پیارے پیارے اسلامی بھائیوں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں  کا انجام بڑا درد ناک ہےصراطِ مستقیم سے مراد’’عقائد کا سیدھا راستہ ‘‘ہے، جس پر تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلے یا اِس سے مراد’’اسلام کا سیدھا راستہ‘‘ہےجب جادو میں نقصان کی تاثیر ہے تو قرآنی آیات میں ضرور شفا کی تاثیر ہے۔یونہی جب کفار جادو سے نقصان پہنچا سکتے ہیں تو خدا کے بندے بھی کرامت کے ذریعہ نفع پہنچا سکتے ہیں۔ جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیماروں ، اندھوں اورکوڑھیوں کو شفا بخشنا ہے قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کچھ نصیحتیں نیچے درج ذیل ہی

{وَ قَالُوا:اور کافر وں نے کہا۔} اس سے پہلے بتوں کی پوجا کرنے والوں کا رد کیا گیا اور اب ایک بار پھر ان لوگوں کا رد کیا جارہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کافر وں نے یہ کہا: رحمٰن نے اولاد اختیار کی ہے۔ اس آیت میں حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے والے یہودی، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹاکہنے والے عیسائی اور فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہنے والے مشرکینِ عرب سبھی داخل ہیں ۔ ( تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: 88، 7 / 5)

{فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗؕ:پھر عیسیٰ کو اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے بعد حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا انہیں اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں ، جب لوگوں نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کو دیکھا کہ ان کی گود میں بچہ ہے تو وہ روئے اور غمگین ہوئے ، کیونکہ وہ صالحین کے گھرانے کے لوگ تھے اور کہنے لگے : اے مریم! بیشک تم بہت ہی عجیب و غریب چیز لائی ہو۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ عمران کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں حنہ بدکار عورت تھی تو پھر تیرے ہاں یہ بچہ کہاں سے ہو گیا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 24-27، 3 / 233)

قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ:بچے نے فرمایا بیشک میں اللہ کابندہ ہوں ۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں سے بات کرنا شروع کی اور فرمایا، میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کابندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اگرچہ کلام کرکے اپنی والدہ ماجدہ سے تہمت کو دور کرنا تھا مگر آپ نے پہلے خود کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ قرار دیا تاکہ کوئی اُنہیں خدا اور خدا کا بیٹا نہ کہے کیونکہ آپ کی نسبت یہ تہمت لگائی جانے والی تھی اور یہ تہمت اللہ تعالیٰ پر لگتی تھی، اس لئے منصبِ رسالت کاتقاضا یہی تھا کہ والدہ کی برأ ت بیان کرنے سے پہلے اس تہمت کو رفع فرما دیں جو اللہ تعالیٰ کے جنابِ پاک میں لگائی جائے گی اور اسی سے وہ تہمت بھی اٹھ گئی جو والدہ پر لگائی جاتی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس مرتبۂ عظیمہ کے ساتھ جس بندے کو نوازتا ہے، بِالیقین اس کی ولادت اور اس کی فطرت نہایت پاک و طاہر بناتا ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: 30، 3 / 231)

{مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے مقابلے میں۔}اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اختیار دینے سے مدد ہوسکتی ہے ، قرآن وحدیث میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیماروں ، کوڑھیوں اور نابیناؤں کی مدد کرتے تھے۔ فرشتوں نے غزوہ بدر اور غزوہ حُنَین میں مسلمانوں کی مدد کی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزیر نے تخت ِ بلقیس لا کر مدد کی۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سینکڑوں مرتبہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی کھانے، پینے، بیماریوں اور پریشانیوں میں مدد کی۔ حضور غوث ِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اولیاء کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کامدد کرنا لاکھوں لوگوں کے تجربات اور تواتر سے ثابت ہے۔


جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عیسی( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کا قرب قیامت نزول ہوگا. آپ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کا نام مریم ہے. حضرت عیسی (علیہ السلام) کی کچھ قران نصیحتیں مذکور ہیں۔      اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:

وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ (الزخرف: ٫43آیت 63۔64) ترجمہ کنزالایمان: اور جب عیسی روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر ایا اور اس لیے میں تم سے بیان کر دوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو بے شک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔

اس آیت اور اس کے بعد والے آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسی (علیہ السلام) معجزات لے کر ائے تو انہوں نے فرمایا میں تمہارے پاس نبوت اور انجیل کے احکام لے کر آیا ہوں تاکہ تم ان احکام پر عمل کرو اور میں اس لیے آیا ہوں تاکہ میں تم سے تورات کے احکام میں سے وہ تمام باتیں بیان کر دوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو لہذا تم میری مخالفت کرنے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور میں اللہ تعالی کی طرف سے جو احکام تمہیں پہنچا رہا ہوں ان میں میرا حکم مانو کیونکہ میری اطاعت حق کی اطاعت ہے۔ بے شک اللہ تعالی میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرو یہ سیدھا راستہ ہے کہ اس پر چلنے والا گمراہ نہیں ہو سکتا۔ ایک اور مقام پر قران پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ ترجمہ کنزالایمان: اور بیشک عیسیٰ قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۔ترجمہ کنزالایمان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے۔

ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جب حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق اور اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں کا اقرار و اعتراف کرتا ہوں اور مجھ سے پہلے تشریف لانے والے تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مانتا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دیتاہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے، ان کا نام احمد ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ پھر جب وہ احمد کفارکے پاس روشن نشانیاں اور معجزات لے کر تشریف لائے توانہوں نے کہا: یہ کھلا جادوہے۔

حضرت کعب احباررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: یَا رُوْحَ اللہ !کیا ہمارے بعد اور کوئی امت بھی ہے؟آپ نے فرمایا’’ہاں،احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت ہے ،وہ لوگ حکمت والے ، علم والے، نیکوکار اور متقی ہوں گے اور فقہ میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نائب ہوں گے، اللہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی رہنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے تھوڑے عمل پر راضی گا۔(خازن، الصف، تحت الآیۃ: 6، 4)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم !جس کے قبضے میں میری جان ہے،قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے ،صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، 2/ 50، الحدیث: 2222)


انبیاء کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں اعلی ترین شخصیات ہیں،جنہیں خدا نے وحی کے نور سے نوازا ہے۔ان کی ربانی سیرتوں،راہ خدا میں کاوشوں اور خدائی پیغام پہنچانے میں اٹھائی مشقتوں میں تمام انسانیت کیلیےعظمت وکردار،ہمت،حوصلے اور استقامت کا عظیم درس موجود ہے۔انبیاء کرام علیہم السلام چونکہ لا یعنی( فضول) اقوال و افعال سے پاک ہوتے ہیں۔یہ حضرات اپنی زبان کو ہمیشہ ذکر اللہ سے تر رکھتے ہیں۔اللہ پاک کی اپنے انبیاء کرام علیہم السلام پر خاص رحمت ہوتی ہے۔اس وجہ سے ان کی گفتگو پراثراورپرمغزہوتی ہے۔جودلوں پرگہرااثرکرتی ہے۔آئیے ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی قرآنی نصیحتیں جو انہوں نے اپنے حواریوں سے فرمائیں پڑھتے ہیں اور اس سے مدنی پھول چنتے ہیں۔

اللہ پاک قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآىٕفَةٌۚ-فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْنَ(14) آسان ترجمۂ قرآن کنز العرفان: اے ایمان والو!اللہ کے (دین کے) مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے فرمایا تھا: کون ہیں جو اللہ کی طرف ہو کر میرے مدد گار ہیں؟حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے (دین کے) مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو وہ غالب ہوگئے۔(پ۔28،سورہ الصف،آيت نمبر14)

اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں:

(1) مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کے بندوں سے مدد مانگنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنت ہے، یہ شرک نہیں اور’اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘ کے خلاف نہیں۔

(2)عیسائیوں کو نصاریٰ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے آباءو اَجدادنےحضرت عیسی علیہ السلام سے کہا تھا: ’’نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ

(3) اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی مدد کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنا ہے، کیونکہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدد کی تھی مگر عرض کی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مدد گار ہیں۔

اور اسی طرح اس آیت میں مومنوں کو اللہ پاک کے دین کی مدد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔اور اس آیت میں ہمارے لیے بھی نصیحت ہے کہ جب بھی اللہ پاک کے دین کو ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم اللہ پاک کے دین کی جس قدر ہو سکے مدد کریں۔ایک موقع پر حضرت عیسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو یوں نصیحت فرمائی۔

وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(64) آسان ترجمۂ قرآن کنز العرفان: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا تواس نے فرمایا: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیاہوں اور میں اس لئے (آیا ہوں ) تاکہ میں تم سے بعض وہ باتیں بیان کردوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ (پ،25،سورہ الزخرف،آیت،63۔64)

ان آیات سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم اللہ پاک سے ڈریں اور اللہ پاک نے جن کاموں کا ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے وہ بجا لائیں اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے رک جائیں،اسی کو ہی معبود حقیقی سمجھیں اور اللہ تعالی ہی کی عبادت کریں۔یہی سیدھا راستہ ہے۔اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت پڑھنے سمجھنے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عیسی( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کا قرب قیامت نزول ہوگا. آپ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کا نام مریم ہے. حضرت عیسی (علیہ السلام) کی کچھ قران نصیحتیں مذکور ہیں۔     اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:

وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ (الزخرف: 43 آیت 63۔64) ترجمہ کنزالایمان: اور جب عیسی روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر ایا اور اس لیے میں تم سے بیان کر دوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو بے شک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔

اس آیت اور اس کے بعد والے آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسی (علیہ السلام) معجزات لے کر ائے تو انہوں نے فرمایا میں تمہارے پاس نبوت اور انجیل کے احکام لے کر آیا ہوں تاکہ تم ان احکام پر عمل کرو اور میں اس لیے آیا ہوں تاکہ میں تم سے تورات کے احکام میں سے وہ تمام باتیں بیان کر دوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو لہذا تم میری مخالفت کرنے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور میں اللہ تعالی کی طرف سے جو احکام تمہیں پہنچا رہا ہوں ان میں میرا حکم مانو کیونکہ میری اطاعت حق کی اطاعت ہے۔ بے شک اللہ تعالی میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرو یہ سیدھا راستہ ہے کہ اس پر چلنے والا گمراہ نہیں ہو سکتا۔ ایک اور مقام پر قران پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ ترجمہ کنزالایمان: اور بیشک عیسیٰ قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۔ ترجمہ کنزالایمان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے۔

ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جب حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق اور اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں کا اقرار و اعتراف کرتا ہوں اور مجھ سے پہلے تشریف لانے والے تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مانتا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دیتاہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے، ان کا نام احمد ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ پھر جب وہ احمد کفارکے پاس روشن نشانیاں اور معجزات لے کر تشریف لائے توانہوں نے کہا: یہ کھلا جادوہے۔

حضرت کعب احباررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: یَا رُوْحَ اللہ !کیا ہمارے بعد اور کوئی امت بھی ہے؟آپ نے فرمایا’’ہاں،احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت ہے ،وہ لوگ حکمت والے ، علم والے، نیکوکار اور متقی ہوں گے اور فقہ میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نائب ہوں گے، اللہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی رہنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے تھوڑے عمل پر راضی گا۔(خازن، الصف، تحت الآیۃ: 6، 4)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم !جس کے قبضے میں میری جان ہے،قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے ،صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، 2/ 50، الحدیث: 2222)

آج ہم ان شاءاللہ حضرت عیسی علیہ اسلام کی نصحتوں کے متعلق پڑنے کی سعادت حاصل کریں گے لیکن اس سے پہلے ہم ان کے متعلق کچھ جانتے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام جو ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے، برگزیدہ نبی اور اولو العزم یعنی عزم و ہمت والے رسول ہیں۔ آپ عَلَيْهِ السلام کی ولادت قدرت الہی کا حیرت انگیز نمونہ ہے، آپ علیہ السلام حضرت مریم رضی اللہ عنھا سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے، بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ، یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے شر سے بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے ، ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی الله عَلَيْهِ وَالِهِ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے ، صلیب توڑیں اور خنزیر و دجال کو قتل کریں گے ، چالیس سال تک زمین پر قیام فرمائیں گے ، پھر وصال کے بعد مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کا مختصر تذکرہ متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جبکہ تفصیلی ذکر خیر درج ذیل 6 مقامات پہ کیا گیا ہے۔

سورتوں میں سے(1) سورۃ آل عمران، آیت : 45 تا 57

(2)سورہ مائدہ آیت(72تا75 اور 110تا 119)

(3)سورۂ نساء، آیت(156تا159 اور 171 تا 172)

(4) سورۂ مریم، آیت : 16 تا 38

(5) سوره زخرف، آیت : 63 تا 66

(6) سورۂ تحریم، آیت : 12

ان مقامات پہ آپ کا تفصیلی ذکر خیر موجود ہے اب ہم پڑتے ہے وہ آیتیں جن میں آپ نے اپنی قوم کو نصیحت کی اور قرآن پاک میں اللہ پاک نے اسے بیان فرما دیا چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ

ترجمہ کنزالعرفان: اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ،وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔(پارہ3، سورہ ال عمران،آیت نمبر 49)

اس آیت سے پتہ چلا کہ آپ لوگوں کو یہ نصیحت فرما رہے ہے کے اے لوگوں میں اللہ کا نبی علیہ السلام ہوں مجھے اللہ پاک نے معجزات عطاء فرمائے ہے میں اندھوں کو بنائی دیتا ہو ، میں پرندوں کی سی شکل مٹی سے بناتا ہو اور پھر میں اس کو اللہ کے حکم سے پھونک مارتا ہو تو وہ زندہ ہو جاتا ہے اور جو تم کھاتے ہوں اور گھر رکھ کے آئے ہوں میں ان سب کو جانتا ہوں اور اگر میں کوڑی لوگوں کے جسم پہ ہاتھ پھیروں تو وہ صحیح ہو جاتے ہے اسی طرح آپ عاجزی و انکساری اپنانے والے تھے اور اس کی نصیحت بھی آپ اپنے لوگوں کو کرتے تھے آپ کی اس نصیحت کا تذکرہ اللہ پاک نے قرآن پاک کے ایک دوسرے مقام پہ اس طرح ارشاد فرمایا:

لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(172) ترجمہ کنزالعرفان: نہ تومسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عارکرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے توعنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔ (پارہ 6،سورہ النساء، آیت نمبر 172)

آپ علیہ السلام خود عجز و انکسار کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے ، چنانچہ ایک بار آپ علَيْهِ السلام نے حواریوں سے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں تمہیں افضل عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھتا ؟ انہوں نے عرض کی: اے روح الله عَلَيْهِ السلام ، افضل عبادت کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے لیے عاجزی اختیار کرنا۔ ( الزهد لاحمد ، من مواعظ عيسى عليه السلام، ص 95، رقم : 312)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے صدقہ ہمیں بھی عاجزی و انکساری اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم سب کی مشکلات کو آسان فرمائے۔ (آمین)

آپ علیہ السلام اللہ تعالی کے مقبول بندے،برگریزہ نبی اور اولو العزم یعنی عزت و ہمت والے رسول ہیں؟ اپ علیہ السلام کی ولادت قدرت الہی کا حیرت انگیز نمونہ ہے،آپ علیہ السلام حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے،بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے یہودیوں نے اپ علیہ السلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالی نے اپ کو ان کے شر سے بچا کر اسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اپ قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے،ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے،صلیب توڑیں گے اور خنزیر و دجال کو قتل کریں گے،40 سال تک زمین پر قیام فرمائیں گے،پھر وصال کے بعد مدینہ منورہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حجرہ میں مدفون ہوں گے،یہاں آپ علیہ السلام کی مبارک سیرت کو پانچ ابواب میں بیان کیا گیا ہے جس کی تفصیل زیلی سطور میں ملاحظہ فرمائیں ۔

قران کریم میں اپ علیہ السلام کا مختصر تذکرہ متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جبکہ تفصیلی ذکر خیر درج زیل 6 صورتوں میں کیا گیا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی قران پاک میں ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے: یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ(48)وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(49) ( پارہ نمبر 3 سورۃ آل عمران آیت نمبر 48 تا 49)

ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ اسے سکھائے گا کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جِلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

تفسیرصراط الجنان:

{وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دلیل کے طور پر اس زمانے کے حالات کے موافق بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ یہی بات موجودہ بائبل میں بھی موجود ہے۔ آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پانچ معجزات کا بیان ہے۔ (1) مٹی سے پرندے کی صورت بنا کر پھونک مارنا اور اس سے حقیقی پرندہ بن جانا، (2)پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا فرما دینا، (3)کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کردینا، (4)مردوں کو زندہ کردینا، (5)غیب کی خبریں دینا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کی تفصیل:

(1)…پرندے پیدا کرنا: جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبوت کا دعویٰ کیااور معجزات دکھائے تو لوگوں نےدرخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1 / 251)

چمگادڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت عجیب ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں دوسروں سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بغیر پروں کے اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اوروہ بچہ جنتی ہے حالانکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں۔ (جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1 / 418)

(2)…کوڑھیوں کو شفایاب کرنا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس مریض کو بھی شفا دیتے جس کا برص بدن میں پھیل ہوگیا ہو اور اَطِبّاء اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں طب کاعلم انتہائی عروج پر تھا اور طب کے ماہرین علاج کے معاملے میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کی نبوت کی دلیل ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا ،ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ:64، 1/ 251)

3)…مردوں کو زندہ کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ،ایک عازر جس کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مُخلصانہ محبت تھی، جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطلاع دی مگر وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا ۔جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کی بہن سے فرمایا، ہمیں اس کی قبر پر لے چل ۔وہ لے گئی ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی جس سے عازر حکمِ الٰہی سے زندہ ہو کر قبر سے باہر آگیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد ہوئی ۔ دوسر اایک بڑھیا کا لڑکاتھا جس کا جنازہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے جارہا تھا ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے لیے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر جنازہ اٹھانے والوں کے کندھوں سے اتر پڑا اور کپڑے پہنے، گھرآگیا ،پھر زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی۔ تیسری ایک لڑکی تھی جوشام کے وقت مری اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے اس کو زندہ کیا۔ چوتھے سام بن نوح تھے جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے ۔ لوگوں نے خواہش کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کو زندہ کریں۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ سام نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے۔ ’’ اَجِبْ رُوْحَ اللہ‘‘ یعنی’’ حضرت عیسیٰ روحُ اللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن‘‘ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی، اس کی دہشت سے ان کے سر کے آدھے بال سفید ہوگئے پھر وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سَکراتِ موت کی تکلیف نہ ہو، اس کے بغیرانہیں واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 2 / 74، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1 / 419-420، ملتقطاً)

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جسے زندہ فرماتے اسے’’ بِاِذْنِ اللہِ ‘‘یعنی ’’اللہ کے حکم سے‘‘ فرماتے ۔ اس فرمان میں عیسائیوں کا رد ہے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُلُوہِیَّت یعنی خدا ہونے کے قائل تھے۔

(4)… غیب کی خبریں دینا۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے ،تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کر رکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آدمی کو بتادیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور جو آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لیے تیار کررکھا ہوتا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس بہت سے بچے جمع ہوجاتے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے، تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے، فلاں چیز تمہارے لیے بچا کررکھی ہے، بچے گھر جاتے اورگھر والوں سے وہ چیز مانگتے۔ گھر والے وہ چیز دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ؟بچے کہتے: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ،تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آنے سے روکا اور کہاکہ وہ جادو گر ہیں ، اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے؟ انہوں نے کہا :سور ہیں۔ فرمایا، ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سور ہی سور تھے۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 2 / 74، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1 / 420، ملتقطا)

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت عیسی علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور لوگوں کو برائی سے منع کرنے کی اور نیکی کی طرف لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

یا اللہ عزوجل ہمیں حضرت عیسی علیہ السلام کے فیضان سے مالا مال عطا فرما اور ہمیں مکہ مدینہ کی با ادب حاضری نصیب فرما امین ثم امین

جب سے اللہ پاک نے انسانوں کو پیدا فرمایا۔ تب سے ہی انسانوں کو تہذیب و سلیقہ مندی ، معاشرتی و مذہبی امور میں کامیاب و کامران  کرنے، انھیں اپنی عقل و فطرۃ کو اللہ پاک کے احکامات کے تابع کرنے اور اپنی زندگیوں کو اپنی خواہشات نہیں بلکہ خدائے رحمن کی اطاعت میں گزارنے اور اس کی بندگی کرنے کے لیے، انبیاء کرام اور صالحین کے ارشادات اور ان کی نصیحتوں کے ذریعے ان کی رہنمائی فرمائی۔ہر نبی علیہ السلام نے اپنی اپنی امتوں میں لوگوں کو معاشرے میں موجود برائیوں سے منع کیا اور انھیں اخلاقی بلندیوں تک پہنچنے کے راستے بیان کیے۔ یہ طریقۂ وعظ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور تا قیامت علماء و صلحاء کے ذریعے جاری رہے گا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی میں حضرت عیسی علیہ السلام کی وہ نصحیتیں بھی آتی ہیں کہ جو انھوں نے اپنی قوم سے کیں۔

پہلے نصیحت کے بارے میں جانتے ہیں کہ نصیحت کسے کہتے ہیں۔

نصیحت: نصیحت عربی زبان کا لفظ ہے۔اور اس کے معنی ہمدردانہ بات کرنا اور خیرخواہی پر مشتمل مشورہ دینے کے ہیں کہ جس مشورے میں نیکی کی ترغیب اور گناہ سے اجتناب کرنے کا ذہن ہو (القاموس الوحید ص، 1655)

حضرت عیسی علیہ السلام کی نصیحتوں کو قرآن عظیم نے بہت ہی نفیس انداز میں لوگوں کی بھلائی اور انھیں برائیوں سے بچنے کے لیے بیان فرمایا۔ان میں سے پانچ نصیحتیں درج ذیل ہیں:

1-اللہ پاک کے رب ہونے کی گواہی اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی تلقین:جب حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو واضح معجزات دکھا دئیے اور وہ حکمت و معرفت کی باتیں ان کے سامنے بیان کر دی کہ جس میں ان کی ہمیشہ کی زندگی کے لیے کامیابی کا راز موجود تھا اور ان کے سامنے وہ باتیں بھی بیان کر دیں کہ جس میں وہ پہلے اختلاف کرتے رہے تو پھر فرمایا اے میری قوم اللہ سے ڈرو اور جو میں کہتا ہوں اس کی اطاعت کرو۔ بے شک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔جب وہ ہمارا معبود ہے، خدا ہے اور وہ عبادت کے لائق ہے تو اسی کی عبادت کرو۔اور یہی سیدھا راستہ ہے کہ جس پر چل کر تم کامیاب ہو سکو گے۔

اس ساری بات کو قرآن پاک کی سورۃ زخرف کی آیت نمبر 64 سے 65 میں نہآیت پُر لطف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(64)ترجمہ کنزالایمان: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔

2- بنی اسرائیل کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشخبری سنانا:حضرت عیسی علیہ السلام چونکہ بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔آپ علیہ السلام نے ان لوگوں کے سامنے ان تمام باتوں کو بیان کردیا کہ جس میں لوگ شک و شبہات میں تھے۔ آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم اس بات کو یقینی طور پر جان لو کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔اور اس مقام پر فائز ہوں کہ تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں۔اور سب سے بڑھ کر تمھیں ایک ایسے نبی کی آمد کا مژدہ اور خوشخبری سناتا ہوں کہ جو میرے بعد تشریف لائیں گے۔اور اپنی ذات کی نورانیت سے کفر کے اندھیروں کو دور کریں گے۔جان لو کہ وہ نبی جو میرے بعد آئیں گے انکا نامِ پاک "احمد" ہوگا.

اس ساری گفتگو کو قرآن پاک میں کس طرح بیان کیا گیا آئیے دیکھتے ہیں۔

اللہ پاک سورۃ الصف کی آیت نمبر 6 میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمہ کنزالایمان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے۔

3- دینِ خداوندی کی مدد کرنے کی تلقین:حضرت عیسی علیہ السلام نے جب بنی اسرائیل کے سامنے حق بات بیان فرما دی اور ان کے سامنے واضح معجزات اور نشانیاں دکھا دیں۔ تو اب ان لوگوں کے پاس کوئی عذر باقی نا بچا۔ ان یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے نبی برحق ہونے کو جان لیا اور انھوں نے یہ سمجھا کہ اگر سب لوگوں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ علیہ السلام اللہ پاک کی جانب سے سچے نبی ہیں تو حضرت عیسی علیہ السلام کی حقانیت ہمارے دین کو یعنی یہودیت کو منسوخ کردے گی۔ پس یہ لوگ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے اور معاذ اللہ آپ کو شہید کرنے کے در پہ ہوگئے۔

اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ کون ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ اللہ کے دین کی مدد کرنے اور اللہ کے نبی کی مدد و نصرت کے لیے اپنے آپ کو قائم رکھے گا۔ یہ اس وقت تو بظاہر ایک مشکل کام تھا کہ ان سب یہودیوں کے مقابل دینِ برحق کے ساتھ کھڑے رہنا اور اللہ کے نبی کی حفاظت کرنا مگر اس وقت مخلص حواریوں نے برملا عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم اللہ کے دین کے مدد گار ہیں اور ہم اخلاص و جانفشانی سے اپنی ذمہ داری کو پورا کریں گے۔تو اللہ پاک نے ان کفار کے مکر کرنے اور حضرت عیسی کو شہید کرنے کے در پے ہونے پر اپنی خفیہ تدبیر سے انھیں ان کے اس کام کو کرنے پر درد ناک عذاب کی خبر سنائی۔ جبکہ ثابت قدم ایمان والوں کو جنت کی خوشخبری سنائی جبکہ کفار کو دنیا میں ذلیل و رسوا کردیا اور کل بروز قیامت وہ سرمدی عذاب میں رہیں گے۔

اس پُر ایمان واقعہ کو قرآن پاک کی سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 52 سے 58 تک بیان فرمایا گیا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(52)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(53)وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ(54)اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(55)فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(56)وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(57)ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَیْكَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّكْرِ الْحَكِیْمِ(58)

ترجمہ کنزالایمان: پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف، حَواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے رب ہمارے ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے اتارا اور رسول کے تابع ہوئے تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے پَیرووں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔تو وہ جو کافر ہوئے میں انہیں دنیاو آخرت میں سخت عذاب کروں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ اور وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اللہ ان کا نیگ انہیں بھرپور دے گا اور ظالم اللہ کو نہیں بھاتے۔ یہ ہم تم پرپڑھتے ہیں کچھ آیتیں اور حکمت والی نصیحت۔

4- حضرت عیسی علیہ السلام کا چھوٹی عمر میں اپنی قوم کو نصیحت کرنا:

جب اللہ پاک کے چاہنے سے بغیر باپ کے بطور نشانی حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو بنی اسرائیل کے لوگوں نے آپ کی والدہ ماجدہ پر معاذاللہ زنا کی تہمت لگائی۔ تو آپ رضی اللہ عنہا نے بچے کی طرف یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر لوگوں نے کہا یہ بچہ کیسے کلام کرے گا؟؟۔لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ جو رب بغیر باپ کے پیدا کرنے پر قادر ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ایک بچے کو کہ جو ابھی جھولے میں ہے،بولنے کی طاقت عطا فرمائے۔ پھر ہوا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ان لوگوں سے کلام کیا اور فرمایا کہ بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے نبوت سے سرفراز فرمایا ہے۔ مجھے بابرکت بنایا ہے اور مجھے اس بات کی وصیت فرمائی ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں نماز ادا کروں، زکوۃ دوں۔

اور مجھے اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا بنایا اور بدبخت نہیں بنایا۔ اس سارے واقعے کو اللہ پاک نے سورۃ مریم کی آیت نمبر 29، 30، 31، 32، میں یوں بیان فرمایا ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

فَاَشَارَتْ اِلَیْهِؕ-قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا(29)قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا(30)وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا(31)وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(32)

ترجمہ کنزالایمان : اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے۔بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔اور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں ۔اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا اور مجھے زبردست بدبخت نہ کیا۔

آپ علیہ السلام کا اپنے بارے میں یہ سب کچھ بیان کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی تھے اور نبی کی ماں کبھی ایسا برا کام نہیں کرسکتی۔لھذا آپ کے والدہ اس تھمت سے بری تھیں جو یھودیوں نے ان پر لگائی۔

5- دین پر قائم رہنے کی وصیت :حضرات انبیاء کرام خواہ وہ اول نبی حضرت آدم ہوں یا آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں، ہر ایک نے اپنی قوم کو کفر و شرک سے باز رہنے اور دین پر عمل کرنے کا حکم دیا۔اسی طرح دین کی راہ سے ہٹ کر فرقے بنانے کی مزمت بیان کی۔اب جو صاحبِ ایمان ہوتے وہ تو ان نصیحتوں کو دل و جان سے تسلیم کرتے اور مرتے دم تک ان پر کار بند رہتے۔لیکن ہر دور میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوئے مشرکین وغیرہ کہ جنھوں نے کھل کر حق کی مخالفت کی اور ان نصیحت و حکمت والی باتوں کو پس مشت ڈال دیا اور ان کے مطابق عمل نا کیا تو انکا انجام بھی برا ہوا۔

سورۃ شوری آیت نمبر 13 میں بطور خاص جن انبیاء کرام کو ذکر کیا اور ان کا اپنی قوم کو نصیحت کرنے کو بیان کیا ان میں حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی ذکر ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِؕ-كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِیْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَیْهِؕ-اَللّٰهُ یَجْتَبِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ(13)

ترجمہ کنزالایمان: تمہارے لیے دین کی وہ راہ ڈالی جس کا حکم اس نے نوح کو دیا اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین ٹھیک رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ جس کی طرف تم اُنھیں بلاتے ہو اور اللہ اپنے قریب کے لیے چن لیتا ہے جسے چاہے اور اپنی طرف راہ دیتا ہے اُسے جو رجوع لائے۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض ہے کہ ہمیں وہ حکمت والی باتیں جو قرآن و حدیث میں بیان کی گئی۔ خواہ وہ انبیاء کرام کے بارے میں ہوں یا صالحین کے بارے میں اور ایسے ہی بزرگان دین کے اپنے قوال زریں، ان میں غور فکر کر کے انھیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

لوگوں کی اصلاح کرنے میں وعظ و نصیحت کا اور انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا بڑا اہم کردار ہے اللہ پاک نے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ لوگوں کی اصلاح کریں اور انہیں وعظ و نصیحت کریں۔ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ایک حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں انہوں نے بھی اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کے ذریعے راہ راست پر لانے کا فریضہ سر انجام دیا۔ ان کی اپنی قوم کو کی جانے والی نصیحتوں کو اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی ذکر فرمایا :  آئیے ہم بھی ان نصیحتوں والی آیات کو پڑھتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی نیت کرتے ہیں:

(1)وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمہ کنز العرفان۔۔ ( سورۃ المریم آیت 36) اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ میرا اور تمہارارب ہے تو اس کی عبادت کرو۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔

(2) اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ۔ (سورۃ الصف آیت 6)ترجمہ کنز العرفان : اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے

(3) وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (سورۃ الزخرف آیت 63/64 ) ترجمہ کنز العرفان : اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا تواس نے فرمایا: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیاہوں اور میں اس لئے (آیا ہوں ) تاکہ میں تم سے بعض وہ باتیں بیان کردوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔

(4)اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورۃ المائدہ آیت 112)ترجمہ کنز العرفان :یاد کروجب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے ؟ فرمایا :اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔

(5) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَ اَطِیْعُوْنِ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (پ،3، آل عمران 50)

آپ علیہ السلام الله کے مقبول بندے برگزیدہ نبی اور اولوالعزم یعنی عزم و ھمت والے رسول ھیں آپ کی ولادت الله رب العزت کی قدرت کا ایک حیرت انگیز نمونہ ھے الله نے آپ علیه السلام کو حضرت مریم رضی الله عنھا سے بغیر باپ کے پیدا فرما کر اپنی عظیم قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی بنا دیا جب یہودیوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تو الله نے آپ کو ان کے شر سے بچا کر زندہ آسمان پر اٹھا لیا قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے ھمارے آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیه وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے چالیس سال حکومت فرمائیں گے بعد وصال مدینه منورہ حضور علیه السلام کے حجرہ میں مدفون ھوں گے۔

الله نے آپ کو اپنی طرف سے ایک خاص روح فرمایا اس بنا پر آپ کو روح الله بھی کہا جاتا ھے ۔

عیسی علیہ السلام کو رب کی طرف سے اختیار:وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۫-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(50)اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(51)(سورۃ آل عمران 50,51) ترجمه کنز الایمان: اور تصدیق کرتا آیا ھوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی اور اس لئے که حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لایا ھوں ، تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو بیشک میرا تمہارا سب کا رب الله ھے تو اسی کو پوجو یہی سیدھا راستہ خدا ایک ھے۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُـوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(73)اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(74)(سورۃ المائدہ آیت 73،74) ترجمه کنز الایمان: بیشک کافر ھیں وہ جو کہتے ھیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ھے اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا اور اگر اپنی بات سے باز نہ آئے تو جو ان میں کافر مریں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہنچے گا۔ تو کیوں نہیں رجوع کرتے الله کی طرف اور اس سے بخشش مانگتے اور الله بخشنے والا بڑا مہربان۔

عیسی علیہ السلام کا حکمت لانا: وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(64) (سورۃ زخرف آیت 63،64) ترجمه کنز الایمان: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ھو تو الله سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک الله میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہی سیدھی راہ ھے۔

عیسی علیہ السلام تو الله کے رسول ھیں: یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ۚ۫-وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌؕ-اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ-اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌۘ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(سورۃ النساء آیت 171)

ترجمۂ کنز الایمان: اے کتاب والو اپنے دین میں زیادتی نه کرو اور الله پر نه کہو مگر سچ، مَسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا الله کا رسول ھی ھے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور اس کے یہاں کی ایک روح تو الله اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تین نه کہو باز رھو اپنے بھلے کو الله تو ایک ھی خدا ھے پاکی اُسے اس سے که اس کے کوئی بچہ ھو اسی کا مال ھے جو آسمانوں میں ھے اور جو کچھ زمین میں اور الله کافی کارساز ھے۔

الله سے دعا ھے کے ھمیں انبیاء کرام کی پکی سچی محبت اور انکی سیرت پر عمل پیرا ھونے کی توفیق دے انبیاء کرام کے سایه طفیل کی برکت سے ھمیں دنیا و آخرت میں بھلائی و کامرانی عطا فرمائے اور مرتے وقت ھمیں کلمہ نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کی اصلاح کی بھرپور کوشش فرمائی  ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا اور سیدھی راہ کی نصحتیں بھی فرمائی آئے آپ کی کچھ نصیحتیں پڑھتے ہیں

1 جب اللہ تعالٰی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا تو آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا:

أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِايَةٍ مِنْ رَّبِّكُمُ انّي اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الدِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَانْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَأَحْيِ الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ في ذلِكَ لَا يَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ وَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِئْتُكُمْ بِايَةِ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ إِنَّ الله رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

ترجمہ کنزالایمان : کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ، وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فورا پرندہ بن جائے گی اور میں پیدا ئشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اور مجھ سے پہلے جو توریت کتاب ہے اس کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں اور اس لئے کہ تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ بیشک اللہ میرا اور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے (پارہ 3،ال عمران: 49-51)

2 ایک اور موقع پر آپ نے بنی اسرائیل کو یوں نصحیت فرمائی: قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلا بَيْنَ لَكُمُ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمُ ترجمہ: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور میں اس لئے (آیا ہوں) تاکہ میں تم سے بعض وہ باتیں بیان کر دوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے ۔ (پارہ 25،سورہ زخرف : آیۃ نمبر 63,64)

3۔ ایک بار حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کی : يعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَا بِدَةً مِّنَ السَّمَاءِترجمہ : اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے؟ (پارہ 7 ،المائدۃ ،112)

اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ کیا آپ کا رب عزوجل ایسا کر سکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنتُمْ مُّؤْمِنِينَ (4) ترجمہ: اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔ (پارہ 7 ،المائدۃ ،112)

یعنی اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنیٰ یہ ہے کہ تمام امتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ سے ڈرو یا یہ معنی ہے کہ جب اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال نہ کرو جس سے تردد کا شبہ گزر سکتا ہو۔ (خازن ،المائدۃ ،تحت آیۃ ،112،جلد 1 ،صفحہ 539 )

4 حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سیدھی راہ کی کچھ اس طرح نصیحت فرمائی : وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36) ترجمۂ کنز الایمان: اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔

تفسیر صراط الجنان:

{وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ:اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔} اس آیت میں مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےفرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارارب ہے، اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو اَحکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے کر جاتا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 36، 3 / 235)

5۔ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے کفر پر ان کو یوں نصیحت آموز بات ارشاد فرمائی : فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (52)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(53) ترجمۂ کنز الایمان: پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف، حَواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے رب ہمارے ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے اتارا اور رسول کے تابع ہوئے تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔

تفسیر صراط الجنان:

{فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ: پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفرپایا ۔} یعنی جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ یہودی اپنے کفر پر قائم ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں اور اتنی روشن آیات اور معجزات سے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے پہچان لیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی وہ مسیح ہیں جن کی توریت میں بشارت دی گئی ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے دین کو منسوخ کریں گے، تو جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نصحیت فرماتے ہوئے دعوت کا اظہار فرمایا تو یہ ان پر بہت شاق گزرا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایذا اورقتل کے درپے ہوئے اور انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفر کیا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس وقت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہوکر میرا مددگار بنے۔ اس پر حواریوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد کا وعدہ کیا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 52، 1 / 253)

حواری وہ مخلصین ہیں جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین کے مددگار تھے اور آپ پر اوّل ایمان لائے، یہ بارہ اَشخاص تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ِمصیبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں سے مدد مانگنا سنت ِپیغمبر ہے۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور پھر کہا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے مسلمان ہونے پر گواہ بن جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان و اسلام ایک ہی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین اسلام تھا ، یہودیت و نصرانیت نہیں۔ اسی لئے ایمان لانے والوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا، عیسائی نہیں۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں بھی دین اسلام پر ثابت قدمی عطا فرمائے خوب نیک اعمال کرنے کی سعادت نصیب فرمائے آمین

اللہ پاک نے لوگوں کی ھدآیت  کے لیے کم وبیش 1لاکھ 24 ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا جن کی یہ ذمہ داری تھی کہ لوگوں کو اللہ پاک کا پیغام پہنچانا اور اپنی قوم کو وعظ ونصیحت کرنا ۔ انہی میں سے ایک بہت پیارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنی قوم کو وعظ ونصیحت فرمائیں جن کو قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کو تبلیغ ونصیحت کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجاتو آپ نے ان سے فرمایا :اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ()وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۫-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمۂ کنز العرفان: اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔ اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ،وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔اورمجھ سے پہلے جو توریت کتاب ہے اس کی تصدیق کرنے والا بن کرآیا ہوں اور اس لئے کہ تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں حلال کردوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت کے کتابُ اللّٰه اور حق ہونے کی تصدیق کیلئے بھی تشریف لائے تھے اور اس کے بعض احکام کو منسوخ فرمانے بھی چنانچہ بعض وہ چیزیں جو شریعتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حرام تھیں جیسے اونٹ کاگوشت اورکچھ پرندے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حلال فرما دیا۔

2 ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارت : وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ- ترجمۂ کنز العرفان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھا کیونکہ بنی اسرائیل کو باقاعدہ بتا دیا گیا تھا۔

3. آسمان سے نزول دستر خوان کی عرض اور جواب عیسی: اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ- ترجمۂ کنز العرفان:یاد کروجب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے ؟ فرمایا :اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔

ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ کیا آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ایسا کرسکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: قالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِین یعنی اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔

اللہ پاک کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مبارک نصیحتوں اور انکے اوصاف وسیرت سے بہت مفید اور جامع علم حاصل ہوتا ہے ۔اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین 


قرآن پاک اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتب وانبیاء کی تصدیق کرتا ہے بلکہ قرآن مجید میں ان کی تعلیمات کا ذکر بھی کیاگیا ہے۔  یاد رہے کہ چار پیغمبر ابھی تک زندہ ہیں ۔دو آسمان میں(1)  حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (2) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اوردوزمین پر۔(1)حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (2) حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ 

حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے تھے،عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے کتاب انجیل نازل کی گئی تھی، جس میں بنی اسرائیل کے لیے ہدایت تھی۔

 اللہ نے آپ کو بہت سے معجزات بھی عطا کیے تھے جن میں مردہ کو زندہ کرنا، پیدائشی نابینا کو بینا کرنا، جذامی کو صحیح کرنا، مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارنے سے اس کو زندہ پرندے جیسا کردینا، اور لوگوں نے کیا کھایا؟ کیا خرچ کیا؟ کتنا ذخیرہ کیا؟ یہ سب بتادینا جیسے معجزات شامل تھے۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتاب ’’انجیل‘‘ نازل کی تھی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان عظیم الشان اولوالعزم انبیاء کرام میں سے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے بہ طور خاص کیا ہے اور جن کی تعلیمات کا بار بار حوالہ دیا ہے، قرآن مجید ایک طرف تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت ورفعت کو اجاگر کرتا ہے؛ تاکہ ان کے متعلق یہودیوں کی پھیلائی ہوئی بدگمانیوں کا قلع قمع ہو اور دوسری طرف ان لوگوں کی شدید مذمت کرتا ہے جنھوں نے ان کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صاف ستھری تعلیمات کا بار بار حوالہ دیتا ہے، جن سے عقیدئہ توحیدورسالت اور آخرت کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے، کلام پاک نے متعدد مقامات پر عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو کیا تعلیم دی تھی۔چنانچہ قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کے اقوال کچھ اس طرح ہیں:۔

1:۔”وَإِذْ قَالَ اللہُ یَا عِیسَیٰ ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِیْ وَأُمِّیَ إِلٰھَیْنِ مِنْ دُونِ اللہِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ أَقُولَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ إِنْ کُنْتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِیْ وَلا أَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ أَنْتَ عَلامُ الْغُیُوبِ (سورة المائدة 116) ترجمہ: اور جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تونے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ اللہ جل شانہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو تم معبود بنالینا؟ وہ جواب دیں گے کہ تیری ذات پاک ہے، مجھے جس بات کے کہنے کاحق نہ تھا میں کیسے کہہ دیتا؟ اگر میں نے کہا ہو تو تو خوب اچھی طرح جانتا ہے، میرے دل کی باتیں تجھ پر بخوبی روشن ہیں، ہاں تیرے جی میں جو ہے وہ مجھ سے مخفی ہے، تو تو تمام تر غیب کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔

2:۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول کو نقل فرمایا ہے کہ: ”اِنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہ ھٰذَ صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْم“(آل عمران ،51) ترجمہ:۔ بلا شبہ، اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے، تو اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔“

3:۔ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللہَ ھُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیحُ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ إِنَّہُ مَنْ یُشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ أَنْصَارٍ (سورة المائدة: ۵/۷۲) ترجمہ: ”بے شک وہ لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح بن مریم ہی اللہ ہے؛ حالانکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو، جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ اس پر قطعاً جنت حرام کردیتا ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے، گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں"

عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بالکل زندہ سلامت آسمان پر اُٹھالیا اور وہ آسمان میں زندہ ہیں ، اور قربِ قیامت میں دوبارہ زمین پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُمتی بن کر نازل ہوں گے، اس زمانہ میں دجال کا ظہور ہوگا، جس کو عیسیٰ علیہ السلام قتل کریں گے، اور یاجوج ماجوج کا بھی اسی زمانہ میں ظہور ہوگا اور یہ مسلمانوں کی امامت سنبھالیں گے اور مسلمان ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلامنزول کے بعد چالیس سال رہیں گے اور اس کے بعد ان کا انتقال ہوگا، اور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو میں ان کی تدفین ہوگی۔

اللہ پاک ہمیں حضرت عیسی علیہ السلام کی نصیحتوں پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔