انسان جب اپنے بارے میں غور وفکر کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا میری زندگی کا کوئی مقصد ہے اور میں کسی کا جواب دہ ہوں؟ تو اس کا قرآنی جواب ہے ، جی ہاں! کیوں کہ وہ اللہ کا نائب ہے اور آزمائش کےلئے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال کو کل قیامت کے دن میزان عمل پر تولے گا، اور پورا پورا انصاف فرمائے گا۔پھر آزمائش میں کامیاب ہونے والوں کو جزا اور ناکام ہونے والوں کو سزا ملے گی۔ میزان کا مطلب ہے ترازو، لہذا مطلب ہوا کہ ایسا ترازو جس میں اعمال تولے جائیں گے۔ اس ترازو کے دو پلڑے اور ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا ضروری ہے، بہرحال اس میزان کے پلڑوں کی کیفیت اور وزن معلوم کرنے کا طریقہ اسے اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔

قرآن پاک میں بارہا میزان عمل کا ذکر آیا ہے، ذیل میں چند آیات قرآنیہ کا بیان ہے جس میں اللہ تعالٰی نے میزان الاعمال کا تذکرہ فرمایا ہے ۔

پہلی آیت : اللہ تعالٰی قیامت کے دن انسان کے اعمال کو میزان عمل میں تولے گا اور اس میں کامیاب وہی ہو گا جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 8 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنز العرفان:ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)

قرآن پاک جیسی عظیم کتاب میں جب اللہ تعالٰی میزان عمل کو حق کہے، تو ہمیں چاہیے کہ اس پر ایمان لا کر اپنے اعمال کی فکر کریں۔

دوسری آیت: دنیا کی لذتیں فانی ہیں اور سب کو میدان حشر میں اٹھایا جائے گا جہاں ہر کوئی اللہ کے جلال سے خود و خشیت میں مبتلا ہو گا۔ اور ہر کسی شخص کو اپنے انجام کی فکر ہو گی۔ تب اللہ انسانوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ فرمائے گا۔ ایسا عدل کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

اس آیت میں لفظ " قسط" آیا ہے اس کا معنی بھی انصاف ہے۔ اللہ تعالٰی کی عدالت میں کوئی بھی عمل ضائع نہیں جائے گا۔ لہذا ہمیں کثرت سے نیک اعمال کرنے چاہیے اور گناہوں سے بچنا چاہیے۔

تیسری آیت: انسان ایک عرصہ تک دنیا میں جیتا ہے اور معاملات سنبھالتا رہتا ہے۔ اس دوران جو شخص اپنی زندگی کو اللہ تعالٰی کی رضا میں گزارتا ہے اسے قیامت میں کوئی تنگی و تکلیف نہیں ہو گی، البتہ جو غفلت میں پڑا رہتا ہے اور ظلم و نا انصافی کرتا ہے اللہ کی ناراضی کی صورت میں اسے سختیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ القارعۃ کی آیت نمبر 6 سے 11 میں فرماتا ہے:

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)

میزانِ عمل کا عقیدہ ہمیں زندگی میں سنجیدگی، دیانتداری اور پرہیزگاری کا درس دیتا ہے۔ ہمیں اپنے وقت، زبان، مال، دل اور نیتوں کا حساب رکھنا چاہیے، کیونکہ میزان پر سب کچھ تولا جانا ہے۔ کامیاب وہی ہو گا جو نیکیوں کا بوجھ لے کر وہاں پہنچے گا۔