میزان لغت میں ترازو کو کہا جاتا ہے آسان الفاظ میں یوں کہیں کہ جس چیز کےذریعے کسی شے کی مقدار معلوم کی جائے اسے میزان کہتےہیں بروز قیامت اللہ پاک میزان قائم فرمائے گا جس میں بندوں کے اعمال تولے جائیں گے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعمال تو نظرنہیں آتے تو ان کاوزن کیونکر ہوسکتا ہے ؟؟

اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً) سورۃ الاعراف پارہ نمبر 8 میں ارشاد ہوتا ہے۔

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

میزان احادیث متواترہ سے ثابت ہے اور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے البتہ اس کی کیفیت ہماری عقلوں سے بالا تر ہے محض اللہ ورسول عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم ہی اسے بہتر جانتے ہیں ۔ وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اُٹھے گا اور بدی کاپلہ نیچے بیٹھے گا۔ ( فتاوی رضویہ ج29 ص 626 )

سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہوتا ہے :وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس طرح جسمانیات میں پانی مٹی وغیرہ اشیاء کے وزن کو بڑھادیتی ہیں اسی طرح روحانیات میں اخلاص خشوع اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعمال کے وزن کوبڑھا دیتے ہیں ۔ ( تفسیر نعیمی ج 8 تحت الآیۃ بتغیر یسیر )

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے سوا سیر صدقے کو عام امتی کے احد پہاڑ جتنا مال صدقہ کرنے سے افضل قرار دیا (مشکاۃ ، باب الفضائل حدیث 6007 )

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

بلا حساب وکتاب جنت میں داخل ہونے والے : سورہ زمر میں ارشاد ہوتا ہے: قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْؕ-لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌؕ-وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌؕ-اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۱۰) ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ اے میرے بندو جو ایمان لائے اپنے رب سے ڈرو جنہوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے اور اللہ کی زمین وسیع ہے صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی ۔ (الزمر: 10)

قرآن مجید میں درج ذیل مقامات میں میزان کا ذکر ہے :

( 1)سورۃ الاعراف آیت نمبر 8 (2)سورۃ الکہف آیت نمبر 105

(3) سورۃ الانبیاء آیت 47 (4)سورۃ الشوری آیت 17

(5)سورۃ رحمن آیت 7اور 8 (6) سورۃ القارعہ آیت 6 تا 11

اللہ پاک ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور مرنے سے پہلے قبر وحشر کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم