قرآن پاک  اللہ پاک کی عظیم وہ لاریب کتاب ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے ، قرآن مجید میں جس طرح عبادات کے احکام اور پچھلی قوموں کے واقعات مذکور ہیں اسی طرح اللہ پاک نے بروز قیامت میزان پر انسان کے نامہ اعمال کے بارے میں بھی بیان فرمایا ہے۔

وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں ۔

قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں : ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 5، صحیح 202 ، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ:8، جلد 2، ص78 ملتقطاً)

پانچ قرآنی آیات اور ان کی وضاحت:

وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹)

ترجمہ کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔( لرحمن، آیت: 7تا 9)

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو توازن اور عدل کے اصول پر قائم کیا ہے۔ اسی طرح انسانوں کو بھی حکم دیا کہ وہ تولنے، ناپنے اور فیصلوں میں انصاف کا دامن نہ چھوڑیں۔

وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:8، 9)

روزِ قیامت میزان میں اعمال تولے جائیں گے اور نجات ان لوگوں کو ملے گی جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا۔

وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)

اللہ تعالیٰ آخرت میں عدل کرے گا اور ہر شخص کے اعمال انصاف سے تولے جائیں گے اور کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔

قرآن کریم نے "میزان" کو عدل، توازن اور انصاف کی علامت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں بھی انسان ایک دوسرے کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں ۔