محمداحمد محسنی (درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
قرآن پاک میں
اللہ پاک نے بہت سے مقامات پر میزان کا ذکر کیا ہے اُن میں میزان عمل، قیامت کے دن کا میزان ، یہ اللہ پاک کے عدل وانصاف کا مظہر ہو گا۔ہمیں دُنیا میں بھی
اپنے فیصلوں میں عدل وانصاف کو نہیں
چھوڑنا چاہیے، اسی میزان سے متعلق چند آیات
ذیل میں ذکر کی گئی ہیں ، پڑھیئے:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن:
7تا 8)
اللہ پاک نے
کائنات کو توازن اور عدل کے اُصول پر قائم کیا ہے اسطرح انسانوں کو بھی حکم دیاکے
وہ اپنے فیصلوں کو ناپنے میں عدل کا دامن نہ چھوڑیں ۔
آخرت میں اللہ
پاک کا عدل کامل ہوگا ہر شخص کے اعمال انصاف سے تولے جائیں گے کسی پر کوئی ظلم نہیں
ہو گا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ
الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
قیامت کے دن
اعمال تولے جانے کا کے متعلق ذکر ہوا ہے :
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور
برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:9)
سید اعظم غنی ( تخصص فی الحدیث مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
اسلام ایک مکمل اور کامل دین ہے ۔جو ہمیں
زندگی کے ہر پہلو خواہ وہ دینی معاملات سے ہو یا اخروی حیات سے وابستہ ہو مکمل
راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔شکم مادر سے لیکر لحد تک، لحد سے لیکر حشر تک تمام امور حالات واقعات سے
ہمیں آگاہ کیا۔انہی امور میں سے ایک "میزان" بھی ہے ۔
میزان
کا لغوی معنی: میزان کہتے ہیں
ترازو،تولنے والا کانٹا اسکی جمع الموازین آتی ہے ۔
اصطلاحی
معنی : میزان حق ہے ۔اس پر لوگوں
کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے ۔( بہار شریعت ،جلد اول ،حصہ اول،ص146، مطبوعہ
المدینہ العلمیہ کراچی )
اب ہم قرآن مجید سے میزان کے متعلق ذکر کریں گے کیونکہ قرآن مجید میں ہر شے کا واضح بیان موجود ہے۔
(1) اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
وزن کا معنی
ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے
تولنے کو وزن کہتے ہیں۔اور جس آلے کے ساتھ چیز کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں وزن سے میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا مراد ہے۔(تفسیر صراط
الجنان،جلد 3، ص 269، مطبوع المدینہ العلمیہ
کراچی)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور
اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں
حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
اس آیت
مبارکہ میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے میزان
کا واضح ذکر فرمایا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ ہم روز محشر عدل انصاف کے
ساتھ اعمال کا وزن کرے گے ۔یعنی اس دن کسی جان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا ۔ہر
ایک کو اس کے لیے کی جزا ملے گی ۔جس نے دنیا میں رہتے ہوئے جو اعمال کیے ہو گے اس
کی جزاء پائے گا ۔
تفسیر ابن کثیر
میں اس آیت کی وضاحت میں ایک حدیث مبارکہ نقل کی ہے : حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص
رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے
دن اللہ تعالی میری امت میں سے ایک شخص کو سب کے سامنے بلائے گا اور اس کےسامنے اس
کے گناہوں کے 99 رجسٹر کھولے جائیں گے ہر
ایک رجسٹر تا حد نظر پھیلا ہوا ہوگا ۔پھر اللہ اسے فرمایا گا کہ کیا تمہیں ان میں
سے کسی گناہ کا انکار ہے؟کیا لکھنے والے محافظ فرشتوں نے تم پر کوئی ظلم تو نہیں کیا؟وہ
عرض کرے گا اے میرے پروردگار نہیں اللہ تعالی اس سے فرمائے گا کیوں نہیں تمہاری ایک
نیکی ہمارے ہاں محفوظ ہے اج تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا چنانچہ ایک چھوٹا سا پرچہ
نکالا جائے گا جس میں یہ لکھا ہوا ہوگا"اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان
محمدا رسول الله" اللہ تبارک
و تعالی فرمائے گا کہ اسے پیش کرو وہ شخص عرض کرے گا اے پروردگار ان رجسٹروں کے
مقابلے میں اس معمولی سے پرچے کی کیا حیثیت ہے؟اللہ تعالی فرمائے گا تم پر کوئی
ظلم نہیں کیا جائے گا۔چنانچہ تمام رجسٹر ایک پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ
پرچہ دوسرے پلڑے میں ڈال دیا جائے گا تو رجسٹر والا پلڑا ہلکا ہوگا اور وہ پرچے
والا باری اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے مقابلے میں کوئی چیز باری نہیں۔(تفسیر
ابن کثیر،جلد،3 ص317،مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان:تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہنچے۔ (سورہ
المؤمنون ،آیت نمبر 102)
اس آیت مبارکہ میں کامیاب ہونے والوں کے بارے میں فرمایا روز محشر جس کے اعمال نامے کا وزن بھاری
ہوگا تحقیق وہی لوگ فلاح پاگئے ۔حضرت ابن
عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مطلوب کو پا لیا
اور ناپسندیدہ چیز سے بچ گئے ۔ان کے برعکس جن لوگوں کی برائیاں ان کی نیکیوں سے
بڑھ گئی تو یہی لوگ بے مراد ہلاک ہونے والے اور نقصان اٹھانے والے ہیں۔
حضرت انس رضی
اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک حدیث میں آتا ہے :اللہ تعالی کا ایک فرشتہ ہے جو میزان
پر مقرر ہوگا،ابن ادم کو لایا جائے گا اور اسے میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان
کھڑا کر دیا جائے گا اگر اس کی نیکیوں والا پڑھ رہا بھاری ہوا تو فرشتہ اونچی آواز
سے نجات دے گا جسے تمام مخلوق سنیں گی کہ فلاں شخص نے ایسی سعادت حاصل کر لی کہ اس
کے بعد کبھی بھی بدبخت نہیں ہوگا اور اگر اس کی نیکیوں والا پڑھنا ہلکا ہوا تو
فرشتہ اونچی آواز سے ندا دے گا جسے سب سنیں گے کہ فلاں شکاوت کا مستحق ہوا،اب اس
کے بعد کبھی بھی وہ سعادت مند نہیں ہوگا ۔(تفسیر ابن کثیر ،جلد 3، ص،440، مطبوعہ
،ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
دنیا کے ترازو
اور آخرت کے ترازو میں فرق ہے دنیا میں پکڑا اگر بھاری ہوتا ہے تو وہ نیچے ہوتا ہے
اگر ہلکا ہو تو اوپر اٹھتا ہے لیکن روز محشر اس کے بر خلاف ہوگا ۔جو پلہ بھاری
ہوگا وہ اوپر اٹھے گا اور جو ہلکا ہوگا وہ نیچے ۔
سیدی اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ شریف میں بیان فرمایا
ہے کہ وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں
نیکیوں کا اگر بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا
اور بدی کا پلہ نیچے بیٹھے گا۔(فتاویٰ رضویہ ،جلد 29،ص 626 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن
جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور پاکستان)
اللہ رب
العالمین سے دعا ہے ہمیں میزان عمل پر سرخرو فرمائے ۔
بلال احمد ( درجہ سابعہ جامعہ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھو کی لاہور ،پاکستان)
میزان حق ہے۔
اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے، نیکی کا پلّہ بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اوپر اُٹھے، دنیا کا سا معاملہ نہیں کہ جو بھاری ہوتا ہے نیچے کو جھکتا ہے۔
(1) میزان کسے کہتے ہیں : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8، 9)
تفسیر صراط الجنان: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار
کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے
ہیں۔ اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا
جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
(2)میزان
سے مراد عدل ہے: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸)
ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان
کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو
(الرحمٰن: 7تا 9)
(3)قیامت
کا ترازو:وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
تفسیر صراط الجنان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے۔ ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت
کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے
اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے
معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال
میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی
ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز
کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(5) مومن کی
نیکیاں اچھی صورت :فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں ۔ (القارعۃ: 6، 7)
علی اکبر (درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
وزن کا معنی
ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے
تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
میزان کہتے ہیں۔
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
آیت
نمبر: (1)وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8، 9)
اس آیت میں قیامت
کے دن میزان میں اعمال تولے جانے کا ذکر ہوا ۔
آیت
نمبر : (2) وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
ہم قیامت کے
دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے
اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے
معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال
میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی
ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز
کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
آیت
نمبر (3)وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ
کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے
اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو۔ (الرحمٰن:
7تا 9)
اللہ تعالیٰ
سے دعا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
حافظ محمد عمر نقشبندی (درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور
،پاکستان)
قرآنِ حکیم ایک
کامل اور جامع کتابِ ہدایت ہے جو انسان کو ہر میدانِ زندگی میں رہنمائی فراہم کرتی
ہے۔ عدل، انصاف اور میزان قرآن کا ایک اہم
موضوع ہے۔ "میزان" صرف ترازو کا نام نہیں بلکہ ہر اس نظام یا معیار کا
نام ہے جس کے ذریعے انصاف، توازن اور اعتدال قائم کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر "میزان"
کا ذکر کیا ہے تاکہ انسان ہر عمل میں عدل و انصاف کو اختیار کرے۔ میزان کے متعلق چند
قرآنی آیات اور ان کی وضاحت پڑھیئے:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان
کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور
انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ
مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ترجمہ کنزالایمان: تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہونچے اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں
۔ (المؤمنون: 102، 103)
روزِ قیامت
اللہ تعالیٰ کے میزان میں اعمال تولے جائیں گے، اور نجات ان لوگوں کو ملے گی جن کے
نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا۔وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ
فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ
خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو
رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
وضاحت: آخرت میں
اللہ تعالیٰ کا عدل کامل ہوگا۔ ہر شخص کے اعمال انصاف سے تولے جائیں گے اور کوئی
کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
قرآن کریم نے "میزان" کو عدل، توازن اور انصاف کی
علامت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں بھی انسان ایک
دوسرے کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں اور آخرت میں میزان کے ذریعے ان کے اعمال کا
محاسبہ کیا جائے گا۔ ایک اسلامی معاشرہ میزان کے اصولوں پر قائم ہو تو وہاں ظلم،
بدعنوانی اور ناانصافی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
محمد
حبیب (درجہ سابعہ جامعہ المدینہ فاروق
اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
میزان، عربی
زبان میں پیمائش کے آلے کو کہتے ہیں، اور اصطلاحاً یہ قیامت کے دن اعمال کے وزن
کرنے کے لیے استعمال ہونے والے آلے کو ظاہر کرتا ہے. میزان ایک اہم تصور ہے جو
اسلامی عقائد میں پایا جاتا ہے اور اس کا تعلق انصاف اور جزا و سزا سے ہے۔
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص868) اور جس آلے کے ساتھ
چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، 9
/ 361)
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں
’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت
الآیۃ: 8، 2/ 87)
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
آیت
نمبر:(1) وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
تفسیر صراط الجنان: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ:اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے۔ اس سے پہلی
آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام علیہم السلام اور
ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی
میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے ۔ ( تفسیر صراط الجنان، ج3)
آیت
نمبر: (2) میزان کے دیگر معانی وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان
کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن:
7تا 9)
تفسیر صراط
الجنان:وَ
وَضَعَ الْمِیْزَانَ: اور ترازو
رکھی۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے
مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا
ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور
اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ
فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ
کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن،
الرحمٰن، تحت الآیۃ: 7-8، 4 / 209، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: 7-8، ص1192،
ملتقطاً)
محمد اسامہ عطاری (درجہ سابعہ
جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
میزان ایک
ترازو ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور یہ قیامت کے دن قائم کیا جائے گا جس کے
ذریعے سے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا نیکوکاروں کا پلڑا بھاری ہونے کی صورت
میں یہ اوپر کی جانب چلا جائے گا بر خلاف دنیا کے ترازو کےکہ دنیا میں پلڑا بھاری
ہونے کی صورت میں نیچے کی طرف آتا ہے۔
میزان
کی تعریف: جس آلے کے ساتھ چیزوں
کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، 9 / 361)
(1)میزان
حق ہے: جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی
ہے: وَالْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجَمۂ کنزالایمان:اور اس دن تول ضرور ہونی
ہے۔(پ8،الاعراف:8)جمہور
مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘
مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 6/ 78)
(2)
میزان قائم ہو گا: جیسا کہ ارشاد
باری تعالٰی ہے: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
(3)اعمال
کا وزن ہونا: برزوقیامت اعمال کا
وزن کیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور
جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے
والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ
گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
اعمال کا وزن
کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت
کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی ،اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے
لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین
صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا اورایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوئیں وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں پر غالب ہوئے تو وہ جہنم میں داخل ہو گا اور اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں
داخل کر دیا جائے گا یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے اسے
معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا۔ (تفسیر صراط الجنان، جلد10)
(4)بھاری
پلڑے کی کیفیت: فتاویٰ رضویہ میں ہے : وہ میزان یہاں کے ترازو
کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ اگر بھاری ہو گا تو اوپر اٹھے گا اور بدی کا پلہ نیچے
بیٹھے گا،جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ
الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ (ترجمہ
کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند
کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)
جس کتاب میں لکھا ہے کہ نیکیوں کا پلہ نیچا ہو گا غلط ہے۔(فتاوی رضویہ ج 62 ص 626)
میزان
کی کیفیات: قیامت کے دن میزان رکھا
جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس میں سما جائیں۔
فرشتے کہیں گے: یا اللہ! اس میں کس کا وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالی ارشاد فرمائے
گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے : تو پاک ہے، ہم تیری
اس طرح عبادت نہیں کر سکے جو تیری عبادت کا حق ہے۔ (مستدرک، 5/ 807، حدیث: 8778)
اس میز ان کے
دو پلڑے ہیں، عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا نورانی ہے جبکہ دوسر ا تاریک (سیاہ) پلڑا
عرش کی بائیں جانب ہے۔(الدرة الفاخرة فی كشف علوم الآخرة، ص 62) نورانی پلڑا نیکیوں
کے لئے جبکہ سیاہ پلڑا گناہوں کے لئے ہو گا۔ (التذكرة للقرطبی، ص302)حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ میز ان کا ایک پلڑا جنت پر اور دوسر ا دوزخ پر ہو ۔ (تفسیر کبیر ، الاعراف،
تحت الآيۃ : 202/58)
اللہ تعالی سے
دعا ہے کہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبین
اہتشام علی عطاری (دورہ حدیث جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ سیالکوٹ ،پاکستان)
صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:9)
اس آیت میں قیامت
کے دن میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان کیا گیا ہے ۔
مزید یہ کہ قیامت والے دن انسان نے جو بھی اعمال
کیے ہوں گے وہ سارے کے سارے میزان پر وزن کئے جائیں گے ایک ذرہ بھی نہ
چھوڑا جائے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
تفسیر صراط
الجنان : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ
الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ:اور
ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے۔ ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو
رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے
گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی
تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا
حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ ( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۴۸۵-۴۸۶،
جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۲۷۳، ملتقطاً)
معلوم ہوا
بندہ جو بھی عمل کرے گا اس کا حساب دینا ہوگا ۔ لہذا جس کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے
ان کو جنت ملے گی اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔ اللہ پاک نے فرمایا:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال
جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ
کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
خلاصہ یہ ہے کہ
قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس
کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں
گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا
معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔
ان تمام آیات
سے معلوم ہوا کہ بندہ وہی کامیاب ہے جس کے اعمال اچھے ہوں جس نے اللہ پاک کو راضی کیا ہو گا ۔ اور قیامت کے حساب سے پہلے
اپنا حساب کیا ہو گا ۔ اللہ پاک کی بارگاہ
میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بے اپنے پیارے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بے حساب
جنت عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
ذیل میں قرآن کریم کی چند آیات کی روشنی میں میزان کے اصول کو واضح
کیا گیا ہے، ان میں سے چند پڑھیے:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
وزن اور میز
ان کا معنی:وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں
ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو ،
ص ۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میز
ان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ٩ /(۳۶۱) جمہور
مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ”وزن“ سے ” میز ان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا مراد
ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآيۃ: ۸، ۲ )
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور
اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں
حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
تفسیر صراط
الجنان: ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال
کا وزن کیا جائے گا تا کہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پر اس کے حقوق کے معاملے میں
کچھ ظلم نہ ہو گا اور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی
تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ ( روح البیان،
الانبياء ، تحت الآيۃ: ۵،۴۷ / ۴۸۵-۴۸۶، جلالین،
الانبياء، تحت الآيۃ : ۴۷، ص ۲۷۳، ملتقطاً)
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا
دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
تفسیر صراط
الجنان:فَأَمَّا
مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ : تو
بہر حال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔ قیامت کا حال ذکر کرنے کے بعد یہاں سے قیامت
کے دن مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 5 آیات
کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو
بھاری ہوں گے اور اس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی
میں ہو گا اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی
کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہو گا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے ؟ وہ ایک
شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔
یہاں اعمال کے
وزن سے متعلق دو باتیں ذہن نشین رہیں : (1) اعمال کا وزن کئے جانے کے بارے میں ایک
قول یہ ہے کہ قیامت کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لاکر میز ان میں رکھی جائیں
گی ، اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں
لاکر میز ان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال
باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا، اور ایک قول یہ
ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں
برائیوں پر غالب ہوئیں وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں پر غالب ہوئے
تو وہ جہنم میں داخل ہو گا اور اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال
کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے
اسے معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا جبکہ کفار کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالعرفان : پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (خازن، القارعۃ، تحت الآيۃ : ۶-۱۰، ۴ / ۴۰۳ ، مدارك، القارعۃ، تحت الآيۃ:۱۰-۶، ص ۱۳۷۰،
ملتقطاً)
قرآن مجید میں میزان کا تصور محض تولنے کی مشین نہیں، بلکہ
ایک کامل اصولِ عدل و توازن ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی انفرادی، اجتماعی،
معاشی اور اخلاقی زندگی میں قرآن کے اس سنہری اصول کو اپنائے۔ اگر معاشرہ میزان پر
عمل کرنے لگے تو دنیا میں انصاف، سکون اور خوشحالی قائم ہو جائے گی اور آخرت میں
اللہ کی رضا نصیب ہو گی اللہ تعالیٰ سے
دعا ہے کہ ہمیں ان باتوں پر عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ پاک نے میزان کے متعلق قرآن کریم میں جابجاہ
تذکرہ فرمایا ہے ، ان میں سے چند پڑھیئے:
(1)
بھاری پلے والے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
(2)
رائی کے دانے کے برابر: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
قرآنی تصورِ میزان
صرف ترازو یا وزن کا تصور نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا جامع اصول ہے جو انفرادی زندگی
سے لے کر اجتماعی نظام تک ہر سطح پر عدل، انصاف، حق و باطل کی پہچان، اور توازن کا
تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس دنیا میں میزان کو قائم رکھنے کا حکم دیا،
بلکہ قیامت کے دن بھی اعمال کی میزان پر تول ہونے کی خبر دی۔ آج کا انسان اگر دنیا
میں بے چینی، ظلم، اور انتشار سے بچنا چاہتا ہے تو اسے قرآنی میزان کے اصول کو
اپنانا ہوگا۔ جہاں نہ زیادتی ہو، نہ کمی، اور ہر معاملے میں انصاف اور توازن ہو۔
اللہ ہمیں قرآن مجید کے میزان کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے، اور دوسروں
تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
میزان کہتےہیں
وہ آلہ جس کے ذریعے وزن کیا جاتا ہے ۔ الغرض قیامت میں تول
قائم ہو گا اور عدل وانصاف کے ساتھ بتایا جائے گا کہ کس نے کیا اچھے اور کیا برے اعمال کیے ، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر میزان کا بیان فرمایا آ یئے ان میں سے 4 مقامات کو
ملاحظہ کرتے ہیں :
(1) آسمان کو بلند کیا اور ترازو رکھا: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸)
ترجمہ کنزالایمان:
اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو
رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی)
نہ کرو ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)
اللہ تعالیٰ
نے آسمان کو محل اور رتبے کے اعتبار سے بلند پیدا فرمایا ہے۔ محل کے اعتبار سے
بلندی تو ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے اونچا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے آسمان کی
بلندی یہ ہے کہ وہ فرشتوں کا مَسکن ہے اور
یہیں سے اللہ تعالیٰ کے اَحکام صادر ہوتے
ہیں ۔ (ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷،
۵ / ۶۶۱ ، ملخصاً)
(2) ایک آگ شعلے مارتی: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور
جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی
گود میں ہے اور تو
نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے: قیامت کا حال ذکر کرنے کے بعد یہاں سے قیامت کے دن مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد
والی5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں
کے ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک
عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ
زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو
اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ
ہوگا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔(پارہ 30سورہ القاریہ
آیت نمبر6۔ 11)
(3) کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
ارشاد فرمایا
کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے
جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے
حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور
اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ
کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے
اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (پارہ 17سورہ الانبیاء آیت نمبر 47)
(4) قیامت میں تول ضرور ہونی ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
اس سے پہلی آیت
میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا
دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ (پارہ 8سورہ الاعراف آیت نمبر:8)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جو کچھ پڑھا اس پر عمل کرنے
کی توفیق عطا فرمائے اور ان آیات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آخرت کی تیاری
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم
قرآن مجید میں "میزان" (ترازو یا عدل کا پیمانہ)
کا ذکر مختلف مقامات پر ہوا ہے، جو عدل، انصاف، اور تول ناپ میں دیانتداری کے اصول
کو بیان کرتا ہے۔ قرآن کے مطابق قیامت کے
دن ہر شخص کے اعمال کا انصاف کے ساتھ وزن کیا جائے گا۔ جس کے نیک اعمال زیادہ ہوں
گے، وہ کامیاب ہوگا اور جنت میں جائے گا۔ اور جس کے برے اعمال ہوں گے، وہ خسارے میں
جائے گا اور جہنم کا مستحق بنے گا۔ آئیے
اس کے متعلق آیت مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح
ارشاد فرمایا
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل
کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس
آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین ﷺ نے
ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں
کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:یااللہ!عَزَّوَجَلَّ،
اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں
سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر
سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔( مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷، الحدیث: ۸۷۷۸)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور
اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں
حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان:
اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو
رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی)
نہ کرو ۔ (الرحمٰن: 7تا 8)
ناپنے
تولنے کے آلات کی اہمیت: حضرت
قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’اے انسان !تو دوسروں کے ساتھ اسی
طرح انصاف کر جس طرح تجھے پسند ہے کہ تیرے ساتھ انصاف کیا جائے اور تو دوسروں کو اسی طرح پورا پورا ناپ تول کر دے جیسے تجھے
پورا پورا ناپ تول کر لینا پسند ہے کیونکہ عدل و انصاف ہی سے لوگوں کے حالات درست رہ سکتے ہیں ۔( تفسیر طبری،
الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱)
ان آیت مبارکہ اور اقوال سے پتہ چلا کہ قیامت والے دن نہایت ہی
سختی سے عدل ہوگا اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے وہ عذاب نار کا مستحق ہوگا اور جس
کے اعمال زیادہ ہوں گے وہ جنت کا مستحق بنے گا۔ اللہ تعالی ہمیں زیادہ سے زیادہ نیک
اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ
خاتم النبیین ﷺ
Dawateislami