انسان کا دنیا
میں قیام عارضی اور فانی ہے کیونکہ دنیا دارالعمل ہے دنیا میں جو بھی کام کیے بروز
محشر ان کا وزن اور حساب ہوگا اور اسی اعتبار سے سزا و جزا کا معاملہ ہوگا
اور ذرہ برابر بھی کوئی نیکی یا بدی کی
ہوگی بروز محشر سامنے آئے گی جیسا کہ قرآن
مجید میں رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ
خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸)
ترجمہ کنز
العرفان: توجو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے
وہ اسے دیکھے گا۔اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔ ( الزلزال : 7 تا 8)
انسان کی نیکیوں
اور بدیوں کا بروز محشر وزن ہو گا اور اس کے لیے ترازو قائم کیا جائے گا ۔
میزان
کا مفہوم: میزان سے مراد وہ ہے جس
سے کسی چیز کا وزن کیا جائے اور اس کی مقدار کی معرفت حاصل کی جائے۔(تفسیر مدارک
سورہ انبیاء آیت نمبر 47 تحت آلایۃ )
عرف عام میں
ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ وزن کیا جائے
اسے میزان کہتے ہیں ۔
میزان
حق ہے: قرآن مجید میں بھی اس کا تذکرہ کئی مقامات پر بیان کیا گیا
ہے ، اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں وزن سے میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا مراد ہے۔ (خازن،
الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)
اعمال
کے وزن کی صورتیں:
1۔ وہ صحیفے
جن میں اعمال تحریر ہوں گے وہ میزان میں رکھے جائیں گے ان کا وزن ہو گا
2۔اعمال ناموں
کے لیے ایک صورت پیدا کر دی جائے گی اور اس کو میزان میں رکھا جائے گا ۔
3۔ بعض علما
فرماتے ہیں اللہ پاک نے اعمال کے وزن کا ذکر فرمایا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور
اس کی کیفیت و صورت کو نہیں جانتے۔( تفسیر سمرقندی ج 1 ص 571 اعراف آیت 8 مکتبہ حقانیہ ملتان)
ظلم
نہ کیا جائے گا: اور حساب و کتاب
اور وزن کا معاملہ قیامت کے دن کے ہوشربا مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ
ہو گا ، نیکیوں اور برائیوں کے معاملے میں
ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ قرآن مجید نے اس کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء،
آیت: 47)
اس آیت کریمہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت
کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے
اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے
معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال
میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی
ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز
کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں۔
حضرت داؤد علیہ
السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی کہ وہ
انہیں میزان (قیامت کے دن نیکیوں اور بدیوں کو تولنے والا ترازو) دکھائے۔ تو اللہ
تعالیٰ نے انہیں دکھایا اور اس کی ہر پلڑا (کِفَّہ) مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا، یہ منظر دیکھ کر حضرت داؤد علیہ السلام پر غشی
(بیہوشی) طاری ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو عرض کیا:اے میرے پروردگار! کون ہے جو اس
ترازو کی ایک پلڑے کو نیکیوں سے بھر سکے؟
اللہ تعالیٰ
نے فرمایا:اے داؤد! جب میں اپنے بندے سے راضی ہو جاتا ہوں تو ایک کھجور (جیسی
معمولی نیکی) سے بھی وہ پلڑی بھر دیتا ہوں۔"(تفسیر روح البیان ج 5 ص 580 تحت
آلایۃ)
لوگوں
کے حالات: میزان عمل پر لوگوں کے
حالات مختلف ہوں گے، کچھ لوگ ایسے ہوں گے
کہ جن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا اور ان کو جنت میں جانے کی خوشخبری سنائی جائے
گی اور کچھ افراد ایسے ہوں گے جن کی نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور ان کو ھاویۃ یعنی
اگ میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ قرآن مجید
فرقان حمید میں بھی اس کا تذکرہ ہے
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱)
ترجمہ کنز
العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو
اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ
ہے۔ (پ30، القارعہ: 6تا 11)
اس آیت کریمہ
کی تفسیر میں مفتی اہلسنت مفتی قاسم عطاری مدنی دام ظلہ العالی رقمطراز ہیں :ان آیات
کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو
بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ
ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا
اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے
پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا
معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔(تفسیر صراط الجنان
ج 10 ص 805)
لہذا معلوم
ہوا کہ ہمیں ایسے اعمال بجا لانے ہیں جو میزان میں نیکیوں کے پلڑے کو وزنی کردیں
اور یوں رحمت خداوندی سے جنت کا داخلہ نصیب ہو جائے ۔
میزان
عمل کو بھرنے والے اعمال: اب کچھ ایسے اعمال ذکر کیے جاتے ہیں جو میزان
عمل کو بھر دیں گے اور بندے کی نجات اُخروی کا ذریعہ بن جائیں گے :
(1) بخاری
شریف میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: دو کلمے زبان پر ہلکے ہیں
ترازو میں بھاری رحمن کو پیارے ہیں ، سبحان
اﷲ و بحمدہ سبحان الله العظیم۔(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبیح ص 1230 حدیث 6405)
(3) ترمذی شریف میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تسبیح میزان کا نصف ہے اور الحمد للہ اس کو بھر
دیتا ہے۔ (جامع الترمذی کتاب الدعوات حدیث 3518 ص 554 )
اللہ پاک ہم
سب پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل جنت میں داخلہ نصیب فرمائے اور خوب نیک
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
Dawateislami