام وعلم الریاء
، لان العابد محروم من ثواب عملہ بالریاء وعلم الحسد والعجب إذ ہما یأکلان العمل
کما تأکل النار الحطب، وعلم البیع والشراء والنکاح والطلاق لمن أراد الدخول فی ہذہ
الاشیاء ،وعلم الالفاظ المحرمۃ أو المکفرۃ۔یعنی تبیین المحارم میں ہے!اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجگانہ فرض نمازوں کی
فرضیّت کا علم اور حصولِ اخلاص کا علم رکھنا ضروری ہے کیونکہ ہر عمل کی صحت اس پر
موقوف ہے یونہی حلال وحرام کاعلم اور ریا کا علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ عابد ریا
کار اپنی ریاکاری کی وجہ سے اپنے عمل کے اجرو ثواب سے محروم رہتا ہے،حسد اور خود
پسندی کا علم رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں انسانی اعمال کو اس طرح کھا جاتے جیسے
آگ لکڑی کو،خریدو فروخت،نکاح،طلاق وغیرہ کے مسائل اُس شخص کیلئے ضروری ہیں جو ان
کاموں کو کرنا چاہے،یونہی حرام اور کفریہ الفاظ کا جاننا ضروری ہے
معلم کائنات شاہِ موجودات صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرماىا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔( سنن ابن ماجہ، المقدمہ باب فضل العلما والحث، ۔۔ج۱، ص
۶۳۱)
اس حدىث پاک مىں ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض قرار دىا گىا ہے اب سوال ىہ
پىدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا علم ہے جو سىکھنا فرض ہے؟
اس مىں علما کا اختلاف ہے اس مىں طوىل تفصىل ہے جس کا خلاصہ
ىہ ہے کہ ہر گروہ نے کہا اسى علم کو فرض کہا جس پر وہ خود کاربند ہے، چنانچہ
متکلمىن نے کہا کہ وہ علمِ کلام ہے کىونکہ اس کے ذرىعے اللہ تعالىٰ کى وحدانىت اور صفاتِ کا ادراک ہوتا ہے۔ فقہا نے علم
فقہ کہا ،کہ اس سے عبادات کے مسائل جانے جاتے ہىں ۔اور محدثىن و مفسرىن نے کہا کہ
وہ علم قرآن و سنت ہے ، غرض ہر گروہ کے اسى طرح بىان کىا۔
حضرت سىدنا ابو طالب مکى علیہ الرحمۃ
نے فرماىا کہ اس سے
مراد ان چىزوں کا علم ہے جنہىں وہ حدىث پاک شامل ہے جس مىں اسلام کى بنىادوں کا
ذکر ہے، چونکہ وہ پانچ ىعنى اللہ کے سوا کوئى معبود نہىں، حضرت محمد صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہىں ، اور نماز قائم کرنا، زکوة اد اکرنا، حج کرنا، اور ماہِ رمضان کے روزے
رکھنا، فرض ہىں اس لىے ان پر عمل و فرضىت کى کىفىت کا علم بھى فرض ہے۔(احىا العلوم ج۱، ص ۷۲، مطبوعہ مکتبہ المدىنہ )
فرمان مصطفى صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم ہے : علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے۔( سنن ابن ماجہ ج
۱، ص ۱۲۶، حدىث ۲۴۲)
اعلی حضرت رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے اس حدیث پاک کے
تحت جو کچھ فرماىا اس کا خلاصہ ىہ ہے کہ
سب مىں اولىن اور اہم ترىن فرض ىہ ہے کہ بنىادى عقائد کا علم حاصل کرنے جس سے آدمى
صحیح العقىدہ سنى بنتا ہے اور جس کے انکار و مخالفت سے کافرو
گمراہ ہوجاتا ہے اس کے بعد مسائل نماز ىعنى اس کے فرائض و شرائط و مفسدات وواجبات
سىکھے تاکہ نماز صحىح طور پر ادا کرسکے، پھر جب رمضان المبارک کى تشرىف آورى ہو تو
روزے کے مسائل، مالکِ نصاب نامى ہوجائے تو
زکوة کے مسائل ، صاحب استطاعت ہو تو مسائلِ حج ، نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کے
ضرورى مسائل ، تاجرہوتو خرىدو فروخت کے مسائل،
کاشتکار اور زمىندار پر کھىتى باڑى کے مسائل ،ملازم بننے اور ملازم رکھنے والے پر
اجارہ کے مسائل اور اسى پرقىاس کرتے ہوئے ہر مسلمان عاقل و با مرد و عورت پر اس کى
موجودہ حالت کے مطابق مسئلے سىکھنا فرضِ عىن ہے(شوقِ علمِ دىن ص ۹، مطبوعہ مکتبہ المدىنہ )
آخر مىں اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمىں فرض علوم سىکھنے کى توفىق عطا
فرمائے، آمىن ىارب العالمىن
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
طلب
العلم فریضۃ علی کل مسلم یعنی، علمِ
دین سیکھنا ہر مسلمان مرد(و عورت) پر فرض
ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ج ١، ص ٤١)
اس
حدیث بالا کے تحت میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ
امام احمد رضا خان علیہ الرحمن نے جو کچھ فرمایا اس کا آسان لفظوں میں
مختصر خلاصہ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سب
سے اولین میں واہم ترین فرض یہ ہے، کہ بنیادی عقائد کا علم حاصل کرے جس سے آدمی
صحیح العقیدہ و سنی بنتا ہے اور جن کے انکار و مخالفت سے کافر یا گمراہ ہوجاتا ہے۔
مثلا اللہ
تعالیٰ
کی ذات و صفات، رسالت و نبوت ، ملائکہ و جن ، قبر و حشر، دوزخ و جنت اور تقدیر
وغیرہ کاعلم جن مسائل کا سیکھنا ضروری ہے۔ پھر اس کے جو مسائل نماز یعنی اس کے فرائض و
شرائط و مفسدات (یعنی نماز توڑنے والی چیزیں سیکھنا تاکہ نماز صحیح طور پر ادا
کرسکے، پھر جب رمضان المبارک کی تشریف آوری ہو تو روزوں کے مسائل سیکھنا کہ کن چیزوں
سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے،
مالک نصاب نامی (یعنی حقیقۃً یا حکماً بڑھنے والے نصاب کا مالک) ہوجائے تو زکاۃ کے
مسائل سیکھنا ، صاحب استطاعت ہو تو حج کے مسائل سیکھنا ، نکاح کرنا چاہیں تو اس کے
ضروری مسائل سیکھنا، تاجر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل مزارع یعنی کاشت
کار(زمیندار) کھیتی باڑی کے مسائل، ملازم بننے اور ملازم رکھنے والے پر اجارہ کے
مسائل کا سیکھنا فرض عین ہے۔وعلیٰ ھذا القیاس۔
ہر مسلمان عاقل و بالغ، مرد و عورت پر اس کی موجودہ حالت کے مطابق مسئلے سیکھنا
فرض عین ہے۔
پھر جن علوم کا سیکھنا فرض ہے :
اس
طرح ہر ایک کے لیے مسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے، نیز مسائلِ قلب (باطنی مسائل) یعنی قلبیہ ( باطنی فرائض) مثلا
عاجزی و اخلاص ، توکل وغیرہ اور ان کو حاصل کرنے کا طریقہ اور باطنی گناہ مثلا
تکبر، ریا کاری حسد وغیرہ ان کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔(ماخوذ
از فتاویٰ رضویہ ، ج :٢٣ ص ٦٢٣)
شیخ
طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار
قادری رضوی دامت
برکاتہم العالیہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو، افسوس آج کل صرف و صرف دنیاوی علوم ہی کی طرف ہماری اکثریت کا ر جحان ہے ،
علمِ دین کی طرف بہت ہی کم میلان ہے۔(شوق علمِ دین ۔ ص ٨)
حدیث
: حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صاحبِ لولاک سیاح
افلاک صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ترجمہ :یعنی علم کا حاصل کرنا، ہر
مسلمان مرد (و عورت ) پر فرض ہے۔ (شعب الایمان ، باب فی طلب العلم، حدیث ١٦٦٥، ج٢،
ص ع ٢٥)
یہاں
علم سے بقدر ضرورت شرعی مسائل مراد ہیں لہذا روزے اور نماز کے وغیرہ کے مسائل
سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ، حیض و نفاس کے مسائل سیکھنا ہر عورت پر، تجارت کے مسائل
سیکھنا ہر تاجر پر ، حج کے مسائل سیکھنا حج کرنے والے پر عین فرض ہے ، لیکن دین کا
پورا عالم بننا فرضِ کفایہ اگر شہر میں ایک نے ادا کردیا تو سب بری ہوگئے (ماخوذ
از مراۃ المناجیح، ج١، ص ٢٠٢)
فرض عین سے مراد: ہر
مسلمان پر اتنا علم حاصل کرنا جس سے وہ فرائض ادا کرسکے اور حر ام چیزوں سے بچ
جائے اسلام کی بنیادی و ضروری باتیں معلوم کرے۔
موت کو یاد کرنے کے فوائد: فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم: لذتوں
کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کرو
حدیث مبارکہ :
حضرت سیدنا کعب الاحبار
رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جو شخص موت کی پہچان کرلیتا ہے اس پر دنیا کی مصیبتیں اور غم ہلکے ہوجاتے ہیں۔ موت
کو زیادہ یاد کرنا ہر مسلمان کے لئے کفارہ
ہے، موت کو زیادہ یاد کرنے سے یہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا
کردیتی ہے ،دل کی سختی دور ہوتی ہے ،دل
نرم رہتا ہے، خوفِ الہی پیدا ہوتا ہے، اس کے اعمال اور احوال اچھے ہوتے ہیں اور وہ
گناہ کرنے سے باز رہتا ہے موت کی یاد حصول تقویٰ کا ذریعہ بھی ہے۔
حدیث مبارکہ:
فرمایا
جناب رسول اللہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کثرت سے موت کو یاد کرو ، اس لیے کہ وہ
یعنی موت کو یاد کر نا گناہوں کو دور کرتا
ہے۔ اور دنیائے مذموم اور غیر مطلوب ،
فضول سے بیزار کرتا ہے یعنی جب انسان موت کو بکثرت یاد کرے گا تو دنیا میں جی نہ
لگے اور طبیعت دنیا کے سامان سے اور زاہد ہوں عبرت کی جائے گی اور آخرت کی تباہی
اور وہاں کے عذاب دردناک کا خوف ہوگا آخرت کی طلب اور وہاں کی نعمتوں کی خواہش ہوگی،
پس ضرور وہ نیک اعمال میں ترقی کرے گا اور گناہوں سے بچے گا تمام نیکیوں کی جڑ زہد
ہے ۔یعنی دنیا سے بیزار ہونا تو موت کی یاد دنیا سے بیزار کردے گی، اگر تم فقر و
تنگی کی حالت میں موت کو یاد کرو گے تو وہ یاد کرنا تم کو راضی کردے گا یعنی جو
کچھ تمہاری تھوڑی سی معاش ہے تم اس سے راضی ہوجا ؤ گے۔ موت کا وعظ ہونا کافی ہے۔
حدیث مبارکہ: جو ٢٠
بار روزانہ موت کو یاد کرے تو وہ شہادت پائے
گا۔
یعنی
جب غنی آدمی موت کا دھیان کرے گا تو اس فنا کی اس کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رہے
گی۔(بہشتی گوہر)
امام
غزالی رحمۃ
اللہ تعالی
فرماتے ہیں : موت کو یاد کرنے کے فائدے اس طریقے سے پہنچ سکتے ہیں کہ موت کو اپنے
سامنے سمجھتے ہوئے یاد کرے اور اس کے علاوہ و ہ ہر چیز کو اپنے دل سے نکال دے ۔ جیسے
کوئی شخص خطرناک جنگل میں سفر کا ارادہ کرے یا سمندری سفر کا ارادہ کرے تو بس اس کے بارے میں غور و فکر رہتا ہے لہذا جب
موت کی یاد کا تعلق دل سے براہ راست ہوگا
تو اس کا اثر بھی ہوگا اور علامت یہ ہوگی کہ دنیا سے اتنا ٹوٹ چکا ہوگا کہ دنیا کی
ہر خوشی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔
موت کی یاد آخرت کی تیاری میں بہت معاون ہے، موت کی یاد سے گناہوں سے نفرت تصور
ہونے لگتی ہے اور نیکیوں سے محبت تصور ہونے لگتی ہے۔
موت
کی یاد فکر آخرت پیدا کرنے دنیاوی لذتوں کو ختم کرنے یا کم کرنے کے لیے کافی ہے۔ امام
صادق علیہ
الرحمہ
موت کو یاد کرنے کے فوائد کے بار ے میں فرماتے ہیں: موت تحقیق الدنیا یاد نفسانی خواہشات کو ختم
کردیتی ہے، اور دل کو اللہ کے وعدے کے ذریعے طاقت بخشتی ہے، اور انسان
کے مزاج کو نرم کرتی ہے اور بری وہوس کو
توڑ دیتی ہے، اور حرص کی آگ کو بجھا دیتی ہے، اور دنیا کو اس کی نظر میں حقیر
دکھاتی ہے۔ (بحار الانوار ، ج ع ، ص ١٣٢)
اس حدیث میں واضح کردیا گیا کہ انسان صرف موت کو یاد کرلیں تو اسے دنیا
و آخرت دونوں میں سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔(علامہ مجلس داد ، احیا الثرات العربی
بیروت ١٤٣)
موت
کو یاد کرنے کی ترغیب ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو
تاکید کے ساتھ یہ تعلیم دی ۔ موت کی یاد انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی
تک پہنچادیتی ہے۔
بداخلاقی کے نقصانات:
اخلا
ق سے قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں، جب اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس
پر کسی کا اختلاف نہیں بدقسمتی سے آج کے ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاقیات
، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں۔
اخلاق
کسی بھی قوم کی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، آج کل
اکثر لوگ بداخلاقی کا شکار ہوئے بیٹھے ہیں، بداخلاق لو گ ان تلخیوں کو اتنا بڑھا
چڑھا دیتے ہیں کہ زندگی خود زہر بن کر رہ
جاتی ہے، بداخلاقی انسانیت اور کائنات کو برباد کردیتی ہے اور بداخلاق لوگ میں
برائیاں سب سے زیادہ ہوں گی۔
ایک بزرگ کا قول :
ایک
بزرگ رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں اچھے اخلاق اجنبی کو اپنا بنادیتے ہیں اور
برے اخلاق اپنوں کو اجنبی بنادیتے ہیں۔ اسلام میں اچھے اور برے اخلاق کا مسئلہ ایک
طے شدہ مسئلہ ہے وہ کسی انسانی عقل یا تجربہ کا محتاج نہیں۔
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم : بُرے اخلاق اعمال کو اس طرح خراب
کردیتے ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔(طبرانی)
بداخلاق
لوگ دین کو سمجھ نہیں سکتے بداخلاقی کا وزن برائیوں میں سب سے زیادہ ہوگا۔
حضرت
ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کوئی بخیل ،دھوکہ باز، کوئی خىانت
کرنے والا ، کوئی بداخلاق شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسند احمد ، جلد اول باب
ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ
کی مرویات)
جس
کے پاس دین کا علم نہیں وہ بداخلاق ہی ہوتا ہے بداخلاق شخص سے لوگ نفر ت کرتے ہیں
اس سے دور بھاگتے ہیں اسے دینی و دنیاوی معاملات میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا
ہے وہ خو دبھی پریشان رہتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی پریشان کرتا ہے، بدا اخلاق
شخص کے دشمن بھی زیادہ ہوتے ہیں، بندہ بُرے اخَلاق کے سبب جہنم کے نچلے طبقے میں
پہنچ سکتا ہے بداخلاق شخص اپنے آپ کو دنیاوی مصیبتوں میں مبتلا کرلیتا ہے بداخلا ق
شخص ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے جو قابلِ استعمال نہیں ہوتا۔ (کتاب البر، ترمذی ،
باب ماجاء فی والصلاۃ حسن خلق ٢٠٣ حدیث نمبر ٢٠٠٩)
بداخلاقی
حسن اخلاقی کی ضد ہے، بداخلاقی سے انسان ایک دوسرے سے دور ہوجاتا ہے آپس میں پیار
و محبت کم ہوجاتا ہے، بداخلاقی سے دل میں بغض
و حسد جیسی بیماریاں جنم لے لیتی ہیں بد
اخلاقی انسان کو دین سے بھی دور کردیتی ہے بداخلاقی سے کئی گھرانے تباہ و برباد
ہوجاتے ہیں اور اس موڑ پر آکھڑے ہوتے ہیں کہ خون خرابے ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور
نفرتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
دعائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: اللھم انی اعوذبک من
الشقاق والنفاق وسو ءالاخلاق
ترجمہ
:اے اللہ میں
تیری پناہ چاہتا ہوں عداوت سے، نفاق سے اور بداخلاقی سے۔ (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
حضور
پاک صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ دعا اس طرح مانگا کرتے تھے۔ ہم بھی اللہ عزوجل سے
دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہم تیری پناہ چاہتے ہیں عداوت سے ، نفاق سے اور
بداخلاقی سے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
علم اىک اىسا وصف ہے جو انسان کے ساتھ خاص ہے جس کى وجہ سے
انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز ملا ، علم ہى کے سبب اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ پر فضىلت عطا فرمائى اور
ملائکہ سے آ پ کو سجدہ کرواىا۔
حدىث مبارکہ مىں ہے: طلب العلم
فرىضۃ على کل مسلم ىعنى، علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پرفرض ہے۔ (سنن
ابن ماجہ، باب فضل العلما، الحدىث ۲۲۴۔ج۱۔ ص ۱۴۶)
اب سوال ىہ پىدا ہوتا ہے کہ اس علم سے مرادکونسا علم ہے ؟
کىا اسکول کالجز
کا مروجہ دنىوى علمَ؟؟؟ جواب : نہىں تو پھر اس سے مراد کونسا علم ہے؟؟ اس سے مراد ضرورى دىنى علم ہے۔ ىاد رہے!
فرض علوم کى بنىادى طور پر دو اقسام ہىں۔
۱۔ فرض عىن ۔
۲۔ فرض کفاىہ
جس علم کا حاصل کرنا فرض عىن ہے ، اس مىں درجِ ذىل امور شا
مل ہىں۔
بنىادى عقائد کا علم اس قدر سىکھنا جس سے انسان صحىح
العقىدہ بن سکے فرض عىن ہے۔ عبادات مثلا نماز کے فرائض شرائط و مفسدات کا علم ، رمضان المبارک کى تشرىف آورى ہو تو فرض
ہونے کى صورت روزوں کے ضرورى مسائل ،زکوة فرض ہونے کى صورت مىں زکوة کے ضرورى
مسائل ،اسى طرح حج فرض ہونے کى صورت مىں حج کے ضرورى مسائل کا سیکھنا فرض عین ہے ، وعلى ھذا القىاس
معاملات جىسے تاجر کو خرىد و فروخت کے ، نوکرى کرنے والے کو
نوکرى کے، نوکر رکھنے والے کو اجارے کے ضرورى مسائل سىکھنا الغرض ہر مسلمان عاقل و
بالغ مرد و عورت پر اس کى موجودہ حالت کے مطابق مسائل سىکھنا فرض عىن ہے۔ اسى طرح
ہر اىک کے لىے مسائل حلال و حرام سىکھنا بھى فرض ہے منجیات (نجات دلانے والى
چىزىں) مثلا عاجزى، اخلاص، توکل ، وغىرہ اور ان کو حاصل کرنے کا طرىقہ اور مہلکات
( ہلاک کرنے ولاى چىزىں) مثلا جھوٹ، غىبت،
چغلى، حسد، تکبر، رىا کارى وغىرہ او ران کا علاج سىکھنا اہم فرائض مىں سے ہے۔ (ماخوذ
از فتاوىٰ رضوىہ ج ۲۳، ص۶۲۳، ۶۲۴)
وہ اشىا جن سے کبھى کبھار واسطہ پڑتا ہے ان کا علم حاصل
کرنا فرض کفاىہ ہے، اگر شہر کے بعض افراد نے اس کا علم حاصل کرلىا تو باقى افراد سے ىہ فرض ساقط ہوجاتا ہے اور اگر پورے
شہر مىں کسى نے بھى حاصل نہ کىا تو سب سے
مواخذہ ہوگا، جىسا کہ علم طب اور علم حساب کا حاصل کرنا فرض کفاىہ ہے، ( ماخوذ از
راہِ علم ص۱۴)
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمىں
علمِ نافع عطا فرمائے ۔ امىن
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں