جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عیسی( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کا قرب قیامت نزول ہوگا. آپ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کا نام مریم ہے. حضرت عیسی (علیہ السلام) کی کچھ قران نصیحتیں مذکور ہیں۔      اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:

وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ (الزخرف: ٫43آیت 63۔64) ترجمہ کنزالایمان: اور جب عیسی روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر ایا اور اس لیے میں تم سے بیان کر دوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو بے شک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔

اس آیت اور اس کے بعد والے آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسی (علیہ السلام) معجزات لے کر ائے تو انہوں نے فرمایا میں تمہارے پاس نبوت اور انجیل کے احکام لے کر آیا ہوں تاکہ تم ان احکام پر عمل کرو اور میں اس لیے آیا ہوں تاکہ میں تم سے تورات کے احکام میں سے وہ تمام باتیں بیان کر دوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو لہذا تم میری مخالفت کرنے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور میں اللہ تعالی کی طرف سے جو احکام تمہیں پہنچا رہا ہوں ان میں میرا حکم مانو کیونکہ میری اطاعت حق کی اطاعت ہے۔ بے شک اللہ تعالی میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرو یہ سیدھا راستہ ہے کہ اس پر چلنے والا گمراہ نہیں ہو سکتا۔ ایک اور مقام پر قران پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ ترجمہ کنزالایمان: اور بیشک عیسیٰ قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۔ترجمہ کنزالایمان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے۔

ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جب حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق اور اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں کا اقرار و اعتراف کرتا ہوں اور مجھ سے پہلے تشریف لانے والے تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مانتا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دیتاہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے، ان کا نام احمد ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ پھر جب وہ احمد کفارکے پاس روشن نشانیاں اور معجزات لے کر تشریف لائے توانہوں نے کہا: یہ کھلا جادوہے۔

حضرت کعب احباررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: یَا رُوْحَ اللہ !کیا ہمارے بعد اور کوئی امت بھی ہے؟آپ نے فرمایا’’ہاں،احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت ہے ،وہ لوگ حکمت والے ، علم والے، نیکوکار اور متقی ہوں گے اور فقہ میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نائب ہوں گے، اللہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی رہنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے تھوڑے عمل پر راضی گا۔(خازن، الصف، تحت الآیۃ: 6، 4)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم !جس کے قبضے میں میری جان ہے،قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے ،صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، 2/ 50، الحدیث: 2222)