علم کے
لغو ی معنی جا ننے کے ہیں ۔ مگر ہر فن کے تعلق سے جا ننے کی نوعیت اور معلو مات کی
حیثیت مختلف ہو گی۔ انبیا ء کے تعلق سے جب اس کا استعمال ہو گا تو اس سے طبعا ًخدا
کی تو حید ذات و صفات دین و شریعت کے ا حکام اور اخلاقی تعلیمات مراد ہو گی ۔
حضر ت ابر ا ہیم علیہ اسلام تو حید
پر استدلال کر کے اپنے باپ سےفر ما تے ہیں: قر آن مجید کی سورۃ مر یم کی آیت نمبر43 میں اللہ تعالی ارشاد
فر ما تا ہے تر جمہ : اے میر ے باپ !میرے پاس
علم کا وہ حصہ آیا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا ۔ حضر ت
خضر علیہ
اسلام
کے متعلق ہے۔قر آن مجید کی سورۃ کہف کی آیت نمبر 65میں اللہ تعالی ارشاد
فر ما تا ہے ترجمہ اور ہم نے اپنے پاس سے اس
کو علم سکھایا ۔
خدا کے
پا س سے تو ہر چیز ہے پھر ’اپنے پا س سے علم سکھا نے‘کا مفہوم کیا ہے؟ ہر وہ شے جو
انسان کی ذاتی محنت کو شش اور جدوجہد وغیرہ معمولی ذرائع کے بغیر حا صل ہو تی ہے وہ من جا نب اللہ کہی جا
تی ہے اسی طر ح خدا کے پا س سے علم عطا ہو نے کے معنی اس علم کے ملنے کے ہیں جو انسان
کے طبعی ذرائع علم واستدلال اور تلا ش و تحقیق کے بغیر خود بخود عطا ہو۔ یہی علم خدا
داد ہے اور اسی لیے صو فیا ء کی اصطلاح میں اس کو علم لدنی {پا س والا علم}کہتے ہیں۔{سیرۃ
النبی صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جلد
نمبر ۴}
حدیث
:المبسوط جلد 30کی کتاب میں ہے اَ فْضَلُ الْعِلْمِ عِلْمُ
الْحَا لِ و َ اَفْضَلُ الْعَمَلِ حِفْظُ الْحَا لِ یعنی افضل تر ین علم
مو جو دہ درپیش امور سے آ گاہی حا صل کر نا ہے اور افضل تر ین عمل اپنے احو ال کی
حفا ظت کر نا ہے۔ پس ایک مسلمان پران علوم کا جا ننا بہت ضروری ہے جن کی ضرورت اس کو
اپنی زندگی میں پڑتی ہے خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔
ایک
مسلمان کے لیے پہلا فر ض تو نمازہی ہے لہذا ہر مسلمان پر نماز کے متعلق اتنی معلومات
کاجا ننا فر ض ہے کہ جن سے اس کا فر ض ادا ہو سکے اور اتنی معلومات کا حا صل کرنا واجب
ہے جن کی آگاہی سے وہ واجبات نماز کو ادا کر سکے کیونکہ ضا بطہ یہ ہے کہ وہ معلومات
جو ادائیگی فرض کا سبب بنیں ان کو حا صل کر نا فر ض ہے، اور وہ معلومات جو ادا ئیگی
واجب کا ذریعہ بنیں ان کو حا صل کر نا واجب ہے۔ اسی طرح روزے سے متعلق معلومات حا صل
کر نے کا معاملہ ہے نیزاگر صا حب مال ہے تو زکوۃ کا بھی یہی ضا بطہ ہے اور اگر کو ئی
تا جر ہے تو مسا ئل خرید و فر و خت جا ننے کے متعلق بھی یہی حکم ہے کہ اتنی معلومات
کا جا ننا فر ض ہے ، جن سے فر ض ادا ہو سکے اور اتنی معلومات کا حا صل کر نا واجب ہے
کہ جن سے و اجب ادا ہو سکے۔
ایک
مر تبہ امام محمد رحمۃاللہ تعالی علیہ کی با رگاہ میں عرض کیا گیا کہ آپ ’’زہد‘‘ { تقو ی و پر ہیز گا ری }کے عنوان پر کو ئی کتاب تصنیف کیوں نہیں فر ما تے ؟
آ پ رحمۃاللہ
تعالی علیہ
نے ارشاد فر مایا: میں تو خر ید و فر وخت کے مسائل سے متعلق ایک کتاب تصنیف کر چکا
ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ ،زاہد وہی ہے جو کہ تجارت کر تے وقت اپنے آپ کو
مکروہات وشبہات سے بچائے اور اسی طرح تمام معاملات اور صنعت و حرفت میں مکروہات وشبہات
سے بچناہی تو زہد ہے۔ جب ایک شخص کسی کام میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس پر اتنے علم کا
حا صل کرنا فر ض ہو جاتا ہے کہ جس کے ذریعے وہ اس فعل میں حرام کے ارتکاب سے بچ سکے۔
نیز ظاہری معاملات کی طرح ہی با طنی احوال یعنی توکل ،توبہ،خوف خدا،رضاء الہی وٖغیرہ
سے متعلق معلومات حا صل کر نے کا حکم ہے کیو نکہ بندے کو مذکورہ قلبی امور سے بھی ہر
وقت واسطہ پڑتا رہتاہے لہذا اس پر ا حوال قلب سے متعلق معلومات کا علم حا صل کر نا
بھی فر ض ہے۔
میٹھے میٹھے اسلا می بھا ئیو ! دیکھا آ پ نے کے
ہر شخص پر با لغ ہو تے ہی نماز روزہ کے ضر وری مسائل سیکھنا واجب ہو جا تا ہے، نیز
حج اور زکوۃ سے متعلق مسا ئل صا حب نصاب و استطا عت کے لیے سیکھنا ضروری ہے تا کہ ان کی صحیح طریقے سے ادا ئیگی کر سکے۔
مگر افسوس ! آج ہما ری اکثر یت ان چیزوں کے بنیا دی مسائل سے بھی نا و اقف ہے ، علم
دین سے دوری کے سبب ہو سکتا ہے بعض لو گوں کو تو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ طہارت کیسے
حا صل کی جا تی ہے؟ وضو کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟نماز کی کتنی شرائط اور کتنے فر ائض
ہیں؟ روزہ کن صورتوں میں ٹو ٹ جا تا ہے؟ کن صورتو ں میں روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟ روزے
کے مکر وہات کتنے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ کا ش ! ہم بھی علم دین حا صل کر نے والے بن جائیں۔
فرائض وواجبات وغیرہ کو سیکھ کر اس پر عمل کر نے والے بن جائیں۔ علم دین حاصل کرنے
والوں کے قرآن و سنت میں بہت فضا ئل بیان فر ما ئے گئے ہیں، چنا نچہ حصول علم دین
کی فضیلت پر مشتمل فرما ن مصطفے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ملا حظہ
کیجئے : ً علم سیکھنے سے ہی آتا ہے اور فقہ
غورو فکر سے حاصل ہوتی ہے اور اللہ عزوجل جس کے سا تھ بھلا ئی کا ارادہ فرماتا ہے اسے
دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے ۔
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں