یہ دنیا ایک
عارضی مقام ہے، جہاں انسان کی آخرت کے لیے
تیاری کا موقع دیا گیا ہے۔ مرنے کے بعد ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا ، میدان
محشر میں اعمال کا حساب کے لیے ترازو لایا جائے گا جس میں تمام لوگوں کے اعمال کو
تولا جائے گا۔ جس کی نیکیاں زیادہ ہو گئی کامیاب ہوگا۔
میزان
کیا ہے؟ عربی زبان میں ’’میزان‘‘
اس آلے کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے وزن کیا جاتا ہے۔ (لسان العرب، جز:2، ج2،
ص4276)
قیامت کے دن بھی اعمال کو ایک خاص ترازو میں
تولا جائے گا، جس کی نوعیت دنیا کے ترازو سے مختلف مگر حقیقی ہوگی۔ قرآنِ کریم میں
فرمایا:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)
ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
اس آیت سے
معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن نیکیوں اور بدیوں کا وزن کیا جائے گا۔ جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے مراد میزان کے ذریعے اعمال کا حقیقی وزن ہے۔
(خازن، الاعراف، 2/78)
میزان
کے متعلق عقیدہ: اہل سنت و جماعت
کے نزدیک میزان حق ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: میزان
حق ہے۔ اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد
تولے جائیں گے ( بہار شریعت،ج1،حصہ اول، ص 48،عقیدہ نمبر 9)
قیامت کے دن میزان
کا قائم ہونا قرآن سے ثابت ہے:
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں
گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے
برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
جن لوگوں کی
بدیاں زیادہ ہوں گی وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا
یَظْلِمُوْنَ(۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:
اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا
اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:9)
اسی طرح ایک
اور مقام پر فرمایا :
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمہ کنز العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری
ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور
بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ (پ30، القارعہ: 6-9)
کافروں کی نیکیوں کا وزن بروز قیامت تولہ جائے گا یا نہیں
تولا جائے گا اس کے متعلق قرآن پاک میں ہے: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)
تفسیر صراط
الجنان میں ہے: وزن قائم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن
ان کے ظاہری نیک اعمال کی کوئی قدر وقیمت ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا
وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور
جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا
مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک
غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر
آتے ہیں۔ (پ19، الفرقان: 23)
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک بہت ہی موٹے
تازے آدمی کو جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا تو ( اتنا بھاری بھر کم ہونے
کے باوجود) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا
وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہو گا اور فرمایا کہ یہ آیت پڑھ لو
فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)
( بخاری، کتاب التفسیر، باب اولئک الذین کفروا بآیات
ربّہم ولقائہ فحبطت اعمالہم، ۳ / ۲۷۰، الحدیث: ۴۷۲۹)
پس ہر انسان
کو چاہیے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور اپنے میزان کو بھرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ
نیک اعمال کرے تو چاہیے کہ اورادوظائف اور
عبادات میں کثرت کریں اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Dawateislami