محمد ہارون عطاری (درجہ خامسہ مرکزی
جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
قرآن پاک اللہ تعالی کی کتاب ہے اور یہ ایک محفوظ کتاب ہے
کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے
خود لیا ہے اس کی ہر ہر آیت قطعی و یقینی
ہے تو جہاں قرآن پاک نے زندگی
کے ہر پہلو کی تربیت فرمائی ہے وہاں قرآن پاک نے آخرت کے احوال بھی تفصیلاً بیان کیے ہیں اور
ان احوال میں سے ایک میزان بھی ہے ۔
وزن
اور میزان کا معنی : وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار معلوم کرنا اور
عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں
کا وزن کیا جاتا ہے اسے میزان کہتے ہیں ۔
میزان
عمل حق ہے : حساب
و کتاب کی طرح بروز قیامت میزان بھی حق ہے یعنی دلائل سمعیہ قطعیہ سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ (المعتمد علی المعتقد 333) قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن ۔ (پ17، الانبیاء:47)
ایک اور مقام
پر ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
میزان
عمل کی کیفیت : اس میزان کے دو پلڑے ہیں عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا
نورانی ہے جبکہ دوسرا تاریک (سیاہ) پلڑا عرش کی بائیں جانب ہے ۔ (الدرۃالفاخرہ فی کشف علوم الآخرۃ) فتاوی رضویہ
شریف میں ہے وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا تو
اوپر اٹھے گا اور بدی کا پلہ نیچے بیٹھے گا اللہ پاک کا ارشاد ہے: اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ
الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ
کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند
کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)
میزان
عمل کی وسعت: حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی
پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر تمام آسمانوں
اور زمینوں کا اس میں وزن کیا جائے تو وہ اس میں سما جائیں ، فرشتے اسے دیکھ کر
عرض کریں گے: اے ہمارے رب تو اس سے کس کو
تولے گا اللہ پاک ارشاد فرمائے گا اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا ، فرشتے عرض
کریں گے: تجھے پاقی ہے ہم یوں تیری عبادت
نہ کر سکے جیسا تیری عبادت کا حق تھا۔ (مستدرک،5/807،
حدیث:8778)
میزان
عمل کی کامیابی:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (پ30، القارعہ:
6-9)
ان
آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے
ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک
عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ
زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو
اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ
ہوگا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔ (صراط الجنان)
میزان
پر بھاری اعمال: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے تاجدار
رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو لفظ زبان پر آسان ہیں لیکن میزان میں بھاری ہیں اور رحمن کو محبوب ہیں، سبحان اللہ العظیم ، سبحان اللہ وبحمدہ۔(بخاری ،کتاب الدعوات ،باب فضل التسبیح ،220/4، الحدیث
: 6406)
حضرت عبداللہ بن
عباس سے روایت ہے تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ
قدرت میں میری جان ہے تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان
اور ان کے نیچے ہے یہ سب اگر تم لے آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور
کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔(معجم الکبیر
،196/12، الحدیث: 13024)
میزان کا لغوی
معنی ترازو یا وزن کرنے کا آلہ ہیں۔ میزان
کا معنی کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے
تولنے کو کہتے ہیں۔
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان:
اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
تفسیر صراطِ الجنان: اس سے پہلی آیت میں قیامت
کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا
دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا
نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
تفسیر صراطِ الجنان: یہاں سے قیامت کے دن مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں،چنانچہ ان 6آیات کا خلاصہ یہ
ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری
ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ
ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں
ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے
ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور
تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔
قیامت کے دن میزان یعنی ترازو قائم ہونا قرآن وحدیث
سے ثابت ہے ۔
میزان
کے بارے میں حدیث:حضرت سلیمان فارسی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ٬حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: "قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں
کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے ۔فرشتے کہیں گے:یا اللہ عزوجل اس میں
کس کا وزن کیا جائے گا اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : میں اپنی مخلوق میں سے جس کو
چاہوں گا، فرشتے عرض کریں گے : تو پاک ہے ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جو تیری عبادت
کا حق ہے ۔(مستدرک کتاب الاہوال ذکر وسعۃ المیزان ،٥/٨٠٧٫الحدیث:٨٧٧٨)
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ''نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن
کیا جائے گا اس میں ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا
اور اس کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا
جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا ۔ (شعب
الایمان ،الثامن من شعب الایمان ۔۔الخ،١ /٢٦١ الحدیث:٢٨١)
عبدالرحمن (تخصص فی الحدیث جامعۃ المدینۃ فیضان مدینۃ جوہر
ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (تفسیر صراط الجنان ، پارہ 8 ، سورۃ الاعراف آیت نمبر 8 )
اللہ تعالی نے
قرآ ن پاک میں فرمایا : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور
اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں
حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
تفسیر : ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو
رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان
پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے
دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے
کافی ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان ، پارہ 17 ،
سورۃ الانبیاء ، آیت نمبر 47 )
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)ترجمہ
کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں
کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف: 9)
احادیث مبارکہ:
حضرت سلمان
فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن
میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی
گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:اس میں کس کو وزن کیا جائے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے
جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے:
تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔(مستدرک ،
کتاب الاحوال ،ذکر وسعۃ المیزان ،ص 805 ج 7 ح 8778)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ
قدرت میں میری جان ہے، تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے
درمیان اوران کے نیچے ہے، یہ سب اگر تم لے کر آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں
رکھ دو اور کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔(معجم
الکبیر ، ج، 12 ، ص 194 ،ح ،13024)
حضرت ابو
ہریرہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت نے ارشاد فرمایا: ’’دو لفظ زبان پر
آسان ہیں ، میزان میں بھاری ہیں اور رحمن کو محبوب ہیں (وہ
دو لفظ یہ ہیں ) سبحان اللہ العظیم وسبحان اللہ وبحمدہ ۔ (صحیح
بخاری ،کتاب الدعوات ،باب فضائل التسبیح ،ج 4 ص 220 حدیث: 2404)
اور آخر میں ایک بات ذہن میں رکھ لیں ، صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت
کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر
ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی
نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب
ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم
پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس
کا رسول بہتر جانتے ہیں۔
مدثر
علی (درجہ سابعہ جامعہ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھو کی لاہور ،پاکستان)
میزان حق ہے۔
اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے نیکی
کا پلّہ بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ
اوپر اُٹھے، دنیا کا سا معاملہ نہیں کہ
جو بھاری ہوتا ہے نیچے کو جھکتا ہے۔
(1) میزان کسے کہتے ہیں : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ
کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
تفسیر صراط الجنان: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی
مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا
کہتے ہیں۔ اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا
وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں
(2)میزان
سے مراد عدل ہے: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان
کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو۔ (الرحمٰن:
7تا 8)
تفسیر صراط الجنان : ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام
مخلوقات کے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا ۔
(3)حضور
صلی اللہ علیہ وسلم عادل ہیں : اَللّٰهُ الَّذِیْۤ
اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ الْمِیْزَانَؕ ترجمہ کنزالایمان:اللہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری
اور انصاف کی ترازو (پ25، الشوری :17)
تفسیر صراط الجنان: بعض
مفسرین نے فرمایا ہے کہ میزان سے تاجدارِ رسالت ﷺ کی ذاتِ گرامی مرادہے کیونکہ آپ ﷺ حق و باطل کو جانچنے کا معیار ہیں ۔
(4)قیامت
کا ترازو: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں
گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو
رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے
گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی
تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا
حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(5) مومن کی
نیکیاں اچھی صورت : فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶)
فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں۔ (القارعۃ: 6، 7)
حافظ محمد معید (درجہ ثالثہ جامعۃالمدینہ فیضان ابو عطار کراچی ،پاکستان)
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان
کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱) جمہور مفسرین کے
نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔
(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)۔
آیت نمبر
01:وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:7، 8)
تفسیر صراط الجنان : اس سے پہلی آیت میں قیامت
کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا
دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔(پارہ:8
٫الاعراف:7 ٫آیت 8)
آیت نمبر 02: اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا
بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵)ترجمہ
کنزالایمان: یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتیں اور اس کا ملنا نہ مانا تو ان
کا کیا دھرا سب اکارت (ضائع)ہے تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی تول نہ قائم کریں گے۔ (پ16، الکہف: 105)
تفسیر صراط
الجنان : وزن قائم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کے ظاہری نیک اعمال کی
کوئی قدر وقیمت ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک
اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک
اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا
دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ کنز العرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ ( الکہف: 105)
آیت نمبر 03:فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور
جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے
والی گود میں ہے اور
تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
تفسیر صراط الجنان : قیامت کا حال ذکر کرنے کے
بعد یہاں سے قیامت کے دن مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں،چنانچہ ان 6 آیات کا خلاصہ یہ
ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری
ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ
ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں
ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے
ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور
تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔ (پارہ:30 ٫القارعۃ:آیت:6-11)
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں : یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین
رکھیں :
(1)صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان کو
اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ
سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا میں خوب نیکیاں کرنے اور نمازوں کی پابندی کرنے کی توفیق
عطا فرمائے تاکہ ہمیں بروز حشر اپنے نامہ اعمال کے تلنے کے وقت کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور
نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
قرآن مجید میں "میزان" کا ذکر مختلف معانی اور سیاق
و سباق میں آیا ہے، جو اس کی ہمہ گیریت اور اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ یہ محض کسی
ترازو یا وزن کرنے کے آلے تک محدود نہیں بلکہ اس میں عدل، توازن اور حق و باطل کو
پرکھنے کا ایک وسیع مفہوم پنہاں ہے۔ قرآن مجید میں "میزان" ایک جامع اصطلاح ہے جو
کائنات میں ربانی نظام اور دینِ الٰہی کے حق و باطل کو پرکھنے کے معیار کو بھی شامل ہے اور خاص طور پر
روزِ قیامت اعمال کے وزن کے لیے قائم ہونے والے ترازو کو بھی بیان کرتی ہے۔
(1) دنیاوی
توازن اور عدل : قرآن مجید میں میزان کا ایک مفہوم دنیا میں قائم قدرتی
توازن اور شرعی عدل و انصاف ہے۔ سورۃ
الرحمن میں اللہ تعالیٰ نے "میزان" کا ذکر فرمایا ہے: وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا
تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔
(الرحمٰن: 7، 8)
یہاں میزان سے مراد وہ کامل توازن ہے جو اللہ
تعالیٰ نے کائنات کے تمام اجرام فلکی اور نظام میں قائم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی
انسانوں کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معاملات میں اس توازن کو بگاڑیں نہیں۔
(2) قیامت
کے دن میزان عمل: قرآن مجید میں میزان کا ایک اہم مفہوم وہ ترازو ہے جو روزِ
قیامت اعمال کے وزن کے لیے قائم کیا جائے گا، متعدد آیات میں قیامت کے دن اعمال کے وزن اور
ان کے نتائج کا ذکر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ
ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
مزید آیت نمبر
9 میں ارشاد فرمایا: وَ مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا
بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان
زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے۔ (پ8، الاعراف:9)
اسی طرح کی آیات سورۃ المؤمنون، سورۃ
القارعہ، اور سورۃ الکہف میں بھی موجود ہیں: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ
عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ
هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری
ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ
گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
انصاف کا ترازو: قرآن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ قیامت کے دن کسی
پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا اور میزانِ عدل قائم کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ
اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا
حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں
گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے
برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
محمد
مبشر عبدالرزاق عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
قرآن پاک اللہ پاک کا عظیم اور بے مثال کلام ہے جو تمام
انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے اور ہر چیز کا واضح اور روشن بیان ہے قرآن پاک میں جس طرح حلال و حرام کے احکام، انبیاء کرام
علیہم السلام کے اوصاف، گزشتہ امتوں کے واقعات کا بیان ہے اسی طرح قرآن پاک نے آخرت کی مناظر اور ہولناکیوں کو بھی بیان
فرمایا ان میں سے ایک کٹھن اور مشکل ترین مرحلہ'' میزان '' بھی ہے میزان سے مراد
وہ ترازو ہے جس پر بروز قیامت انسانوں کے نامہ اعمال کا وزن کیا جائے گا ، حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں
وزن کیا جائے گا اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں مومن کا عمل حسین صورت میں
آئے گا اس کو میزان کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے
پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا ۔ (شعب الایمان ، الثامن من شعب الایمان ، ۔۔ الخط 1 /260 حدیث 281 )
آئیے ہم بھی میزان
کے متعلق قرآن پاک کی چند آیات پڑھتے ہیں اور اپنے اعمال و افعال کی
اصلاح کرتے ہیں :
(1) میزان برحق ہے: میزان پر انسانوں کے اقوال و افعال کا وزن ہونا برحق اور
اسلام کے عقائد میں سے ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے جیسے کہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے ۔ (پ8 الاعراف 8)
(2) عدل و
انصاف کا ترازو: اللہ پاک بروز قیامت میزان پر لوگوں کے اعمال کا
وزن فرمائے گا تو کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے یا نیکیوں میں کمی کر کے ظلم نہ
کرے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ فرمائے گا اگر کسی نے ذرہ برابر
بھی عمل کیا ہوگا تو اس کا بدلہ دیا جائے گا جیسے کہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرما تا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو
رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
(3) اعمال کی مقبولیت کا معیار: اعمال کی مقبولیت اور اجر و ثواب کا معیار ایمان
اور اخلاص پر ہے تو جو اعمال اخلاص اور ایمان سے خالی ہوں گے بروز قیامت میزان پر
ان کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی جیسے کہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ
الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ کنز
العرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ ( الکہف: 105)
(4) کامیابی
کا معیار: قیامت کے دن میزان پر جس کے نیک اعمال اور حسنات
کا وزن زیادہ ہوگا تو وہ حقیقی کامیابی (اللہ کی رضا اور جنت) پائے گا جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲) ترجمہ کنزالعرفان: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
کامیاب ہونے والے ہوں گے۔ (المؤمنون: 102، 103)
(5) رسوائی کا سبب: بروز قیامت جس کی نیکیوں کے پلڑے ہلکے پڑیں گے تو وہ ہمیشہ کی ذلت و رسوائی اٹھائے گا اور اس
کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا جو کہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی
ہے چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ
هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان: اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے
پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے
مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ:8تا 11)
پیارے اسلامی
بھائیو! میزان انتہائی خطرناک اور نازک مرحلہ ہے اس دن ہر ایک
نفسی نفسی کے عالم میں مبتلا ہوگا کافروں
کے ظاہری نیک اعمال قیامت کے دن بے وزن
ہوں گے،میزان کی سختیوں اور ہولناکیوں سے نجات اپنا محاسبہ کرنے اور اعمال و افعال
کی اصلاح کرنے میں ہے ،امام محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میزان کے خطرے
سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے
ساتھ اپنے اعمال، اقوال اور خطر ات و خیالات کو تولا ہو ۔ (احیاء علوم الدین ،
کتاب ذکر الموت وبعدہ ج 5، ص 281 مطبوعہ بیروت
العلمیہ)
اللہ پاک ہمیں
آخرت کی تیاری کرنے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی انفرادی اور
اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متوازن، عادلانہ اور منصفانہ اصولوں کے تحت
استوار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔انہی اصولوں میں سے ایک نہایت بنیادی اور مرکزی اصول
"میزان" کا ہے، جو قرآن میں بار بار بیان ہوا ہے اور جس پر کائنات کی
ساخت اور جزا اور سزا کا نظام قائم ہے۔
میزان
کا لغوی مفہوم: میزان عربی زبان کا
لفظ ہے جس کے معنی ہیں: "ترازو" یا "ناپ تول کا پیمانہ" ۔ اس
کا تعلق نہ صرف مادی اشیاء کے تولنے سے ہے بلکہ وسیع معنوں میں یہ عدل، حق، انصاف
، اور تناسب کے ہر پہلو کو شامل کرتا ہے ۔
میزان
کا قرآنی استعمال: قرآن کریم میں میزان کا تصور مختلف سیاق و سباق میں
استعمال ہوا ہے ، جس میں سے چند آیات درج
ذیل ہیں :
عدل کا ترازو:وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
بے
اعتدالی نہ کرو: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو۔( الرحمن، آیت: 7تا 8)
عیش
اور خسارے میں : فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز العرفان:
توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو
پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ
ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
الله عزوجل ہمیں
قرآن کے مفاہیم کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی الله علیہ وآلہ وسلم
میزان لغت میں
ترازو کو کہا جاتا ہے آسان الفاظ میں یوں کہیں کہ جس چیز کےذریعے کسی شے کی مقدار
معلوم کی جائے اسے میزان کہتےہیں بروز قیامت اللہ پاک میزان قائم فرمائے گا جس میں
بندوں کے اعمال تولے جائیں گے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعمال تو نظرنہیں آتے
تو ان کاوزن کیونکر ہوسکتا ہے ؟؟
اس بارے میں
مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے
اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا
جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور
برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری
صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا
وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً) سورۃ الاعراف پارہ نمبر 8 میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ
کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
میزان احادیث
متواترہ سے ثابت ہے اور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے البتہ اس کی کیفیت ہماری عقلوں
سے بالا تر ہے محض اللہ ورسول عزوجل وصلی
اللہ علیہ وسلم ہی اسے بہتر جانتے ہیں ۔ وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں
کا پلہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اُٹھے گا اور بدی کاپلہ نیچے بیٹھے گا۔ ( فتاوی
رضویہ ج29 ص 626 )
سورۃ الانبیاء
میں ارشاد ہوتا ہے :وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ
الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ
مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں
گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
حضرت مفتی
احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس طرح جسمانیات میں پانی مٹی وغیرہ اشیاء کے
وزن کو بڑھادیتی ہیں اسی طرح روحانیات میں اخلاص خشوع اور عشق رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اعمال کے وزن کوبڑھا دیتے ہیں ۔ ( تفسیر نعیمی ج 8 تحت الآیۃ بتغیر یسیر )
یہی وجہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے سوا سیر صدقے کو عام امتی کے احد پہاڑ
جتنا مال صدقہ کرنے سے افضل قرار دیا (مشکاۃ ، باب الفضائل حدیث 6007 )
ثابت ہوا کہ جملہ
فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی
اس تاجور کی ہے
بلا
حساب وکتاب جنت میں داخل ہونے والے : سورہ زمر میں ارشاد ہوتا ہے: قُلْ یٰعِبَادِ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْؕ-لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ
الدُّنْیَا حَسَنَةٌؕ-وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌؕ-اِنَّمَا یُوَفَّى
الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۱۰) ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ اے میرے بندو جو ایمان
لائے اپنے رب سے ڈرو جنہوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے اور
اللہ کی زمین وسیع ہے صابروں ہی کو ان کا
ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی ۔ (الزمر: 10)
قرآن مجید میں درج ذیل مقامات میں میزان کا ذکر ہے :
(
1)سورۃ الاعراف آیت نمبر 8
(2)سورۃ الکہف آیت نمبر 105
(3) سورۃ
الانبیاء آیت 47 (4)سورۃ
الشوری آیت 17
(5)سورۃ رحمن
آیت 7اور 8 (6)
سورۃ القارعہ آیت 6 تا 11
اللہ پاک ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور
مرنے سے پہلے قبر وحشر کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عطاء المصطفیٰ عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور
،پاکستان)
قرآن پاک اللہ پاک کی عظیم وہ لاریب کتاب ہے جس میں ہر چیز
کا بیان ہے ، قرآن مجید میں جس طرح عبادات کے احکام اور پچھلی قوموں کے
واقعات مذکور ہیں اسی طرح اللہ پاک نے بروز قیامت میزان پر انسان کے نامہ اعمال کے
بارے میں بھی بیان فرمایا ہے۔
وزن کا معنی
ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے
تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
میزان کہتے ہیں ۔
قیامت کے دن
اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی
ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں
ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا
وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں
گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری
صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا
وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً)
پانچ
قرآنی آیات اور ان کی وضاحت:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹)
اللہ تعالیٰ
نے کائنات کو توازن اور عدل کے اصول پر قائم کیا ہے۔ اسی طرح انسانوں کو بھی حکم دیا
کہ وہ تولنے، ناپنے اور فیصلوں میں انصاف کا دامن نہ چھوڑیں۔
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:
اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے
والے ہوں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں
کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:8،
9)
روزِ قیامت میزان میں
اعمال تولے جائیں گے اور نجات ان لوگوں کو ملے گی جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری
ہوگا۔
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
اللہ
تعالیٰ آخرت میں عدل کرے گا اور ہر شخص کے اعمال انصاف سے تولے جائیں گے اور کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
قرآن کریم نے "میزان" کو عدل، توازن اور انصاف کی
علامت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں بھی انسان ایک
دوسرے کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں ۔
محمد ابدال عطاری (درجہ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے انسانوں اور جنوں کو پیدا کیا، ان کی
ہدایت کیلئے انبیاء کرام علیھم السّلام کو مبعوث فرمایا تاکہ انبیاء کرام علیھم
السّلام لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں ان میں سے آخری نبی محمد عربی ﷺ جو پوری کائنات کے لیے سراپا ہدایت کا سر چشمہ بن کر تشریف لائے اور پیغام
الہی لوگوں تک پہنچایا، تو کچھ لوگوں نے ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے حق کا راستہ اختیار
کیا اور کچھ لوگوں نے اس سے منہ پھیر لیا پھر حق کا راستہ اختیار کرنے والوں کو
جزا دینے اور منہ پھیرنے والوں کو سزا دینے کیلئے اللہ عزوجل قیامت قائم کرے گا جس
میں اللہ عزوجل تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دے
گا اور ان لوگوں کے اعمال کے حساب کیلئے اللہ عزوجل میزان قائم کرے گا۔
میزان کا معنی اور مفہوم: میزان
"وزن" سے بنا ہے وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت معلوم کرنا
اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو "وزن کرنا" کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب ، کتاب الواو ، ص 868) جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
"میزان" کہتے ہیں. (تاج العروس ، باب النون ، فصل الواو ، ج 9، ص 361)
میزان کیا ہے؟ قیامت کے دن انسانوں کے اچھے اور برے اعمال کو ایک
ترازو میں تولا جائے گا تاکہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دی جائے اس ترازو
کو "میزان" کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ
خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا
كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی
ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے
تھے ۔ (الاعراف:8، 9)
میزان کے بارے میں عقیدۂ اہلسنت : میزان
حق ہے قیامت کے دن اس میں تمام انسانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا یہ قرآن و سنت
سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ (المعتمد علی المعتقد ،ص 333) اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن ۔ (الانبیاء: 47)
قیامت کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان
فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان کی
کیفیت: آخرت کا میزان(ترازو) دنیا کے
ترازو کی طرح نہیں ہوگا کہ جس طرح دنیا میں ترازو کا جو پلّہ بھاری ہو وہ نیچے جھک
جاتا ہے اور جو ہلکا ہو وہ اوپر اٹھ جاتا ہے بلکہ آخرت کا ترازو اس کے برعکس ہوگا اگر
نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا تو وہ اوپر اٹھ جائے گا اور گناہوں کا نیچے جھک جائے گا۔
اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ
الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ
ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ
کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ 22،فاطر:10)
میزان کے منکر کا حکم: میزان
کا انکار کرنے والا گمراہ و بدعتی ہے(فتاویٰ رضویہ ،ج 28 ،ص 667)
مذکورہ باتوں
سے پتہ چلا کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کے اچھے اور برے اعمال کا وزن کیا جائے گا
اور ان کے اعمال کے مطابق انہیں جزا دی جائے گی لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ عزوجل
کی اطاعت و فرمانبرداری کے کام کریں اور اللہ عزوجل کی نافرمانیوں سے بچیں تاکہ
آخرت میں ہماری نیکیوں کا پلّہ بھاری ہو اور ہم آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔
اللہ عزوجل ہمیں
عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم
النبیین الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلّم
حنین رضا ( دورہ حدیث
جامعۃ المدینہ فیضانِ بغداد کورنگی کراچی ،پاکستان)
بے شک اللہ
تعالیٰ نے ہمیں ایک نہایت ہی مہذب انداز میں اس دنیا میں رہنا سیکھایا اور اسکے
کچھ قوانین بھی بنائیں ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا ضروری ہوتا ہے اگر ہم ان معاملات میں
عمل پیرا ہوتے ہیں تو اللہ پاک نے ہم سے وعدہ لیا ہے کہ وہ ہمیں اس کی جزا دار بقا میں عطا فرمائے گا اور اگر ہم ان قوانین
کے مطابق اپنی زندگی نہیں گزارتے ہیں تو اللہ پاک نے ہمیں اس بات کا بھی پابند کیا
ہے کہ وہ ہمیں یوم الوعید میں اس کی سزا دے گا اور یہ سارا کچھ بروز قیامت میں بذریعۂ
میزان کے ہوگا ۔ اللہ پاک اس خاص دن ایک ایسا
میزان قائم کرے گا کہ جس کا ذکر قرآن کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ
بآسانی مل جاتا ہے بلا شبہ یہ وہ دن ہے کہ جس میں وعدوں کی تکمیل ہونی ہے اسی ضمن
میں اللہ پاک قرآن پاک کی سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 47 میں ارشاد
فرماتا ہے ملاحظہ فرمائیں
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی
چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى
اللّٰهِۗ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا
یُظْلَمُوْنَ۠(۲۸۱) ترجمۂ کنز
العرفان:اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس
کی کمائی بھرپور دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: 281)
اس آیت کی تفسیر
کے تحت شیخ الحدیث و التفسير ابو صالح مفتی محمد قاسم صاحب اپنی مایہ ناز تصنیف ''
تفسیر صراط الجنان'' میں فرماتے ہیں :
اس آیت میں قیامت
کے دن سے ڈرایا جارہا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا
جائے گا اور اس دن لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، نہ بلاوجہ
ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں گی اور نہ بدیاں بڑھائی جائیں گی۔ (پارہ نمبر :3 سورۃ
البقرۃ،آیت 281)
اور یہ سارا
معاملہ اللہ پاک یوم الفصل میں بذریعۂ میزان کے فرمائے گا چنانچہ اسی ضمن میں حدیث
مبارکہ پیش خدمت ہے: حضرت ابو درداء
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے
اخلاق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز بھاری نہیں ہے“۔ (ابو داؤد ،کتاب الادب، الحدیث 4799)
ہمیں اس حدیث
پاک سے یہ ترغیب دلائی جارہی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اچھے اعمال کو بجا لاکر اپنے
لئے جنت میں جانے کے اسباب بآسانی بنا سکتے ہیں وہ اچھے اعمال جس کی ترغیب ہمیں
ہمارے نبی کریم ﷺ نے دی ہے لہٰذا ماحول جیسا بھی ہو ہمیں نیک اعمال کا مظاہرہ کرتے
رہنا چاہیے۔
لہٰذا میزان کی حقانیت پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی
ایک اور آیت ناطق ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف: 8)
اس آیت کے تحت شیخ الحدیث و التفسير ابو صالح
مفتی محمد قاسم صاحب مد ظلہ العالیہ اپنی مایہ ناز تصنیف تفسیر صراط الجنان میں
فرماتے ہیں : اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال
کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار
کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے
ہیں۔ اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا
جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘
سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں :
یہاں میزان کے بارے میں 2 اہم باتیں
ذہن نشین رکھیں :
(1)صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان کو
اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
اللہ کریم ہمیں
دنیا میں رہ کر ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ جس کی وجہ سے آخرت میں ہمیں
کامیابی اور میزان بھاری ہو۔ آمین ثم آمین
Dawateislami