احمد حسن (درجۂ سادسہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
قرآن پاک اپنے
سے پہلے نازل ہونے والی کتب وانبیاء کی تصدیق کرتا ہے بلکہ قرآن مجید میں ان کی
تعلیمات کا ذکر بھی کیاگیا ہے۔ یاد رہے کہ
چار پیغمبر ابھی تک زندہ ہیں ۔دو آسمان میں(1) حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (2) حضرت
عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اوردوزمین پر۔(1)حضرت
خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (2) حضرت الیاس عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
حضرت سیدنا عیسیٰ
علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے تھے،عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ
تبارک و تعالیٰ کی جانب سے کتاب انجیل نازل کی گئی تھی، جس میں بنی اسرائیل کے لیے
ہدایت تھی۔
اللہ نے
آپ کو بہت سے معجزات بھی عطا کیے تھے جن میں مردہ کو زندہ کرنا، پیدائشی نابینا کو
بینا کرنا، جذامی کو صحیح کرنا، مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارنے سے اس کو
زندہ پرندے جیسا کردینا، اور لوگوں نے کیا کھایا؟ کیا خرچ کیا؟ کتنا ذخیرہ کیا؟ یہ
سب بتادینا جیسے معجزات شامل تھے۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتاب ’’انجیل‘‘
نازل کی تھی۔
حضرت عیسیٰ علیہ
السلام ان عظیم الشان اولوالعزم انبیاء کرام میں سے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے بہ طور خاص کیا ہے
اور جن کی تعلیمات کا بار بار حوالہ دیا ہے، قرآن مجید ایک طرف تو حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی عظمت ورفعت کو اجاگر کرتا ہے؛ تاکہ ان کے متعلق یہودیوں کی پھیلائی ہوئی
بدگمانیوں کا قلع قمع ہو اور دوسری طرف ان لوگوں کی شدید مذمت کرتا ہے جنھوں نے ان
کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید سیدنا عیسیٰ علیہ السلام
کی صاف ستھری تعلیمات کا بار بار حوالہ دیتا ہے، جن سے عقیدئہ توحیدورسالت اور
آخرت کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے، کلام پاک نے متعدد مقامات پر عیسیٰ علیہ السلام کی
تعلیمات کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو کیا تعلیم دی تھی۔چنانچہ
قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کے اقوال کچھ اس طرح ہیں:۔
1:۔”وَإِذْ
قَالَ اللہُ یَا عِیسَیٰ ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِیْ
وَأُمِّیَ إِلٰھَیْنِ مِنْ دُونِ اللہِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ
أَقُولَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ إِنْ کُنْتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ
مَا فِی نَفْسِیْ وَلا أَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ أَنْتَ عَلامُ الْغُیُوبِ (سورة المائدة 116) ترجمہ: اور جب اللہ تعالیٰ فرمائے
گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تونے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ اللہ جل شانہ کو چھوڑ کر
مجھے اور میری ماں کو تم معبود بنالینا؟ وہ جواب دیں گے کہ تیری ذات پاک ہے، مجھے
جس بات کے کہنے کاحق نہ تھا میں کیسے کہہ دیتا؟ اگر میں نے کہا ہو تو تو خوب اچھی
طرح جانتا ہے، میرے دل کی باتیں تجھ پر بخوبی روشن ہیں، ہاں تیرے جی میں جو ہے وہ
مجھ سے مخفی ہے، تو تو تمام تر غیب کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔
2:۔اللہ تبارک
وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول کو نقل فرمایا ہے کہ: ”اِنَّ
اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہ ھٰذَ صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْم“(آل عمران ،51) ترجمہ:۔ بلا شبہ، اللہ ہی میرا
اور تمہارا پروردگار ہے، تو اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔“
3:۔ لَقَدْ
کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللہَ ھُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ
الْمَسِیحُ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ إِنَّہُ
مَنْ یُشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاہُ
النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ أَنْصَارٍ (سورة المائدة: ۵/۷۲) ترجمہ:
”بے شک وہ لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح بن مریم ہی اللہ ہے؛ حالانکہ خود
مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو، جو میرا اور
تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ اس پر
قطعاً جنت حرام کردیتا ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے، گنہگاروں کی مدد کرنے والا
کوئی نہیں"
عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بالکل زندہ
سلامت آسمان پر اُٹھالیا اور وہ آسمان میں زندہ ہیں ، اور قربِ قیامت میں دوبارہ
زمین پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُمتی بن کر
نازل ہوں گے، اس زمانہ میں دجال کا ظہور ہوگا، جس کو عیسیٰ علیہ السلام قتل کریں
گے، اور یاجوج ماجوج کا بھی اسی زمانہ میں ظہور ہوگا اور یہ مسلمانوں کی امامت
سنبھالیں گے اور مسلمان ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ
السلامنزول کے بعد چالیس سال رہیں گے اور اس کے بعد ان کا انتقال ہوگا، اور نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو میں ان
کی تدفین ہوگی۔