اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو پیدا کیا،  ان کی ہدایت کیلئے انبیاء کرام علیھم السّلام کو مبعوث فرمایا تاکہ انبیاء کرام علیھم السّلام لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں ان میں سے آخری نبی محمد عربی ﷺ جو پوری کائنات کے لیے سراپا ہدایت کا سر چشمہ بن کر تشریف لائے اور پیغام الہی لوگوں تک پہنچایا، تو کچھ لوگوں نے ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے حق کا راستہ اختیار کیا اور کچھ لوگوں نے اس سے منہ پھیر لیا پھر حق کا راستہ اختیار کرنے والوں کو جزا دینے اور منہ پھیرنے والوں کو سزا دینے کیلئے اللہ عزوجل قیامت قائم کرے گا جس میں اللہ عزوجل تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دے گا اور ان لوگوں کے اعمال کے حساب کیلئے اللہ عزوجل میزان قائم کرے گا۔

میزان کا معنی اور مفہوم: میزان "وزن" سے بنا ہے وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت معلوم کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو "وزن کرنا" کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب ، کتاب الواو ، ص 868) جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے "میزان" کہتے ہیں. (تاج العروس ، باب النون ، فصل الواو ، ج 9، ص 361)

میزان کیا ہے؟ قیامت کے دن انسانوں کے اچھے اور برے اعمال کو ایک ترازو میں تولا جائے گا تاکہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دی جائے اس ترازو کو "میزان" کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:8، 9)

میزان کے بارے میں عقیدۂ اہلسنت : میزان حق ہے قیامت کے دن اس میں تمام انسانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا یہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ (المعتمد علی المعتقد ،ص 333) اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن ۔ (الانبیاء: 47)

قیامت کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :

(1) پہلی صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔

(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔

(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)

میزان کی کیفیت: آخرت کا میزان(ترازو) دنیا کے ترازو کی طرح نہیں ہوگا کہ جس طرح دنیا میں ترازو کا جو پلّہ بھاری ہو وہ نیچے جھک جاتا ہے اور جو ہلکا ہو وہ اوپر اٹھ جاتا ہے بلکہ آخرت کا ترازو اس کے برعکس ہوگا اگر نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا تو وہ اوپر اٹھ جائے گا اور گناہوں کا نیچے جھک جائے گا۔ اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ

ترجمہ کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند کرتا ہے۔ (پ 22،فاطر:10)

میزان کے منکر کا حکم: میزان کا انکار کرنے والا گمراہ و بدعتی ہے(فتاویٰ رضویہ ،ج 28 ،ص 667)

مذکورہ باتوں سے پتہ چلا کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کے اچھے اور برے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور ان کے اعمال کے مطابق انہیں جزا دی جائے گی لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کے کام کریں اور اللہ عزوجل کی نافرمانیوں سے بچیں تاکہ آخرت میں ہماری نیکیوں کا پلّہ بھاری ہو اور ہم آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔

اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم