اللہ پاک نے لوگوں کی ھدآیت  کے لیے کم وبیش 1لاکھ 24 ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا جن کی یہ ذمہ داری تھی کہ لوگوں کو اللہ پاک کا پیغام پہنچانا اور اپنی قوم کو وعظ ونصیحت کرنا ۔ انہی میں سے ایک بہت پیارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنی قوم کو وعظ ونصیحت فرمائیں جن کو قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کو تبلیغ ونصیحت کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجاتو آپ نے ان سے فرمایا :اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ()وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۫-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمۂ کنز العرفان: اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔ اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ،وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔اورمجھ سے پہلے جو توریت کتاب ہے اس کی تصدیق کرنے والا بن کرآیا ہوں اور اس لئے کہ تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں حلال کردوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت کے کتابُ اللّٰه اور حق ہونے کی تصدیق کیلئے بھی تشریف لائے تھے اور اس کے بعض احکام کو منسوخ فرمانے بھی چنانچہ بعض وہ چیزیں جو شریعتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حرام تھیں جیسے اونٹ کاگوشت اورکچھ پرندے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حلال فرما دیا۔

2 ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارت : وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ- ترجمۂ کنز العرفان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھا کیونکہ بنی اسرائیل کو باقاعدہ بتا دیا گیا تھا۔

3. آسمان سے نزول دستر خوان کی عرض اور جواب عیسی: اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ- ترجمۂ کنز العرفان:یاد کروجب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے ؟ فرمایا :اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔

ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ کیا آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ایسا کرسکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: قالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِین یعنی اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔

اللہ پاک کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مبارک نصیحتوں اور انکے اوصاف وسیرت سے بہت مفید اور جامع علم حاصل ہوتا ہے ۔اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین