حافظ عباد علی (درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان ابوعطار کراچی ،پاکستان)
میزان اس چیز
کو کہتے ہیں جس سے اعمال کی مقداریں جانچی جاتی ہیں، حالانکہ عقل اس کی نوعیت کو
سمجھنے میں قاصر ہے۔ (شرح عقائد النسفیہ ص: 368)
میزان وہ عمل
ہے جو قیامت کے دن ہوگا، جب ہر ایک شخص اپنی فکر میں مبتلا ہوگا، خوف و ہراس کی حالت میں لوگ اپنے پسینوں میں
بہہ رہے ہوں گے، اور ”نفسی نفسی “ کی آوازیں
بلند ہوں گی۔ اس دن اللہ تعالیٰ نیک
اور بد کے درمیان فیصلے کے لیے میزان کو استعمال
فرمائے گا اور نیکوں کو ان کی جزا دے گا
جبکہ بروں کو ان کی سزا ملے گی۔ قرآن پاک میں ہے:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور
انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)
یہ
آیت ایک اہم سبق دیتی ہے کہ اللہ نے وزن کا پیمانہ مقرر کیا ہے، اس کا استعمال انصاف
کے طریقے سے کرو، کسی قسم کی کمی و زیادتی نہ کرو اور لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہ
کرو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ
خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا
كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری
ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ
ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا
کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:8، 9)
اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے دن وزن
ہونا حق ہے اور اس میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہے: ایک وہ جو دنیا میں نیک اعمال
کرتے تھے، اللہ اور بندوں کے حقوق کی پاسداری کرتے تھے، اور تمام برے اعمال سے
بچنے کی کوشش کرتے تھے، تو ان کے پلڑے بھاری ہوں گے اور وہ کامیاب، یعنی جنت میں
داخل ہوں گے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا میں برے کاموں میں لگے رہے، ہر ایک کے
ساتھ برا سلوک کرتے رہے، تو ان کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور یہی نقصان اٹھانے والے، یعنی
عذاب دوزخ پانے والے ہیں۔
انسان کا دنیا
میں قیام عارضی اور فانی ہے کیونکہ دنیا دارالعمل ہے دنیا میں جو بھی کام کیے بروز
محشر ان کا وزن اور حساب ہوگا اور اسی اعتبار سے سزا و جزا کا معاملہ ہوگا
اور ذرہ برابر بھی کوئی نیکی یا بدی کی
ہوگی بروز محشر سامنے آئے گی جیسا کہ قرآن
مجید میں رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ
خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸)
ترجمہ کنز
العرفان: توجو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے
وہ اسے دیکھے گا۔اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔ ( الزلزال : 7 تا 8)
انسان کی نیکیوں
اور بدیوں کا بروز محشر وزن ہو گا اور اس کے لیے ترازو قائم کیا جائے گا ۔
میزان
کا مفہوم: میزان سے مراد وہ ہے جس
سے کسی چیز کا وزن کیا جائے اور اس کی مقدار کی معرفت حاصل کی جائے۔(تفسیر مدارک
سورہ انبیاء آیت نمبر 47 تحت آلایۃ )
عرف عام میں
ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ وزن کیا جائے
اسے میزان کہتے ہیں ۔
میزان
حق ہے: قرآن مجید میں بھی اس کا تذکرہ کئی مقامات پر بیان کیا گیا
ہے ، اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں وزن سے میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا مراد ہے۔ (خازن،
الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)
اعمال
کے وزن کی صورتیں:
1۔ وہ صحیفے
جن میں اعمال تحریر ہوں گے وہ میزان میں رکھے جائیں گے ان کا وزن ہو گا
2۔اعمال ناموں
کے لیے ایک صورت پیدا کر دی جائے گی اور اس کو میزان میں رکھا جائے گا ۔
3۔ بعض علما
فرماتے ہیں اللہ پاک نے اعمال کے وزن کا ذکر فرمایا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور
اس کی کیفیت و صورت کو نہیں جانتے۔( تفسیر سمرقندی ج 1 ص 571 اعراف آیت 8 مکتبہ حقانیہ ملتان)
ظلم
نہ کیا جائے گا: اور حساب و کتاب
اور وزن کا معاملہ قیامت کے دن کے ہوشربا مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ
ہو گا ، نیکیوں اور برائیوں کے معاملے میں
ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ قرآن مجید نے اس کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء،
آیت: 47)
اس آیت کریمہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت
کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے
اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے
معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال
میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی
ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز
کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں۔
حضرت داؤد علیہ
السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی کہ وہ
انہیں میزان (قیامت کے دن نیکیوں اور بدیوں کو تولنے والا ترازو) دکھائے۔ تو اللہ
تعالیٰ نے انہیں دکھایا اور اس کی ہر پلڑا (کِفَّہ) مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا، یہ منظر دیکھ کر حضرت داؤد علیہ السلام پر غشی
(بیہوشی) طاری ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو عرض کیا:اے میرے پروردگار! کون ہے جو اس
ترازو کی ایک پلڑے کو نیکیوں سے بھر سکے؟
اللہ تعالیٰ
نے فرمایا:اے داؤد! جب میں اپنے بندے سے راضی ہو جاتا ہوں تو ایک کھجور (جیسی
معمولی نیکی) سے بھی وہ پلڑی بھر دیتا ہوں۔"(تفسیر روح البیان ج 5 ص 580 تحت
آلایۃ)
لوگوں
کے حالات: میزان عمل پر لوگوں کے
حالات مختلف ہوں گے، کچھ لوگ ایسے ہوں گے
کہ جن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا اور ان کو جنت میں جانے کی خوشخبری سنائی جائے
گی اور کچھ افراد ایسے ہوں گے جن کی نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور ان کو ھاویۃ یعنی
اگ میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ قرآن مجید
فرقان حمید میں بھی اس کا تذکرہ ہے
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)
ترجمہ کنز
العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو
اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ
ہے۔ (پ30، القارعہ: 6تا 11)
اس آیت کریمہ
کی تفسیر میں مفتی اہلسنت مفتی قاسم عطاری مدنی دام ظلہ العالی رقمطراز ہیں :ان آیات
کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو
بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ
ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا
اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے
پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا
معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔(تفسیر صراط الجنان
ج 10 ص 805)
لہذا معلوم
ہوا کہ ہمیں ایسے اعمال بجا لانے ہیں جو میزان میں نیکیوں کے پلڑے کو وزنی کردیں
اور یوں رحمت خداوندی سے جنت کا داخلہ نصیب ہو جائے ۔
میزان
عمل کو بھرنے والے اعمال: اب کچھ ایسے اعمال ذکر کیے جاتے ہیں جو میزان
عمل کو بھر دیں گے اور بندے کی نجات اُخروی کا ذریعہ بن جائیں گے :
(1) بخاری
شریف میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: دو کلمے زبان پر ہلکے ہیں
ترازو میں بھاری رحمن کو پیارے ہیں ، سبحان
اﷲ و بحمدہ سبحان الله العظیم۔(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبیح ص 1230 حدیث 6405)
(3) ترمذی شریف میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تسبیح میزان کا نصف ہے اور الحمد للہ اس کو بھر
دیتا ہے۔ (جامع الترمذی کتاب الدعوات حدیث 3518 ص 554 )
اللہ پاک ہم
سب پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل جنت میں داخلہ نصیب فرمائے اور خوب نیک
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
محمد زوہیب اشرف (درجہ
سادسہ جامعۃ المدینہ اپر مال روڈ لاہور ،پاکستان)
اللہ تبارک و
تعالی نے ہر انسان کو اچھے،برے اعمال کرنے کا اختیار دیا ہے۔اور قیامت کے دن اللہ
تبارک و تعالی انسانوں سے ان کے اچھے اور برے اعمال کا حساب لے
گا۔اور اعمال کا حساب قیامت کے دن وزن کے ذریعے ہوگا۔اسی کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور
برحق ہے ۔(پ8،الاعراف:9)
آئیے ! اب وزن اور میزان کا معنی پڑھتے ہیں: کسی
چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا۔اور عرف میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن
کہتے ہیں۔جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے ا سے میزان کہتے ہیں۔ (تفسیر صراط
الجنان ج 3 ص 270)
میزان
کا شرعی معنی پڑھتے ہیں: میزان ایک
ترازو ہوگا جس کے دو پلے ہوں گے اس پر لوگوں کے اچھے برے اعمال تولے جائیں گے۔ (قانون شریعت، ص 42 مکتبہ اسلامی کتب خانہ)
قرآن پاک اس میزان عمل کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟ پڑھیئے
(1) پسندیدہ
زندگی اور شعلہ مارتی آگ: اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال
جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ
کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
ان تمام آیتوں
کا خلاصہ یہ ہے : جسکے وزن دار عمل یعنی نیکیاں زیادہ ہوئیں وہ جنت میں ہوگا۔مومن
کی نیکیاں اچھی صورت میں لاکر میزان میں رکھی جائیں گی تو اگر وہ غالب ہوئیں تو اس
کے لئے جنت ہے۔ اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی
اور وزن ہلکا بڑھے گا کیوں کہ کفار کے اعمال باطل ہیں،ان کا کچھ وزن نہیں،تو انہیں
جہنم میں داخل کیا جائے گا۔اس وجہ سے کہ وہ باطل کی پیروی کرتا تھا۔اور اس کا
ٹھکانہ دوزخ کی آگ ہوگا جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو
جہنم کی آگ سے بچائے۔ آمین (ملخصا تفسیر
خزائن العرفان ص 1117)
(2)
جنتی گھر والوں کی طرف خوشی خوشی جانا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ
بِیَمِیْنِهٖۙ(۷) فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًاۙ(۸) وَّ یَنْقَلِبُ
اِلٰۤى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاؕ(۹) ترجمۂ
کنز العرفان: تو بہر حال جسے اس کا نامہ
ٔاعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا
جائے گا۔اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف خوشی
خوشی پلٹے گا۔ ( الانشقاق: 7 تا 9)
ان آیتوں کا
خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جسے اس کا نامۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا اور وہ حساب کے بعد
اپنے جنتی گھر والوں کی طرف اپنی اس کامیابی
پرخوشی خوشی پلٹے گا۔ (تفسیر صراط الجنان ج 10 ص 587)
(3) موت مانگنا اور بھڑکتی آگ میں داخل ہونا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَآءَ
ظَهْرِهٖۙ(۱۰) فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًاۙ(۱۱) وَّ یَصْلٰى سَعِیْرًاؕ(۱۲) ترجمۂ
کنز العرفان: اور رہا وہ جسے اس کا نامہ
ٔاعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔تووہ عنقریب موت مانگے گا۔ اور وہ بھڑکتی ا ٓگ میں داخل ہو گا۔ ( الانشقاق: 10 تا 12)
ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ہاتھ بندھے
ہوں گے اور پیچھے سے ان کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیے جائیں گے کیونکہ کفار کے
اعمال نامے دائیں ہاتھ سے پکڑنے کے لائق نہیں۔اور اچھے کام دائیں ہاتھ سے کئے جاتے
ہیں اور کفار کا کوئی بھی عمل اچھا نہیں ہے۔اور کافروں نے دنیا میں اوندھے(الٹے) کام
کئے لہذا انہیں اعمال نامے بھی اوندھی طرف یعنی پیٹھ کے پیچھے سے دیے گئے۔اور کافر
قیامت کے دن موت کی دعا کرے گا۔ یا موت کو پکارے گا۔ یا موت کی تمنا اور آرزو کرے
گا۔تاکہ وہ موت کے ذریعے چھٹکارا حاصل کرے۔حالانکہ کافر دنیا میں موت سے بچتا ہے
اور وہاں قیامت والے دن موت کی آرزو اور تمنا کرے گا۔اور کافر قیامت کے دن دوزخ میں
جائے گا۔(ملخصا تفسیر نور العرفان ص 939 تا 940 مکتبہ پیر بھائی کمپنی)
(4) کافروں کے لئے وزن قائم نہ کرنے کا مطلب : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَا نُقِیْمُ
لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ کنز العرفان:پس ہم ان کے لیے
قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ ( الکہف: 105)
وزن قائم نہ
کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان (کافروں)کے ظاہری نیک اعمال کی کوئی قدر وقیمت
ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا
اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک
اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت
ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت
اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور
اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ (تفسیر صراط الجنان ج 6 ص 45)
البتہ اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں کو اللہ تعالیٰ جلد دوزخ میں ڈالنا چاہے گاانہیں اعمال
کے وزن کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا اور بقیہ
کافروں کے اعمال کا وزن کیاجائے گا اسی
طرح بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں داخل کر دے گا۔(تفسیر صراط الجنان ج 10 ص 805)
ان آیات کریمہ
سے ثابت ہوا کہ قیامت کے دن میزان قائم ہوگا اور اعمال کا وزن ہوگا۔تو ہمیں بھی
اللہ تبارک و تعالی سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمارا خاتمہ ایمان
پر فرمائے۔اور ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری اور اچھے اعمال کرنے کی توفیق اور جذبہ عطا فرمائے۔ آمین
اعلی حضرت
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں اور انہی کے الفاظ میں ہم بھی عرض کرتے ہیں:
ہم
ہیں ان کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس
سے بڑھ کر تیری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان
کی امت میں بنایا انہیں رحمت بھیجا
یوں
نہ فرما کہ ترا رحم میں دعوی کیا ہے
صدقہ
پیارے کی حیا کا نہ لے مجھ سے حساب
بخش
دے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے۔
(حدائق بخشش ص 171 مکتبۃ المدینہ)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری بخشش فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
محمد ثقلین بابر (رسجہ سابعہ جامعۃالمدینہ فیضان عثمان غنی کراچی ،پاکستان)
دنیا میں
انسان کو اللہ تعالی نے خیر و شر کا راستہ بتانے کے بعد اس کی محدود زندگی میں اختیار
دیا ہے کہ وہ اعمال کرے، اب ان اعمال کے مطابق اس انسان کو مقام ملے گا۔
میزان کیا ہے؟ : "میزان" کا لغوی مطلب وزن کرنے کا آلہ (Tool) ہے
جبکہ اصطلاح شریعت میں قیامت کے دن انسانوں کے اعمال تولنے کیلئے قائم کئے جانے
والے ترازو کو "میزان" کہا جاتا ہے۔
میزان کا ذکر قرآن میں : قیامت کے دن میزان قائم کئے جانے، اعمال کے تولے جانے
اور نامہ اعمال ملنے تک کے تمام معاملات کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے :چنانچہ
ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے : اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ
الْمِیْزَانَؕ- وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ(۱۷) ترجمہ کنزالایمان:اللہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب
اتاری اور انصاف کی ترازو (پ25، الشوری :17)
مزید فرمایا: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے
والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
دوسری آیت کریمہ
میں شاندار انداز میں اس بات کا رد کیا گیا ہے کہ کہیں کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ جس
طرح دنیا کے ترازو میں ناپ تول میں بے اعتدالی ہوتی ہے کیا وہاں بھی ہوسکتی ہے
چنانچہ فرمایا : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء،
آیت: 47)
مزید فرمایا :فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز
العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو
اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ
ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
میزان کی کیفیت :قیامت کے دن رکھے جانے والے میزان کی کیفیت اور حساب کے
بارے میں مختلف اقوال ہیں ، امام غزالی
اور امام قرطبی رحمھما اللہ نے ارشاد فرمایا : اعمال کا تولا جانا ہر ایک کے کیلئے
نہیں ہوگا بلکہ ستر ہزار وہ خوش نصیب لوگ ہونگے جو بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے
نا ہی ان کیلئے میزان ہوگا نا نامہ اعمال کا ملنا۔ (الفقہ الاکبر ،ص 171 مکتبہ
المدینہ)
جبکہ میزان کی
کیفیت کو جاننے کا ہمیں مکلف نہیں کیا گیا
لہذا ہمارا اس کے وجود اور اس کے حق ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے، میزان کے عمل کے بعد انسانوں کو نامہ اعمال دیے
جائیں گے کامیاب ہونے والوں کو سیدھے ہاتھ میں جبکہ ناکام ہونے والے ابدی بدبخت کو
الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا۔
اس دل دہلانے
والے وقت میں عافیت اور شفاعت کو طلب کرتے ہوئے اعلی حضرت امام اہل سنت اللہ پاک
کے بارگاہ میں مناجات کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں :
یا الہی نامہ اعمال جب کھلنے لگیں
عیبِ پوش خَلق ستّارِ خطا کا ساتھ ہو
اللہ پاک نے
انسانوں کو دنیا میں اپنی عبادت کے لیے
بھیجا اور اس فانی دنیا کے اختتام پر اس سے حساب لیا جائے گا اور اس کے لیے ایک دن
مقرر ہے جس کو یوم الآخرۃ یا قیامت کادن
کہا جاتا ہے کہ جس میں انسانوں کے اعمال کاحساب لیا جائے گا اور اعمال کو تولنے کے لیے ایک آلہ مقرر ہے جس کو میزان کہا جاتا ہے اور اس میزان کا ثبوت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے ملتا ہے اس کے متعلق اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ میزان
حق ہے اور اس کی ایک چھڑی اور دو پلڑے ہیں اور ان کی شکل و صورت کے متعلق اللہ پاک
ہی جانتا ہے اس کے متعلق مزید وضاحت قرآنی
آیات سے سمجھتے ہیں :
میزان
کی حقانیت: اللہ پاک میزان کے حق
ہونے اور اس کے ذریعے اعمال کے وزن کیے جانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنز العرفان : اور اس دن وزن کرنا ضرور
برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:8)
ترازو
کے ذریعے عدل کرنے کا تذکرہ: اللہ پاک ترازو کے رکھنے اور عدل و انصاف کے
ساتھ فیصلے کرنے کے متعلق بیان کرتے ہوئے
فرماتا ہے : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء،
آیت: 47)
رسول
علیہ السلام کی تشریف آوری کے وقت حساب کا آغاز: اللہ پاک بیان فرماتا ہے کہ جب کسی امت کا رسول
آئے گا تو اس امت کے متعلق فیصلہ کر دیا
جائے گا: وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ
رَّسُوْلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا
یُظْلَمُوْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان
: اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوا ہے توجب ان کا رسول ان کے پاس تشریف لاتا تو ان
کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتاہے۔ (یونس: 47)
میزان
کے پلڑوں کے بھاری یا ہلکا ہونے کی وضاحت:
اللہ پاک میزان کے بھاری ہونے پر
جنت کی خوشخبری اور ان کے ہلکے ہونے پر
دوزخ کی وعید سناتے ہوئے فرماتا ہے : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۳) ترجمہ کنزالعرفان: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
کامیاب ہونے والے ہوں گے۔اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی ہوں گے جنہوں نے
اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا، (وہ) ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)
کفر
کرنے والوں کے لیے وزن کے نا ہونے کا بیان: اللہ پاک نے کفار کو تنبیہ
کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دن کفار کے لیے اعمال کا کوئی وزن نہیں ہو گا: اُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ
فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالعرفان : یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی
آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا تو ان کے سب اعمال برباد ہوگئے پس ہم ان کے لیے
قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)
اس کے علاوہ
بھی کئی ایک آیات وکثیر احادیث کریمہ میزان کی حقانیت اور اس کے لیے تیاری کا درس دیتی ہیں اور قیامت کی ہولناکیوں سے ہمیں ڈراتی ہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس
دن کے لیے اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت میں بے حساب
داخلہ عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم
النبیین ﷺ
خرم
شہزاد (درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھو کی لاہور ،پاکستان)
حضرت عبداللہ بن
عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : مصیبت اور بلا
میں مبتلا رہنے والے قیامت کے دن حاضر کئے جائیں گے نہ
اُ ن کے لئے میزان قائم کی جائے گی اور نہ اُن کے لئے اعمال
ناموں کے دفتر کھولے جائیں گے ان پر اجرو ثواب کی بے
حساب بارش ہوگی یہاں تک کہ دنیا میں عافیت کی زندگی
بسر کرنے والے ان کا بہترین ثواب دیکھ کر آرزو کریں گے کہ’’کاش وہ
اہلِ مصیبت میں سے ہوتے اور ان کے جسم قینچیوں سے کاٹے گئے
ہوتے تاکہ آج یہ صبر کا اجرپاتے۔( معجم الکبیر، ابو الشعثاء جابر بن زید عن
ابن عباس، ۱۲ / ۱۴۱، الحدیث: ۱۲۸۲۹)
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹)
ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔
(الرحمٰن: 7تا 9)
( تفسیر صراط
الجنان) : ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے
درمیان تمام معاملات میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے
مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء کا
وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم
ہوسکیں جیسے ترازو اَشیاء ناپنے کے آلات
اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس
حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے
اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل
قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن،
تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۲۰۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۹۲،
ملتقطاً)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
( تفسیر صراط
الجنان): اور
ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے۔
ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ
ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی
تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا
حساب کرنے کیلئے کافی ہیں۔
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور
اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
حافظ محمد علی شان (درجہ ثانیہ جامعۃ
المدینہ فیضانِ مدینہ، جوہر ٹاؤن، لاہور ، پاکستان)
اللہ رب العزت
نے کائنات کو ایک نہایت ہی موزوں اور متوازن نظام ، پر قائم فرمایا ہے۔ اس توازن کا ایک اہم حصہ قیامت
کے دن اعمال کے حساب و کتاب کا نظام ہے، جسے میزان کہا جاتا ہے۔ میزان، یعنی
ترازو، وہ عدل کا آلہ ہے جس پر بندوں کے نیک و بد اعمال کو تولا جائے گا۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس میزان اور اس کے عدل و
انصاف کا ذکر کیا گیا ہے، جو ہمیں آخرت کی جواب دہی اور دنیا میں نیک اعمال کی اہمیت
کا احساس دلاتا ہے۔
میزان
کا لغوی اور اصطلاحی معنی: لغت میں
"میزان" کا معنی تولنے کا آلہ یعنی ترازو ہے۔ اسلامی اصطلاح میں، میزان
سے مراد وہ عظیم ترازو ہے جو قیامت کے دن قائم کی جائے گی تاکہ بندوں کے اعمال کا
وزن کیا جا سکے اور اسی کے مطابق انہیں
جزا یا سزا دی جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کامل عدل کا مظہر ہے۔
قرآن مجید میں میزان کا ذکر مختلف سیاق و سباق میں آیا ہے،
جو اس کی اہمیت اور حقیقت کو واضح کرتا ہے
قیامت
میں عدلِ الٰہی کا مظہر: اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے انصاف کو بیان
کرتے ہوئے فرمایا: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور
ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر
کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔
(پ17، الانبیاء:47)
یہ آیت واضح
کرتی ہے کہ قیامت کے دن عدل و انصاف کی بنیاد پر حساب لیا جائے گا اور ذرا برابر نیکی
یا بدی بھی ضائع نہیں ہوگی۔ اللہ کا عدل اتنا کامل ہوگا کہ کوئی ذرہ بھی چھپا نہیں
رہ سکے گا۔
اعمال کے وزن کی حقیقت: اعمال کے وزن کے بارے میں مزید وضاحت فرمائی گئی: فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) وَ مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ
خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۳) ترجمہ کنزالایمان: تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہونچے اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں وہی ہیں
جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)
یہ آیات بتاتی
ہیں کہ کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار اعمال کے وزن پر ہوگا۔
قیامت
کے دن کی ہولناکی اور میزان کا خوف: قرآن پاک میں ایک اور مقام پر میزان کا ذکر کرتے ہوئے
آخرت کی جواب دہی کا احساس دلایا گیا ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
یہ آیت تاکید
کرتی ہے کہ وزن کا عمل ایک حقیقی اور برحق ہے۔ یہ کوئی مجازی عمل نہیں بلکہ ایک
ٹھوس حقیقت ہے جس کا سامنا ہر انسان کو کرنا پڑے گا۔
میزان
پر کیا چیز تولی جائے گی؟ مفسرین اور محدثین کے اقوال کے مطابق میزان پر تین
چیزوں میں سے کوئی ایک یا مجموعہ تولا جا سکتا ہے:خود اعمال کا وزن: یعنی اعمال کو
جسمانی صورت دے کر تولا جائے گا۔
اعمال نامے کا وزن: یعنی وہ رجسٹر جن میں اعمال
لکھے گئے ہیں۔
عامل (عمل کرنے والے) کا وزن: یعنی خود بندے کو
تولا جائے گا۔
احادیثِ
مبارکہ میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن ایک
شخص آئے گا جس کے گناہوں کے ننانوے (99) دفتر ہوں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا
ہوگا۔ لیکن ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر کلمۂ طیبہ "لا إله إلا الله محمد
رسول الله" لکھا ہوگا، اور وہ
ان تمام گناہوں کے دفاتر پر بھاری ہو جائے گا۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلًا
مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَنْشُرُ
عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا، كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ،
ثُمَّ يَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ. فَيَقُولُ: أَفَلَكَ
عُذْرٌ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ.
فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، وَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ
الْيَوْمَ، فَتُخْرَجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. فَيَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ. فَيَقُولُ:
يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ. فَتُوضَعُ
السِّجِلَّاتُ فِي كِفَّةٍ، وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَّةٍ، فَطَاشَتْ السِّجِلَّاتُ
وَثَقُلَتْ الْبِطَاقَةُ، فَلَا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ
ترجمہ: حضرت
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک آدمی کو تمام
مخلوقات کے سامنے (علیحدہ) کرے گا، اس پر ننانوے (99) رجسٹر کھولے جائیں گے، ہر
رجسٹر حد نگاہ تک پھیلا ہوگا۔ پھر اللہ فرمائے گا: کیا تو ان میں سے کسی چیز کا
انکار کرتا ہے؟ کیا میرے نگہبان لکھنے والوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں
اے میرے رب! اللہ فرمائے گا: کیا تیری کوئی معذرت ہے؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب!
اللہ فرمائے گا: نہیں! بلاشبہ تیری ہمارے ہاں ایک نیکی ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم
نہیں ہوگا۔ پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر ”اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا
اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ“ لکھا ہوگا۔ اللہ فرمائے گا: اپنا وزن حاضر کر۔ وہ کہے
گا: اے میرے رب! یہ پرچہ ان (ننانوے) رجسٹروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟
اللہ فرمائے گا: تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ پس رجسٹروں کو ایک پلڑے میں رکھا
جائے گا اور پرچے کو دوسرے پلڑے میں، تو رجسٹر (ہلکے ہو کر) اڑ جائیں گے اور پرچہ
وزنی ہو جائے گا۔ اور اللہ کے نام کے ساتھ کوئی چیز وزنی نہیں ہو سکتی۔(سنن ترمذی،
کتاب الایمان، باب ما جاء فی ان کلمۃ الاخلاص تثقل الموازین، حدیث نمبر: 2639)
میزان کا قرآنی
بیان ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی زندگی آخرت کی تیاری کا نام ہے۔ ہمیں ہر لمحہ
اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کی کوشش کرنی
چاہیے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ قیامت کے دن ہر
چیز کا حساب لیا جائے گا اور کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ اس دن کی کامیابی انہی کے لیے ہے
جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا۔
یا اللہ! ہمیں
نیک اعمال کی توفیق عطا فرما اور قیامت کے دن ہمارے میزان کو نیکیوں سے بھاری کر
دے، اور ہمیں اپنے عدل کے دن رسوائی سے بچا کر کامیابی عطا فرما۔ آمین یا رب
العالمین
محمد عبد المبین عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فيضان امام گلستان کالونی ، فیصل آباد ،
پاکستان)
مرنے کے بعد
حساب ہوگا ، اس کیلئے میزان ہوگا اور یہ قیامت کے ہولناک مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ ہے کہ جب
لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا
جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے
گا لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے
کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری ہے۔
آئیے جانتے ہیں
کہ میزان کے متعلق قرآنی آیات میں کیا بیان
کیا گیا ہے ان میں سے چند ملاحظہ کیجئے۔
میزان کے متعلق عقیدہ : میزان (اعمال تولنے کی ترازو) حق ہے، یعنی دلائلِ
سمعیہ قطعیہ (قراٰن و سنّت) سے ثابت ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب ہے۔(المعتقد مع
المعتمد، ص333)
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالعرفان : ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے
تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(پ8،الاعراف:9)
اس آیت میں قیامت
کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا
ہے۔
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔
(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)
وزن اور میزان کا معنی: وزن
کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز
کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص868) اور جس آلے
کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل
الواو، 9 / 361)
میزان کیا ہے اور اس کے بارے اہلسنت والجماعت کا
عقیدہ ملاحظہ ہو : صحیح اور متواتر
احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے
اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ
اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے
کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے
جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر
جانتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان ، ج 03 ، ص 269)
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں : نیکیوں اور برائیوں
کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل
حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں
کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان
، 1 / 260، الحدیث: 282)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے ۔ (الانبیاء، آیت: 47)
ارشاد فرمایا
کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے
جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے
حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور
اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ
کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے
اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ:
47، 5/ 285-286، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: 47، ص273، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت
مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن’’ فتاوی رضویہ‘‘
شریف میں فرماتے ہیں : ’’وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اٹھے گا اور بدی کا پلّہ نیچے بیٹھے
گا، قال اللہ عزوجل : اِلَیْهِ یَصْعَدُ
الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ
کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ22، فاطر: 10 ’’
الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج 29 ، ص 626)
امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے
جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس
میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ،
اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اپنے
نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا
محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے
حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے
اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تَدارُک کرے اور
لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے
واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو
اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش
کرے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الخصماء ورد
الظلم، 5/ 281-282)
انسان جب اپنے
بارے میں غور وفکر کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا میری زندگی کا کوئی مقصد ہے اور میں
کسی کا جواب دہ ہوں؟ تو اس کا قرآنی جواب ہے ، جی ہاں! کیوں کہ وہ اللہ کا نائب ہے
اور آزمائش کےلئے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال کو کل قیامت
کے دن میزان عمل پر تولے گا، اور پورا پورا انصاف فرمائے گا۔پھر آزمائش میں کامیاب
ہونے والوں کو جزا اور ناکام ہونے والوں کو سزا ملے گی۔ میزان کا مطلب ہے ترازو،
لہذا مطلب ہوا کہ ایسا ترازو جس میں اعمال تولے جائیں گے۔ اس ترازو کے دو پلڑے اور
ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا ضروری ہے، بہرحال اس میزان کے پلڑوں کی کیفیت اور
وزن معلوم کرنے کا طریقہ اسے اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
قرآن پاک میں بارہا میزان عمل کا ذکر آیا ہے، ذیل میں چند
آیات قرآنیہ کا بیان ہے جس میں اللہ تعالٰی نے میزان الاعمال کا تذکرہ فرمایا ہے ۔
پہلی
آیت : اللہ تعالٰی قیامت کے دن انسان کے اعمال کو میزان
عمل میں تولے گا اور اس میں کامیاب وہی ہو گا جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو گا۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 8 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنز
العرفان:ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری
ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
قرآن پاک جیسی عظیم کتاب میں جب اللہ تعالٰی میزان عمل کو
حق کہے، تو ہمیں چاہیے کہ اس پر ایمان لا کر اپنے اعمال کی فکر کریں۔
دوسری
آیت: دنیا کی لذتیں فانی ہیں اور
سب کو میدان حشر میں اٹھایا جائے گا جہاں ہر کوئی اللہ کے جلال سے خود و خشیت میں مبتلا ہو گا۔ اور ہر کسی شخص کو اپنے انجام کی فکر ہو گی۔ تب اللہ
انسانوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ فرمائے گا۔ ایسا عدل کہ اللہ تعالیٰ سورۃ
الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء،
آیت: 47)
اس آیت میں
لفظ " قسط" آیا ہے اس کا معنی بھی انصاف ہے۔ اللہ تعالٰی کی عدالت میں
کوئی بھی عمل ضائع نہیں جائے گا۔ لہذا ہمیں کثرت سے نیک اعمال کرنے چاہیے اور
گناہوں سے بچنا چاہیے۔
تیسری
آیت: انسان ایک عرصہ تک دنیا
میں جیتا ہے اور معاملات سنبھالتا رہتا ہے۔ اس دوران جو شخص اپنی زندگی کو اللہ
تعالٰی کی رضا میں گزارتا ہے اسے قیامت میں کوئی تنگی و تکلیف نہیں ہو گی، البتہ
جو غفلت میں پڑا رہتا ہے اور ظلم و نا انصافی کرتا ہے اللہ کی ناراضی کی صورت
میں اسے سختیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ القارعۃ کی آیت
نمبر 6 سے 11 میں فرماتا ہے:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷)
وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ
اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال
جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ
کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
میزانِ عمل کا
عقیدہ ہمیں زندگی میں سنجیدگی، دیانتداری اور پرہیزگاری کا درس دیتا ہے۔ ہمیں اپنے
وقت، زبان، مال، دل اور نیتوں کا حساب رکھنا چاہیے، کیونکہ میزان پر سب کچھ تولا
جانا ہے۔ کامیاب وہی ہو گا جو نیکیوں کا بوجھ لے کر وہاں پہنچے گا۔
عبدالرحمن عطاری مدنی ( :تخصص فی اللغۃ العربیۃ، جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کاہنہ نو لاہور ،پاکستان)
موت کے بعد انسان کی ابدی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ وہاں نہ رشتہ داری کام آتی
ہے، نہ دولت، نہ عہدہ بلکہ صرف اعمال۔ قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں بار بار آخرت کے دن کا
ذکر آیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ عدل و انصاف سے فیصلہ فرمائے گا۔اس دن انسان کے اعمال
کو ایک ترازو (میزان) میں تولا جائے گا اور اسی کے مطابق جنت یا جہنم کا فیصلہ
ہوگا۔ یہ مضمون میزان کے بارے میں قرآن
مجید کے ارشادات کو آسان اور عام فہم
انداز میں بیان کرتا ہے۔
وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور
عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ اور جس آلے کے
ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تفسیر الصراط الجنان ج:3،ص:269)
قرآن مجید نے متعدد مقامات پر میزان کا ذکر کیا ہے۔ آئیے
چند آیات کو ترجمہ اور مختصر وضاحت کے ساتھ دیکھتے ہیں:
وزن
کا بھر جانایا کم ہونا: ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں
بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)
تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ "جنّت میں مومن کی نیکیاں اچھی
صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی تو اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے جنّت
ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور تول
ہلکی پڑے گی کیونکہ کفّار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنّم
میں داخل کیا جائے گا" ۔(تفسیر خزائن العرفان،سورۃ القاریۃ :7)
(1) عدل کے ترازو: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
(2) میزان اور انصاف کا وعدہ:
ارشاد باری
تعالیٰ ہے:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ
ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن
نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7، 8)
(3) میزان اور اعمال کی حقیقت: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَوْمَىٕذٍ یَّصْدُرُ
النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّیُرَوْا
اَعْمَالَهُمْؕ(۶) فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ
مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸) ترجمہ کنزالایمان: اس دن لوگ اپنے رب کی طرف پھریں
گے کئی راہ ہو کر تاکہ اپنا کیا دکھائے جائیں تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے
اسے دیکھے گا۔ (الزلزال:6تا 8)
تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ
"حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ ہر مومن و کافر کو روزِ
قیامت اس کے نیک و بداعمال دکھائے جائیں گے مومن کو اس کی نیکیاں اور بدیاں دکھا
کر اللہ تعالٰی بدیاں بخش دے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا فرمائے گا اورکافر کی
نیکیاں رد کردی جائیں گی کیونکہ کفر کے سبب اکارت ہوچکیں اور بدیوں پر اس کو عذاب
کیا جائے گا ۔ محمّد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ کافر نے ذرّہ بھر نیکی کی ہوگی تووہ
اس کی جزا دنیا ہی میں دیکھ لے گا یہاں تک کہ جب دنیا سے نکلے گا تو اس کے پاس
کوئی نیکی نہ ہوگی اور مومن اپنی بدیوں کی سز ا دنیا میں پائے گا تو آخرت میں اس
کے ساتھ کوئی بدی نہ ہوگی ۔ اس آیت میں ترغیب ہے کہ نیکی تھوڑی سی بھی کارآمد ہے
اور ترہیب ہے کہ گناہ چھوٹا سا بھی وبال ہے ۔ بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ پہلی
آیت مومنین کے حق میں ہے اور پچھلی کفّار کے "۔(تفسیر خزائن العرفان،سورۃ الزلزال
:8)
"میزان" کا قرآنی تصور نہایت اہم، باوزن اور سبق آموز
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں عدل کا پیمانہ مقرر فرمایا ہے جس سے ہر چھوٹے بڑے عمل
کو تولا جائے گا۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی نیت کو درست رکھیں، اخلاص سے
نیک اعمال کریں اور گناہوں سے بچیں۔ کیونکہ آخرت کا ترازو صرف ظاہر نہیں بلکہ باطن
کو بھی تولے گا اور وہاں کوئی سفارش، تعلق یا فریب کام نہیں آئے گا۔اللہ
ہمیں آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
محمد عدنان عطاری( درجہ سابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی ،پاکستان)
اللہ پاک نے
انسان کو ایک مقصد کے لیے پیدا فرمایا جو اس نے دنیا میں پورا کرنا ہے پھر
آخرت میں اپنا مقصد پورا کرنے والوں کو انعام اور مقصد بھول جانے والوں کو سزا کے
لیے کئی طرح سے جدا کیا جائے گا جیسے سوالات ِ قبر ، پل صراط وغیرہ ، انہیں میں سے ایک منزل میزان بھی ہے جہاں پر
اعمال کا وزن ہو گا۔
میزان
کے متعلق عقیدہ : میزان برحق یعنی
ثابت ہے اس پر دلائل سمعیہ قطعیہ نے دلالت کی اسکی تصدیق واجب ہے۔ (المعتقد المعتقد مترجم ص241 الغنی)
میزان
کا ثبوت اور معنیٰ : قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور
ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر
کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔
(پ17، الانبیاء:47)
تفسیر مدارک میں
ہے : الموازین میزان کی جمع ہے اور یہ اس
آلہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے چیزوں کا وزن کیا جاتا ہے اور الموازین کو آیت میں جمع صرف تعظیم شان کے
لیے لایا گیا ہے ۔(تفسیر مدارک جلد 2 ص 407 دار ابن کثیر)
میزان
کیسا ہوگا : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ
ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
علامہ سیوطی
رحمۃ الله علیہ تفسیر در منثور میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ نے ترازو کے دو پلڑوں کو زمین اور آسمانوں جیسا تخلیق
فرمایا ۔ (تفسیر در منثور مترجم جلد 3 ص 225)
اور علامہ علی
قاری اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں : جمہور مفسرین کے نزدیک اعمال کے صحیفوں کو میزان
میں تولا جائے گا جس کا ایک کانٹا ہوگا (اسے عربی میں لسان المیزان کہتے ہیں جس سے
وزن کی شناخت ہوتی ہے) اور دو پلڑے ہوں گے مخلوق اسے دیکھ رہی ہوگی ۔ (تفسیر انوار القرآن و اسرار الفرقان جلد 2
ص105 دار الکتب العلمیہ)
وزن
کی کیفیت : میزان میں اعمال کے صحیفوں
کو تولا جائے گا جیسا کہ علامہ علی قاری کا قول گزرا ، پھر انکا وزن کیا جائے گا
تو جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا وہ کامیاب ہوگیا اور جس کا گناہوں والا پلڑا
بھاری ہوگا تو وہ عذاب کا حقدار ہوگا ، جیسا
کہ قرآن کریم میں ارشاد رب تعالیٰ ہے
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ
تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں
ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 11)
پیارے اسلامی
بھائیو ! آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے جہاں صرف ایک عمل کی وجہ سے انسان جنت میں بھی
جا سکتا ہے اور جہنم میں بھی جیسا کہ تفسیر
در منثور میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کا
حساب لیا جائے گا تو جس کی ایک نیکی بھی اس کی برائیوں کی نسبت زیادہ ہوگی
تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس کے گناہوں میں سے ایک بھی ، نیکیوں کی نسبت زیادہ
ہو گا وہ جہنم میں داخل ہو گا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ۔۔۔۔۔۔۔ الآیتین ۔ (تفسیر در منثور مترجم جلد 3
ص 224 تحت الآیۃ والوزن یومئذ۔۔۔ الخ)
لہذا کسی بھی
نیکی کو حقیر مت سمجھیں اور نہ کسی گناہ کو ہلکا جانیں کیا خبر اسی نیکی کے
سبب ہمیشہ کی سعادت حاصل ہو جائے یا اس
گناہ کی وجہ سے سخت عذاب! اور میزان میں اعمال کے بھاری اور ہلکا ہونے کا معاملہ یہاں
کے خلاف ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا
خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : ’’وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف
ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اٹھے گا اور بدی کا
پلّہ نیچے بیٹھے گا، قال اللہ
عزوجل :
اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ
یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ
کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند
کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10۔
الفتاوی الرضویۃ ، ج 29 ص 626)
یہ میزان کا
مختصر قرآنی بیان پیش کیا گیا ، ہمیں چاہیے کہ آخرت کے تمام مراحل کا علم
حاصل کریں جیسے دنیا میں ہمیں کہیں جانا ہو تو اسکی معلومات پہلے سے کرلیتے ہیں تو
آخرت جو ہر انسان پر آنی ہے اسکی معلومات حاصل کرنی چاہئے اور آخرت کی تیاری بھی ۔
انسان اس دنیا
میں آیا تو خالی ہاتھ تھا، مگر واپس جائے گا اپنے اعمال کے وزن کے ساتھ۔ دنیا میں انصاف کا ترازو بظاہر صرف بازار تک محدود نظر
آتا ہے، مگر قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اصل میزان تو قیامت کے دن قائم ہوگی۔ آج ہم
دوسروں کا حق مار کر خوش ہو جاتے ہیں، مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ایک ایک عمل
تولا جائے گا۔ قرآن کی مثالیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انصاف
زندگی کی بنیاد ہے، چاہے باتوں کا ہو یا تولنے کا۔ آئیے قرآن کی
میزان کے متعلق دی گئی مثالوں سے سبق
سیکھیں تاکہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ
فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
وزن
اور میزان کا معنی:وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)
میزان
کیا ہے:میزان حق ہے یہ ایک ترازو
ہوگی اس کے دو پلے ہوں گے اِس پر لوگوں کے اچھے برے عمل تولے جائیں گے نیکی کے پلہ
کے بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اُوپر اُٹھے بخلاف دنیا کی ترازو کے۔ ( قانون
شریعت ص 15)
میزان سے متعلق دو اہم باتیں : یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں
:
(1) صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی
نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان کو
اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف
قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے
کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا
مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے
بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
میزان کے خطرے سے نجات پانے والا شخص: قیامت کے ہولناک مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ
وہ ہے جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی
کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا جائے
گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے گا
لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری
ہے۔
ترمذی شریف میں
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاسے
روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے
آپ کے سامنے بیٹھ کر عرض کی : یا رسولَ اللہ ! ﷺ ،
میرے کچھ غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ، میرے ساتھ خیانت
کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، میں انہیں گالیاں
دیتا اور مارتا ہوں ، تو ان سے متعلق میرا کیا حال ہو گا؟ حضور اقدسﷺنے
ارشاد فرمایا ’’( جب قیامت کا دن ہو گا تو) ان لوگوں نے جوتمہاری خیانت
کی ، تمہاری نافرمانی کی اور تم سے جھوٹ بولا اور جوتم نے انہیں سزا
دی ، ان سب کا حساب لگایا جائے گا ، پھر اگر تیری سزا ان کے جرموں کے
برابر ہو گی تو حساب بے باق ہے ، نہ تیرا ان کے ذمہ نہ ان کا تیرے ذمہ کچھ ہو
گا اور اگر تیرا انہیں سزا دینا ان کے قصوروں سے کم ہوگا تو تجھے
ان پر بزرگی حاصل ہوگی اور اگر تیرا انہیں سزا دینا ان کے قصور سے زیادہ ہوا
تو زیادتی کا تجھ سے بدلہ لیا جائے گا۔ وہ شخص ایک طرف ہوگیا اور چیخیں مار کررونے
لگا ، نبی کریم ﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے اللہ تعالیٰ
کا یہ فرمان نہیں پڑھا؟
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگا ۔ (الانبیاء، آیت: 47)
اس شخص نے عرض
کی :میں اپنے اوران غلاموں کے لیے ان کی جدائی سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا
، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ سارے آزاد ہیں ۔( ترمذی ،
کتاب التفسیر ، باب ومن سورۃ الانبیاء علیہم السلام ، ۵ /
۱۱۱ ، الحدیث: ۳۱۷۶)
Dawateislami