قرآن پاک  اللہ تعالی کی کتاب ہے اور یہ ایک محفوظ کتاب ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لیا ہے اس کی ہر ہر آیت قطعی و یقینی ہے تو جہاں قرآن پاک نے زندگی کے ہر پہلو کی تربیت فرمائی ہے وہاں قرآن پاک نے آخرت کے احوال بھی تفصیلاً بیان کیے ہیں اور ان احوال میں سے ایک میزان بھی ہے ۔

وزن اور میزان کا معنی : وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار معلوم کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جاتا ہے اسے میزان کہتے ہیں ۔

میزان عمل حق ہے : حساب و کتاب کی طرح بروز قیامت میزان بھی حق ہے یعنی دلائل سمعیہ قطعیہ سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ (المعتمد علی المعتقد 333) قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن ۔ (پ17، الانبیاء:47)

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

میزان عمل کی کیفیت : اس میزان کے دو پلڑے ہیں عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا نورانی ہے جبکہ دوسرا تاریک (سیاہ) پلڑا عرش کی بائیں جانب ہے ۔ (الدرۃالفاخرہ فی کشف علوم الآخرۃ) فتاوی رضویہ شریف میں ہے وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا تو اوپر اٹھے گا اور بدی کا پلہ نیچے بیٹھے گا اللہ پاک کا ارشاد ہے: اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)

میزان عمل کی وسعت: حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر تمام آسمانوں اور زمینوں کا اس میں وزن کیا جائے تو وہ اس میں سما جائیں ، فرشتے اسے دیکھ کر عرض کریں گے: اے ہمارے رب تو اس سے کس کو تولے گا اللہ پاک ارشاد فرمائے گا اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا ، فرشتے عرض کریں گے: تجھے پاقی ہے ہم یوں تیری عبادت نہ کر سکے جیسا تیری عبادت کا حق تھا۔ (مستدرک،5/807، حدیث:8778)

میزان عمل کی کامیابی:

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (پ30، القارعہ: 6-9)

ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔ (صراط الجنان)

میزان پر بھاری اعمال: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے تاجدار رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو لفظ زبان پر آسان ہیں لیکن میزان میں بھاری ہیں اور رحمن کو محبوب ہیں، سبحان اللہ العظیم ، سبحان اللہ وبحمدہ۔(بخاری ،کتاب الدعوات ،باب فضل التسبیح ،220/4، الحدیث : 6406)

حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان اور ان کے نیچے ہے یہ سب اگر تم لے آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔(معجم الکبیر ،196/12، الحدیث: 13024)