اللہ تعالی نے  ہمیں اپنی عبادت کرنے کے لئے پیدا فرمایا اگر ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اوراس کے پیارے نبی ﷺکی سنتوں پر عمل کریں گے تو ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی اگر نافرمانی کی تو برے اعمال لکھ دئیے جائیں گے بروز قیامت ان کا وزن ہو گا اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہوا تو جنت اگر برائیوں کا وزنی ہوا تو دوزخ ملے گی لہذا میزان (نامہ اعمال کا وزن ) حق ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف :8)

میزان (نامہ اعمال کا وزن)کی تفسیر میں دو قول ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کے اللہ تعالیٰ میزان کو قیامت کے دن قائم فرمائے گا اس کے دو پلڑے ہوں گے اور اس میں بندوں کے اچھے برے اعمال کا وزن ہوگا ، حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا مومن کو اس کا عمل اچھی صورت میں دیا جائے گا تو تب مومن کے عمل کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیاں برائیوں پر بھاری ہو جائیں گی ۔دلائل سمعیہ و قطعیہ سے ثابت ہے کے میزان حق ہے نیز اس پر ایمان لانابھی واجب ہے(المعتقد المنتقد،333،ط الغنی پبلیشر)

نیز قرآن پاک میں ارشاد ہے:

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے فرمایا وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہو گا وہاں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا تو اوپر اٹھے گا اگر بدی کا بھاری ہوگا تونیچے کی طرف ہو گا ۔ ( فتاوی رضویہ، ج 29،ص 626 ، ط رضا فاونڈیشن) قرآن پاک میں ارشاد ہے کے

اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)

مزید قرآن پاک میں ارشاد ہے

فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)

اس آیت میں وزن قائم نہ کرنے کا مطلب قیامت میں ان کے ظاہری اعمال کی قدر وقیمت نہ ہو گی اور کفار کے اعمال کا کوئی وزن نہ ہو گا ان کفار کے ظاہری نیک اعمال کا وزن جب ان کے کفر و معصیت کے ساتھ ہو گا تو ان نیکیوں کا کوئی وزن نہ ہو گا اس وجہ سے کہ نیکیوں کا دارو مدار ایمان و اخلاص پر ہے یہ کفار ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو اس وجہ سے ان کے اعمال کا وزن نہ ہو گا ( تفسیر صراط الجنان ، ج6،الکہف ، آیت 105، ص44، ط المدینۃ العلمیۃ )

وزن اور میزان کا معنی:   وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)

قرآن مجید میں میزان کا لفظ کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد ایک ایسا پیمانہ یا عدل و انصاف کا نظام ہے جس کے ذریعے قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ میزان کا تصور صرف ایک مادی ترازو تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد عدل و انصاف کا وہ نظام بھی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال کا وزن کرے گا۔ قرآن مجید میں میزان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ (الانبیاء، آیت: 47)

اسی طرح ارشاد فرمایا: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔(سورۃ الاعراف، آیت 8)

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔ (مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷، الحدیث: ۸۷۷۸)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۶۰، الحدیث: ۲۸۱)

اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو۔۔( الرحمن، آیت: 7، 8)

اللہ تعالیٰ نے آسمان کو محل اور رتبے کے اعتبار سے بلند پیدا فرمایا ہے۔ محل کے اعتبار سے بلندی تو ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے اونچا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے آسمان کی بلندی یہ ہے کہ وہ فرشتوں کا مَسکن ہے اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کے اَحکام صادر ہوتے ہیں ۔ (ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۶۶۱ ، ملخصاً)

ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۲۰۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۹۲، ملتقطاً)

حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’اے انسان !تو دوسروں کے ساتھ اسی طرح انصاف کر جس طرح تجھے پسند ہے کہ تیرے ساتھ انصاف کیا جائے اور تو دوسروں کو اسی طرح پورا پورا ناپ تول کر دے جیسے تجھے پورا پورا ناپ تول کر لینا پسند ہے کیونکہ عدل و انصاف ہی سے لوگوں کے حالات درست رہ سکتے ہیں ۔( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۵۷۶)

قرآن کریم  میں اللہ تبارک و تعالی نے ہر چیز کا بیان بڑے احسن انداز سے فرمایا انسانی تخلیق سے لے کر اس کے اختتام تک نصیحت اور دیگر معاملات قرآن کریم میں موتیوں کی طرح سمو دیے گئے آج ہم قرآن کریم میں جن جن مقامات پر میزان کے بارے میں ذکر موجود ہے ان کو تحریر کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔

قرآن میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اگلی آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن سورت اعراف)

اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ الْمِیْزَانَؕ- وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ(۱۷) ترجمہ کنزالعرفان: اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب کو اتارا اور میزان کو اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔(پ25، الشوری :17)

وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف: 09)

تفسیر صراط الجنان: جن کے نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور ان میں کوئی نیکی نہ ہو گی تو یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا۔ بعض علماء کے نزدیک قیامت کے دن صرف مسلمانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور کافروں کے اعمال کا وزن نہ ہو گا لیکن اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں کو اللہ تعالیٰ جلد دوزخ میں ڈالناچاہے گا انہیں اعمال کے وزن کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا اور بقیہ کافروں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اسی طرح بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں داخل کر دے گا۔

وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف: 09)

تفسیر صراط الجنان: ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو۔ (الرحمٰن: 7، 8)

تفسیر صراط الجنان: اللہ تعالیٰ نے آسمان کو محل اور رتبے کے اعتبار سے بلند پیدا فرمایا ہے۔ محل کے اعتبار سے بلندی تو ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے اونچا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے آسمان کی بلندی یہ ہے کہ وہ فرشتوں کا مَسکن ہے اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کے اَحکام صادر ہوتے ہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان قرآنی آیات میں غور و فکر کرنے اور اپنی اخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)


یہ دنیا ایک عارضی مقام ہے، جہاں انسان کی   آخرت کے لیے تیاری کا موقع دیا گیا ہے۔ مرنے کے بعد ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا ، میدان محشر میں اعمال کا حساب کے لیے ترازو لایا جائے گا جس میں تمام لوگوں کے اعمال کو تولا جائے گا۔ جس کی نیکیاں زیادہ ہو گئی کامیاب ہوگا۔

میزان کیا ہے؟ عربی زبان میں ’’میزان‘‘ اس آلے کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے وزن کیا جاتا ہے۔ (لسان العرب، جز:2، ج2، ص4276)

قیامت کے دن بھی اعمال کو ایک خاص ترازو میں تولا جائے گا، جس کی نوعیت دنیا کے ترازو سے مختلف مگر حقیقی ہوگی۔ قرآنِ کریم میں فرمایا:

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)

ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن نیکیوں اور بدیوں کا وزن کیا جائے گا۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے مراد میزان کے ذریعے اعمال کا حقیقی وزن ہے۔ (خازن، الاعراف، 2/78)

میزان کے متعلق عقیدہ: اہل سنت و جماعت کے نزدیک میزان حق ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: میزان حق ہے۔ اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے ( بہار شریعت،ج1،حصہ اول، ص 48،عقیدہ نمبر 9)

قیامت کے دن میزان کا قائم ہونا قرآن سے ثابت ہے:

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)

ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

جن لوگوں کی بدیاں زیادہ ہوں گی وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:

وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:9)

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ (پ30، القارعہ: 6-9)

کافروں کی نیکیوں کا وزن بروز قیامت تولہ جائے گا یا نہیں تولا جائے گا اس کے متعلق قرآن پاک میں ہے: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: وزن قائم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کے ظاہری نیک اعمال کی کوئی قدر وقیمت ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔ (پ19، الفرقان: 23)

اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک بہت ہی موٹے تازے آدمی کو جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا تو ( اتنا بھاری بھر کم ہونے کے باوجود) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہو گا اور فرمایا کہ یہ آیت پڑھ لو

فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)

( بخاری، کتاب التفسیر، باب اولئک الذین کفروا بآیات ربّہم ولقائہ فحبطت اعمالہم، ۳ / ۲۷۰، الحدیث: ۴۷۲۹)

پس ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور اپنے میزان کو بھرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرے تو چاہیے کہ اورادوظائف اور عبادات میں کثرت کریں اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸) ترجمہ کنزالایمان: تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔ (الزلزال: 7، 8)

چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔ فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو حق کی پیروی کرے گا تو اسکی نیکیوں کا ترازو بھاری ہوگا تواس کا ٹھکانہ جنت ہوگی اور جو باطل کی پیروی کرے گا تو اس کی برائیوں کا ترازو بھاری ہوگا تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔

وزن کے بارےمیں ایک قول ہے کہ قیامت کےدن مؤمنوں کےاعمال اچھی صورت میں لا کر میزان پر رکھے جائیں گے اگر نیکیوں کا وزن زیادہ ہوگا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور اگر برائیوں کا وزن زیادہ ہوگا تو وہ جہنم میں جائے گا یا اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے بخش دے گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مؤمنوں کےاعمال تولےجائیں گے جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اور جس کی گناہ زیادہ ہوں گے انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا جبکہ کافروں کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائےگا جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:

فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105) ( مدارک، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۶-۱۰، ص۱۳۷۰)

اور قیامت کے دن میزان کا قائم ہونا اور اعمال کا وزن کرنا حق ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:8، 9) 

میزان کیا ہے: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفرادات امام راغب،کتاب الواو،ص 868) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔(تاج العروس، باب نون، فصل الواو ص 9/361)

میزان کس طرح کا ہے: اس میزان کے دو پلڑے ہیں ، عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا نورانی ہے جبکہ دوسرا سیاہ پلڑا عرش کی الٹی جانب ہے۔ (الدرۃ الفاخرۃ فی کشف علوم الآخرۃ ص 62) نورانی پلڑا نیکیوں کے لیے جبکہ سیاہ پلڑا گناہوں کے لیے ہوگا۔ (التذكرة للقرطبی ص 302) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میزان کا ایک پلڑا جنت پر اور دوسرا دوزخ پر ہوگا۔ (تفسیر کبیر،الاعراف تحت الآیۃ: 5،8/202) فتاوی رضویہ میں ہے وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ اگر بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا اور برائیوں کا پلہ نیچے بیٹھے گا جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:

اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)

جس کتاب میں لکھا ہے کہ نیکیوں کا پلہ نیچے ہوگا وہ غلط ہے۔( فتاوی رضویہ 29/626 )

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، 1 / 240، الحدیث: 281)

اعمال کا وزن کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی ،اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گااورایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوئیں وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں پر غالب ہوئے تو وہ جہنم میں داخل ہو گا اور اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا ۔ یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے اسے معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا جبکہ کفار کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)

(خازن، القارعۃ، تحت الآیۃ: 4-10، 4 / 403، مدارک، القارعۃ، تحت الآیۃ: 6-10، ص1370، ملتقطاً)

اہل سنت والجماعت کا نظریہ میزان کے حوالے سے: اہل سنت والجماعت کے عقائد و نظریات میں سے ہے کہ میزان برحق ہے قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کا حساب لے گا اور ان کے اعمال کو میزان پر تولے گا۔ علامہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمہ اپنی کتاب المعتقد المنتقد کہ صفحہ نمبر 302 میں فرماتے ہیں: حساب و کتاب کی طرح بروز قیامت میزان حق ہے یعنی دلائل سمعیہ قطعیہ (قرآن و سنت) سے ثابت ہے اس پر بھی ایمان لانا واجب ہے، بعض معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں ۔

امام اعظم نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الفقہ الاکبر کے صفحہ نمبر 171 پہ لکھا ہے : "کہ اعمال کا میزان پر وزن کرنا قیامت کے دن یہ حق ہے"۔

قرآن پاک سے میزان کے قائم ہونے کے دلائل: اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں بعض جگہوں پر میزان کے قائم ہونے کا ذکر کیا ہے۔

(1) پارہ08 سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 08 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2/ 78)

(2) پارہ 17 سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

(3) پارہ 30 سورۃ القاریہ کی ایت نمبر 06 تا 11 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)

ان آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تبارک و تعالی قیامت کے دن اپنے بندوں کا حساب و کتاب لے گا اور ان کے نیک و بد اعمال کو میزان پر تولے گا تو جس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ نجات پائے گا اور جس کے برے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ عذاب میں گرفتار ہوگا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک بلا حساب و کتاب ہی ہمیں جنت الفردوس میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پڑوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وصحبہ وبارک وسلم ۔

یوں تو ہر شے کا اپنا مقام ہے لیکن معاملات کو درست رکھنے کے لیے ان کی جانچ اور ناپ تول کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ معاملات بے ترتیب ہو سکتے ہیں۔ اس کی بہت ساری صورتیں ہوتی ہیں کبھی لکھ کر، کبھی ناپ تول کر کے اور کبھی حلقے کی صورت میں بیٹھ کر معاملات ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ ناپ تول کی بات چلی ہے تو یہ سمجھ لیں کہ دنیا میں عدل و انصاف کے لیے اشیاء کی خرید و فروخت ، وقت اور قیمت کے مطابق   ناپ تول کی جاتی ہے، اور یہ معاملات کو درست رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق فرمائی تو اسے اچھائی اور برائی کرنے کی صلاحیت بھی دی اور اس کے مرنے کے بعد آخرت میں اس کے ٹھکانے کے لیے جنت اور دوزخ بنائی۔ پھر کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں اس کے لیے اللہ تعالی نے عدل و انصاف کرتے ہوئے میزان کی صورت رکھی تاکہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کا وزن دکھایا جائے ۔ قرآن پاک میں میزان کا کئی مرتبہ ذکر آیا ہے۔ ایک جگہ ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)

ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں : قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً)

ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِی اللہ عَنْہ نے فرمایا : ’’اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تدارک کرے اور لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو اس سے معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت میں جائے گا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت، ص 281)


میزان یعنی اعمال تولنے کی ترازو حق ہے،اس کا ثبوت قرآنی آیات اور احادیث سے ہے،اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔اس کے دو پلڑے ڈنڈی،زبان سب کچھ ہے،دو پلڑوں کا فاصلہ اتنا ہے جتنا مشرق و مغرب میں فاصلہ ہے۔اعمال نامے یا خود اعمال اس میں وزن کیے جائیں گے۔حضرات انبیاءکرام اور بعض اولیاء کے اعمال کا وزن نہ کیا جائے گا،وہاں وزنی پلڑا اونچا ہوگا ہلکا پلڑا نیچے کیونکہ نور اوپر کو اٹھتا ہے نیچے نہیں جھکتا،وہاں وزن باٹ سے نہ ہوگا بلکہ نیکیوں کا گناہوں سے ہوگا۔ (مراۃ المناجیح، ج7)

تفسیر صراط الجنان، میں "میزان" کے تصور کو قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ خاص طور پر سورۃ الأنبیاء کی آیت 47 اور سورۃ الأعراف کی آیت 8 میں اس کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

انصاف کی ترازوئیں: اس آیت میں "موازین" (ترازوئیں) کا ذکر جمع کے صیغے سے کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کئی ترازوئیں ہوں گی یا پھر ایک ہی ترازو کی کئی ڈنڈیاں اور پلڑے ہوں گے۔ یہ ترازوئیں "انصاف" کی ہوں گی، یعنی ان میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی یا ظلم نہیں ہوگا، نہ کسی کی نیکی کو کم کیا جائے گا اور نہ برائی میں اضافہ کیا جائے گا۔

ذرہ برابر بھی عمل کا وزن: آیت کا یہ حصہ کہ "اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہو تو ہم اسے لے آئیں گے" اس بات پر زور دیتا ہے کہ قیامت کے دن کوئی نیک یا بد عمل، کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، ضائع نہیں جائے گا بلکہ اسے بھی وزن کیا جائے گا۔ اس سے اعمال کی اہمیت اور اللہ کی عدل و انصاف کی کامل انتہا ظاہر ہوتی ہے۔

اعمال کا وزن کیسے ہوگا: امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خود اعمال کو جسمانی صورت دی جائے گی اور انہیں وزن کیا جائے گا۔ یعنی نیک اعمال کو حسین صورت اور برے اعمال کو بدصورت بنا کر ترازو میں رکھا جائے گا۔

وزن کا مقصد: اعمال کو وزن کرنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو حساب کی ضرورت ہے، بلکہ یہ بندوں کے سامنے عدلِ الٰہی کا اظہار ہوگا تاکہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ سکیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)

ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

وزن کا حق ہونا: اس آیت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہونا ایک یقینی حقیقت (حق) ہے۔ یہ کوئی خیالی یا علامتی بات نہیں بلکہ ایک حقیقی عمل ہوگا۔

پلڑے کا بھاری ہونا: جس شخص کی نیکیوں کا پلڑا (میزان) بھاری ہوگا، وہی کامیاب، نجات یافتہ اور فلاح پانے والا ہوگا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نیکیوں کا وزن بہت اہمیت رکھتا ہے۔

پلڑے کا ہلکا ہونا: اس سے اگلی آیت (الاعراف: 9) میں ہے:

وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)

ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف: 9)

یعنی جن کی برائیاں زیادہ ہوں گی اور نیکیوں کا وزن کم ہوگا وہ خسارہ پانے والے ہوں گے۔

قرآن مجید نے متعدد مقامات پر واضح فرمایا کہ انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ ضرور دیا جائے گا۔ قیامت کے دن ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب ہوگا اور حساب و کتاب کے لیے میدان محشر میں سب کو جمع کیا جائے گا۔ پھر نامہ اعمال کی تقسیم ہو گی۔ ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے عمل کے مطابق دائیں یا بائیں ہاتھ میں ہو گا۔ اعمال تولنے کے لیے ایک خاص نظام مقرر کیا جائے گا جسے میزان یعنی ترازو کہا گیا ہے۔ میزان قیامت کے دن ضرور قائم کیا جائے گا اور ہر مسلمان کے لیے اس پر  ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی میزان انسان کی نجات یا ہلاکت کا فیصلہ کرے گا۔

میزان کی کیفیت: "میزان" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں : ترازو، تولنے کا کانٹا (القاموس الوحيد ، باب الواؤ ،ص 1846)

قیامت کے دن انسان کے نیک و بد اعمال کو تولنے کے لیے حقیقی میزان رکھا جائے گا جس کے ذریعے اللہ تعالی عدل و انصاف کے ساتھ ہر شخص کے انجام کا فیصلہ فرمائے گا۔ اس کی حقیقی نوعیت اور کیفیت کیا ہوگی یہ تو اللہ کریم ہی بہتر جانتا ہے۔ ہاں! قرآن مجید کی کچھ آیات اور احادیث میں اس کی کیفیت اور حقیقت کے متعلق فرامین موجود ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ( صراط الجنان، ج3، ص 270)

قیامت کے دن کافروں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال کی کوئی قدر ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)

جب میزانِ عمل میں ان کے ظاهری نیک اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ ( صراط الجنان، ج6، ص 45)

قیامت کے دن مومنین کے اعمال کا وزن بالکل انصاف کے ساتھ کیا جائے گا ۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

میزان حق ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اعمال کو اس قابل بنائیں کہ وہ میزان عمل میں ہمارے لیے باعث نجات ہوں ۔

یا الہی جب حسابِ خندۂ بے جا رلائے

چشم ِگریا نِ شفیعِ  مرتجے‍ کا ساتھ ہو