قرآن مجید  میں "میزان" (ترازو یا عدل کا پیمانہ) کا ذکر مختلف مقامات پر ہوا ہے، جو عدل، انصاف، اور تول ناپ میں دیانتداری کے اصول کو بیان کرتا ہے۔ قرآن کے مطابق قیامت کے دن ہر شخص کے اعمال کا انصاف کے ساتھ وزن کیا جائے گا۔ جس کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے، وہ کامیاب ہوگا اور جنت میں جائے گا۔ اور جس کے برے اعمال ہوں گے، وہ خسارے میں جائے گا اور جہنم کا مستحق بنے گا۔ آئیے اس کے متعلق آیت مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح ارشاد فرمایا

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔

قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔( مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷، الحدیث: ۸۷۷۸)

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن: 7تا 8)

ناپنے تولنے کے آلات کی اہمیت: حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’اے انسان !تو دوسروں کے ساتھ اسی طرح انصاف کر جس طرح تجھے پسند ہے کہ تیرے ساتھ انصاف کیا جائے اور تو دوسروں کو اسی طرح پورا پورا ناپ تول کر دے جیسے تجھے پورا پورا ناپ تول کر لینا پسند ہے کیونکہ عدل و انصاف ہی سے لوگوں کے حالات درست رہ سکتے ہیں ۔( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱)

ان آیت مبارکہ اور اقوال سے پتہ چلا کہ قیامت والے دن نہایت ہی سختی سے عدل ہوگا اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے وہ عذاب نار کا مستحق ہوگا اور جس کے اعمال زیادہ ہوں گے وہ جنت کا مستحق بنے گا۔ اللہ تعالی ہمیں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ