عبدالہادی خان ( درجہ
سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان قطب مدینہ کراچی پاکستان)
میزان
کیا ہے: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی
مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا
کہتے ہیں۔ (مفرادات امام راغب،کتاب الواو،ص 868) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان
کہتے ہیں۔(تاج العروس، باب نون، فصل الواو ص 9/361)
میزان
کس طرح کا ہے: اس میزان کے دو پلڑے ہیں ، عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا نورانی ہے جبکہ
دوسرا سیاہ پلڑا عرش کی الٹی جانب ہے۔ (الدرۃ
الفاخرۃ فی کشف علوم الآخرۃ ص 62) نورانی
پلڑا نیکیوں کے لیے جبکہ سیاہ پلڑا گناہوں کے لیے ہوگا۔ (التذكرة للقرطبی ص 302) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی
ہے کہ میزان کا ایک پلڑا جنت پر اور دوسرا دوزخ پر ہوگا۔ (تفسیر کبیر،الاعراف تحت
الآیۃ: 5،8/202) فتاوی رضویہ میں ہے وہ میزان
یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ اگر بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا اور
برائیوں کا پلہ نیچے بیٹھے گا جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ
یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ
کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند
کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)
جس کتاب میں لکھا ہے کہ نیکیوں کا پلہ نیچے
ہوگا وہ غلط ہے۔( فتاوی رضویہ 29/626 )
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں
کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل
حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں
کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب
الایمان ۔۔۔ الخ، 1 / 240، الحدیث: 281)
اعمال کا وزن
کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت
کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی ،اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے
لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین
صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گااورایک
قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں کے
اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوئیں وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں پر غالب ہوئے تو وہ جہنم میں داخل
ہو گا اور اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے
کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا
جائے گا ۔ یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے اسے معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا جبکہ کفار کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)
(خازن،
القارعۃ، تحت الآیۃ: 4-10، 4 / 403، مدارک، القارعۃ، تحت الآیۃ: 6-10، ص1370،
ملتقطاً)
اہل
سنت والجماعت کا نظریہ میزان کے حوالے سے:
اہل سنت والجماعت کے عقائد و نظریات
میں سے ہے کہ میزان برحق ہے قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کا حساب لے
گا اور ان کے اعمال کو میزان پر تولے گا۔ علامہ
فضل رسول بدایونی علیہ الرحمہ اپنی کتاب المعتقد المنتقد کہ صفحہ نمبر 302 میں فرماتے ہیں: حساب و کتاب کی طرح بروز قیامت
میزان حق ہے یعنی دلائل سمعیہ قطعیہ (قرآن و سنت) سے ثابت ہے اس پر بھی ایمان لانا
واجب ہے، بعض معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں ۔
امام اعظم
نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الفقہ الاکبر کے صفحہ نمبر 171 پہ لکھا
ہے : "کہ اعمال کا میزان پر وزن کرنا
قیامت کے دن یہ حق ہے"۔
قرآن پاک سے میزان کے قائم ہونے کے دلائل: اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں بعض جگہوں پر میزان کے قائم ہونے کا ذکر کیا
ہے۔
(1) پارہ08
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 08 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔
(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2/ 78)
(2) پارہ
17 سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
(3) پارہ
30 سورۃ القاریہ کی ایت نمبر 06 تا 11 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)
ان آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تبارک و
تعالی قیامت کے دن اپنے بندوں کا حساب و کتاب لے گا اور ان کے نیک و بد اعمال کو میزان
پر تولے گا تو جس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ نجات پائے گا اور جس کے برے
اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ عذاب میں گرفتار ہوگا۔
غلام محمد ( درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ عثمانِ غنی
گلستانِ جوہر کراچی ، پاکستان)
یوں تو ہر شے
کا اپنا مقام ہے لیکن معاملات کو درست رکھنے کے لیے ان کی جانچ اور ناپ تول کرنا
ضروری ہوتا ہے ورنہ معاملات بے ترتیب ہو سکتے ہیں۔ اس کی بہت ساری صورتیں ہوتی ہیں
کبھی لکھ کر، کبھی ناپ تول کر کے اور کبھی حلقے کی صورت میں بیٹھ کر معاملات ترتیب
دیئے جاتے ہیں۔ ناپ تول کی بات چلی ہے تو یہ سمجھ لیں کہ دنیا میں عدل و انصاف کے
لیے اشیاء کی خرید و فروخت ، وقت اور قیمت کے مطابق ناپ تول
کی جاتی ہے، اور یہ معاملات کو درست رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اسی طرح جب اللہ
تعالی نے انسان کی تخلیق فرمائی تو اسے اچھائی اور برائی کرنے کی صلاحیت بھی دی
اور اس کے مرنے کے بعد آخرت میں اس کے ٹھکانے کے لیے جنت اور دوزخ بنائی۔ پھر کون
جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں اس کے لیے اللہ تعالی نے عدل و انصاف کرتے ہوئے
میزان کی صورت رکھی تاکہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کا وزن دکھایا جائے ۔ قرآن پاک میں میزان کا کئی مرتبہ ذکر آیا ہے۔ ایک جگہ ذکر
کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)
ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں : قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان
فرمائی ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی
قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان
اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے
جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے
گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف
کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً)
ایک اور مقام
پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں
گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
امام محمد
غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے
دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال
اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِی اللہ عَنْہ نے فرمایا
: ’’اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے
دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے
کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی
کی ہے اس کا تدارک کرے اور لوگوں کے حقوق
ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی
کی بے عزتی کی ہو تو اس سے معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے
ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت میں
جائے گا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت، ص 281)
محمد
اشتیاق مدنی ( جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاھور ، پاکستان)
میزان یعنی
اعمال تولنے کی ترازو حق ہے،اس کا ثبوت قرآنی آیات اور احادیث سے ہے،اس پر بھی ایمان
لانا ضروری ہے۔اس کے دو پلڑے ڈنڈی،زبان سب کچھ ہے،دو پلڑوں کا فاصلہ اتنا ہے جتنا
مشرق و مغرب میں فاصلہ ہے۔اعمال نامے یا خود اعمال اس میں وزن کیے جائیں گے۔حضرات
انبیاءکرام اور بعض اولیاء کے اعمال کا وزن نہ کیا جائے گا،وہاں وزنی پلڑا اونچا ہوگا ہلکا پلڑا نیچے کیونکہ
نور اوپر کو اٹھتا ہے نیچے نہیں جھکتا،وہاں وزن باٹ سے نہ ہوگا بلکہ نیکیوں کا گناہوں
سے ہوگا۔ (مراۃ المناجیح، ج7)
تفسیر صراط
الجنان، میں "میزان" کے تصور کو قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں تفصیل
سے بیان کیا گیا ہے۔ خاص طور پر سورۃ الأنبیاء کی آیت 47 اور سورۃ الأعراف کی آیت
8 میں اس کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں
گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
انصاف
کی ترازوئیں: اس آیت میں
"موازین" (ترازوئیں) کا ذکر جمع کے صیغے سے کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے
کہ کئی ترازوئیں ہوں گی یا پھر ایک ہی ترازو کی کئی ڈنڈیاں اور پلڑے ہوں گے۔ یہ
ترازوئیں "انصاف" کی ہوں گی، یعنی ان میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی یا ظلم
نہیں ہوگا، نہ کسی کی نیکی کو کم کیا جائے گا اور نہ برائی میں اضافہ کیا جائے گا۔
ذرہ
برابر بھی عمل کا وزن: آیت کا یہ
حصہ کہ "اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہو تو ہم اسے لے آئیں
گے" اس بات پر زور دیتا ہے کہ قیامت کے دن کوئی نیک یا بد عمل، کتنا ہی چھوٹا
کیوں نہ ہو، ضائع نہیں جائے گا بلکہ اسے بھی وزن کیا جائے گا۔ اس سے اعمال کی اہمیت
اور اللہ کی عدل و انصاف کی کامل انتہا ظاہر ہوتی ہے۔
اعمال
کا وزن کیسے ہوگا: امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ
اللہ علیہ کے نزدیک خود اعمال کو جسمانی صورت دی جائے گی اور انہیں وزن کیا جائے
گا۔ یعنی نیک اعمال کو حسین صورت اور برے اعمال کو بدصورت بنا کر ترازو میں رکھا
جائے گا۔
وزن
کا مقصد: اعمال کو وزن کرنے کا
مقصد صرف یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو حساب کی ضرورت ہے، بلکہ یہ بندوں کے سامنے عدلِ الٰہی کا اظہار ہوگا تاکہ وہ اپنے اعمال کا
نتیجہ دیکھ سکیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ترجمہ
کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم
نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم
کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)
ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
وزن
کا حق ہونا: اس آیت میں واضح طور
پر بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہونا ایک یقینی حقیقت (حق) ہے۔ یہ
کوئی خیالی یا علامتی بات نہیں بلکہ ایک حقیقی عمل ہوگا۔
پلڑے
کا بھاری ہونا: جس شخص کی نیکیوں
کا پلڑا (میزان) بھاری ہوگا، وہی کامیاب، نجات یافتہ اور فلاح پانے والا ہوگا۔ یہ
اس بات کی دلیل ہے کہ نیکیوں کا وزن بہت اہمیت رکھتا ہے۔
پلڑے
کا ہلکا ہونا: اس سے اگلی آیت (الاعراف:
9) میں ہے:
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)
ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی
جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:
9)
محمد شاہد اصغر ( درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ غلامان رسول ،اوکاڑہ ، پاکستان)
قرآن مجید نے متعدد مقامات پر واضح فرمایا کہ انسان کو اس
کے اعمال کا بدلہ ضرور دیا جائے گا۔ قیامت کے دن ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب ہوگا
اور حساب و کتاب کے لیے میدان محشر میں سب کو جمع کیا جائے گا۔ پھر نامہ اعمال کی تقسیم ہو گی۔ ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے عمل کے مطابق
دائیں یا بائیں ہاتھ میں ہو گا۔ اعمال تولنے کے لیے ایک خاص نظام مقرر کیا جائے گا
جسے میزان یعنی ترازو کہا گیا ہے۔ میزان قیامت کے دن ضرور قائم کیا جائے گا اور ہر
مسلمان کے لیے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی میزان انسان کی نجات یا ہلاکت کا فیصلہ
کرے گا۔
میزان
کی کیفیت: "میزان" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں : ترازو، تولنے کا کانٹا (القاموس الوحيد ، باب الواؤ ،ص 1846)
قیامت کے دن
انسان کے نیک و بد اعمال کو تولنے کے لیے حقیقی میزان رکھا جائے گا جس کے ذریعے
اللہ تعالی عدل و انصاف کے ساتھ ہر شخص کے انجام کا فیصلہ فرمائے گا۔ اس کی حقیقی نوعیت اور کیفیت کیا ہوگی یہ تو
اللہ کریم ہی بہتر جانتا ہے۔ ہاں! قرآن
مجید کی کچھ آیات اور احادیث میں اس کی
کیفیت اور حقیقت کے متعلق فرامین موجود ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی
نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر
جانتے ہیں۔ ( صراط الجنان، ج3، ص 270)
قیامت کے دن
کافروں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال کی کوئی قدر ہوگی۔ جیسا
کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ
کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)
جب میزانِ عمل
میں ان کے ظاهری نیک اعمال اور کفر و
مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور
جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ ( صراط الجنان، ج6، ص 45)
قیامت کے دن
مومنین کے اعمال کا وزن بالکل انصاف کے ساتھ کیا جائے گا ۔
جیسا کہ ارشاد
باری تعالی ہے: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں
گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
میزان حق ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اعمال کو اس قابل
بنائیں کہ وہ میزان عمل میں ہمارے لیے باعث نجات ہوں ۔
یا الہی جب حسابِ خندۂ بے جا رلائے
چشم ِگریا نِ شفیعِ مرتجے کا ساتھ ہو
Dawateislami