محمد شاہد اصغر ( درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ غلامان رسول ،اوکاڑہ ، پاکستان)
قرآن مجید نے متعدد مقامات پر واضح فرمایا کہ انسان کو اس
کے اعمال کا بدلہ ضرور دیا جائے گا۔ قیامت کے دن ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب ہوگا
اور حساب و کتاب کے لیے میدان محشر میں سب کو جمع کیا جائے گا۔ پھر نامہ اعمال کی تقسیم ہو گی۔ ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے عمل کے مطابق
دائیں یا بائیں ہاتھ میں ہو گا۔ اعمال تولنے کے لیے ایک خاص نظام مقرر کیا جائے گا
جسے میزان یعنی ترازو کہا گیا ہے۔ میزان قیامت کے دن ضرور قائم کیا جائے گا اور ہر
مسلمان کے لیے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی میزان انسان کی نجات یا ہلاکت کا فیصلہ
کرے گا۔
میزان
کی کیفیت: "میزان" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں : ترازو، تولنے کا کانٹا (القاموس الوحيد ، باب الواؤ ،ص 1846)
قیامت کے دن
انسان کے نیک و بد اعمال کو تولنے کے لیے حقیقی میزان رکھا جائے گا جس کے ذریعے
اللہ تعالی عدل و انصاف کے ساتھ ہر شخص کے انجام کا فیصلہ فرمائے گا۔ اس کی حقیقی نوعیت اور کیفیت کیا ہوگی یہ تو
اللہ کریم ہی بہتر جانتا ہے۔ ہاں! قرآن
مجید کی کچھ آیات اور احادیث میں اس کی
کیفیت اور حقیقت کے متعلق فرامین موجود ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی
نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر
جانتے ہیں۔ ( صراط الجنان، ج3، ص 270)
قیامت کے دن
کافروں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال کی کوئی قدر ہوگی۔ جیسا
کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمہ
کنزالایمان:تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔ (پ16، الکہف :105)
جب میزانِ عمل
میں ان کے ظاهری نیک اعمال اور کفر و
مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور
جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ ( صراط الجنان، ج6، ص 45)
قیامت کے دن
مومنین کے اعمال کا وزن بالکل انصاف کے ساتھ کیا جائے گا ۔
جیسا کہ ارشاد
باری تعالی ہے: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ
كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں
گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
میزان حق ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اعمال کو اس قابل
بنائیں کہ وہ میزان عمل میں ہمارے لیے باعث نجات ہوں ۔
یا الہی جب حسابِ خندۂ بے جا رلائے
چشم ِگریا نِ شفیعِ مرتجے کا ساتھ ہو
Dawateislami