عبدالہادی خان ( درجہ
سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان قطب مدینہ کراچی پاکستان)
میزان
کیا ہے: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی
مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا
کہتے ہیں۔ (مفرادات امام راغب،کتاب الواو،ص 868) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان
کہتے ہیں۔(تاج العروس، باب نون، فصل الواو ص 9/361)
میزان
کس طرح کا ہے: اس میزان کے دو پلڑے ہیں ، عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا نورانی ہے جبکہ
دوسرا سیاہ پلڑا عرش کی الٹی جانب ہے۔ (الدرۃ
الفاخرۃ فی کشف علوم الآخرۃ ص 62) نورانی
پلڑا نیکیوں کے لیے جبکہ سیاہ پلڑا گناہوں کے لیے ہوگا۔ (التذكرة للقرطبی ص 302) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی
ہے کہ میزان کا ایک پلڑا جنت پر اور دوسرا دوزخ پر ہوگا۔ (تفسیر کبیر،الاعراف تحت
الآیۃ: 5،8/202) فتاوی رضویہ میں ہے وہ میزان
یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ اگر بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا اور
برائیوں کا پلہ نیچے بیٹھے گا جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ
یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ
کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند
کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)
جس کتاب میں لکھا ہے کہ نیکیوں کا پلہ نیچے
ہوگا وہ غلط ہے۔( فتاوی رضویہ 29/626 )
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں
کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل
حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں
کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب
الایمان ۔۔۔ الخ، 1 / 240، الحدیث: 281)
اعمال کا وزن
کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت
کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی ،اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے
لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین
صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گااورایک
قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں کے
اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوئیں وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں پر غالب ہوئے تو وہ جہنم میں داخل
ہو گا اور اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے
کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا
جائے گا ۔ یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے اسے معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا جبکہ کفار کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)
(خازن،
القارعۃ، تحت الآیۃ: 4-10، 4 / 403، مدارک، القارعۃ، تحت الآیۃ: 6-10، ص1370،
ملتقطاً)
اہل
سنت والجماعت کا نظریہ میزان کے حوالے سے:
اہل سنت والجماعت کے عقائد و نظریات
میں سے ہے کہ میزان برحق ہے قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کا حساب لے
گا اور ان کے اعمال کو میزان پر تولے گا۔ علامہ
فضل رسول بدایونی علیہ الرحمہ اپنی کتاب المعتقد المنتقد کہ صفحہ نمبر 302 میں فرماتے ہیں: حساب و کتاب کی طرح بروز قیامت
میزان حق ہے یعنی دلائل سمعیہ قطعیہ (قرآن و سنت) سے ثابت ہے اس پر بھی ایمان لانا
واجب ہے، بعض معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں ۔
امام اعظم
نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الفقہ الاکبر کے صفحہ نمبر 171 پہ لکھا
ہے : "کہ اعمال کا میزان پر وزن کرنا
قیامت کے دن یہ حق ہے"۔
قرآن پاک سے میزان کے قائم ہونے کے دلائل: اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں بعض جگہوں پر میزان کے قائم ہونے کا ذکر کیا
ہے۔
(1) پارہ08
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 08 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔
(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2/ 78)
(2) پارہ
17 سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
(3) پارہ
30 سورۃ القاریہ کی ایت نمبر 06 تا 11 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (القارعۃ: 6تا 9)
ان آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تبارک و
تعالی قیامت کے دن اپنے بندوں کا حساب و کتاب لے گا اور ان کے نیک و بد اعمال کو میزان
پر تولے گا تو جس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ نجات پائے گا اور جس کے برے
اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ عذاب میں گرفتار ہوگا۔
Dawateislami