محمد عدنان عطاری( درجہ سابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی ،پاکستان)
اللہ پاک نے
انسان کو ایک مقصد کے لیے پیدا فرمایا جو اس نے دنیا میں پورا کرنا ہے پھر
آخرت میں اپنا مقصد پورا کرنے والوں کو انعام اور مقصد بھول جانے والوں کو سزا کے
لیے کئی طرح سے جدا کیا جائے گا جیسے سوالات ِ قبر ، پل صراط وغیرہ ، انہیں میں سے ایک منزل میزان بھی ہے جہاں پر
اعمال کا وزن ہو گا۔
میزان
کے متعلق عقیدہ : میزان برحق یعنی
ثابت ہے اس پر دلائل سمعیہ قطعیہ نے دلالت کی اسکی تصدیق واجب ہے۔ (المعتقد المعتقد مترجم ص241 الغنی)
میزان
کا ثبوت اور معنیٰ : قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور
ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر
کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔
(پ17، الانبیاء:47)
تفسیر مدارک میں
ہے : الموازین میزان کی جمع ہے اور یہ اس
آلہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے چیزوں کا وزن کیا جاتا ہے اور الموازین کو آیت میں جمع صرف تعظیم شان کے
لیے لایا گیا ہے ۔(تفسیر مدارک جلد 2 ص 407 دار ابن کثیر)
میزان
کیسا ہوگا : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ
ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
علامہ سیوطی
رحمۃ الله علیہ تفسیر در منثور میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ نے ترازو کے دو پلڑوں کو زمین اور آسمانوں جیسا تخلیق
فرمایا ۔ (تفسیر در منثور مترجم جلد 3 ص 225)
اور علامہ علی
قاری اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں : جمہور مفسرین کے نزدیک اعمال کے صحیفوں کو میزان
میں تولا جائے گا جس کا ایک کانٹا ہوگا (اسے عربی میں لسان المیزان کہتے ہیں جس سے
وزن کی شناخت ہوتی ہے) اور دو پلڑے ہوں گے مخلوق اسے دیکھ رہی ہوگی ۔ (تفسیر انوار القرآن و اسرار الفرقان جلد 2
ص105 دار الکتب العلمیہ)
وزن
کی کیفیت : میزان میں اعمال کے صحیفوں
کو تولا جائے گا جیسا کہ علامہ علی قاری کا قول گزرا ، پھر انکا وزن کیا جائے گا
تو جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا وہ کامیاب ہوگیا اور جس کا گناہوں والا پلڑا
بھاری ہوگا تو وہ عذاب کا حقدار ہوگا ، جیسا
کہ قرآن کریم میں ارشاد رب تعالیٰ ہے
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ
تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں
ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 11)
پیارے اسلامی
بھائیو ! آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے جہاں صرف ایک عمل کی وجہ سے انسان جنت میں بھی
جا سکتا ہے اور جہنم میں بھی جیسا کہ تفسیر
در منثور میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کا
حساب لیا جائے گا تو جس کی ایک نیکی بھی اس کی برائیوں کی نسبت زیادہ ہوگی
تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس کے گناہوں میں سے ایک بھی ، نیکیوں کی نسبت زیادہ
ہو گا وہ جہنم میں داخل ہو گا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ۔۔۔۔۔۔۔ الآیتین ۔ (تفسیر در منثور مترجم جلد 3
ص 224 تحت الآیۃ والوزن یومئذ۔۔۔ الخ)
لہذا کسی بھی
نیکی کو حقیر مت سمجھیں اور نہ کسی گناہ کو ہلکا جانیں کیا خبر اسی نیکی کے
سبب ہمیشہ کی سعادت حاصل ہو جائے یا اس
گناہ کی وجہ سے سخت عذاب! اور میزان میں اعمال کے بھاری اور ہلکا ہونے کا معاملہ یہاں
کے خلاف ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا
خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : ’’وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف
ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اٹھے گا اور بدی کا
پلّہ نیچے بیٹھے گا، قال اللہ
عزوجل :
اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ
یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ
کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند
کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10۔
الفتاوی الرضویۃ ، ج 29 ص 626)
یہ میزان کا
مختصر قرآنی بیان پیش کیا گیا ، ہمیں چاہیے کہ آخرت کے تمام مراحل کا علم
حاصل کریں جیسے دنیا میں ہمیں کہیں جانا ہو تو اسکی معلومات پہلے سے کرلیتے ہیں تو
آخرت جو ہر انسان پر آنی ہے اسکی معلومات حاصل کرنی چاہئے اور آخرت کی تیاری بھی ۔
Dawateislami